الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
48. باب النِّسَاءُ الْغَازِيَاتُ يُرْضَخُ لَهُنَّ وَلاَ يُسْهَمُ وَالنَّهْيُ عَنْ قَتْلِ صِبْيَانِ أَهْلِ الْحَرْبِ:
باب: جو عورتیں جہاد میں شریک ہوں ان کو انعام ملے گا اور حصہ نہیں ملے گا اور بچوں کو قتل کرنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 4684
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا سليمان يعني ابن بلال ، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن يزيد بن هرمز ، " ان نجدة كتب إلى ابن عباس يساله عن خمس خلال، فقال ابن عباس " لولا ان اكتم علما ما كتبت إليه كتب إليه، نجدة اما بعد، فاخبرني هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغزو بالنساء؟، وهل كان يضرب لهن بسهم؟، وهل كان يقتل الصبيان؟، ومتى ينقضي يتم اليتيم؟، وعن الخمس لمن هو؟، فكتب إليه ابن عباس، كتبت تسالني، هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يغزو بالنساء، وقد كان يغزو بهن فيداوين الجرحى ويحذين من الغنيمة، واما بسهم فلم يضرب لهن، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، لم يكن يقتل الصبيان، فلا تقتل الصبيان، وكتبت تسالني متى ينقضي يتم اليتيم، فلعمري إن الرجل لتنبت لحيته وإنه لضعيف الاخذ لنفسه ضعيف العطاء منها، فإذا اخذ لنفسه من صالح ما ياخذ الناس، فقد ذهب عنه اليتم، وكتبت تسالني عن الخمس لمن هو، وإنا كنا، نقول: هو لنا، فابى علينا قومنا ذاك "،حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، " أَنَّ نَجْدَةَ كَتَبَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ خَمْسِ خِلَالٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ " لَوْلَا أَنْ أَكْتُمَ عِلْمًا مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ كَتَبَ إِلَيْهِ، نَجْدَةُ أَمَّا بَعْدُ، فَأَخْبِرْنِي هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ؟، وَهَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ؟، وَهَلْ كَانَ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ؟، وَمَتَى يَنْقَضِي يُتْمُ الْيَتِيمِ؟، وَعَنِ الْخُمْسِ لِمَنْ هُوَ؟، فَكَتَبَ إِلَيْهِ ابْنُ عَبَّاسٍ، كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي، هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ، وَقَدْ كَانَ يَغْزُو بِهِنَّ فَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى وَيُحْذَيْنَ مِنَ الْغَنِيمَةِ، وَأَمَّا بِسَهْمٍ فَلَمْ يَضْرِبْ لَهُنَّ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ، فَلَا تَقْتُلِ الصِّبْيَانَ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي مَتَى يَنْقَضِي يُتْمُ الْيَتِيمِ، فَلَعَمْرِي إِنَّ الرَّجُلَ لَتَنْبُتُ لِحْيَتُهُ وَإِنَّهُ لَضَعِيفُ الْأَخْذِ لِنَفْسِهِ ضَعِيفُ الْعَطَاءِ مِنْهَا، فَإِذَا أَخَذَ لِنَفْسِهِ مِنْ صَالِحِ مَا يَأْخُذُ النَّاسُ، فَقَدْ ذَهَبَ عَنْهُ الْيُتْمُ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْخُمْسِ لِمَنْ هُوَ، وَإِنَّا كُنَّا، نَقُولُ: هُوَ لَنَا، فَأَبَى عَلَيْنَا قَوْمُنَا ذَاكَ "،
