الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كتاب التطوع کتاب: نوافل اور سنتوں کے احکام و مسائل 10. باب مَنْ رَخَّصَ فِيهِمَا إِذَا كَانَتِ الشَّمْسُ مُرْتَفِعَةً باب: ان لوگوں کی دلیل جنہوں نے سورج بلند ہو تو عصر کے بعد دو رکعت سنت پڑھنے کی اجازت دی ہے۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا، سوائے اس کے کہ سورج بلند ہو۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/المواقیت 36 (574)، (تحفة الأشراف: 10310)، وقد أخرجہ: (1/80، 81) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے سوائے فجر اور عصر کے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10138)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/124) (ضعیف)» (ابو اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے)
وضاحت: ۱؎: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر اور عصر کے بعد مسجد میں کوئی نماز سد باب کے لئے نہیں پڑھی، البتہ ظہر کے بعد کی سنت کی قضا آپ نے گھر میں کی ہے جیسا کہ حدیث گزر چکی ہے، علی رضی اللہ عنہ سے عصر کے بعد دو رکعت پڑھنا ثابت ہے، حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز سے منع کیا ہے، الا یہ کہ سورج اونچا ہو (یعنی زرد نہ ہوا ہو)۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے پاس کئی پسندیدہ لوگوں نے گواہی دی ہے، جن میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی تھے اور میرے نزدیک عمر رضی اللہ عنہ ان میں سب سے پسندیدہ شخص تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے کوئی نماز نہیں، اور نہ عصر کے بعد سورج ڈوبنے سے پہلے کوئی نماز ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت30 (581)، صحیح مسلم/المسافرین 51 (826)، سنن الترمذی/الصلاة 20 (183)، سنن النسائی/المواقیت 32 (563)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 147 (1250)، (تحفة الأشراف: 10492)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/ 18، 20، 21، 39)، سنن الدارمی/الصلاة 142 (1473) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عمرو بن عبسہ سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! رات کے کس حصے میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رات کے آخری حصے میں، اس وقت جتنی نماز چاہو پڑھو، اس لیے کہ ان میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور فجر پڑھنے تک (ثواب) لکھے جاتے ہیں، اس کے بعد سورج نکلنے تک رک جاؤ یہاں تک کہ وہ ایک یا دو نیزے کے برابر بلند ہو جائے، اس لیے کہ سورج شیطان کی دو سینگوں کے درمیان نکلتا ہے اور کافر (سورج کے پجاری) اس وقت اس کی پوجا کرتے ہیں، پھر تم جتنی نماز چاہو پڑھو، اس لیے کہ اس نماز میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور (ثواب) لکھے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب نیزے کا سایہ اس کے برابر ہو جائے تو ٹھہر جاؤ، اس لیے کہ اس وقت جہنم دہکائی جاتی ہے اور اس کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، پھر جب سورج ڈھل جائے تو تم جتنی نماز چاہو پڑھو، اس لیے کہ اس وقت بھی فرشتے حاضر ہوتے ہیں، یہاں تک کہ تم عصر پڑھ لو تو سورج ڈوبنے تک ٹھہر جاؤ، اس لیے کہ وہ شیطان کی دو سینگوں کے بیچ ڈوبتا ہے، اور کافر اس کی پوجا کرتے ہیں“، انہوں نے ایک لمبی حدیث بیان کی۔ عباس کہتے ہیں: ابوسلام نے اسی طرح مجھ سے ابوامامہ کے واسطہ سے بیان کیا ہے، البتہ نادانستہ مجھ سے جو بھول ہو گئی ہو تو اس کے لیے میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں اور اس کی طرف رجوع ہوتا ہوں۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الدعوات 119 (3579)، (تحفة الأشراف: 10758)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 52 (832)، سنن النسائی/المواقیت 39 (585)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 182 (1364)، مسند احمد (4/111، 114) (صحیح) دون قوله: ’’جوف الليل‘‘» ( «جوف اللیل» کا لفظ ثابت نہیں ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح م دون جملة جوف الليل
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے غلام یسار کہتے ہیں کہ مجھے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فجر طلوع ہونے کے بعد نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا: یسار! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکل کر آئے، اور ہم یہ نماز پڑھ رہے تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے موجود لوگ غیر حاضر لوگوں کو بتا دیں کہ فجر (طلوع) ہونے کے بعد فجر کی دو سنتوں کے علاوہ اور کوئی نماز نہ پڑھو۔“
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الصلاة 194 (419)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 18(235)، (تحفة الأشراف: 8570)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/23، 57، 104) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
اسود اور مسروق کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعت نہ پڑھتے رہے ہوں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المواقیت 33 (593)، والحج 74 (1633)، صحیح مسلم/المسافرین 54 (835)، سنن النسائی/المواقیت 35 (577)، (تحفة الأشراف: 1756، 16028)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/134، 176)، سنن الدارمی/الصلاة 143 (1474) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ وہی دو رکعتیں ہیں جن کا بیان حدیث نمبر (۱۲۷۳) میں گزرا، اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا پڑھنا اپنا معمول بنا لیا تھا، یہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ذکوان سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ نے ان سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خود تو) عصر کے بعد نماز پڑھتے تھے اور (دوسروں کو) اس سے منع فرماتے، اور پے در پے روزے بھی رکھتے تھے اور (دوسروں کو) مسلسل روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 16079) (ضعیف)» (ابن اسحاق مدلس ہیں اور یہاں عنعنہ سے روایت ہے)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
|