بلوغ المرام سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
10. باب صلاة الجماعة والإمامة
نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان
حدیث نمبر: 314
عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «صلاة الجماعة أفضل من صلاة الفذ بسبع وعشرين درجة» . متفق عليه. ولهما: عن أبي هريرة رضي الله عنه:«بخمس وعشرين جزءا» . وكذا للبخاري عن أبي سعيد رضي الله عنه وقال: «درجة» .
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”باجماعت نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے ستائیس گناہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔“ اور بخاری و مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ”پچیس گنا زیادہ ثواب ملتا ہے۔“ اور بخاری میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اس میں «جزء» کی جگہ «درجة» کا لفظ ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 314]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب فضل صلاة الجماعة، حديث:645، ومسلم، المساجد، باب فضل صلاة الجماعة، حديث:650 و حديث أبي هريرة أخرجه البخاري، الأذان، حديث:647، ومسلم، المساجد، حديث:651، وحديث أبي سعيد الخدري أخرجه البخاري، الأذان، حديث:646.»
حدیث نمبر: 315
وعن أبي هريرة رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: «والذي نفسي بيده لقد هممت أن آمر بحطب فيحتطب ثم آمر بالصلاة فيؤدن لها ثم آمر رجلا فيؤم الناس ثم أخالف إلى رجال لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم والذي نفسي بيده لو يعلم أحدهم أنه يجد عرقا سمينا أو مرمامتين حسنتين لشهد العشاء» . متفق عليه واللفظ للبخاري.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اس ذات گرامی کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں نے ارادہ کیا کہ میں لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دوں پھر نماز کے لئے اذان کا حکم دوں پھر کسی کو نماز پڑھانے کے لئے کہوں پھر میں خود ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز میں شریک نہیں ہوتے ان کے گھروں میں موجود ہونے کی صورت میں ان کے گھروں کو ان پر آگ لگا کر جلا دوں۔ قسم اس ذات گرامی کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ان میں سے کسی کو اگر یہ علم ہو جائے کہ اس کو گوشت سے پر موٹی ہڈی مل جائے گی یا دو پائے مل جائیں گے تو نماز عشاء میں لپک کر شامل ہو جائے گا۔“ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 315]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب وجوب صلاة الجماعة، حديث:644، ومسلم، المساجد، باب فضل صلاة الجماعة، حديث:651.»
حدیث نمبر: 316
وعنه رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «أثقل الصلاة على المنافقين صلاة العشاء وصلاة الفجر ولو يعلمون ما فيهما لأتوهما ولو حبوا» . متفق عليه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”منافقین پر سب سے ثقیل و بوجھل نمازیں، نماز عشاء اور نماز فجر ہیں اگر ان کو علم ہو جائے کہ ان دونوں میں حاضر ہونے کا کتنا (عظیم) اجر و ثواب ہے تو یہ لازما ان میں شامل ہوتے خواہ ان کو گھٹنوں کے بل گھسٹ کر آنا پڑتا۔“ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 316]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب فضل العشاء في الجماعة، حديث:657، ومسلم، المساجد، باب فضل صلاة الجماعة، حديث:651.»
حدیث نمبر: 317
وعنه رضي الله عنه قال: أتى النبي صلى الله عليه وآله وسلم رجل أعمى فقال: يا رسول الله إنه ليس لي قائد يقودني إلى المسجد فرخص له فلما ولى دعاه فقال: «هل تسمع النداء بالصلاة؟» قال: نعم قال: «فأجب» . رواه مسلم.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نابینا شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرے پاس ایسا کوئی آدمی نہیں جو مجھے پکڑ کر مسجد میں لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رخصت عنایت فرما دی (کہ وہ گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کرے) مگر جب وہ واپس جانے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس بلا کر فرمایا کہ ”تم اذان سنتے ہو؟“ اس نے عرض کیا جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تو پھر اذان کا جواب دے۔“ (یعنی مسجد میں جماعت سے نماز پڑھ) (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 317]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، المساجد، باب يجب إتيان المسجد علي من سمع النداء، حديث:653.»
حدیث نمبر: 318
وعن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: «من سمع النداء فلم يأت فلا صلاة له إلا من عذر» . رواه ابن ماجه والدارقطني وابن حبان والحاكم وإسناده على شرط مسلم، لكن رجح بعضهم وقفه.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جو شخص اذان سنے اور پھر نماز باجماعت میں شامل نہ ہو اس کی کوئی نماز نہیں الایہ کہ کوئی عذر مانع نہ ہو۔“
اسے ابن ماجہ، دارقطنی، ابن حبان، حاکم نے روایت کیا ہے اور اس کی سند مسلم کی شرط کے مطابق ہے لیکن بعض نے اس کے موقوف ہونے کو ترجیح دی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 318]
اسے ابن ماجہ، دارقطنی، ابن حبان، حاکم نے روایت کیا ہے اور اس کی سند مسلم کی شرط کے مطابق ہے لیکن بعض نے اس کے موقوف ہونے کو ترجیح دی ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 318]
تخریج الحدیث: «أخرجه ابن ماجه، المساجد، باب التغليظ في التخلف عن الجماعة، حديث:793، والدار قطني:1 /420، وابن حبان (الإحسان): 3 /253، حديث:2061، والحاكم:1 /245، وتاريخ واسط لبحشل ص:202، وهيشم صرح بالسماع عنده.»
حدیث نمبر: 319
وعن يزيد بن الأسود رضي الله عنه أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم صلاة الصبح فلما صلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا هو برجلين لم يصليا فدعا بهما فجيء بهما ترعد فرئصهما فقال لهما: «ما منعكما أن تصليا معنا؟» قالا: قد صلينا في رحالنا قال: «فلا تفعلا إذا صليتما في رحالكما ثم أدركتما الإمام ولم يصل فصليا معه فإنها لكما نافلة» رواه أحمد واللفظ له والثلاثة وصححه الترمذي وابن حبان.
