الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
أَحَادِيثُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات حدیث نمبر 21
ابن سعدی بیان کرتے ہیں: وہ ”شام“ سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: مجھے پتہ چلا ہے تم کوئی سرکاری فرائض انجام دیتے رہے ہو اور جب تمہیں تنخواہ دی جانے لگی، تو تم نے اسے قبول نہیں کیا؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں، میرے پاس گھوڑے ہیں۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ”میرے پاس غلام ہیں اور میں اچھی حالت میں ہوں۔“ تو میں یہ چاہتا ہوں کہ میری تنخواہ مسلمانوں کے لیے صدقہ ہو جائے، تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم ایسا نہ کرو، کیونکہ جو ارادہ تم نے کیا ہے اس طرح کا ارادہ ایک مرتبہ میں نے بھی کیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مجھے کچھ عطا کرتے تھے، تو میں یہ گزارش کرتا تھا کہ آپ یہ اسے دے دیں جس کو مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت ہو۔ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مال دیا تو میں نے عرض کی: آپ یہ اسے عطا کر دیجئے جسے مجھ سے زیادہ اس کی ضرورت ہو، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے عمر! اللہ تعالیٰ مانگے بغیر اور تمہاری دلچسپی ظاہر کیے بغیر اس مال میں سے، جو کچھ تمہیں عطا کرتا ہے اسے حاصل کر لو اور اس کے ذریعے سے اپنے مال میں اضافہ کرو، اسے صدقہ کرو اور جو مال ایسا نہ ہو، تم اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ لگاؤ۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري: 7163، صحيح ابن حبان: 3405، وصححه ابن خزيمة: 2365، وأحمد: 17/1، وعبدالرزاق فى المصنفه: 20045»
|