مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
كتاب المناقب
كتاب المناقب
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دو عمل ان کے تمام اعمال سے بھاری
حدیث نمبر: 6034
Save to word اعراب
عن عمر ذكر عنده ابو بكر فبكى وقال: وددت ان عملي كله مثل عمله يوما واحدا من ايامه وليلة واحدة من لياليه اما ليلته فليلة سار مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الغار فلما انتهينا إليه قال: والله لا تدخله حتى ادخل قبلك فإن كان فيه شيء اصابني دونك فدخل فكسحه ووجد في جانبه ثقبا فشق إزاره وسدها به وبقي منها اثنان فالقمها رجليه ثم قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم ادخل فدخل رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع راسه في حجره ونام فلدغ ابو بكر في رجله من الجحر ولم يتحرك مخافة ان ينتبه رسول الله صلى الله عليه وسلم فسقطت دموعه على وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «ما لك يا ابا بكر؟» قال: لدغت فداك ابي وامي فتفل رسول الله صلى الله عليه وسلم فذهب ما يجده ثم انتقض عليه وكان سبب موته واما يومه فلما قبض رسول الله صلى الله عليه وسلم ارتدت العرب وقالوا: لا نؤدي زكاة. فقال: لو منعوني عقالا لجاهدتهم عليه. فقلت: يا خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم تالف الناس وارفق بهم. فقال لي: اجبار في الجاهلية وخوار في الإسلام؟ إنه قد انقطع الوحي وتم الدين اينقص وانا حي؟. رواه رزين عَن عمر ذُكِرَ عِنْدَهُ أَبُو بَكْرٍ فَبَكَى وَقَالَ: وَدِدْتُ أَنَّ عَمَلِي كُلَّهُ مِثْلُ عَمَلِهِ يَوْمًا وَاحِدًا مِنْ أَيَّامِهِ وَلَيْلَةً وَاحِدَةً مِنْ لَيَالِيهِ أَمَّا لَيْلَتُهُ فَلَيْلَةٌ سَارَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْغَار فَلَمَّا انتهينا إِلَيْهِ قَالَ: وَاللَّهِ لَا تَدْخُلُهُ حَتَّى أَدْخُلَ قَبْلَكَ فَإِنْ كَانَ فِيهِ شَيْءٌ أَصَابَنِي دُونَكَ فَدَخَلَ فَكَسَحَهُ وَوَجَدَ فِي جَانِبِهِ ثُقْبًا فَشَقَّ إزَاره وسدها بِهِ وَبَقِي مِنْهَا اثْنَان فألقمها رِجْلَيْهِ ثُمَّ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ادْخُلْ فَدَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوُضِعَ رَأسه فِي حجره وَنَامَ فَلُدِغَ أَبُو بَكْرٍ فِي رِجْلِهِ مِنَ الْجُحر وَلم يَتَحَرَّك مَخَافَة أَن ينتبه رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَقَطَتْ دُمُوعُهُ عَلَى وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «مَا لَكَ يَا أَبَا بَكْرٍ؟» قَالَ: لُدِغْتُ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي فَتَفِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَهَبَ مَا يَجِدُهُ ثُمَّ انْتَقَضَ عَلَيْهِ وَكَانَ سَبَبَ مَوْتِهِ وَأَمَّا يَوْمُهُ فَلَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ارْتَدَّتِ الْعَرَبُ وَقَالُوا: لَا نُؤَدِّي زَكَاةً. فَقَالَ: لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا لَجَاهَدْتُهُمْ عَلَيْهِ. فَقُلْتُ: يَا خَلِيفَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَأَلَّفِ النَّاسَ وَارْفُقْ بِهِمْ. فَقَالَ لِي: أَجَبَّارٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَخَوَّارٌ فِي الْإِسْلَامِ؟ إِنَّهُ قَدِ انْقَطَعَ الْوَحْيُ وَتَمَّ الدِّينُ أَيَنْقُصُ وَأَنا حَيّ؟. رَوَاهُ رزين
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا گیا تو وہ رو پڑے اور کہا: میں چاہتا ہوں کہ میرے سارے عمل ان کے ایام میں سے ایک یوم اور ان کی راتوں میں سے ایک رات کی مثل ہو جائیں، رہی ان کی رات، تو وہ رات جب انہوں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے ساتھ غار کی طرف سفر کیا تھا، جب وہ دونوں وہاں تک پہنچے تو ابوبکر نے عرض کیا، اللہ کی قسم! آپ اس میں داخل نہیں ہوں گے حتیٰ کہ میں آپ سے پہلے داخل ہو جاؤں، تا کہ اگر اس میں کوئی چیز ہو تو اس کا نقصان مجھے پہنچے آپ اس سے محفوظ رہیں، وہ اس میں داخل ہوئے، اسے صاف کیا، اور انہوں نے اس کی ایک جانب سوراخ دیکھے، انہوں نے اپنا ازار پھاڑا اور اس سے سوراخوں کو بند کیا، مگر دو سوراخ باقی رہ گئے اور انہوں نے ان پر اپنے پاؤں رکھ دیے، پھر رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے عرض کیا، تشریف لے آئیں، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم اندر تشریف لے آئے اور اپنا سر مبارک ان کی گود میں رکھ کر سو گئے، سوراخ سے ابوبکر کا پاؤں ڈس لیا گیا، لیکن انہوں نے اس اندیشے کے پیش نظر کہ آپ بیدار نہ ہو جائیں حرکت نہ کی، ان کے آنسو رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کے چہرہ مبارک پر گرے تو آپ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے فرمایا: ابوبکر! کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا، میرے والدین آپ پر فدا ہوں مجھے ڈس لیا گیا ہے، رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے لعاب لگایا اور تکلیف جاتی رہی، اور بعد ازاں اس زہر کا اثر ان پر دوبارہ شروع ہو گیا اور یہی ان کی وفات کا سبب بنا، رہا ان کا دن تو جب رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم نے وفات پائی کچھ عرب مرتد ہو گئے اور انہوں نے کہا: ہم زکوۃ نہیں دیں گے، انہوں نے فرمایا: اگر انہوں نے ایک رسی بھی دینے سے انکار کیا تو میں ان سے جہاد کروں گا۔ میں نے کہا: رسول اللہ کے خلیفہ! لوگوں کو ملائیں اور نرمی کریں، انہوں نے مجھے فرمایا: کیا جاہلیت میں سخت تھے اور اسلام میں بزدل ہو گئے ہو، وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا، دین مکمل ہو چکا، تو کیا میرے جیتے ہوئے دین کم (ناقص) ہو جائے گا؟ اسنادہ ضعیف جذا، رواہ رزین۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«إسناده ضعيف جدًا، رواه رزين (لم أجده) [والبيھقي في دلائل النبوة (2/ 477)]
٭ فيه فرات بن السائب عن ميمون بن مھران، و الفرات ھذا ضعيف جدًا متروک.»

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.