سیدنا یزید بن اسود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبح کی نماز پڑھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو ایسے دو آدمیوں پر نظر پڑی جنہوں نے نماز (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ) نہیں پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو اپنے پاس بلوایا۔ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کئے گئے تو (خوف کے مارے) ان کے شانے کانپ رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا ” تمہیں ہمارے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا؟ “ دونوں نے عرض کیا ہم اپنے گھروں پر نماز پڑھ چکے ہیں۔ فرمایا ” ایسا مت کیا کرو۔ اگر تم اپنے گھروں پر نماز پڑھ چکے ہو پھر تم امام کو پا لو اور امام نے ابھی نماز نہ پڑھی ہو تو اس کے ساتھ تم نماز پڑھو، یہ تمہارے لئے نفل ہو جائے گی۔ “
اسے احمد نے روایت کیا ہے۔ متن حدیث کے الفاظ بھی اسی کے ہیں۔ اس کے علاوہ تینوں یعنی ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 319]
اسے احمد نے روایت کیا ہے۔ متن حدیث کے الفاظ بھی اسی کے ہیں۔ اس کے علاوہ تینوں یعنی ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے بھی اسے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 319]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب فيمن صلي في منزله ثم أدرك...، حديث:575، والترمذي، الصلاة، حديث:219، والنسائي، الإمامة، حديث:859، وابن حبان (الإحسان):3 /50، حديث:1563.»
حدیث نمبر: 320
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «إنما جعل الإمام ليؤتم به فإذا كبر فكبروا ولا تكبروا حتى يكبر وإذا ركع فاركعوا ولا تركعوا حتى يركع وإذا قال: سمع الله لمن حمده فقولوا: اللهم ربنا لك الحمد وإذا سجد فاسجدوا ولا تسجدوا حتى يسجد وإذا صلى قائما فصلوا قياما وإذا صلى قاعدا فصلوا قعودا أجمعين» . رواه أبو داود وهذا لفظه وأصله في الصحيحين.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”امام کو اسی لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی پیروی کی جائے، لہذا جب وہ «الله اكبر» کہے تو تم بھی «الله اكبر» کہو اور تم (امام سے پہلے) «الله اكبر» نہ کہا کرو یہاں تک کہ وہ تکبیر کہے اور جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کیا کرو اور تم (امام سے پہلے) رکوع نہ کیا کرو اور جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «ربنا لك الحمد» کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور اس سے پہلے سجدہ نہ کرو یہاں تک کہ وہ سجدہ کرے۔ جب امام کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور جب وہ بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو۔“ متن حدیث کے الفاظ ابوداؤد کے ہیں اور اس کی اصل صحیحین بخاری و مسلم میں ہے۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 320]
تخریج الحدیث: «أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الإمام يصلي من قعود، حديث:603، 604، وأصله في الصحيحين: البخاري، الأذان، حديث:722، ومسلم، الصلاة، حديث:414.»
حدیث نمبر: 321
وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم رأى في أصحابه تأخرا فقال لهم: «تقدموا فائتموا بي وليأتم بكم من بعدكم» . رواه مسلم.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو پیچھے ہٹے ہوئے دیکھا تو فرمایا ”آگے آ جاؤ اور میری پیروی کرو اور تمہارے پیچھے والے تمہاری پیروی کریں۔“ (مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 321]
تخریج الحدیث: «أخرجه مسلم، الصلاة، باب تسوية الصفوف وإقامتها...، حديث:438.»
حدیث نمبر: 322
وعن زيد بن ثابت رضي الله عنه قال: احتجر رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حجرة بخصفة فصلى فيها فتتبع إليه رجال وجاءوا يصلون بصلاته. الحديث. وفيه: «أفضل صلاة المرء في بيته إلا المكتوبة» . متفق عليه.
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھاس پھوس سے بنی ہوئی چٹائی سے ایک چھوٹا (خیمہ نما) حجرہ بنایا اور اس میں نماز پڑھنے لگے۔ لوگوں کو جب معلوم ہوا تو وہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھنے لگے۔ اس حدیث میں یہ بھی ہے کہ مرد کی اپنے گھر میں نماز افضل ہے سوائے فرض نماز کے۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 322]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب صلاة الليل، حديث:731، ومسلم، صلاة المسافرين، باب استحباب صلاة النافلة في بيته، حديث:781.»
حدیث نمبر: 323
وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما قال: صلى معاذ بأصحابه العشاء فطول عليهم فقال النبي صلى الله عليه وآله وسلم: «أتريد يا معاذ أن تكون فتانا؟ إذا أممت الناس فاقرأ بالشمس وضحاها و: سبح اسم ربك الأعلى و: اقرأ باسم ربك, والليل إذا يغشى. متفق عليه واللفظ لمسلم.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنے مقتدیوں کو عشاء کی نماز پڑھائی۔ انہوں نے قرآت لمبی کر دی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اے معاذ! کیا تو نمازیوں کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ جب تو لوگوں کو امامت کرائے تو «والشمس وضحاها» اور «سبح اسم ربك الأعلى» (سورۃ «الشمس» و سورۃ «الأعلى») اور «اقرأ باسم ربك» (سورۃ «العلق») «والليل إذا يغشى» (سورۃ «الليل») پڑھا کرو“ بخاری و مسلم دونوں نے اسے روایت کیا ہے۔ متن حدیث کے الفاظ مسلم کے ہیں۔ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/حدیث: 323]
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الأذان، باب إذا طول الإمام وكان للرجل حاجة فخرج فصلي، حديث:701، ومسلم، الصلاة، باب القراءة في العشاء، حديث:465.»

