تفسير ابن كثير



سورۃ التوبة

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ[103] أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ[104]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] ان کے مالوں سے صدقہ لے، اس کے ساتھ تو انھیں پاک کرے گا اور انھیں صاف کرے گا اور ان کے لیے دعا کر، بے شک تیری دعا ان کے لیے باعث سکون ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ [103] کیا انھوں نے نہیں جانا کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور صدقے لیتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی ہے جو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ [104]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا ہے خوب جانتا ہے [103] کیا ان کو یہ خبر نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور وہی صدقات کو قبول فرماتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے میں اور رحمت کرنے میں کامل ہے [104]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] ان کے مال میں سے زکوٰة قبول کر لو کہ اس سے تم ان کو (ظاہر میں بھی) پاک اور (باطن میں بھی) پاکیزہ کرتے ہو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لیے موجب تسکین ہے اور خدا سننے والا اور جاننے والا ہے [103] کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ خدا ہی اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے اور صدقات (وخیرات) لیتا ہے اور بےشک خدا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے [104]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 103، 104،

صدقہ مال کا تزکیہ ہے ٭٭

اللہ تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ ان کے اموال سے زکٰوۃ وصول کر لیا کرو یہ مال زکٰوۃ ان کو پاک اور صاف بنائے گا۔ اگرچہ بعض لوگوں نے «اَمْوَالِھِمْ» کی ضمیر ان لوگوں کی طرف پھیری ہے جنہوں نے اپنے گناہوں کا اعتراف کر لیا تھا اور اچھے اور برے دونوں قسم کے اعمال کئے تھے۔ لیکن در حقیقت یہ حکم خاص نہیں بلکہ عام ہے اسی لئے قبائل عرب میں سے بعض مانعین زکٰوۃ نے یہ اعتقاد کر لیا تھا کہ امام کو زکٰوۃ لینے کا حق نہیں، اور یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخصوص تھی اور اسی لئے قولہ تعالیٰ «خُذۡ مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ صَدَقَۃً» سے انہوں نے دلیل لی ہے۔ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے ان کی تاویل اور فہم فاسد کی تردید کر دی اور ان سے جنگ کی تب کہیں انہوں نے خلیفہ وقت کو زکوٰۃ ادا کی جیسا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہما نے فرمایا تھا کہ اگر اونٹنی کا ایک بچہ یا رسی کا ایک ٹکڑا بھی مال زکٰوۃ کا روک لیں گے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم لو ادا کرتے تھے تو منع زکٰوۃ پر میں ان سے قتال کروں گا۔‏‏‏‏ [صحیح بخاری:1400:صحیح] ‏‏‏‏

قولہ تعالیٰ «وَ صَلِّ عَلَیۡہِمۡ» یعنی ان کے لئے دعا کرو اور طلبِ مغفرت کرو جیسا کہ صحیح مسلم میں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی کے پاس سے زکٰوۃ کا مال آتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم حسبِ حکم الٰہی اسکے لئے دعا کرتے تھے چنانچہ جب میرے باپ نے مال زکٰوۃ پیش کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اے اللہ! آل ابی اوفی پر رحم فرما [صحیح مسلم:1087:صحیح] ‏‏‏‏

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ایک عورت نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے اور میرے زوج کے لئے دعا فرمائیے تو کہا کہ اللہ تیرے اور تیرے زوج پر رحم و کرم فرمائے۔ [سنن ابوداود:1533، قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏ قولہ تعالٰی «اِنَّ صَلٰوتَکَ سَکَنٌ لَّہُمۡ» تمھاری دعا ان کے لئے سکونِ قلب کا سبب ہے بعض نے صلٰوۃ کو جمع قرار دے کر صَلَوَاَتُک پڑھا ہے اور دوسروں نے واحد قرار دے کر «اِنَّ صَلَاتَکَ» پڑھا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ سکوں کے معنی رحمت کے ہیں اور قتادہ رحمہ اللہ نے کہا ہے اس کے معنی ہیں وقار «وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ» یعنی اے نبی! صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تمھاری دعاؤں کو سننے والا ہے۔

3580

اور علیم ہے کہ کون تمھاری دعا کا مستحق ہے؟ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ وکیع نے بالاسناد روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کے لئے دعا فرماتے تھے تو وہ اس کے اور اس کے بیٹوں اور پوتوں کے حق میں قبول ہو جاتی تھی۔ [مسند احمد:385/5:ضعیف] ‏‏‏‏ پھر ابو نعیم سے بالاسناد مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کسی آدمی اور اس کے بیٹوں اور پوتوں کے حق میں ضرور قبول ہو جاتی تھی۔ [مسند احمد:400/5:ضعیف] ‏‏‏‏ اور اللہ کا قول ہے «أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ» [9-التوبة:104] ‏‏‏‏ یعنی کیا انہیں اس کا علم نہیں کہ اللہ تعالیٰ بندوں کی نیکیوں کو لیتا ہے اور توبہ قبول فرماتا ہے۔ اس سے مقصد توبہ اور صدقہ پر لوگوں کو ابھارنا ہے کیونکہ یہی دونوں چیزیں گناہوں کو انسان سے چھڑا دیتی ہیں اور معاصی کو ملیامیٹ کر دیتی ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جو اس کے پاس توبہ پیش کرے وہ بندے کی توبہ قبول کر لیتا ہے اور کسب حلال کا ٹکڑا بھی صدقہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سیدھے ہاتھ سے لے لیتا ہے پھر وہ صدقہ دینے والے کے لئے اس صدقہ کی پرورش کرتا جاتا ہے اور اس کو چھوٹے سے بڑا بناتا ہے حتٰی کہ صدقہ کی وہ ایک کھجور کوہِ احد کی مانند ہو جاتی ہے۔

