English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

سنن ابي داود سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

سنن ابي داود میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (5274)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:

17. باب فِي الْقَدَرِ
باب: تقدیر (قضاء و قدر) کا بیان۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 4691
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي بِمِنًى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْقَدَرِيَّةُ مَجُوسُ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِنْ مَرِضُوا فَلَا تَعُودُوهُمْ وَإِنْ مَاتُوا فَلَا تَشْهَدُوهُمْ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قدریہ (منکرین تقدیر) اس امت (محمدیہ) کے مجوس ہیں، اگر وہ بیمار پڑیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اور اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازے میں شریک مت ہو ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4691]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 7088)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/86) (حسن)» ‏‏‏‏ (شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ ابو حازم کا سماع ابن عمر سے نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎: قدریہ ایک گمراہ فرقہ ہے جو تقدیر کا منکر ہے، اس کا عقیدہ ہے کہ انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے، اس فرقہ کو مجوس سے اس لئے تشبیہ دی کہ مجوس دو خالق کے قائل ہیں، یعنی خالق شر و خالق خیر: خالق شر کو اہرمن اور خالق خیر کو یزداں کہتے ہیں، جبکہ اسلام کا عقیدہ یہ ہے کہ خالق صرف ایک ہے چنانچہ  «هل من خالق غير الله» فرما کر قرآن نے دوسرے کسی خالق کی تردید فرما دی، انسان جو کچھ کرتا ہے اس کو اس کا اختیار اللہ ہی نے دیا ہے، اگر نیک عمل کرے گا تو ثواب پائے گا، بد کرے گا تو عذاب پائے گا، ہر فعل کا خالق اللہ ہی ہے، دوسرا کوئی نہیں، یہ مسئلہ نہایت معرکۃ الآراء ہے، عام آدمی کو اس کی ٹوہ میں نہیں پڑنا چاہئے، سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ مسلمان تقدیر پر ایمان رکھے اور شیطان کے وسوسہ سے بچے، تقدیر کے منکروں سے ہمیشہ دور رہنا چاہئے ان سے میل جول بھی درست نہیں۔
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح
مشكوة المصابيح (107)
وله شاهد صحيح عند الطبراني في الأوسط (5/ 114ح 4217)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 4692
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُمَرَ مَوْلَى غُفْرَةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِكُلِّ أُمَّةٍ مَجُوسٌ، وَمَجُوسُ هَذِهِ الْأُمَّةِ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا قَدَرَ، مَنْ مَاتَ مِنْهُمْ فَلَا تَشْهَدُوا جَنَازَتَهُ، وَمَنْ مَرِضَ مِنْهُمْ فَلَا تَعُودُوهُمْ وَهُمْ شِيعَةُ الدَّجَّالِ وَحَقٌّ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُلْحِقَهُمْ بِالدَّجَّالِ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر امت کے مجوس ہوتے ہیں، اس امت کے مجوس وہ لوگ ہیں جو تقدیر کے منکر ہیں، ان میں کوئی مر جائے تو تم اس کے جنازے میں شرکت نہ کرو، اور اگر کوئی بیمار پڑے، تو اس کی عیادت نہ کرو، یہ دجال کی جماعت کے لوگ ہیں، اللہ ان کو دجال کے زمانے تک باقی رکھے گا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4692]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3397)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/406) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی عمر مولی غفرہ ضعیف ہیں، نیز اس کی سند میں ایک راوی انصاری مبہم ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي:ضعيف
إسناده ضعيف
رجل من الأنصار : ’’ مجهول ‘‘ (عون المعبود 358/4) والحديث السابق (الأصل:4691)يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 165

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 4693
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ زُرَيْعٍ، وَيَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ حَدَّثَاهُمْ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَوْفٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَسَامَةُ بْنُ زُهَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ مِنْ قَبْضَةٍ قَبَضَهَا مِنْ جَمِيعِ الْأَرْضِ، فَجَاءَ بَنُو آدَمَ عَلَى قَدْرِ الْأَرْضِ جَاءَ مِنْهُمُ الْأَحْمَرُ، وَالْأَبْيَضُ، وَالْأَسْوَدُ وَبَيْنَ ذَلِكَ وَالسَّهْلُ، وَالْحَزْنُ، وَالْخَبِيثُ، وَالطَّيِّبُ"، زَادَ فِي حَدِيثِ يَحْيَى وَبَيْنَ ذَلِكَ وَالْإِخْبَارُ فِي حَدِيثِ يَزِيدَ.
