الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب
The Book of the Merits of the Companions
حدیث نمبر: 6289
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كريب ، حدثنا عبدة ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة : " ان الناس كانوا يتحرون بهداياهم يوم عائشة، يبتغون بذلك مرضاة رسول الله صلى الله عليه وسلم ".حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ : " أَنَّ النَّاسَ كَانُوا يَتَحَرَّوْنَ بِهَدَايَاهُمْ يَوْمَ عَائِشَةَ، يَبْتَغُونَ بِذَلِكَ مَرْضَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ لوگ اپنے ہدیے بھیجنے کے لئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا (کی باری) کا دن ڈھونڈا کرتے تھے، اس طرح وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرناچاہتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ لوگ اپنے تحفے تحائف دینے میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دن کا قصد کرتے تھے تاکہ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل ہو۔
حدیث نمبر: 6290
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني الحسن بن علي الحلواني ، وابو بكر بن النضر ، وعبد بن حميد ، قال: حدثني، وقال الآخران: حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد ، حدثني ابي ، عن صالح ، عن ابن شهاب ، اخبرني محمد بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: " ارسل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم فاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاستاذنت عليه وهو مضطجع معي في مرطي، فاذن لها، فقالت: يا رسول الله، إن ازواجك ارسلنني إليك يسالنك العدل في ابنة ابي قحافة، وانا ساكتة، قالت: فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: اي بنية الست تحبين ما احب، فقالت: بلى، قال: فاحبي هذه، قالت: فقامت فاطمة حين سمعت ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فرجعت إلى ازواج النبي صلى الله عليه وسلم، فاخبرتهن بالذي، قالت: وبالذي قال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلن لها: ما نراك اغنيت عنا من شيء، فارجعي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقولي له: إن ازواجك ينشدنك العدل في ابنة ابي قحافة، فقالت فاطمة: والله لا اكلمه فيها ابدا، قالت عائشة: فارسل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم زينب بنت جحش زوج النبي صلى الله عليه وسلم، وهي التي كانت تساميني منهن في المنزلة عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولم ار امراة قط خيرا في الدين من زينب، واتقى لله واصدق حديثا، واوصل للرحم، واعظم صدقة، واشد ابتذالا لنفسها في العمل الذي تصدق به، وتقرب به إلى الله تعالى ما عدا سورة من حدة، كانت فيها تسرع منها الفيئة، قالت: فاستاذنت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورسول الله صلى الله عليه وسلم مع عائشة في مرطها على الحالة التي دخلت فاطمة عليها وهو بها، فاذن لها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إن ازواجك ارسلنني إليك يسالنك العدل في ابنة ابي قحافة، قالت: ثم وقعت بي، فاستطالت علي، وانا ارقب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وارقب طرفه، هل ياذن لي فيها؟ قالت: فلم تبرح زينب حتى عرفت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يكره ان انتصر، قالت: فلما وقعت بها لم انشبها حتى انحيت عليها، قالت: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وتبسم إنها ابنة ابي بكر ".حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: " أَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَيْهِ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ مَعِي فِي مِرْطِي، فَأَذِنَ لَهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَزْوَاجَكَ أَرْسَلْنَنِي إِلَيْكَ يَسْأَلْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، وَأَنَا سَاكِتَةٌ، قَالَتْ: فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْ بُنَيَّةُ أَلَسْتِ تُحِبِّينَ مَا أُحِبُّ، فَقَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَأَحِبِّي هَذِهِ، قَالَتْ: فَقَامَتْ فَاطِمَةُ حِينَ سَمِعَتْ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَجَعَتْ إِلَى أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْهُنَّ بِالَّذِي، قَالَتْ: وَبِالَّذِي قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْنَ لَهَا: مَا نُرَاكِ أَغْنَيْتِ عَنَّا مِنْ شَيْءٍ، فَارْجِعِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُولِي لَهُ: إِنَّ أَزْوَاجَكَ يَنْشُدْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، فَقَالَتْ فَاطِمَةُ: وَاللَّهِ لَا أُكَلِّمُهُ فِيهَا أَبَدًا، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَرْسَلَ أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْهُنَّ فِي الْمَنْزِلَةِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ أَرَ امْرَأَةً قَطُّ خَيْرًا فِي الدِّينِ مِنْ زَيْنَبَ، وَأَتْقَى لِلَّهِ وَأَصْدَقَ حَدِيثًا، وَأَوْصَلَ لِلرَّحِمِ، وَأَعْظَمَ صَدَقَةً، وَأَشَدَّ ابْتِذَالًا لِنَفْسِهَا فِي الْعَمَلِ الَّذِي تَصَدَّقُ بِهِ، وَتَقَرَّبُ بِهِ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى مَا عَدَا سَوْرَةً مِنْ حِدَّةٍ، كَانَتْ فِيهَا تُسْرِعُ مِنْهَا الْفَيْئَةَ، قَالَتْ: فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَائِشَةَ فِي مِرْطِهَا عَلَى الْحَالَةِ الَّتِي دَخَلَتْ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا وَهُوَ بِهَا، فَأَذِنَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَزْوَاجَكَ أَرْسَلْنَنِي إِلَيْكَ يَسْأَلْنَكَ الْعَدْلَ فِي ابْنَةِ أَبِي قُحَافَةَ، قَالَتْ: ثُمَّ وَقَعَتْ بِي، فَاسْتَطَالَتْ عَلَيَّ، وَأَنَا أَرْقُبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَرْقُبُ طَرْفَهُ، هَلْ يَأْذَنُ لِي فِيهَا؟ قَالَتْ: فَلَمْ تَبْرَحْ زَيْنَبُ حَتَّى عَرَفْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَكْرَهُ أَنْ أَنْتَصِرَ، قَالَتْ: فَلَمَّا وَقَعْتُ بِهَا لَمْ أَنْشَبْهَا حَتَّى أَنْحَيْتُ عَلَيْهَا، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَتَبَسَّمَ إِنَّهَا ابْنَةُ أَبِي بَكْرٍ ".
صالح نے ابن شہاب سے روایت کی، کہا: مجھے محمد بن عبدالرحمان بن حارث بن ہشام نے بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ انہوں نے اجازت مانگی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ میری چادر میں لیٹے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ہے، وہ چاہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ابوقحافہ کی بیٹی میں انصاف کریں (یعنی جتنی محبت ان سے رکھتے ہیں اتنی ہی اوروں سے رکھیں۔ اور یہ امر اختیاری نہ تھا اور سب باتوں میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف کرتے تھے) اور میں خاموش تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بیٹی! کیا تو وہ نہیں چاہتی جو میں چاہوں؟ وہ بولیں کہ یا رسول اللہ! میں تو وہی چاہتی ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو عائشہ سے محبت رکھ۔ یہ سنتے ہی فاطمہ اٹھیں اور ازواج مطہرات کے پاس گئیں اور ان سے جا کر اپنا کہنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا بیان کیا۔ وہ کہنے لگیں کہ ہم سمجھتیں ہیں کہ تم ہمارے کچھ کام نہ آئیں، اس لئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں (ابوقحافہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے والد تھے تو عائشہ رضی اللہ عنہا کے دادا ہوئے اور دادا کی طرف نسبت دے سکتے ہیں)۔ سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو اب عائشہ رضی اللہ عنہا کے مقدمہ میں کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو نہ کروں گی۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور میرے برابر کے مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہی تھیں اور میں نے کوئی عورت ان سے زیادہ دیندار، اللہ سے ڈرنے والی، سچی بات کہنے والی، ناطہٰ جوڑنے والی اور خیرات کرنے والی نہیں دیکھی اور نہ ان سے بڑھ کر کوئی عورت اللہ تعالیٰ کے کام میں اور صدقہ میں اپنے نفس پر زور ڈالتی تھی، فقط ان میں ایک تیزی تھی (یعنی غصہ تھا) اس سے بھی وہ جلدی پھر جاتیں اور مل جاتیں اور نادم ہو جاتی تھیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حال میں اجازت دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری چادر میں تھے، جس حال میں سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا آئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں۔ پھر یہ کہہ کر مجھ پر آئیں اور زبان درازی کی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ کو دیکھ رہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں، یہاں تک کہ مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دینے سے برا نہیں مانیں گے، تب تو میں بھی ان پر آئی اور تھوڑی ہی دیر میں ان کو لاجواب کر دیا یا ان پر غالب آ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیٹی ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ؓن نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمۃالزہراء ؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا۔ انہوں نے اجازت مانگی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ میری چادر میں لیٹے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی تو انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ہے، وہ چاہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ابوقحافہ کی بیٹی میں انصاف کریں (یعنی جتنی محبت ان سے رکھتے ہیں اتنی ہی اوروں سے رکھیں۔ اور یہ امر اختیاری نہ تھا اور سب باتوں میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف کرتے تھے) اور میں خاموش تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بیٹی! کیا تو وہ نہیں چاہتی جو میں چاہوں؟ وہ بولیں کہ یا رسول اللہ! میں تو وہی چاہتی ہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو عائشہ سے محبت رکھ۔ یہ سنتے ہی فاطمہ اٹھیں اور ازواج مطہرات کے پاس گئیں اور ان سے جا کر اپنا کہنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا بیان کیا۔ وہ کہنے لگیں کہ ہم سمجھتیں ہیں کہ تم ہمارے کچھ کام نہ آئیں، اس لئے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور کہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں (ابوقحافہ سیدنا ابوبکر ؓ کے والد تھے تو عائشہ ؓ کے دادا ہوئے اور دادا کی طرف نسبت دے سکتے ہیں)۔ سیدہ فاطمۃالزہراء ؓ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں تو اب عائشہ ؓ کے مقدمہ میں کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو نہ کروں گی۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ ؓ نے کہا کہ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج نے ام المؤمنین زینب بنت جحش ؓ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا اور میرے برابر کے مرتبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے وہی تھیں اور میں نے کوئی عورت ان سے زیادہ دیندار، اللہ سے ڈرنے والی، سچی بات کہنے والی، ناطہٰ جوڑنے والی اور خیرات کرنے والی نہیں دیکھی اور نہ ان سے بڑھ کر کوئی عورت اللہ تعالیٰ کے کام میں اور صدقہ میں اپنے نفس پر زور ڈالتی تھی، فقط ان میں ایک تیزی تھی (یعنی غصہ تھا) اس سے بھی وہ جلدی پھر جاتیں اور مل جاتیں اور نادم ہو جاتی تھیں۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حال میں اجازت دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری چادر میں تھے، جس حال میں سیدہ فاطمۃالزہراء ؓ آئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ابوقحافہ کی بیٹی کے مقدمہ میں انصاف چاہتی ہیں۔ پھر یہ کہہ کر مجھ پر آئیں اور زبان درازی کی اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ کو دیکھ رہی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں، یہاں تک کہ مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دینے سے برا نہیں مانیں گے، تب تو میں بھی ان پر آئی اور تھوڑی ہی دیر میں ان کو لاجواب کر دیا یا ان پر غالب آ گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا کہ یہ ابوبکر ؓ کی بیٹی ہے۔(باپ کی وضاحت وعلم کی وارث ہے)
حدیث نمبر: 6291
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنيه محمد بن عبد الله بن قهزاذ ، قال عبد الله بن عثمان : حدثنيه، عن عبد الله بن المبارك ، عن يونس ، عن الزهري ، بهذا الإسناد مثله في المعنى، غير انه قال: فلما وقعت بها لم انشبها ان اثخنتها غلبة.وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُهْزَاذَ ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ : حَدَّثَنِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ فِي الْمَعْنَى، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَلَمَّا وَقَعْتُ بِهَا لَمْ أَنْشَبْهَا أَنْ أَثْخَنْتُهَا غَلَبَةً.
یونس نے زہری سے اسی سند کے ساتھ، معنی میں بالکل اسی کے مانند روایت کی، مگر انھوں نے یوں کہا: جب میں نے ان کے بارے میں بات کی تو انھیں مہلت تک نہ دی کہ میں نے غالب آکر ان کو بے بس کردیا۔
یہی روایت امام صاحب ایک اور استاد سے زہری ہی کی سند سے،اس کے ہم معنی بیان کرتے ہیں،صرف اتنا فرق ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں،جب میں اس پربرسی تو میں نے جلد ہی اسے غلبہ سے گھائل کردیا،یعنی ان کو چپ کرادیا۔
حدیث نمبر: 6292
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، قال: وجدت في كتابي، عن ابي اسامة ، عن هشام ، عن ابيه ، عن عائشة ، قالت: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ليتفقد، يقول: " اين انا اليوم، اين انا غدا، استبطاء ليوم عائشة، قالت: فلما كان يومي، قبضه الله بين سحري ونحري ".وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِي، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيَتَفَقَّدُ، يَقُولُ: " أَيْنَ أَنَا الْيَوْمَ، أَيْنَ أَنَا غَدًا، اسْتِبْطَاءً لِيَوْمِ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمِي، قَبَضَهُ اللَّهُ بَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي ".
عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بیماری کے دوران میں) دریافت کرتے فرماتے تھے: "آج میں کہاں ہوں؟کل میں کہاں ہوں گا؟"آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لگتا تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری کا دن آہی نہیں رہا۔انھوں نےکہا: جب میری باری کا دن آیاتو اللہ نے آپ کو اس طرح اپنے پاس بلایا کہ آپ میرے سینے اور حلق کے درمیان (سر رکھے ہوئے) تھے۔
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (میری باری کی)جستجو کرتے تھے،فرماتے،"میں آج کہاں ہوں گا؟میں کل کہاں ٹھہروں گا؟"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے دن میں تاخیر محسوس کرتے ہوئے وہ بیان کرتی ہیں تو جب میرا دن آگیا،اللہ نے آپ کو میرے پھیپڑوں اورحلق کے درمیان اپنے باس بلالیا۔
حدیث نمبر: 6293
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، عن مالك بن انس فيما قرئ عليه، عن هشام بن عروة ، عن عباد بن عبد الله بن الزبير ، عن عائشة ، انها اخبرته انها سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول قبل ان يموت وهو مسند إلى صدرها، واصغت إليه، وهو يقول: اللهم اغفر لي، وارحمني، والحقني بالرفيق ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ قَبْلَ أَنْ يَمُوتَ وَهُوَ مُسْنِدٌ إِلَى صَدْرِهَا، وَأَصْغَتْ إِلَيْهِ، وَهُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَارْحَمْنِي، وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ ".
مالک بن انس نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے عباد بن عبداللہ بن زبیر سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انھوں نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کوبتایا کہ انھوں نے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات سے پہلے فرمارہے تھے اور آپ ان کے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور انھوں نے کان لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی، آپ فرمارہے تھے: "اللہ!مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق (اعلیٰ) کے ساتھ ملادے۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وفات سے پہلے جبکہ وہ ان کے سینہ کا سہارا لیے ہوئے تھے،کچھ سنا اور میں نے کان دھراتو آپ فرمارہے تھے،"اے اللہ،مجھے معاف فر اور مجھ پر رحم فر اورمجھے ساتھیوں سے ملا۔"
حدیث نمبر: 6294
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب ، قالا: حدثنا ابو اسامة . ح وحدثنا ابن نمير ، حدثنا ابي . ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا عبدة بن سليمان كلهم، عن هشام ، بهذا الإسناد مثله.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ كُلُّهُمْ، عَنْ هِشَامٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
ابواسامہ، عبداللہ بن نمیر اورعبدہ بن سلیمان، سب نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی۔
امام صاحب اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے،ہشام ہی کے واسطہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 6295
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، واللفظ لابن المثنى، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سعد بن إبراهيم ، عن عروة ، عن عائشة ، قالت: " كنت اسمع انه لن يموت نبي حتى يخير بين الدنيا والآخرة، قالت: فسمعت النبي صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه، واخذته بحة يقول: مع الذين انعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين وحسن اولئك رفيقا سورة النساء آية 69، قالت: فظننته خير حينئذ ".وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَسْمَعُ أَنَّهُ لَنْ يَمُوتَ نَبِيٌّ حَتَّى يُخَيَّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، قَالَتْ: فَسَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَأَخَذَتْهُ بُحَّةٌ يَقُولُ: مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقًا سورة النساء آية 69، قَالَتْ: فَظَنَنْتُهُ خُيِّرَ حِينَئِذٍ ".
