--. اخروی نجات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان سے مشروط ہے
--. دوسرے اجر کے حق دار خوش نصیب
--. کافروں سے جہاد کب کیا جائے گا
--. مسلمان کی پہچان
--. ایک اعرابی کے سوال جواب
--. استقامت فی الدین
--. اسلام کیا ہے؟
--. وفد عبدالقیس کو ایمانیات کی تعلیم
--. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کن باتوں پربیعت لیتے تھے؟
--. عورتوں کونصیحتیں
--. ابن آدم کا اللہ تعالیٰ کو جھٹلانا؟
--. اللہ تعالیٰ اور بندوں کا ایک دوسرے پر حق
--. لا الہ الا اللہ کہنے والے کے لیے خوشخبری
--. اسلام سابقہ تمام گناہ مٹا دیتا ہے
ب. الفصل الثاني
--. جنت میں داخلہ دوزخ سے نجات
--. دوستی اور دشمنی کا معیار
--. مومن کے اوصاف
ج. الفصل الثالث
--. مومن پر دوزخ کی آگ حرام ہے
--. موحد اور مشرک کا انجام
--. اہل ایمان کے لیے خوشخبری
--. لا الہ الا اللہ جنت کی چابی
--. اسلام کی برتری
--. نیکی اور برائی کا تقابل
--. ایمان کی علامت کیا ہے؟
--. اسلام کے بعض اوصاف
1. بڑے گناہوں اور نفاق کی نشانیوں کا باب ہے
الف . الفصل الاول
1.01. چند بڑے بڑے گناہ
1.02. برباد کرنے والے سات گناہ
1.03. ارتکاب کبائر کے وقت ایمان کا خروج
1.04. منافق کی علامات
ب. الفصل الثاني
1.05. یہودیوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنا
1.06. ایمان کی بنیاد
ج. الفصل الثالث
1.07. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس باتوں کی وصیت
2. وسوسہ کے بارے میں باب
الف . الفصل الاول
2.01. وسوسہ قابل مواخذہ نہیں
2.02. ایمان کی علامت
2.03. شیطانی وسوسہ پراللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنا
2.04. شیطانی وسوسہ پراللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنا
2.05. ہم زاد
2.06. ابن آدم پر پیدائش کے وقت شیطانی حملہ
2.07. شیطان کا دربار
2.08. اہل عرب سے شیطان کی مایوسی
ب. الفصل الثاني
2.09. وسوسہ شکر کا ذریعہ بھی
2.1. شیطان اور فرشتے کا انسان پر تصرف
ج. الفصل الثالث
2.11. تخلیق الہیٰ کے بارے میں شیطانی وسوسہ
2.12. جب شیطان نماز میں ستائے
2.13. نماز میں وسوسے کی پروانہ کرو
3. تقدیر پر ایمان لانے کا باب
الف . الفصل الاول
3.01. مخلوقات کی تقدیر
3.02. حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مباحثہ
3.03. تقدیر کا غالب آنا
3.04. عمل کی اہمیت
3.05. قسمت میں لکھا پورا ہو کر رہتا ہے
3.06. انسان کا دل اللہ کی دو انگلیوں کے درمیان
3.07. بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں
3.08. کچھ صفات الہی
ب. الفصل الثاني
3.09. قلم کی تخلیق
3.1. انسان کو وہی توفیق ہے جس کے لیے پیدا کیا گیا
3.11. مسئلہ تقدیر میں بحث و مباحثہ کی ممانعت
3.12. تخلیق آدم
3.13. قلب انسانی کی کیفیت؟
3.14. ایمان کی کچھ علامات
3.15. منکرین تقدیر کا عبرت ناک انجام
3.16. چھ قسم کے ملعون
3.17. بچوں کو زندہ دفن کرنے والا
ج. الفصل الثالث
3.18. مقدر لکھا جا چکا
3.19. مسئلہ تقدیر پر گفتگو ایک نا پسندیدہ امر
3.2. مسئلہ تقدیر پر تشکیک کفر کی علامت
3.21. منکرین تقدیر کے لیے سزا
3.22. اولاد آدم کا بیان
3.23. صحابی رسول کا آخرت کو یاد کر کے رونا
3.24. اللہ تعالیٰ کا زریت آدم کے ساتھ گفتگو فرمانا
3.25. فطرت میں تغیر نہیں
3.26. رنج و غم تقدیر کے تابع ہے
4. عذاب قبر کے ثبوت کا بیان
الف . الفصل الاول
4.01. آیت مبارکہ کا مفہوم
4.02. قبر میں سوال جواب
4.03. عذاب قبر کا اثبات
ب. الفصل الثاني
4.04. منکر نکیر کے سوال اور قبر کا عذاب
4.05. قبر سے زیادہ وحشت ناک منظر کوئی نہیں
4.06. مسلمان بھائی کے لئے ثابت قدمی کی دعا
4.07. کافر کے لیے عذاب قبر
ج. الفصل الثالث
4.08. سعد بن معاذ کے لیے عذاب قبر کا تنگ اور کشادہ ہونا
4.09. قبر کا فتنہ
4.1. قبر کے اندرونی مناظر
5. --
الف . الفصل الاول
5.01. بدعت کا رد
5.02. بدعت گمراہی ہے
5.03. تین بدبخت لوگ
5.04. جنت میں جانے سے انکار کرنے والا
5.05. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مثال
5.06. اس کا نام اسلام ہے
5.07. دنیاوی امور میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورے کی شرعی حیثیت
5.08. رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مثال