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایک مٹھی مٹی سے پیدا کیا جس کو اس نے ساری زمین سے لیا تھا، چنانچہ آدم کی اولاد اپنی مٹی کی مناسبت سے مختلف رنگ کی ہے، کوئی سفید، کوئی سرخ، کوئی کالا اور کوئی ان کے درمیان، کوئی نرم خو، تو کوئی درشت خو، سخت گیر، کوئی خبیث تو کوئی پاک باز۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4693]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن الترمذی/تفسیرالقرآن 3 (2955)، (تحفة الأشراف: 9025)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/400، 406) (صحیح)» ‏‏‏‏
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (100)
أخرجه الترمذي (2955 وسنده حسن)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 4694
حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ مَنْصُورَ بْنَ الْمُعْتَمِرِ يُحَدِّثُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَبِيبٍ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، عَنْ عَلِيٍّ رضي الله عنه، قَالَ:" كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَ وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِالْمِخْصَرَةِ فِي الْأَرْضِ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ مَكَانَهَا مِنَ النَّارِ أَوْ مِنَ الْجَنَّةِ، إِلَّا قَدْ كُتِبَتْ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَفَلَا نَمْكُثُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ لَيَكُونَنَّ إِلَى السَّعَادَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشِّقْوَةِ لَيَكُونَنَّ إِلَى الشِّقْوَةِ، قَالَ: اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلسَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشِّقْوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِلشِّقْوَةِ، ثُمَّ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ: فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى {5} وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى {6} فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى {7} وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى {8} وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى {9} فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى {10} سورة الليل آية 5-10".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ کے قبرستان بقیع غرقد میں ایک جنازے میں شریک تھے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تھے، آپ آئے اور بیٹھ گئے، آپ کے پاس ایک چھڑی تھی، چھڑی سے زمین کریدنے لگے، پھر اپنا سر اٹھایا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تم میں سے ہر ایک متنفس کا ٹھکانہ جنت یا دوزخ میں لکھ دیا ہے، اور یہ بھی کہ وہ نیک بخت ہو گا یا بدبخت لوگوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے نبی! پھر ہم کیوں نہ اپنے لکھے پر اعتماد کر کے بیٹھ رہیں اور عمل ترک کر دیں کیونکہ جو نیک بختوں میں سے ہو گا وہ لازماً نیک بختی کی طرف جائے گا اور جو بدبختوں میں سے ہو گا وہ ضرور بدبختی کی طرف جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمل کرو، ہر ایک کے لیے اس کا عمل آسان ہے، اہل سعادت کے لیے سعادت کی راہیں آسان کر دی جاتی ہیں اور بدبختوں کے لیے بدبختی کی راہیں آسان کر دی جاتی ہیں پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنایا: جو شخص اللہ کے راستے میں خرچ کرے، اللہ سے ڈرے، اور کلمہ توحید کی تصدیق کرے تو ہم اس کے لیے آسانی اور خوشی کی راہ آسان کر دیں گے، اور جو شخص بخل کرے، دنیوی شہوات میں پڑ کر جنت کی نعمتوں سے بے پروائی برتے اور کلمہ توحید کو جھٹلائے تو ہم اس کے لیے سختی اور بدبختی کی راہ آسان کر دیں گے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4694]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الجنائز 82 (1362)، تفسیر سورہ اللیل 3 (4945)، الأدب 120 (6217)، القدر 4 (6605)، التوحید 54 (7552)، صحیح مسلم/القدر 1 (2647)، سنن الترمذی/القدر 3 (2136)، والتفسیر 80 (3344)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 10 (78)، (تحفة الأشراف: 10167)، وقد أخرجہ: مسند احمد 1/82، 129، 132، 140) (صحیح)» ‏‏‏‏
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں اس شیطانی وسوسہ کا جواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا، جو اکثر لوگوں کے ذہن میں آتا ہے، اور ان کو بدعملی پر ابھارتا ہے، جب جنتی اور جہنمی کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا ہے تو عمل کیوں کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی کو معلوم نہیں کہ اس کے مقدر میں کیا لکھا ہے، لہٰذا ہر شخص کو نیک عمل کرنا چاہئے کہ یہی نیکی کی راہ، اور یہی جنت میں جانے کا سبب ہے، بندے کو اس بحث میں پڑے بغیر کہ وہ کہاں جائے گا نیک عمل کرتے رہنا چاہئے، تاکہ وہ اللہ کی رحمت کا مستحق ہو، اور نتیجے میں جنت نصیب ہو، آمین۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح بخاري (1362) صحيح مسلم (2647)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 4695
