الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
44. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْوُضُوءِ لِكُلِّ صَلاَةٍ
44. باب: ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا بیان۔
Chapter: [What Has Been Related] About Performing Wudu For Every Salat
حدیث نمبر: 60
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا يحيى بن سعيد، وعبد الرحمن هو ابن مهدي , قالا: حدثنا سفيان بن سعيد، عن عمرو بن عامر الانصاري، قال: سمعت انس بن مالك يقول: " كان النبي صلى الله عليه وسلم يتوضا عند كل صلاة , قلت: فانتم ما كنتم تصنعون؟ قال: كنا نصلي الصلوات كلها بوضوء واحد ما لم نحدث ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وحديث حميد عن انس حديث جيد غريب حسن.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ هُوَ ابْنُ مَهْدِيّ , قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الْأنْصَارِيِّ، قَال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ , قُلْتُ: فَأَنْتُمْ مَا كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ؟ قَالَ: كُنَّا نُصَلِّي الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ مَا لَمْ نُحْدِثْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ حُمَيْدٍ عَنْ أَنَسٍ حَدِيثٌ جَيِّدٌ غَرِيبٌ حَسَنٌ.
عمرو بن عامر انصاری کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک کو یہ کہتے ہوئے سنا: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، میں نے (انس سے) پوچھا: پھر آپ لوگ کیسے کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ جب تک ہم «حدث» نہ کرتے ساری نمازیں ایک ہی وضو سے پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور حمید کی حدیث جو انس سے مروی ہے جید غریب حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطہارة 54 (214) سنن النسائی/الطہارة 101 (131) سنن ابن ماجہ/الطہارة 72 (509) (تحفة الأشراف: 1110) مسند احمد (3/132، 194، 260)، سنن الدارمی/ الطہارة 46 (747) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (509)
حدیث نمبر: 58
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن حميد الرازي، حدثنا سلمة بن الفضل، عن محمد بن إسحاق، عن حميد، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يتوضا لكل صلاة طاهرا او غير طاهر " , قال: قلت لانس: فكيف كنتم تصنعون انتم؟ قال: كنا نتوضا وضوءا واحدا. قال ابو عيسى: وحديث حميد، عن انس، حسن غريب هذا الوجه، والمشهور عند اهل الحديث حديث عمرو بن عامر الانصاري، عن انس، وقد كان بعض اهل العلم يرى الوضوء لكل صلاة استحبابا لا على الوجوب.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ طَاهِرًا أَوْ غَيْرَ طَاهِرٍ " , قال: قُلْتُ لِأَنَسٍ: فَكَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ أَنْتُمْ؟ قَالَ: كُنَّا نَتَوَضَّأُ وُضُوءًا وَاحِدًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، حَسَنٌ غَرِيبٌ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْمَشْهُورُ عَنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ عَامِرٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، وَقَدْ كَانَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَى الْوُضُوءَ لِكُلِّ صَلَاةٍ اسْتِحْبَابًا لَا عَلَى الْوُجُوبِ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے باوضو ہوتے یا بے وضو۔ حمید کہتے ہیں کہ میں نے انس رضی الله عنہ سے پوچھا: آپ لوگ کیسے کرتے تھے؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم ایک ہی وضو کرتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- حمید کی حدیث بواسطہ انس اس سند سے غریب ہے، اور محدثین کے نزدیک مشہور عمرو بن عامر والی حدیث ہے جو بواسطہ انس مروی ہے، اور بعض اہل علم ۲؎ کی رائے ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو مستحب ہے نہ کہ واجب۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 740) (ضعیف) (محمد بن حمید رازی ضعیف ہیں اور محمد بن اسحاق مدلس، اور روایت ”عنعنہ“ سے ہے، لیکن متابعت جو حدیث: 60 پر آ رہی ہے کی وجہ سے اصل حدیث صحیح ہے)»

وضاحت:
۱؎: ایک ہی وضو سے کئی کئی نمازیں پڑھتے تھے۔
۲؎: بلکہ اکثر اہل علم کی یہی رائے ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف صحيح أبى داود تحت الحديث (163)

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف
محمد بن حميد بن حيان الرازي ضعيف ضعفه الجمهور ... وابن إسحاق مدلس (... د292) وعنعن إن صح السند إليه والحديث الاتي (الأصل: 60) يغني عنه .
