الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے 48. باب النِّسَاءُ الْغَازِيَاتُ يُرْضَخُ لَهُنَّ وَلاَ يُسْهَمُ وَالنَّهْيُ عَنْ قَتْلِ صِبْيَانِ أَهْلِ الْحَرْبِ: باب: جو عورتیں جہاد میں شریک ہوں ان کو انعام ملے گا اور حصہ نہیں ملے گا اور بچوں کو قتل کرنا منع ہے۔
سلیمان بن بلال نے ہمیں جعفر بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے حدیث بیان کی، انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی کہ (معروف خارجی سردار) نجدہ (بن عامر حنفی) نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پانچ باتیں دریافت کرنے کے لیے خط لکھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں علم چھپا رہا ہوں تو میں اسے جواب نہ لکھتا۔ نجدہ نے انہیں لکھا تھا: امابعد! مجھے بتائیے: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے مدد لیتے ہوئے جنگ کرتے تھے؟ کیا آپ غنیمت میں ان کا حصہ رکھتے تھے؟ کیا آپ بچوں کو قتل کرتے تھے؟ اور یہ کہ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ اس نے خمس کے بارے میں (بھی پوچھا کہ) وہ کس کا حق ہے؟ تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف (جواب) لکھا: تم نے مجھ سے دریافت کرنے کے لیے لکھا تھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے مدد لیتے ہوئے جنگ کرتے تھے؟ بلاشبہ آپ ان سے جنگ میں مدد لیتے تھے اور وہ زخمیوں کو مرہم لگایا کرتی تھیں اور انہیں غنیمت (کے مال) سے معمولی سا عطیہ دیا جاتا تھا، رہا (غنیمت کا باقاعدہ) حصہ تو وہ آپ نے ان کے لیے نہیں نکالا، اور یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے، لہذا تم بھی بچوں کو قتل نہ کیا کرو۔ اور تم نے مجھ سے دریافت کرنے کے لیے لکھا تھا: یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ مجھے اپنی عمر (کے مالک) کی قسم! کسی آدمی کی داڑھی نکل آتی ہے جبکہ ابھی وہ اپنے لیے حق لینے میں اور اپنی طرف سے حق دینے میں کمزور ہوتا ہے، جب وہ اپنے لیے ٹھیک طرح سے حقوق لے سکے جس طرح لوگ لیتے ہیں تو اس کی یتیمی ختم ہو جائے گی۔ اور تم نے مجھ سے خمس کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے لکھا تھا کہ وہ کس کا حق ہے؟ تو ہم کہتے تھے: وہ ہمارا حق ہے، لیکن ہماری قوم نے ہماری یہ بات ماننے سے انکار کر دیا
ابوبکر بن ابی شیبہ اور اسحاق بن ابراہیم دونوں نے ہمیں حاتم بن اسماعیل سے حدیث بیان کی، انہوں نے جعفر بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی کہ نجدہ نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو ان سے کچھ باتیں پوچھنے کے لیے خط لکھا۔۔۔ (آگے) سلیمان بن بلال کی حدیث کے مانند ہے، مگر حاتم کی حدیث میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا بچوں کو قتل نہیں کرتے تھے، لہذا تم بھی بچوں کو قتل نہ کرو، الا یہ کہ تمہیں بھی اسی طرح علم حاصل ہو جائے جس طرح خضر کو اس بچے کے بارے میں علم ہوا تھا جسے انہوں نے قتل کیا تھا۔ اسحاق نے حاتم سے روایت کردہ اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا: (الا یہ کہ) تم (بچوں میں سے) مومن کا امتیاز کر لو تو کافر کو قتل کر دینا اور مومن کو چھوڑ دینا (یہ دونوں باتیں کسی انسان کے بس میں نہیں جب تک اللہ تعالیٰ نہ بتائے
ہمیں ابن ابی عمر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے اسماعیل بن امیہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے سعید مقبری سے اور انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی، انہوں نے کہا: نجدہ بن عامر حروری نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا، وہ ان سے اس غلام اور عورت کے بارے میں پوچھ رہا تھا جو جنگ میں شریک ہوتے ہیں، کیا وہ غنیمت کی تقسیم میں (بھی) شریک ہوں گے؟ اور بچوں کے قتل کرنے کے بارے میں (پوچھا) اور یتیم کے بارے میں کہ اس سے یتیمی کب ختم ہوتی ہے اور ذوی القربیٰ کے بارے میں کہ وہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے یزید سے کہا: اس کی طرف لکھو اور اگر ڈر نہ ہوتا کہ وہ کسی حماقت میں پڑ جائے گا تو میں اس کی طرف جواب نہ لکھتا، (اسے) لکھو: تم نے مجھے اس عورت اور غلام کے بارے دریافت کرنے کے لیے خط لکھا تھا جو جنگ میں شریک ہوتے ہیں: کیا وہ غنیمت کی تقسیم میں شریک ہوں گے؟" حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں کے لیے کچھ نہیں ہے، الا یہ کہ انہیں کچھ عطیہ دے دیا جائے اور تم نے مجھ سے بچوں کو قتل کرنے کے بارے میں پوچھنے کے لیے لکھا تھا، بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں قتل نہیں کیا اور تم بھی انہیں قتل مت کرو، الا یہ کہ تمہیں ان بچوں کے بارے میں وہ بات معلوم ہو جائے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی (خضر) کو اس بچے کے بارے میں معلوم ہو گئی جسے انہوں نے قتل کیا تھا۔ اور تم نے مجھ سے یتیم کے بارے میں پوچھنے کے لیے لکھا تھا کہ اس سے یتیم کا لقب کب ختم ہو گا؟ تو حقیقت یہ ہے کہ اس سے یتیم کا لقب ختم نہیں ہوتا حتی کہ وہ بالغ ہو جائے اور اس کی بلوغت (سمجھداری کی عمر کو پہنچنے) کے بارے پتہ چلنے لگے۔ اور تم نے مجھ سے ذوی القربیٰ کے بارے میں پوچھنے کے لیے لکھا تھا کہ وہ کون ہیں؟ ہمارا خیال تھا کہ وہ ہم لوگ ہی ہیں۔ تو ہماری قوم نے ہماری یہ بات ماننے سے انکار کر دیا
عبدالرحمان بن بشر عبدی نے ہمیں یہی حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اسماعیل بن امیہ نے سعید بن ابی سعید سے حدیث بیان کی، انہوں نے یزید بن ہرمز سے روایت کی، انہوں نے کہا: نجدہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا۔۔۔ اور انہوں نے اسی (سابقہ حدیث) کے مانند حدیث بیان کی۔ ابواسحاق نے کہا: مجھے عبدالرحمان بن بشر نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سفیان نے پوری یہی حدیث بیان کی
قیس بن سعد نے مجھے یزید بن ہرمز سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: نجدہ بن عامر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا تو میں اس وقت، جب حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس کا خط پڑھا اور اس کا جواب لکھا، ان کے پاس حاضر تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! اگر یہ (خیال) نہ ہوتا کہ (غالبا) میں اسے کسی قبیح عمل میں پڑ جانے سے روک لوں گا تو اسے جواب نہ لکھتا، یہ اس کی آنکھوں کی خوشی کے لیے نہیں۔ کہا: تو انہوں نے اس کی طرف لکھا: تم نے ذوی القربیٰ کے حصے کے بارے میں پوچھا تھا، جس کا اللہ نے ذکر فرمایا ہے کہ وہ کون ہین؟ تو ہمارا خیال یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت دار ہمی لوگ ہیں (لیکن) ہماری قوم نے ہماری بات ماننے سے انکار کر دیا۔ اور تم نے یتیم کے بارے میں پوچھا تھا، اس کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟ تو جب وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائے، اس کے سمجھدار ہو جانے کا پتہ چلنے لگے اور اس کا مال اس کے حوالے کیا جا سکے تو اس سے یتیمی ختم ہو جائے گی۔ اور تم نے پوچھا تھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے بچوں میں سے کسی کو قتل کرتے تھے؟ تو بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کسی ایک کو بھی قتل نہیں کرتے تھے اور تم بھی ان میں سے کسی کو قتل مت کرنا، الا یہ کہ ان کے بارے میں تم کو بھی اسی بات کا علم ہو جائے جس کا اس بچے کے بارے میں خضر علیہ السلام کو علم ہوا جب انہوں نے اسے قتل کیا تھا۔ اور تم نے عورت اور غلام کے بارے میں پوچھا کہ جب وہ جنگ میں شریک ہوں تو کیا ان کو بھی مقررہ حصہ ملے گا؟ واقعہ یہ ہے کہ ان کا کوئی مقررہ حصہ نہیں، ہاں یہ کہ لوگوں کی غنیمتوں میں سے انہیں کچھ عطیہ دے دیا جائے
مختار بن صیفی نے یزید بن ہرمز سے روایت کی، انہوں نے کہا: نجدہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا۔۔۔ اور انہوں نے حدیث کا کچھ حصہ بیان کیا اور ان کی طرح پورا واقعہ بیان نہیں کیا جن کی احادیث ہم نے (اوپر) بیان کی ہیں
عبدالرحیم بن سلیمان نے ہمیں ہشام (بن حسان) سے حدیث بیان کی، انہوں نے حفصہ بنت سیرین سے اور انہوں نے حضرت ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شریک ہوئی، میں پیچھے ان کے خیموں میں رہتی تھی، ان کے لیے کھانا تیار کرتی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھی
یزید بن ہارون نے ہشام بن حسان سے اسی سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی
|