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، قَالَ: كَانَ أَوَّلَ مَنْ تَكَلَّمَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا، وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَاجَّيْنِ أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ، فَقُلْنَا: لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلَاءِ فِي الْقَدَرِ فَوَفَّقَ اللَّهُ لَنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ دَاخِلًا فِي الْمَسْجِدِ فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا وَصَاحِبِي، فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلَامَ إِلَيَّ فَقُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ وَيَتَفَقَّرُونَ الْعِلْمَ يَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ وَالْأَمْرَ أُنُفٌ، فَقَالَ: إِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ وَهُمْ بُرَآءُ مِنِّي وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْهُ حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ الشَّعْرِ لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا نَعْرِفُهُ حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ أَخْبِرْنِي عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِيمَانِ، قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الْإِحْسَانِ، قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَاتِهَا، قَالَ: أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ ثَلَاثًا ثُمَّ قَالَ: يَا عُمَرُ هَلْ تَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ".
یحییٰ بن یعمر کہتے ہیں کہ بصرہ میں سب سے پہلے معبد جہنی نے تقدیر کا انکار کیا، ہم اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری حج یا عمرے کے لیے چلے، تو ہم نے دل میں کہا: اگر ہماری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی صحابی سے ہوئی تو ہم ان سے تقدیر کے متعلق لوگ جو باتیں کہتے ہیں اس کے بارے میں دریافت کریں گے، تو اللہ نے ہماری ملاقات عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کرا دی، وہ ہمیں مسجد میں داخل ہوتے ہوئے مل گئے، چنانچہ میں نے اور میرے ساتھی نے انہیں گھیر لیا، میرا خیال تھا کہ میرے ساتھی گفتگو کا موقع مجھے ہی دیں گے اس لیے میں نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! ہماری طرف کچھ ایسے لوگ ظاہر ہوئے ہیں جو قرآن پڑھتے اور اس میں علمی باریکیاں نکالتے ہیں، کہتے ہیں: تقدیر کوئی چیز نہیں ۱؎، سارے کام یوں ہی ہوتے ہیں، تو آپ نے عرض کیا: جب تم ان سے ملنا تو انہیں بتا دینا کہ میں ان سے بری ہوں، اور وہ مجھ سے بری ہیں (میرا ان سے کوئی تعلق نہیں)، اس ہستی کی قسم، جس کی قسم عبداللہ بن عمر کھایا کرتا ہے، اگر ان میں ایک شخص کے پاس احد کے برابر سونا ہو اور وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دے تو بھی اللہ اس کے کسی عمل کو قبول نہ فرمائے گا، جب تک کہ وہ تقدیر پر ایمان نہ لے آئے، پھر آپ نے کہا: مجھ سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک بار ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ اچانک ایک شخص ہمارے سامنے نمودار ہوا جس کا لباس نہایت سفید اور بال انتہائی کالے تھے، اس پر نہ تو سفر کے آثار دکھائی دے رہے تھے، اور نہ ہی ہم اسے پہچانتے تھے، یہاں تک کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر بیٹھ گیا، اس نے اپنے گھٹنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے ملا دئیے، اور اپنی ہتھیلیوں کو آپ کی رانوں پر رکھ لیا اور عرض کیا: محمد! مجھے اسلام کے بارے میں بتائیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم گواہی دو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرو، زکاۃ دو، رمضان کے روز ے رکھو، اور اگر پہنچنے کی قدرت ہو تو بیت اللہ کا حج کرو وہ بولا: آپ نے سچ کہا، عمر بن خطاب کہتے ہیں: ہمیں اس پر تعجب ہوا کہ وہ آپ سے سوال بھی کرتا ہے اور تصدیق بھی کرتا ہے۔ اس نے کہا: مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر، آخرت کے دن پر اور تقدیر ۲؎ کے بھلے یا برے ہونے پر ایمان لاؤ اس نے کہا: آپ نے سچ کہا۔ پھر پوچھا: مجھے احسان کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ کیفیت پیدا نہ ہو سکے تو (یہ تصور رکھو کہ) وہ تو تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے اس نے کہا: مجھے قیامت کے بارے میں بتائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے پوچھا جا رہا ہے، وہ اس بارے میں پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۳؎۔ اس نے کہا: تو مجھے اس کی علامتیں ہی بتا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی ۴؎، اور یہ کہ تم ننگے پیر اور ننگے بدن، محتاج، بکریوں کے چرواہوں کو دیکھو گے کہ وہ اونچی اونچی عمارتیں بنانے میں فخر و مباہات کریں گے پھر وہ چلا گیا، پھر میں تین ۵؎ (ساعت) تک ٹھہرا رہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! کیا تم جانتے ہو کہ پوچھنے والا کون تھا؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جبرائیل تھے، تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4695]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإیمان 1 (8)، سنن الترمذی/الإیمان 4 (2610)، سنن النسائی/الإیمان 5 (4993)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 9 (63)، (تحفة الأشراف: 10572)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الإیمان 37 (50)، تفسیر سورة لقمان 2 (7774)، مسند احمد (1/27، 28، 51، 52) (صحیح)» ‏‏‏‏
وضاحت: ۱؎: بندہ اپنے افعال میں خود مختار ہے اور وہی ان کا خالق ہے۔
۲؎: یعنی اللہ تعالی نے ہر چیز کا اندازہ مقرر فرما دیا ہے اب ہر شیٔ اسی اندازے کے مطابق اس کے پیدا کرنے سے ہو رہی ہے کوئی چیز اس کے ارادے کے بغیر نہیں ہوتی۔
۳؎: مطلب یہاں یہ ہے کہ قیامت کے وقوع کا علم چونکہ اللہ نے کسی کو نہیں دیا اس لئے نہ تم جانتے ہو اور نہ میں، بلکہ ہر سائل اور مسئول قیامت کے بارے میں ایسا ہی ہے یعنی نہیں جانتا، ہاں قیامت علامات بتلائی گئی ہیں جس سے عبرت حاصل کر کے نیک عمل کرنا چاہئے۔
۴؎: اس کے کئی معنی بیان کئے گئے ہیں ایک یہ کہ چھوٹے بڑے کا فرق مٹ جائے گا، اولاد اپنے والدین کے ساتھ غلاموں جیسا برتاؤ کرنے لگے گی۔
۵؎: تین ساعت یا تین رات یا چند لمحے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح مسلم (8)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 4696
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ غِيَاثٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ، وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَا: لَقِيَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ فَذَكَرْنَا لَهُ الْقَدَرَ وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ فَذَكَرَ نَحْوَهُ زَادَ، قَالَ: وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ مُزَيْنَةَ أَوْ جُهَيْنَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فِيمَا نَعْمَلُ أَفِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا أَوْ مَضَى أَوْ فِي شَيْءٍ يُسْتَأْنَفُ الْآنَ؟ قَالَ: فِي شَيْءٍ قَدْ خَلَا، وَمَضَى، فَقَالَ الرَّجُلُ أَوْ بَعْضُ الْقَوْمِ: فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ قَالَ: إِنَّ أَهْلَ الْجَنَّةِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ أَهْلَ النَّارِ يُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ.
یحییٰ بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملے تو ہم نے آپ سے تقدیر کے بارے میں جو کچھ لوگ کہتے ہیں اس کا ذکر کیا۔ پھر راوی نے اسی طرح کی روایت ذکر کی اور اس میں یہ اضافہ کیا کہ آپ سے مزینہ یا جہینہ ۱؎ کے ایک شخص نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! پھر ہم کیا جان کر عمل کریں؟ کیا یہ جان کر کہ جو کچھ ہم کر رہے ہیں وہ سب پہلے ہی تقدیر میں لکھا جا چکا ہے، یا یہ جان کر کہ (پہلے سے نہیں لکھا گیا ہے) نئے سرے سے ہونا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جان کر کہ جو کچھ ہونا ہے سب تقدیر میں لکھا جا چکا ہے پھر اس شخص نے یا کسی دوسرے نے کہا: تو آخر یہ عمل کس لیے ہے؟ ۲؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل جنت کے لیے اہل جنت والے اعمال آسان کر دئیے جاتے ہیں اور اہل جہنم کو اہل جہنم کے اعمال آسان کر دیئے جاتے ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4696]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 10572) (صحیح)» ‏‏‏‏
وضاحت: ۱؎: دو قبیلوں کے نام ہیں۔
۲؎: یعنی جب جنت و جہنم کا فیصلہ ہو چکا ہے تو عمل کیوں کریں، یہی سوچ گمراہی کی ابتداء تھی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح
انظر الحديث السابق (4695)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 4697
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ ابْنِ يَعْمَرَ بِهَذَا الْحَدِيثِ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ، قَالَ: فَمَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: إِقَامُ الصَّلَاةِ وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ وَحَجُّ الْبَيْتِ وَصَوْمُ شَهْرِ رَمَضَانَ وَالِاغْتِسَالُ مِنَ الْجَنَابَةِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: عَلْقَمَةُ مُرْجِئٌ.