‏‏‏‏ یزید بن ہرمز سے روایت ہے، نجدہ (حروری خارجیوں کے سردار) نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا اور پانچ باتیں پوچھیں۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر علم کے چھپانے کی سزا نہ ہوتی تو میں اس کو جواب نہ لکھتا (کیونکہ وہ مردود خارجی بدعتیوں کا سردار تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مذمت میں فرمایا کہ وہ دین میں سے ایسا نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے) نجدہ نے یہ لکھا تھا بعد حمد و صلوٰۃ کے۔ تم بتلاؤ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں عورتوں کو ساتھ رکھتے تھے اور کیا ان کو کوئی حصہ دیتے تھے (غنیمت کے مال میں سے) اور کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو بھی مارتے تھےاور یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے اور خمس کس کا ہے؟سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب لکھا تو لکھ کر مجھ سے پوچھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں عورتوں کو ساتھ رکھتے تھے تو بے شک ساتھ رکھتے تھے، وہ دوا کرتی تھیں زخموں کی، اور ان کو کچھ انعام ملتا اور حصہ تو ان کا نہیں لگایا گیا (ابوحنیفہ، ثوری، لیث، شافعی اور جمہور علماء کا یہی قول ہے لیکن اوزاعی کے نزدیک عورت کا حصہ لگایا جائے گا اگر وہ لڑے یا زخمیوں کا علاج کرے۔ اور مالک کے نزدیک اس کو انعام بھی نہ ملے گا، اور یہ دونوں مذہب مردود ہیں اس حدیث صحیح سے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو (کافروں کے) نہیں مارتے تھے تو بھی بچوں کو مت مارنا (اس طرح عورتوں کو لیکن اگر بچے اور عورتیں لڑیں تو ان کا مارنا جائز ہے) اور تو نے لکھا، مجھ سے پوچھتا ہے کہ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے تو قسم میری عمر دینے والے کی بعض آدمی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی داڑھی نکل آتی ہے بر وہ نہ لینے کا شعور رکھتا ہے نہ دینے کا (وہ یتیم ہے یعنی اس کا حکم یتیموں کا سا ہے) پھر جب اپنے فائدے کے لیے وہ اچھی باتیں کرنے لگے جیسے کہ لوگ کرتے ہیں تو اس کی یتیمی جاتی رہی۔ اور تو نے لکھا مجھ سے پوچھتا ہے خمس کو کس کا ہے؟ تو ہم یہ کہتے تھے کہ خمس ہمارے لیے ہے، پر ہماری قوم نے نہ مانا۔
حدیث نمبر: 4685
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وإسحاق بن إبراهيم كلاهما، عن حاتم بن إسماعيل ، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن يزيد بن هرمز ، ان نجدة كتب إلى ابن عباس يساله، عن خلال بمثل حديث سليمان بن بلال غير ان في حديث حاتم، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يقتل الصبيان، فلا تقتل الصبيان إلا ان تكون تعلم ما علم الخضر من الصبي الذي قتل وزاد إسحاق في حديثه، عن حاتم وتميز المؤمن فتقتل الكافر وتدع المؤمن.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ كِلَاهُمَا، عَنْ حَاتِمِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، أَنَّ نَجْدَةَ كَتَبَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ، عَنْ خِلَالٍ بِمِثْلِ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ حَاتِمٍ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ، فَلَا تَقْتُلِ الصِّبْيَانَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تَعْلَمُ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنَ الصَّبِيِّ الَّذِي قَتَلَ وَزَادَ إِسْحَاقُ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ حَاتِمٍ وَتُمَيِّزَ الْمُؤْمِنَ فَتَقْتُلَ الْكَافِرَ وَتَدَعَ الْمُؤْمِنَ.
