حدثنا يحيي بن يحيي التميمي ، قال: قرات على مالك ، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن ، عن يزيد مولى المنبعث، عن زيد بن خالد الجهني ، انه قال: " جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فساله عن اللقطة، فقال: اعرف عفاصها ووكاءها ثم عرفها سنة، فإن جاء صاحبها وإلا فشانك بها، قال: فضالة الغنم؟، قال: لك او لاخيك او للذئب، قال: فضالة الإبل؟، قال: ما لك ولها معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتاكل الشجر حتى يلقاها ربها "، قال يحيي: احسب قرات عفاصها.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: " جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَشَأْنَكَ بِهَا، قَالَ: فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟، قَالَ: لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، قَالَ: فَضَالَّةُ الْإِبِلِ؟، قَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا "، قَالَ يَحْيَي: أَحْسِبُ قَرَأْتُ عِفَاصَهَا.
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھنے لگا لقطہ کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بتلا اس کی تھیلی اور اس کا ڈھکن ایک سال تک۔ پھر اگر اس کا مالک آئے تو دیدے نہیں تو تجھے اختیار ہے۔“(چاہے تو اپنے صرف میں لا) پھر اس نے پوچھا: بھولی بھٹکی بکری کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو تیری ہے یا تیرے بھائی کی ہے یا بھیڑیئے کی ہے۔“ پھر اس نے پوچھا: بھولے بھٹکے اونٹ کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے تجھے کیا مطلب ہے اس کے ساتھ اس کی مشک (پیٹ میں جس میں کئی دن کا پانی بھر لیتا ہے) اور اس کا جوتہ بھی اس کے پاس ہے۔ پانی پیتا ہے درخت کھاتا ہے یہاں تک کہ اس کا مالک اس کو پا لیتا ہے۔“
وحدثنا يحيي بن ايوب ، وقتيبة ، وابن حجر ، قال ابن حجر: اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا إسماعيل وهو ابن جعفر ، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن ، عن يزيد مولى المنبعث، عن زيد بن خالد الجهني : " ان رجلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اللقطة، فقال: عرفها سنة ثم اعرف وكاءها وعفاصها، ثم استنفق بها، فإن جاء ربها فادها إليه، فقال: يا رسول الله فضالة الغنم؟، قال: خذها فإنما هي لك او لاخيك او للذئب، قال: يا رسول الله، فضالة الإبل؟، قال فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى احمرت وجنتاه او احمر وجهه، ثم قال: ما لك ولها معها حذاؤها وسقاؤها حتى يلقاها ربها "،وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالَ ابْنُ حُجْرٍ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ : " أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا سَنَةً ثُمَّ اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا، ثُمَّ اسْتَنْفِقْ بِهَا، فَإِنْ جَاءَ رَبُّهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فَضَالَّةُ الْغَنَمِ؟، قَالَ: خُذْهَا فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَضَالَّةُ الْإِبِلِ؟، قَالَ فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى احْمَرَّتْ وَجْنَتَاهُ أَوِ احْمَرَّ وَجْهُهُ، ثُمَّ قَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا "،