جیسا کہ اسی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اور جیسا کہ وکیع نے بھی بالاسناد سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ صدقے کو قبول فرماتا ہے اور اس کی اپنے سیدھے ہاتھ میں لیتا ہے اور اس کی نشوونما کرتا ہے جیسا کہ تم اپنے گھوڑے ے بچے کو پال کر بڑا کرتے ہو یہاں تک کہ صدقہ کا ایک لقمہ بھی احد کا پہاڑ بن جاتا ہے۔ [مسند احمد:401/2:منکر بزیادۃ و تصدیق ذلک] ‏‏‏‏

اسکی تصدیق کتاب اللہ عز و جل سے بھی ہوتی ہے کیا انہیں علم نہیں کہ اللہ اپنے بندوں کی توبہ کو قبول کرتا ہے اور زکٰوۃ و صدقات کو لے لیتا ہے اور قولہ تعالیٰ «يَمْحَقُ اللَّـهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ» [2-البقرة:276] ‏‏‏‏۔ یعنی اللہ تعالیٰ سود کے منافع کو برباد کر دیتا ہے اور صدقات کو اضعافاً مضاعفاً بڑھاتا رہتا ہے۔ ثوری رحمہ اللہ نے بالاسناد سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ صدقہ کا مال سائل کے ہاتھ میں پڑنے سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں پڑتا ہے۔ پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی «اَلَمۡ یَعۡلَمُوۡۤا اَنَّ اللّٰہَ ہُوَ یَقۡبَلُ التَّوۡبَۃَ عَنۡ عِبَادِہٖ وَ یَاۡخُذُ الصَّدَقٰتِ» ‏‏‏‏ ابن عساکر رحمہ اللہ نے اپنی تاریخ میں بہ ضمن تاریخ عبداللہ بن الشاعر سکسکی [ جو دمشقی تھے لیکن اصل وطن حمص تھا اور فقہا میں سے تھے ] ‏‏‏‏ بیان کیا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگوں نے جہاد کیا جن کے سردار عبدالرحمٰن بن خالد بن ولید رحمہ اللہ تھے،
3581

تو ایک مسلمان نے مال غنیمت میں سے سو دینار رومی غبن کر لئے اور جب لشکر واپس ہو گیا اور لوگ گھروں کو چلے گئے تو اس کو ندامت نے آ گھیرا۔ اس نے یہ دینار اب امیر لشکر کے پاس پہنچائے۔ اس نے ان کے لینے سے انکار کر دیا کہ وہ سب لوگ تو اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے جن میں یہ تقسیم کیا جا سکتا تھا۔ اب تو میں اس کو لے نہیں سکتا اب تم قیامت کے روز اس کو اللہ کے سامنے پیش کر دینا۔ اب یہ آدمی صحابہ میں سے ہر ایک سے پوچھتا رہا لیکن سب یہی کہتے رہے۔ پھر وہ دمشق آیا اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو قبول کرنے کے لیے کہا لیکن وہ بھی انکار کر گئے۔ وہ وہاں سے اپنی حالت پر روتا ہوا نکلا اور عبداللہ بن الشاعر السکسکی کے پاس سے گزرا۔ اس نے پوچھا کیوں روتا ہے؟ اس نے سارا واقعہ کہہ سنایا کہ کوئی امیر بھی ان کو نہیں لیتا۔ تو عبداللہ نے کہا کہ تم میری سنو گے اس نے کہا ضرور۔ تو اس نے کہا تم سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اورکہو کہ پانچواں حصہ جو بیت المال کا حق ہے لے لو۔ چنانچہ بیس دینار ان کے حوالے کر دو اور باقی اسی دینار ان لشکریوں کی طرف سے خیرات کر دو جو ان کے حق دار ہوسکتے تھے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ان کے ناموں اور مقامات وغیرہ سے بھی واقف ہے وہ انہیں اس کا ثواب پہنچا دے گا۔ تو اس آدمی نے ایسا ہی کیا۔ تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں نے اس کو ایسا فتویٰ دیا ہوتا تو مجھے یہ بات اپنی تمام مملکت سے زیادہ محبوب تھی۔ اس نے بہت اچھی تدبیر بتائی ہے۔
3582



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.