‏‏‏‏ یزید بن ہرمز سے روایت ہے، نجدہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا ان سے پوچھتا تھا کئی باتیں، بیان کیا حدیث کو اسی طرح، اس روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لڑکوں کو نہیں مارتے تھے تو بھی لڑکوں کو مت مار مگر تجھ کو ایسا علم ہو جیسے خضر علیہ السلام کو تھا جب انہوں نے ایک لڑکے کو مار ڈالا تھا۔ اسحاق کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ تو تمیز کرے مومن کی پھر قتل کرے کافر کو اور چھوڑ دے مومن کو(یعنی تو پہچان لے کہ کون سا بچہ بڑا ہو کر مومن ہو گا اور کون سا کافر اور یہ محال ہے اس لیے قتل بھی بچوں کا ناجائز ہے۔)
حدیث نمبر: 4686
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن إسماعيل بن امية ، عن سعيد المقبري ، عن يزيد بن هرمز ، قال: " كتب نجدة بن عامر الحروري إلى ابن عباس " يساله عن العبد والمراة يحضران المغنم، هل يقسم لهما؟، وعن قتل الولدان، وعن اليتيم متى ينقطع عنه اليتم؟، وعن ذوي القربى من هم؟، فقال ليزيد: اكتب إليه فلولا ان يقع في احموقة، ما كتبت إليه، اكتب إنك كتبت تسالني عن المراة والعبد يحضران المغنم هل يقسم لهما شيء؟، وإنه ليس لهما شيء إلا ان يحذيا، وكتبت تسالني عن قتل الولدان وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يقتلهم وانت فلا تقتلهم، إلا ان تعلم منهم ما علم صاحب موسى من الغلام الذي قتله، وكتبت تسالني عن اليتيم متى ينقطع عنه اسم اليتم؟، وإنه لا ينقطع عنه اسم اليتم حتى يبلغ ويؤنس منه رشد، وكتبت تسالني عن ذوي القربى من هم؟، وإنا زعمنا انا هم، فابى ذلك علينا قومنا "،وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: " كَتَبَ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ الْحَرُورِيُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ " يَسْأَلُهُ عَنِ الْعَبْدِ وَالْمَرْأَةِ يَحْضُرَانِ الْمَغْنَمَ، هَلْ يُقْسَمُ لَهُمَا؟، وَعَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ، وَعَنِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَطِعُ عَنْهُ الْيُتْمُ؟، وَعَنْ ذَوِي الْقُرْبَى مَنْ هُمْ؟، فَقَالَ لِيَزِيدَ: اكْتُبْ إِلَيْهِ فَلَوْلَا أَنْ يَقَعَ فِي أُحْمُوقَةٍ، مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ، اكْتُبْ إِنَّكَ كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ يَحْضُرَانِ الْمَغْنَمَ هَلْ يُقْسَمُ لَهُمَا شَيْءٌ؟، وَإِنَّهُ لَيْسَ لَهُمَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُحْذَيَا، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَقْتُلْهُمْ وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْهُمْ، إِلَّا أَنْ تَعْلَمَ مِنْهُمْ مَا عَلِمَ صَاحِبُ مُوسَى مِنَ الْغُلَامِ الَّذِي قَتَلَهُ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَطِعُ عَنْهُ اسْمُ الْيُتْمِ؟، وَإِنَّهُ لَا يَنْقَطِعُ عَنْهُ اسْمُ الْيُتْمِ حَتَّى يَبْلُغَ وَيُؤْنَسَ مِنْهُ رُشْدٌ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ ذَوِي الْقُرْبَى مَنْ هُمْ؟، وَإِنَّا زَعَمْنَا أَنَّا هُمْ، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا "،
‏‏‏‏ یزید بن ہرمز سے روایت ہے، نجدہ بن عامر حروری نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا، پوچھتا تھا ان سے کہ غلام اور عورت اگر جہاد میں شریک ہوں تو ان کو حصہ ملے گا یا نہیں اور بچوں کا قتل کیسا ہے اور بچوں کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے اور «‏‏‏‏ذوالقربيٰ» (جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے کہ پانچویں حصہ میں سے ان کو دیا جائے گا) کون ہیں؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یزید سے کہا تو لکھ جواب اس کو اور اگر وہ حماقت میں پڑنے والا نہ ہوتا تو میں اس کو نہ لکھتا (یعنی مجھ کو اس بات کا خیال ہے کہ اگر میں ان مسئلوں کا جواب اس کو نہ دوں تو وہ شرع کے خلاف حماقت کی بات نہ کر بیٹھے) لکھ یہ کہ تو نے مجھ کو لکھ کر پوچھا: عورت اور غلام کو حصہ ملے گا یا نہیں، جب وہ جہاد میں شریک ہوں؟ تو ان کو حصہ نہیں ملے گا البتہ انعام مل سکتا ہے (جتنا امام مناسب جانے۔ شافی رحمہ اللہ اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور جمہور علماء کا یہی قول ہے اور مالک رحمہ اللہ کے نزدیک غلام کو انعام بھی نہ ملے گا جیسے عورت کو، اور حسن اور ابن سیرین اور نخعی اور حکم رحمتہ اللہ علیہم کے نزدیک اگر غلام لڑے تو اس کو بھی حصہ دیں گے) اور تو نے لکھ کر پوچھا مجھ سے بچوں کے قتل کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو قتل نہیں کیا اور تو بھی مت کر مگر تجھے ایسا علم ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ (خضر علیہ السلام) کو تھا۔ اور تو نے لکھ کر پوچھا یتیم کو کہ اس کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے تو یتیم کا نام اس سے نہ جائے گا جب تک بالغ نہ ہو اور اس کو عقل نہ آئے۔ اور تو نے لکھ کر پوچھا ذوالقربیٰ کو۔ یہ ہم لوگ ہیں ہماری سمجھ میں پر ہماری قوم نے نہ مانا۔
حدیث نمبر: 4687
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثناه عبد الرحمن بن بشر العبدي ، حدثنا سفيان ، حدثنا إسماعيل بن امية ، عن سعيد بن ابي سعيد ، عن يزيد بن هرمز ، قال: كتب نجدة إلى ابن عباس وساق الحديث بمثله، قال ابو إسحاق، حدثني عبد الرحمن بن بشر ، حدثنا سفيان بهذا الحديث بطوله.وحَدَّثَنَاه عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِهِ، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِهَذَا الْحَدِيثِ بِطُولِهِ.
‏‏‏‏ ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حدیث نمبر: 4688
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا وهب بن جرير بن حازم ، حدثني ابي ، قال: سمعت قيسا يحدث، عن يزيد بن هرمز . ح وحدثني محمد بن حاتم واللفظ له، قال: حدثنا بهز ، حدثنا جرير بن حازم ، حدثني قيس بن سعد ، عن يزيد بن هرمز ، قال: كتب نجدة بن عامر إلى ابن عباس، قال: فشهدت ابن عباس حين قرا كتابه وحين كتب جوابه، وقال ابن عباس : والله لولا ان ارده عن نتن يقع فيه ما كتبت إليه ولا نعمة عين، قال: " فكتب إليه إنك سالت عن سهم ذي القربى الذي ذكر الله من هم؟، وإنا كنا نرى ان قرابة رسول الله صلى الله عليه وسلم هم نحن، فابى ذلك علينا قومنا، وسالت عن اليتيم متى ينقضي يتمه؟، وإنه إذا بلغ النكاح، واونس منه رشد ودفع إليه ماله فقد انقضى يتمه، وسالت هل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقتل من صبيان المشركين احدا؟، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يقتل منهم احدا وانت فلا تقتل منهم احدا، إلا ان تكون تعلم منهم ما علم الخضر من الغلام حين قتله، وسالت عن المراة والعبد هل كان لهما سهم معلوم إذا حضروا الباس؟، فإنهم لم يكن لهم سهم معلوم، إلا ان يحذيا من غنائم القوم "،حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسًا يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فَشَهِدْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ حِينَ قَرَأَ كِتَابَهُ وَحِينَ كَتَبَ جَوَابَهُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : وَاللَّهِ لَوْلَا أَنْ أَرُدَّهُ عَنْ نَتْنٍ يَقَعُ فِيهِ مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ وَلَا نُعْمَةَ عَيْنٍ، قَالَ: " فَكَتَبَ إِلَيْهِ إِنَّكَ سَأَلْتَ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ مَنْ هُمْ؟، وَإِنَّا كُنَّا نَرَى أَنَّ قَرَابَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمْ نَحْنُ، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا، وَسَأَلْتَ عَنِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَضِي يُتْمُهُ؟، وَإِنَّهُ إِذَا بَلَغَ النِّكَاحَ، وَأُونِسَ مِنْهُ رُشْدٌ وَدُفِعَ إِلَيْهِ مَالُهُ فَقَدِ انْقَضَى يُتْمُهُ، وَسَأَلْتَ هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْتُلُ مِنْ صِبْيَانِ الْمُشْرِكِينَ أَحَدًا؟، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ مِنْهُمْ أَحَدًا وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْ مِنْهُمْ أَحَدًا، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تَعْلَمُ مِنْهُمْ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنَ الْغُلَامِ حِينَ قَتَلَهُ، وَسَأَلْتَ عَنِ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ هَلْ كَانَ لَهُمَا سَهْمٌ مَعْلُومٌ إِذَا حَضَرُوا الْبَأْسَ؟، فَإِنَّهُمْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ سَهْمٌ مَعْلُومٌ، إِلَّا أَنْ يُحْذَيَا مِنْ غَنَائِمِ الْقَوْمِ "،