سیدنا زید بن جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لقطہ کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال تک اس کو بتلا پھر پہچان رکھ اس کا ڈھکنا اور اس کی تھیلی (یہ دوسری پہچان ہے ایک سال بعد تاکہ اگر مالک آئے تو اس کو پہچان کر تاوان دے سکے اور ایک پہچان پانے کے بعد ہے مالک کی تلاش کے لئے) پھر خرچ کر ڈال اس کو اب اگر مالک آئے تو ادا کر دے اس کو۔“ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ! بھولی بھٹکی بکری کا کیا حکم ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو پکڑ لے وہ تیرے لیے ہے یا تیرے بھائی کی یا بھیڑیئے کی۔“ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ! بھولے بھٹکے اونٹ کا کیا حکم ہے؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار مبارک سرخ ہو گئے یا چہرہ مبارک سرخ ہو گیا۔ بعد اس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اونٹ سے تجھے کیا کام؟ اس کے ساتھ اس کا جوتا ہے اور مشک ہے یہاں تک کہ اس کا مالک اسے ملے۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک اور پیشانی سرخ ہو گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے ہوئے اور زیادہ کیا اس کے بعد کہ ”ایک سال تک بتلا۔ پھر اگر اس کا مالک نہ آئے تو وہ تیرے پاس امانت رہے گا۔“
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا سليمان يعني ابن بلال ، عن يحيى بن سعيد ، عن يزيد مولى المنبعث، انه سمع زيد بن خالد الجهني صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اللقطة الذهب او الورق، فقال: " اعرف وكاءها وعفاصها ثم عرفها سنة، فإن لم تعرف، فاستنفقها ولتكن وديعة عندك، فإن جاء طالبها يوما من الدهر فادها إليه، وساله عن ضالة الإبل، فقال: ما لك ولها دعها، فإن معها حذاءها وسقاءها ترد الماء وتاكل الشجر حتى يجدها ربها، وساله عن الشاة، فقال: خذها فإنما هي لك او لاخيك او للذئب "،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، أَنَّهُ سَمِعَ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ، فَقَالَ: " اعْرِفْ وِكَاءَهَا وَعِفَاصَهَا ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ لَمْ تَعْرِفْ، فَاسْتَنْفِقْهَا وَلْتَكُنْ وَدِيعَةً عِنْدَكَ، فَإِنْ جَاءَ طَالِبُهَا يَوْمًا مِنَ الدَّهْرِ فَأَدِّهَا إِلَيْهِ، وَسَأَلَهُ عَنْ ضَالَّةِ الْإِبِلِ، فَقَالَ: مَا لَكَ وَلَهَا دَعْهَا، فَإِنَّ مَعَهَا حِذَاءَهَا وَسِقَاءَهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَجِدَهَا رَبُّهَا، وَسَأَلَهُ عَنِ الشَّاةِ، فَقَالَ: خُذْهَا فَإِنَّمَا هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ "،
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جو صحابی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا سونا یا چاندی کے لقطہ کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا بندھن اور اس کی تھیلی پہچان رکھ۔ پھر سال بھر تک لوگوں سے دریافت کر اگر کوئی نہ پہچانے تو اس کو خرچ کر ڈال لیکن وہ امانت رہے گا تیرے پاس (اور صرف کرنے سے پیچھے جب مالک آئے تو تاوان دینا ہو گا) پھر جب اس کا مالک کسی دن بھی آئے تو اس کو ادا کر۔“ اور پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اونٹ کو جو بھولا بھٹکا ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس سے تجھے کیا کام؟ اس کے ساتھ اس کا جوتا ہے، مشکیزہ ہے، پانی پیتا ہے، درخت کے پتے کھاتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا مالک پائے اس کو۔“ اور پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بکری کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو لے لے کیونکہ وہ بکری تیری ہے یا تیرے بھائی کی ہے یا بھیڑیئے کی ہے۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے کہ ”جب اس کا مالک آئے تو پوچھ اس سے تھیلی کو (وہ کیسی ہے؟) اور گنتی کو (کتنے روپے ہیں؟) اور بندھن کو (وہ کیسا ہے؟) پھر اگر وہ بیان کرے تو دے دے اس کو ورنہ وہ تیرا ہے۔“
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لقطہ کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال تک دریافت کر۔ پھر اگر کوئی نہ پہچانے تو اس کا تھیلہ اور بندھن یاد رکھ لے اور کھا ڈال (خرچ کر کے) جب اس کا مالک آئے تو ادا کر۔“
