تفسير ابن كثير



سورۃ الشوريٰ

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَنْ بِهِ اللَّهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ[21] تَرَى الظَّالِمِينَ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا وَهُوَ وَاقِعٌ بِهِمْ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي رَوْضَاتِ الْجَنَّاتِ لَهُمْ مَا يَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذَلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ[22]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] یا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر فیصلہ شدہ بات نہ ہوتی تو ضرور ان کے درمیان فیصلہ کر دیا جاتا اور بے شک جو ظالم ہیں ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ [21] تو ظالموں کو دیکھے گا کہ اس سے ڈرنے والے ہوں گے جو انھوں نے کمایا، حالانکہ وہ ان پر آکر رہنے والاہے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے، وہ جنتوں کے باغوں میں ہوں گے۔ ان کے لیے جو وہ چاہیں گے ان کے رب کے پاس ہوگا، یہی بہت بڑا فضل ہے۔ [22]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] کیا ان لوگوں نے ایسے (اللہ کے) شریک (مقرر کر رکھے) ہیں جنہوں نے ایسے احکام دین مقرر کر دیئے ہیں جو اللہ کے فرمائے ہوئے نہیں ہیں۔ اگر فیصلے کے دن کا وعده نہ ہوتا تو (ابھی ہی) ان میں فیصلہ کردیا جاتا۔ یقیناً (ان) ﻇالموں کے لیے ہی دردناک عذاب ہے [21] آپ دیکھیں گے کہ یہ ﻇالم اپنے اعمال سے ڈر رہے ہوں گے جن کے وبال ان پر واقع ہونے والے ہیں، اور جو لوگ ایمان ﻻئے اور انہوں نے نیک اعمال کیے وه بہشتوں کے باغات میں ہوں گے وه جو خواہش کریں اپنے رب کے پاس موجود پائیں گے یہی ہے بڑا فضل [22]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرر کیا ہے جس کا خدا نے حکم نہیں دیا۔ اور اگر فیصلے (کے دن) کا وعدہ نہ ہوتا تو ان میں فیصلہ کردیا جاتا اور جو ظالم ہیں ان کے لئے درد دینے والا عذاب ہے [21] تم دیکھو گے کہ ظالم اپنے اعمال (کے وبال) سے ڈر رہے ہوں گے اور وہ ان پر پڑے گا۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ بہشت کے باغوں میں ہوں گے۔ وہ جو کچھ چاہیں گے ان کے لیے ان کے پروردگار کے پاس (موجود) ہوگا۔ یہی بڑا فضل ہے [22]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 21، 22،

باب

پھر فرمایا ہے کہ یہ مشرکین دین اللہ کی تو پیروی کرتے نہیں بلکہ جن شیاطین اور انسانوں کو انہوں نے اپنا بڑا سمجھ رکھا ہے یہ جو احکام انہیں بتاتے ہیں انہی احکام کے مجموعے کو دین سمجھتے ہیں۔ حلال و حرام کا تعین اپنے ان بڑوں کے کہنے پر کرتے ہیں انہی کے ایجاد کردہ عبادات کے طریقے استعمال کر رہے ہیں اسی طرح مال کے احکام بھی ازخود تراشیدہ ہیں جنہیں شرعی سمجھ بیٹھے ہیں چنانچہ جاہلیت میں بعض جانوروں کو انہوں نے از خود حرام کر لیا تھا مثلا وہ جانور جس کا کان چیر کر اپنے معبودان باطل کے نام پر چھوڑ دیتے تھے اور داغ دے کر سانڈ چھوڑ دیتے تھے اور مادہ بچے کو حمل کی صورت میں ہی ان کے نام کر دیتے تھے جس اونٹ سے دس بچے حاصل کر لیں اسے ان کے نام چھوڑ دیتے تھے پھر انہیں ان کی تعظیم کے خیال سے اپنے اوپر حرام سمجھتے تھے۔ اور بعض چیزوں کو حلال کر لیا تھا جیسے مردار، خون اور جوا۔ صحیح حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے عمرو بن لحی بن قمعہ کو دیکھا کہ وہ جہنم میں اپنی آنتیں گھسیٹ رہا تھا یہی وہ شخص ہے جس نے سب سے پہلے غیر اللہ کے نام پر جانوروں کا چھوڑنا بتایا۔ [صحیح بخاری:3521] ‏‏‏‏ یہ شخص خزاعہ کے بادشاہوں میں سے ایک تھا اسی نے سب سے پہلے ان کاموں کی ایجاد کی تھی۔ جو جاہلیت کے کام عربوں میں مروج تھے۔ اسی نے قریشیوں کو بت پرستی میں ڈال دیا اللہ اس پر اپنی پھٹکار نازل فرمائے۔

فرماتا ہے کہ اگر میری یہ بات پہلے سے میرے ہاں طے شدہ نہ ہوتی کہ میں گنہگاروں کو قیامت کے آنے تک ڈھیل دوں گا تو میں آج ہی ان کفار کو اپنے عذاب میں جکڑ لیتا۔
8139

اب انہیں قیامت کے دن جہنم کے المناک اور بڑے سخت عذاب ہوں گے،میدان قیامت میں تم دیکھو گے کہ یہ ظالم لوگ اپنے کرتوتوں سے لرزاں و ترساں ہوں گے۔ مارے خوف کے تھرا رہے ہوں گے۔لیکن آج کوئی چیز نہ ہو گی جو انہیں بچا سکے۔ آج تو یہ اعمال کا مزہ چکھ کر ہی رہیں گے ان کے بالکل برعکس ایماندار نیکوکار لوگوں کا حال ہو گا کہ وہ امن چین سے جنتوں کے باغات میں مزے کر رہے ہوں گے ان [ظالموں ] ‏‏‏‏ کی ذلت و رسوائی ڈر،خوف کو دیکھو اور ان [ایمانداروں] ‏‏‏‏ کی عزت بڑائی امن چین کا خیال کر لو، وہ [ظالم] ‏‏‏‏ طرح طرح کی مصیبتوں تکلیفوں میں ہوں گے یہ [ایماندار] ‏‏‏‏ طرح طرح کی راحتوں اور لذتوں میں ہوں گے۔ عمدہ بہترین غذائیں، بہترین لباس، مکانات، بہترین بیویاں اور بہترین سازو سامان انہیں ملے ہوئے ہوں گے جن کا دیکھنا سننا تو کہاں؟ کسی انسان کے ذہن اور تصور میں بھی یہ چیزیں نہیں آسکتیں۔

حضرت ابوطیبہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جنتیوں کے سروں پر ابر آئے گا اور انہیں ندا ہو گی کہ بتاؤ کس چیز کی بارش چاہتے ہو؟ پس جو لوگ جس چیز کی بارش چاہیں گے وہی چیز ان پر اس بادل سے برسے گی یہاں تک کہ کہیں گے ہم پر ابھرے ہوئے سینے والی ہم عمر عورتیں برسائی جائیں چنانچہ وہی برسیں گی۔ اسی لیے فرمایا کہ فضل کبیر یعنی زبردست کامیابی کامل نعمت یہی ہے۔
8140



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.