یحییٰ بن یعمر سے یہی حدیث کچھ الفاظ کی کمی اور بیشی کے ساتھ مروی ہے اس نے پوچھا: اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز کی اقامت، زکاۃ کی ادائیگی، بیت اللہ کا حج، ماہ رمضان کے روزے رکھنا اور جنابت لاحق ہونے پر غسل کرنا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: علقمہ مرجئی ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4697]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 10572) (صحیح)» ‏‏‏‏
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح
انظر الحديث السابق (4695)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 4698
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ أَبِي فَرْوَةَ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَا:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ بَيْنَ ظَهْرَيْ أَصْحَابِهِ، فَيَجِيءُ الْغَرِيبُ، فَلَا يَدْرِي أَيُّهُمْ هُوَ حَتَّى يَسْأَلَ، فَطَلَبْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَجْعَلَ لَهُ مَجْلِسًا يَعْرِفُهُ الْغَرِيبُ إِذَا أَتَاهُ، قَالَ: فَبَنَيْنَا لَهُ دُكَّانًا مِنْ طِينٍ، فَجَلَسَ عَلَيْهِ وَكُنَّا نَجْلِسُ بِجَنْبَتَيْهِ، وَذَكَرَ نَحْوَ هَذَا الْخَبَرِ فَأَقْبَلَ رَجُلٌ فَذَكَرَ هَيْئَتَهُ حَتَّى سَلَّمَ مِنْ طَرَفِ السِّمَاطِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: فَرَدَّ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابوذر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے بیچ میں اس طرح بیٹھتے تھے کہ جب کوئی اجنبی شخص آتا تو وہ بغیر پوچھے آپ کو پہچان نہیں پاتا تھا، تو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہم آپ کے لیے ایک ایسی جائے نشست بنا دیں کہ جب بھی کوئی اجنبی آئے تو وہ آپ کو پہچان لے، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: چنانچہ ہم نے آپ کے لیے ایک مٹی کا چبوترا بنا دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھتے اور ہم آپ کے اردگرد بیٹھتے، آگے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی جیسی روایت ذکر کی، اس میں ہے کہ ایک شخص آیا، پھر انہوں نے اس کی ہیئت ذکر کی، یہاں تک کہ اس نے بیٹھے ہوئے لوگوں کے کنارے سے ہی آپ کو یوں سلام کیا: السلام علیک یا محمد! تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سلام کا جواب دیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4698]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏وحدیث أبی ذر قد أخرجہ: سنن النسائی/ الإیمان 6 (4994)، مختصراً، وحدیث أبی ہریرة قد أخرجہ: صحیح البخاری/الإیمان 38 (50)، تفسیر سورة لقمان 2 (4777)، صحیح مسلم/ الأیمان 1 (9)، سنن ابن ماجہ/ المقدمة 9 (64)، (تحفة الأشراف: 19294)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/426) (صحیح)» ‏‏‏‏
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:إسناده صحيح
أخرجه النسائي (4994 وسنده صحيح) وأصله عند مسلم (9)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 4699
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ خَالِدٍ الْحِمْصِيِّ، عَنْ ابْنِ الدَّيْلَمِيِّ، قَالَ:" أَتَيْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ، فَقُلْتُ لَهُ: وَقَعَ فِي نَفْسِي شَيْءٌ مِنَ الْقَدَرِ فَحَدِّثْنِي بِشَيْءٍ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُذْهِبَهُ مِنْ قَلْبِي، قَالَ: لَوْ أَنَّ اللَّهَ عَذَّبَ أَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَهْلَ أَرْضِهِ عَذَّبَهُمْ وَهُوَ غَيْرُ ظَالِمٍ لَهُمْ، وَلَوْ رَحِمَهُمْ كَانَتْ رَحْمَتُهُ خَيْرًا لَهُمْ مِنْ أَعْمَالِهِمْ وَلَوْ أَنْفَقْتَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا قَبِلَهُ اللَّهُ مِنْكَ حَتَّى تُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، وَتَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَأَنَّ مَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، وَلَوْ مُتَّ عَلَى غَيْرِ هَذَا لَدَخَلْتَ النَّارَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُ حُذَيْفَةَ بْنَ الْيَمَانِ، فَقَالَ مِثْلَ ذَلِكَ، قَال: ثُمَّ أَتَيْتُ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ فَحَدَّثَنِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ ذَلِكَ".