وحدثنا محمد بن بشار ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة . ح وحدثني ابو بكر بن نافع واللفظ له، حدثنا غندر ، حدثنا شعبة ، عن سلمة بن كهيل ، قال: سمعت سويد بن غفلة " قال: خرجت انا وزيد بن صوحان، وسلمان بن ربيعة غازين، فوجدت سوطا فاخذته، فقالا لي: دعه، فقلت: لا ولكني اعرفه، فإن جاء صاحبه وإلا استمتعت به، قال: فابيت عليهما، فلما رجعنا من غزاتنا قضي لي اني حججت، فاتيت المدينة فلقيت ابي بن كعب ، فاخبرته بشان السوط وبقولهما، فقال: إني وجدت صرة فيها مائة دينار على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاتيت بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: عرفها حولا، قال: فعرفتها فلم اجد من يعرفها ثم اتيته، فقال: عرفها حولا، فعرفتها فلم اجد من يعرفها ثم اتيته، فقال: عرفها حولا، فعرفتها فلم اجد من يعرفها، فقال: احفظ عددها ووعاءها ووكاءها، فإن جاء صاحبها وإلا فاستمتع بها "، فاستمتعت بها، فلقيته بعد ذلك بمكة، فقال: لا ادري بثلاثة احوال او حول واحد،وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُوَيْدَ بْنَ غَفَلَةَ " قَالَ: خَرَجْتُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ صُوحَانَ، وَسَلْمَانُ بْنُ رَبِيعَةَ غَازِينَ، فَوَجَدْتُ سَوْطًا فَأَخَذْتُهُ، فَقَالا لِي: دَعْهُ، فَقُلْتُ: لَا وَلَكِنِّي أُعَرِّفُهُ، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهُ وَإِلَّا اسْتَمْتَعْتُ بِهِ، قَالَ: فَأَبَيْتُ عَلَيْهِمَا، فَلَمَّا رَجَعْنَا مِنْ غَزَاتِنَا قُضِيَ لِي أَنِّي حَجَجْتُ، فَأَتَيْتُ الْمَدِينَةَ فَلَقِيتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ ، فَأَخْبَرْتُهُ بِشَأْنِ السَّوْطِ وَبِقَوْلِهِمَا، فَقَالَ: إِنِّي وَجَدْتُ صُرَّةً فِيهَا مِائَةُ دِينَارٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُ بِهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، قَالَ: فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقَالَ: عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَعَرَّفْتُهَا فَلَمْ أَجِدْ مَنْ يَعْرِفُهَا، فَقَالَ: احْفَظْ عَدَدَهَا وَوِعَاءَهَا وَوِكَاءَهَا، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَاسْتَمْتِعْ بِهَا "، فَاسْتَمْتَعْتُ بِهَا، فَلَقِيتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ بِمَكَّةَ، فَقَالَ: لَا أَدْرِي بِثَلَاثَةِ أَحْوَالٍ أَوْ حَوْلٍ وَاحِدٍ،
سلمہ بن کہیل سے روایت ہے، میں نے سوید بن غفلہ سے سنا۔ وہ کہتے تھے: میں اور زید بن صوحان اور سلمان بن ربیعہ جہاد کو نکلے میں نے ایک کوڑا پڑا پایا، اس کو اٹھا لیا۔ زید اور سلمان نے کہا: پھینکو۔ میں نے کہا: نہیں پھینکتا۔ بلکہ میں اس کو دریافت کروں گا۔ پھر اگر اس کا مالک آئے گا تو خیر ورنہ میں اپنے کام میں رکھوں گا۔ وہ کہتے گئے پھینک۔ پر میں نے نہ مانا ہم جہاد سے لوٹے تو اتفاق سے میں نے حج کیا اور مدینہ کو گیا۔ وہاں سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ملا۔ ان سے میں نے کوڑے کا حال بیان کیا اور جو زید اور سلمان کہتے تھے۔ انہوں نے کہا: میں نے ایک تھیلی پائی سو اشرفیوں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں، میں اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سال بھر دریافت کر، اس کے مالک کو۔“ میں نے دریافت کیا۔ کوئی پہچاننے والا نہیں ملا، پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک سال اور دریافت کر۔“ میں نے پوچھا: کوئی نہ ملا۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی گنتی کر اور ایک کی تھیلی اور ڈھکن دل میں جما لے پھر اگر اس کا مالک آیا تو خیر ورنہ تو اپنے خرچ میں لا۔“ میں نے اس کو خرچ کیا۔ راوی کو شک ہے اس حدیث میں کہ تین سال دریافت کرنے کے لئے فرمایا یا ایک سال کے لیے۔