الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الصيد والذبائح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: شکار کے احکام و مسائل
The Book on Hunting
1. باب مَا جَاءَ مَا يُؤْكَلُ مِنْ صَيْدِ الْكَلْبِ وَمَا لاَ يُؤْكَلُ
باب: کتے کا کون سا شکار کھایا جائے اور کون سا نہ کھایا جائے؟
حدیث نمبر: 1464
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع , حدثنا يزيد بن هارون , حدثنا الحجاج , عن مكحول، عن ابي ثعلبة. ح والحجاج , عن الوليد بن ابي مالك , عن عائذ الله بن عبد الله , انه سمع ابا ثعلبة الخشني , قال: قلت: يا رسول الله , إنا اهل صيد , قال: " إذا ارسلت كلبك , وذكرت اسم الله عليه , فامسك عليك فكل " , قلت: وإن قتل , قال: " وإن قتل " , قلت: إنا اهل رمي قال: " ما ردت عليك قوسك فكل " , قال: قلت: إنا اهل سفر نمر باليهود , والنصارى , والمجوس , فلا نجد غير آنيتهم , قال: " فإن لم تجدوا غيرها , فاغسلوها بالماء , ثم كلوا فيها , واشربوا " , قال: وفي الباب , عن عدي بن حاتم , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , وعائذ الله بن عبد الله هو: ابو إدريس الخولاني , واسم ابي ثعلبة الخشني: جرثوم , ويقال: جرثم بن ناشب , ويقال: ابن قيس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ , عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي ثَعْلَبَةَ. ح وَالْحَجَّاجُ , عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي مَالِكٍ , عَنْ عَائِذِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيَّ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا أَهْلُ صَيْدٍ , قَالَ: " إِذَا أَرْسَلْتَ كَلْبَكَ , وَذَكَرْتَ اسْمَ اللَّهِ عَلَيْهِ , فَأَمْسَكَ عَلَيْكَ فَكُلْ " , قُلْتُ: وَإِنْ قَتَلَ , قَالَ: " وَإِنْ قَتَلَ " , قُلْتُ: إِنَّا أَهْلُ رَمْيٍ قَالَ: " مَا رَدَّتْ عَلَيْكَ قَوْسُكَ فَكُلْ " , قَالَ: قُلْتُ: إِنَّا أَهْلُ سَفَرٍ نَمُرُّ بِالْيَهُودِ , وَالنَّصَارَى , وَالْمَجُوسِ , فَلَا نَجِدُ غَيْرَ آنِيَتِهِمْ , قَالَ: " فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا غَيْرَهَا , فَاغْسِلُوهَا بِالْمَاءِ , ثُمَّ كُلُوا فِيهَا , وَاشْرَبُوا " , قَالَ: وَفِي الْبَاب , عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَعَائِذُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ هُوَ: أَبُو إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيُّ , وَاسْمُ أَبِي ثَعْلَبَةَ الْخُشَنِيِّ: جُرْثُومٌ , وَيُقَالُ: جُرْثُمُ بْنُ نَاشِبٍ , وَيُقَالُ: ابْنُ قَيْسٍ.
ابوثعلبہ خشنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ شکاری ہیں؟ (شکار کے احکام بتائیے؟) آپ نے فرمایا: جب تم (شکار کے لیے) اپنا کتا چھوڑو اور اس پر اللہ کا نام یعنی بسم اللہ پڑھ لو پھر وہ تمہارے لیے شکار کو روک رکھے تو اسے کھاؤ؟ میں نے کہا: اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالے، آپ نے فرمایا: اگرچہ مار ڈالے، میں نے عرض کیا: ہم لوگ تیر انداز ہیں (تو اس کے بارے میں فرمائیے؟) آپ نے فرمایا: تمہارا تیر جو شکار کرے اسے کھاؤ، میں نے عرض کیا: ہم سفر کرنے والے لوگ ہیں، یہود و نصاریٰ اور مجوس کی بستیوں سے گزرتے ہیں اور ان کے برتنوں کے علاوہ ہمارے پاس کوئی برتن نہیں ہوتا (تو کیا ہم ان کے برتنوں میں کھا لیں؟) آپ نے فرمایا: اگر تم اس کے علاوہ کوئی برتن نہ پاس کو تو اسے پانی سے دھو لو پھر اس میں کھاؤ پیو ۱؎۔ اس باب میں عدی بن حاتم سے بھی روایت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابوثعلبہ خشنی کا نام جرثوم ہے، انہیں جرثم بن ناشب اور جرثم بن قیس بھی کہا جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصید 4 (5478)، و 10 (5488)، و 14 (5496)، صحیح مسلم/الصید 1 (1930)، و 2 (1931)، سنن ابی داود/ الصید 2 (2855)، سنن النسائی/الصید 4 (4271)، سنن ابن ماجہ/الصید 3 (3207)، (تحفة الأشراف: 11875)، و مسند احمد (4/193، 194، 195) ویأتي في السیر11 (1560)، وفي الأطعمة 7 (6971) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3207)