‏‏‏‏ یزید بن ہرمز سے روایت ہے نجدہ بن عامر نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا جب انہوں نے نجدہ کی کتاب پڑھی اور جب اس کا جواب لکھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: قسم اللہ کی اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ وہ نجاست میں گر جائے گا (یعنی حماقت کی بات کر بیٹھے گا) تو میں اس کو جواب نہ لکھتا اور اللہ کرے اس کی آنکھ کبھی ٹھنڈی نہ ہو (یعنی اس کو خوشی نصیب نہ ہو) پھر یہ لکھا، تو نے مجھ سے پوچھا ذوالقربیٰ کا حصہ جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے وہ کون ہیں؟ تو ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت والے ہم لوگ ہیں لیکن ہماری قوم نے نہ مانا۔ اور تو نے پوچھا: یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے تو جب وہ نکاح کے قابل ہو جائے اور اس کو عقل آ جائے اور اس کا مال اس کے سپرد ہو جائے اس کی یتیمی ختم ہو گئی اور تو نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کے بچوں کو مارتے تھے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کے کسی بچے کو نہیں مارتے تھے اور تو بھی مت مار۔ البتہ اگر تجھے اتنا علم ہو جیسے خضر علیہ السلام کو تھا اور جب انہوں نے لڑکے کو مارا تو خیر، اور تو نے پوچھا: عورت اور غلام کا کوئی حصہ لگے گا اگر وہ لڑائی میں شریک ہوں تو ان کو کوئی حصہ نہیں ملتا تھا مگر انعام کے طور پر غنیمت میں سے۔
حدیث نمبر: 4689
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني ابو كريب ، حدثنا ابو اسامة ، حدثنا زائدة ، حدثنا سليمان الاعمش ، عن المختار بن صيفي ، عن يزيد بن هرمز ، قال: كتب نجدة إلى ابن عباس ، فذكر بعض الحديث ولم يتم القصة كإتمام من ذكرنا حديثهم.وحَدَّثَنِي أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ ، عَنْ الْمُخْتَارِ بْنِ صَيْفِيٍّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ، فَذَكَرَ بَعْضَ الْحَدِيثِ وَلَمْ يُتِمَّ الْقِصَّةَ كَإِتْمَامِ مَنْ ذَكَرْنَا حَدِيثَهُمْ.
‏‏‏‏ یزید بن ہرمز بیان کرتے ہیں کہ نجدہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا اور پھر کچھ حدیث ذکر کی اور پورا قصہ ذکر نہیں کیا جس طرح دوسری حدیثوں میں ذکر کیا گیا ہے۔
حدیث نمبر: 4690
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا عبد الرحيم بن سليمان ، عن هشام ، عن حفصة بنت سيرين ، عن ام عطية الانصارية ، قالت: " غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم سبع غزوات: اخلفهم في رحالهم، فاصنع لهم الطعام واداوي الجرحى واقوم على المرضى "،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ الْأَنْصَارِيَّةِ ، قَالَتْ: " غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ: أَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ، فَأَصْنَعُ لَهُمُ الطَّعَامَ وَأُدَاوِي الْجَرْحَى وَأَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى "،
‏‏‏‏ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑائیوں میں رہی، میں مردوں کے ٹھہرنے کی جگہ میں رہتی اور ان کا کھانا پکاتی اور زخمیوں کی دوا کرتی اور بیماروں کی خدمت کرتی۔
حدیث نمبر: 4691
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا عمرو الناقد ، حدثنا يزيد بن هارون ، حدثنا هشام بن حسان بهذا الإسناد نحوه.وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
‏‏‏‏ ہشام بن حسان نے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.