حدیث نمبر: 61
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن علقمة بن مرثد، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يتوضا لكل صلاة، فلما كان عام الفتح صلى الصلوات كلها بوضوء واحد ومسح على خفيه , فقال عمر: إنك فعلت شيئا لم تكن فعلته. قال: " عمدا فعلته ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، وروى هذا الحديث علي بن قادم، عن سفيان الثوري وزاد فيه: توضا مرة مرة، قال: وروى سفيان الثوري هذا الحديث ايضا، عن محارب بن دثار، عن سليمان بن بريدة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان يتوضا لكل صلاة , ورواه وكيع، عن سفيان، عن محارب، عن سليمان بن بريدة، عن ابيه، قال: ورواه عبد الرحمن بن مهدي وغيره، عن سفيان، عن محارب بن دثار، عن سليمان بن بريدة، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرسلا، وهذا اصح من حديث وكيع، والعمل على هذا عند اهل العلم، انه يصلي الصلوات بوضوء واحد ما لم يحدث، وكان بعضهم يتوضا لكل صلاة، استحبابا وإرادة الفضل، ويروى عن الافريقي، عن ابي غطيف، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من توضا على طهر كتب الله له به عشر حسنات " , وهذا إسناد ضعيف وفي الباب عن جابر بن عبد الله، ان النبي صلى الله عليه وسلم صلى الظهر والعصر بوضوء واحد.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، فَلَمَّا كَانَ عَامُ الْفَتْحِ صَلَّى الصَّلَوَاتِ كُلَّهَا بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ , فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّكَ فَعَلْتَ شَيْئًا لَمْ تَكُنْ فَعَلْتَهُ. قَالَ: " عَمْدًا فَعَلْتُهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَلِيُّ بْنُ قَادِمٍ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَزَادَ فِيهِ: تَوَضَّأَ مَرَّةً مَرَّةً، قَالَ: وَرَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ أَيْضًا، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ , وَرَوَاهُ وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَارِبٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: وَرَوَاهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ وَغَيْرُهُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا، وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ وَكِيعٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ مَا لَمْ يُحْدِثْ، وَكَانَ بَعْضُهُمْ يَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، اسْتِحْبَابًا وَإِرَادَةَ الْفَضْلِ، وَيُرْوَى عَنْ الْأَفْرِيقِيِّ، عَنْ أَبِي غُطَيْفٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ تَوَضَّأَ عَلَى طُهْرٍ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِهِ عَشْرَ حَسَنَاتٍ " , وَهَذَا إِسْنَادٌ ضَعِيفٌ وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ بِوُضُوءٍ وَاحِدٍ.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے، اور جب فتح مکہ کا سال ہوا تو آپ نے کئی نمازیں ایک وضو سے ادا کیں اور اپنے موزوں پر مسح کیا، عمر رضی الله عنہ نے عرض کیا کہ آپ نے ایک ایسی چیز کی ہے جسے کبھی نہیں کیا تھا؟ آپ نے فرمایا: میں نے اسے جان بوجھ کر کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور اس حدیث کو علی بن قادم نے بھی سفیان ثوری سے روایت کیا ہے اور انہوں نے اس میں اتنا اضافہ کیا ہے کہ آپ نے اعضائے وضو کو ایک ایک بار دھویا،
۳- سفیان ثوری نے بسند «محارب بن دثار عن سلیمان بن بریدہ» (مرسلاً روایت کیا ہے) کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے،
۴- اور اسے وکیع نے بسند «سفیان عن محارب عن سلیمان بن بریدہ عن بریدہ» سے روایت کیا ہے،
۵- نیز اسے عبدالرحمٰن بن مھدی وغیرہ نے بسند «سفیان عن محارب بن دثار عن سلیمان بن بریدہ» مرسلاً روایت کیا ہے، اور یہ روایت وکیع کی روایت سے زیادہ صحیح ہے ۱؎،
۶- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ ایک وضو سے کئی نمازیں ادا کی جا سکتی ہیں، جب تک «حدث» نہ ہو،
۷- بعض اہل علم استحباب اور فضیلت کے ارادہ سے ہر نماز کے لیے وضو کرتے تھے،
۸- نیز عبدالرحمٰن افریقی نے بسند «ابی غطیفعن ابن عمر» روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو وضو پر وضو کرے گا تو اس کی وجہ سے اللہ اس کے لیے دس نیکیاں لکھے گا اس حدیث کی سند ضعیف ہے،
۹- اس باب میں جابر بن عبداللہ سے بھی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک وضو سے ظہر اور عصر دونوں پڑھیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 25 (277) سنن ابی داود/ الطہارة 66 (172) سنن ابن ماجہ/الطہارة 72 (510) (تحفة الأشراف: 1928) مسند احمد (5/350، 351، 358) سنن الدارمی/الطہارة 3 (685) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی عبدالرحمٰن بن مہدی وغیرہ کی یہ مرسل روایت جس میں سلیمان بن بریدہ کے والد کے واسطے کا ذکر نہیں ہے وکیع کی مسند روایت سے جس میں سلیمان بن بریدہ کے والد کے واسطے کا ذکر ہے زیادہ صحیح ہے کیونکہ اس کے رواۃ زیادہ ہیں، لیکن عبدالرحمٰن بن مہدی کی علقمہ کے طریق سے روایت مرفوع متصل ہے (جو مولف کی پہلی سند ہے) اور اس کے متصل ہونے میں سفیان کے کسی شاگرد کا اختلاف نہیں ہے جیسا کہ محارب والے طریق میں ہے، فافہم۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (510)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.