حدیث نمبر: 1465
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان , حدثنا قبيصة , عن سفيان , عن منصور , عن إبراهيم , عن همام بن الحارث , عن عدي بن حاتم , قال: قلت: يا رسول الله , إنا نرسل كلابا لنا معلمة , قال: " كل ما امسكن عليك " , قلت: يا رسول الله , وإن قتلن , قال: " وإن قتلن , ما لم يشركها كلب غيرها " , قال: قلت: يا رسول الله , إنا نرمي بالمعراض , قال: " ما خزق فكل , وما اصاب بعرضه فلا تاكل " , حدثنا محمد بن يحيى , حدثنا محمد بن يوسف , حدثنا سفيان , عن منصور , نحوه، إلا انه قال: وسئل عن المعراض , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ , حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ , عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ إِبْرَاهِيمَ , عَنْ هَمَّامِ بْنِ الْحَارِثِ , عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا نُرْسِلُ كِلَابًا لَنَا مُعَلَّمَةً , قَالَ: " كُلْ مَا أَمْسَكْنَ عَلَيْكَ " , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَإِنْ قَتَلْنَ , قَالَ: " وَإِنْ قَتَلْنَ , مَا لَمْ يَشْرَكْهَا كَلْبٌ غَيْرُهَا " , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا نَرْمِي بِالْمِعْرَاضِ , قَالَ: " مَا خَزَقَ فَكُلْ , وَمَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَلَا تَأْكُلْ " , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ مَنْصُورٍ , نَحْوَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: وَسُئِلَ عَنِ الْمِعْرَاضِ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ اپنے سدھائے ۱؎ ہوئے کتے (شکار کے لیے) روانہ کرتے ہیں (یہ کیا ہے؟) آپ نے فرمایا: وہ جو کچھ تمہارے لیے روک رکھیں اسے کھاؤ، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگرچہ وہ شکار کو مار ڈالیں؟ آپ نے فرمایا: اگرچہ وہ (شکار کو) مار ڈالیں (پھر بھی حلال ہے) جب تک ان کے ساتھ دوسرا کتا شریک نہ ہو، عدی بن حاتم کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم لوگ «معراض» (ہتھیار کی چوڑان) سے شکار کرتے ہیں، (اس کا کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا: جو (ہتھیار کی نوک سے) پھٹ جائے اسے کھاؤ اور جو اس کے عرض (بغیر دھاردار حصے یعنی چوڑان) سے مر جائے اسے مت کھاؤ۔ اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث روایت کی گئی ہے، مگر اس میں ہے «وسئل عن المعراض» یعنی آپ سے معراض کے بارے میں پوچھا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 33 (175)، والبیوع 3 (2054)، والصید 1 (5475)، و3 (5476)، و3 (5477)، و 7 (5483)، و 8 (5484)، و 9 (5486)، و 10 (5487)، صحیح مسلم/الصید 1 (1929)، سنن ابی داود/ الصید 2 (2847)، سنن النسائی/الصید 1 (4268)، و2 (4269)، و 3 (4270)، و 8 (4279)، و 21 (4310)، سنن ابن ماجہ/الصید 3 (3208)، و 5 (3212)، و 6 3213)، و 7 (3215)، (تحفة الأشراف: 9878)، و مسند احمد (4/256)، 257، 258، 377، 380)، سنن الدارمی/الصید 1 (2045) ویأتي بأرقام (1467-1471) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: سدھائے ہوئے جانور کا مطلب ہے کہ جب اسے شکار پر چھوڑا جائے تو دوڑتا ہوا جائے، جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آ جائے۔ اس حدیث سے کئی مسئلے معلوم ہوئے: (۱) سدھائے ہوئے کتے کا شکار مباح اور حلال ہے۔ (۲) کتا مُعَلَّم ہو یعنی اسے شکار کی تعلیم دی گئی ہو۔ (۳) اس سدھائے ہوئے کتے کو شکار کے لیے بھیجا گیا ہو پس اگر وہ خود سے بلا بھیجے شکار کر لائے تو اس کا کھانا حلال نہیں، یہی جمہور علماء کا قول ہے۔ (۴) کتے کو شکار پر بھیجتے وقت بسم اللہ کہا گیا ہو۔ (۵) سکھائے ہوئے کتے کے ساتھ کوئی دوسرا کتا شکار میں شریک نہ ہو اگر دوسرا شریک ہے تو حرمت کا پہلو غالب ہو گا اور یہ شکار حلال نہ ہو گا۔ (۶) کتا شکار میں سے کچھ نہ کھائے بلکہ اپنے مالک کے لیے محفوظ رکھے تب یہ شکار حلال ہو گا ورنہ نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (3208 و 3212 و 3214 و 3215)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.