ابن دیلمی ۱؎ کہتے ہیں کہ میں ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان سے کہا: میرے دل میں تقدیر کے بارے میں کچھ شبہ پیدا ہو گیا ہے، لہٰذا آپ مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جس سے یہ امید ہو کہ اللہ اس شبہ کو میرے دل سے نکال دے گا، فرمایا: اگر اللہ تعالیٰ آسمان والوں اور زمین والوں کو عذاب دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور عذاب دینے میں وہ ظالم نہیں ہو گا، اور اگر ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے لیے ان کے اعمال سے بہت بہتر ہے، اگر تم احد کے برابر سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر دو تو اللہ اس کو تمہاری طرف سے قبول نہیں فرمائے گا جب تک کہ تم تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ اور یہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں پہنچا ہے وہ ایسا نہیں ہے کہ نہ پہنچتا، اور جو کچھ تمہیں نہیں پہنچا وہ ایسا نہیں کہ تمہیں پہنچ جاتا، اور اگر تم اس عقیدے کے علاوہ کسی اور عقیدے پر مر گئے تو ضرور جہنم میں داخل ہو گے۔ ابن دیلمی کہتے ہیں: پھر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کی بات کہی، پھر میں حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے بھی اسی طرح کی بات کہی، پھر میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہوں نے مجھ سے اسی کے مثل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مرفوع روایت بیان کی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4699]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/المقدمة 10 (77)، (تحفة الأشراف: 3726)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/182، 185، 189) (صحیح)» ‏‏‏‏
وضاحت: ۱؎: یعنی ابوالبسر عبداللہ بن فیروز الدیلمی۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (115)
أخرجه ابن ماجه (77 وسنده صحيح)، سفيان الثوري صرح بالسماع عند أحمد (35/465 ح21589)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 4700
حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ الْهُذَلِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ رَبَاحٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ، عَنْ أَبِي حَفْصَةَ، قَالَ: قَالَ عُبَادَةُ بْنُ الصَّامِتِ لِابْنِهِ: يَا بُنَيَّ إِنَّكَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِيقَةِ الْإِيمَانِ حَتَّى تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُخْطِئَكَ، وَمَا أَخْطَأَكَ لَمْ يَكُنْ لِيُصِيبَكَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَهُ: اكْتُبْ قَالَ: رَبِّ وَمَاذَا أَكْتُبُ؟ قَالَ: اكْتُبْ مَقَادِيرَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، يَا بُنَيَّ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ مَاتَ عَلَى غَيْرِ هَذَا فَلَيْسَ مِنِّي".
ابوحفصہ کہتے ہیں کہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے سے کہا: اے میرے بیٹے! تم ایمان کی حقیقت کا مزہ ہرگز نہیں پا سکتے جب تک کہ تم یہ نہ جان لو کہ جو کچھ تمہیں ملا ہے وہ ایسا نہیں کہ نہ ملتا اور جو کچھ نہیں ملا ہے ایسا نہیں کہ وہ تمہیں مل جاتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: سب سے پہلی چیز جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا، قلم ہے، اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا: لکھ، قلم نے کہا: اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالیٰ نے کہا: قیامت تک ہونے والی ساری چیزوں کی تقدیریں لکھ اے میرے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: جو اس کے علاوہ (کسی اور عقیدے) پر مرا تو وہ مجھ سے نہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4700]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5082)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/القدر 17 (2155)، تفسیر سورة النون 66 (3319) (صحیح)» ‏‏‏‏
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي:صحيح
وله شاھد عند أبي يعلٰي الموصلي (2329 وسنده صحيح)

مزید تخریج الحدیث شرح دیکھیں