5.09. گمراہ اور کج فکروں کی ایک علامت
5.1. نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضی کا ایک منظر
5.11. سب سے بڑا جرم کون؟
5.12. جھوٹی حدیثیں بیان کرنے والے
5.13. اسرائیلیت کی تصدیق یا تکذیب کی ممانعت
5.14. جھوٹے انسان کی علامت
5.15. ہر نبی کے لیے حواری ہوتے ہیں
5.16. نیکی اور برائی کے بارے میں ایک ضابطہ
5.17. اسلام کا وصف
5.18. ایمان مدینہ میں سمٹ جائے گا
ب. الفصل الثاني
5.19. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب میں فرشتے کا آنا
5.2. انکار حدیث کرنے والے
5.21. وصیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
5.22. صراط مستقیم
5.23. ایمان کی نشانی
5.24. سنت کو زندہ کرنے کا ثواب
5.25. امت مسلمہ کی زبوں حالی
5.26. بدعتی لوگوں کی کیفیت
5.27. جماعت کی اہمیت
5.28. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت
5.29. جھگڑا کس قدر بری چیز ہے
5.3. رہبانیت کی مذمت
5.31. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت
ج. الفصل الثالث
5.32. مسلمان جماعت سے دوری کے مفاسد
5.33. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہدایت کے لیے دو چیزیں
5.34. بدعت کی نحوست
5.35. قرآن کریم کی پیروی کا اجر و ثواب
5.36. صراۃ مستقیم کی مثال
5.37. سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا تورات کا مطالعہ کرنا
5.38. کلام نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
5.39. فرائض کو ضائع نہ کرو
مشكوة المصابيح
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کا بیان
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مثال
حدیث نمبر: 148
اعراب
وعن ابي موسى قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنما مثلي ومثل ما بعثني الله به كمثل رجل اتى قوما فقال يا قوم إني رايت الجيش بعيني وإني انا النذير العريان فالنجاء النجاء فاطاعه طائفة من قومه فادلجوا فانطلقوا على مهلهم فنجوا وكذبت طائفة منهم فاصبحوا مكانهم فصبحهم الجيش فاهلكهم واجتاحهم فذلك مثل من اطاعني فاتبع ما جئت به ومثل من عصاني وكذب بما جئت به من الحق» وَعَنْ أَبِي مُوسَى قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ كَمَثَلِ رَجُلٍ أَتَى قَوْمًا فَقَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي رَأَيْتُ الْجَيْشَ بِعَيْنِي وَإِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْعُرْيَانُ فَالنَّجَاءَ النَّجَاءَ فَأَطَاعَهُ طَائِفَةٌ مِنْ قَوْمِهِ فَأَدْلَجُوا فَانْطَلَقُوا عَلَى مَهْلِهِمْ فَنَجَوْا وَكَذَّبَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ فَأَصْبَحُوا مَكَانَهُمْ فَصَبَّحَهُمُ الْجَيْشُ فَأَهْلَكَهُمْ وَاجْتَاحَهُمْ فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ أَطَاعَنِي فَاتَّبَعَ مَا جِئْتُ بِهِ وَمثل من عَصَانِي وَكذب بِمَا جِئْتُ بِهِ مِنَ الْحَقِّ»
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری اور جس چیز کے ساتھ اللہ نے مجھے مبعوث کیا ہے اس کی مثال، اس شخص جیسی ہے جو کسی قوم کے پاس آیا اور اس نے کہا: میری قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے لشکر دیکھا ہے اور میں واضح اور حقیقی طور پر آگاہ کرنے والا ہوں، لہذا تم جلدی سے بچاؤ کر لو، پس اس کی قوم کا ایک گروہ اس کی بات مان کر سرشام اطمینان کے ساتھ روانہ ہو گیا، اور وہ بچ گیا، جبکہ ان کے ایک گروہ نے اس شخص کی بات کو جھٹلایا اور اپنی جگہ پر ڈٹے رہے تو صبح ہوتے ہی اس لشکر نے ان پر دھاوا بول دیا اور انہیں مکمل طور پر ختم کر دیا، پس یہ اس شخص کی مثال ہے جس نے میری اطاعت کی اور میری لائی ہوئی شریعت کی اتباع کی، اور اس شخص کی مثال ہے جس نے میری نافرمانی کی اور میرے لائے ہوئے حق کی تکذیب کی۔ “ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (7283) و مسلم (16/ 2283)»
وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنما مثلي ومثل الناس كمثل رجل استوقد نارا فلما اضاءت ما حوله جعل الفراش وهذه الدواب التي تقع في النار يقعن فيها وجعل يحجزهن ويغلبنه فيقتحمن فيها فانا آخذ بحجزكم عن النار وانتم يقتحمون فيها» . هذه رواية البخاري ولمسلم نحوها وقال في آخرها: -[54]-" فذلك مثلي ومثلكم انا آخذ بحجزكم عن النار: هلم عن النار هلم عن النار فتغلبوني تقحمون فيها" وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِنَّمَا مثلي وَمثل النَّاس كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حوله جَعَلَ الْفَرَاشُ وَهَذِهِ الدَّوَابُّ الَّتِي تَقَعُ فِي النَّار يقعن فِيهَا وَجعل يحجزهن ويغلبنه فيقتحمن فِيهَا فَأَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ وَأَنْتُمْ يقتحمون فِيهَا» . هَذِهِ رِوَايَةُ الْبُخَارِيِّ وَلِمُسْلِمٍ نَحْوَهَا وَقَالَ فِي آخرهَا: -[54]-" فَذَلِكَ مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ أَنَا آخِذٌ بِحُجَزِكُمْ عَنِ النَّارِ: هَلُمَّ عَنِ النَّارِ هَلُمَّ عَنِ النَّارِ فَتَغْلِبُونِي تَقَحَّمُونَ فِيهَا"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی، پس جب اس (آگ) نے اپنے اردگرد کو روشن کر دیا تو پروانے اور آگ میں گرنے والے حشرات وغیرہ اس میں گرنا شروع ہو گئے، اور وہ شخص انہیں روکنے لگا لیکن وہ بزور اس میں گرنے لگے، پس میں تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ سے روک رہا ہوں جبکہ تم بزور اسی میں گر رہے ہو۔ “ یہ بخاری کی روایت ہے اور مسلم کی روایت بھی اسی طرح ہے اور اس کے آخر میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”میری اور تمہاری مثال اس طرح ہے کہ میں تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ سے بچا رہا ہوں، آگ سے بچ کر میری طرف آ جاؤ، آگ سے بچ کر میری طرف آ جاؤ، لیکن تم مجھ سے بزور اس میں گر رہے ہو۔ “ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6483) و مسلم (18 / 2284)»
وعن ابي موسى عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «مثل ما بعثني الله به من الهدى والعلم كمثل الغيث الكثير اصاب ارضا فكان منها نقية قبلت الماء فانبتت الكلا والعشب الكثير وكانت منها اجادب امسكت الماء فنفع الله بها الناس فشربوا وسقوا وزرعوا واصابت منها طائفة اخرى إنما هي قيعان لا تمسك ماء ولا تنبت كلا فذلك مثل من فقه في دين الله ونفعه ما بعثني الله به فعلم وعلم ومثل من لم يرفع بذلك راسا ولم يقبل هدى الله الذي ارسلت به» وَعَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَثَلُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الْهُدَى وَالْعلم كَمثل الْغَيْث الْكثير أصَاب أَرضًا فَكَانَ مِنْهَا نقية قَبِلَتِ الْمَاءَ فَأَنْبَتَتِ الْكَلَأَ وَالْعُشْبَ الْكَثِيرَ وَكَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبُ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاس فَشَرِبُوا وَسقوا وزرعوا وأصابت مِنْهَا طَائِفَةً أُخْرَى إِنَّمَا هِيَ قِيعَانٌ لَا تُمْسِكُ مَاءً وَلَا تُنْبِتُ كَلَأً فَذَلِكَ مَثَلُ مَنْ فَقُهَ فِي دِينِ اللَّهِ وَنَفَعَهُ مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ فَعَلِمَ وَعَلَّمَ وَمَثَلُ مَنْ لَمْ يَرْفَعْ بِذَلِكَ رَأْسًا وَلَمْ يَقْبَلْ هُدَى اللَّهِ الَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ»
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے جو ہدایت اور علم دے کر مجھے مبعوث کیا ہے، وہ کسی زمین پر برسنے والی موسلادھار بارش کی طرح ہے، پس اس زمین کا ایک ٹکڑا بہت اچھا تھا، اس نے پانی کو قبول کیا اور اس نے بہت سا گھاس اور سبزہ اگایا، اور اس زمین کا کچھ ٹکڑا سخت تھا، اس نے پانی کو روک لیا، پس اللہ نے اس کے ذریعے لوگوں کو فائدہ پہنچایا، لوگوں نے خود پیا، جانوروں کو پلایا اور آب پاشی کی، جبکہ زمین کا ایک ٹکڑا صاف چٹیل تھا، وہاں بارش ہوئی تو وہ پانی روکتی ہے نہ سبزہ اگاتی ہے، پس یہی مثال اس شخص کی ہے جسے اللہ کے دین میں سمجھ بوجھ عطا کی گئی، اور اللہ نے جو تعلیمات دے کر مجھے مبعوث فرمایا ان سے اسے فائدہ پہنچایا، پس اس نے خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا، اور یہی اس شخص کی مثال ہے جس نے (ازراہ تکبر) اس کی طرف سر نہ اٹھایا اور اللہ نے جو ہدایت دے کر مجھے مبعوث فرمایا اسے قبول نہ کیا۔ “ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (79) و مسلم (15/ 2282)»