محمد بن جعفر نے کہا: ہمیں شعبہ نے سعد بن ابرا ہیم سے حدیث بیان کی، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، فرمایا: میں سناکرتی تھی۔کہ کوئی نبی فوت نہیں ہو تا یہاں تک کہ اس کو دنیا آخرت کے درمیان اختیار دیا جا تا ہے کہا: تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض الموت میں یہ فرماتے ہو ئے سنا۔اس وقت آپ کی آواز بھا ری ہو گئی تھی آپ فر ما رہے تھے: "ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعا لیٰ نے انعام فرمایا: "یعنی انبیاء، صدیقین شہداء اور صالحین (کے ساتھ) اور یہی بہترین رفیق ہیں۔"کہا: تو میں نے سمجھ لیا کہ اس وقت آپ کو اختیا ردے دیا گیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتی ہیں،میں سناکرتی تھی۔کہ کو ئی نبی فوت نہیں ہو تا یہاں تک کہ اس کو دنیا آخرت کے درمیان اختیار دیا جا تا ہے کہا: تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض الموت میں یہ فر تے ہو ئے سنا۔اس وقت آپ کی آواز بھا ری ہو گئی تھی آپ فر رہے تھے:"ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعا لیٰ نے انعام فر یا:"یعنی انبیاء،صدیقین شہداء اور صالحین (کے ساتھ) اور یہی بہترین رفیق ہیں۔(النساء آیت نمبر 69)"فرماتی ہیں تو میں نے سمجھ لیا کہ اس وقت آپ کو اختیا ردے دیا گیا ہے۔
حدیث نمبر: 6296
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثناه ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع . ح وحدثنا عبيد الله بن معاذ ، حدثنا ابي ، قالا: حدثنا شعبة ، عن سعد ، بهذا الإسناد مثله.وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
وکیع اور معاذ نے کہا: ہمیں شعبہ نےسعد (بنابرا ہیم) سے اسی سند کے ساتھ اسکے مانند روایت کی۔
یہی روایت امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ کی سندوں سے بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 6297
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني عبد الملك بن شعيب بن الليث بن سعد ، حدثني ابي ، عن جدي ، حدثني عقيل بن خالد ، قال: قال ابن شهاب : اخبرني سعيد بن المسيب ، وعروة بن الزبير ، في رجال من اهل العلم، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول وهو صحيح: إنه لم يقبض نبي قط حتى يرى مقعده في الجنة ثم يخير، قالت عائشة: فلما نزل برسول الله صلى الله عليه وسلم وراسه على فخذي غشي عليه ساعة، ثم افاق، فاشخص بصره إلى السقف، ثم قال: اللهم الرفيق الاعلى، قالت عائشة: قلت: إذا لا يختارنا، قالت عائشة: وعرفت الحديث الذي كان يحدثنا به وهو صحيح في قوله: " إنه لم يقبض نبي قط حتى يرى مقعده من الجنة ثم يخير، قالت عائشة: فكانت تلك آخر كلمة تكلم بها رسول الله صلى الله عليه وسلم، قوله: اللهم الرفيق الاعلى ".حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، في رجال من أهل العلم، أن عائشة زوج النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ وَهُوَ صَحِيحٌ: إِنَّهُ لَمْ يُقْبَضْ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّى يُرَى مَقْعَدُهُ فِي الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخَيَّرُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَمَّا نَزَلَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأْسُهُ عَلَى فَخِذِي غُشِيَ عَلَيْهِ سَاعَةً، ثُمَّ أَفَاقَ، فَأَشْخَصَ بَصَرَهُ إِلَى السَّقْفِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى، قَالَتْ عَائِشَةُ: قُلْتُ: إِذًا لَا يَخْتَارُنَا، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَعَرَفْتُ الْحَدِيثَ الَّذِي كَانَ يُحَدِّثُنَا بِهِ وَهُوَ صَحِيحٌ فِي قَوْلِهِ: " إِنَّهُ لَمْ يُقْبَضْ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّى يَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخَيَّرُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَكَانَتْ تِلْكَ آخِرُ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَوْلَهُ: اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى ".
ابن شہاب نے کہا: مجھے سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر نے بہت سے اہل علم لوگوں کی مو جو دگی میں خبردی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تندرستی کے زمانے میں فرما یا کرتے تھے۔"کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی جا تی۔یہاں تک کہ اسے جنت میں اپنا مقام دکھا دیا جا تا ہے، پھر اس کو اختیا ر دیا جا تا ہے۔"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کا وقت آیا اور اس وقت آپ کاسر میرے زانو پر تھا۔آپ کچھ دیر غشی طاری رہی پھر آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے چھت کی طرف نگا ہیں اٹھا ئیں، پھر فرمایا: " اے اللہ!رفیق اعلیٰ!"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے (دل میں)) کہا: اب آپ ہمیں نہیں چنیں گے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اور میں نے وہ حدیث پہچان لی جو آپ ہم سے بیان فرمایا کرتے تھے۔وہ آپ کےاپنے الفاظ میں بالکل صحیح تھی: کسی نبی کو اس وقت تک کبھی موت نہیں آئی یہاں تک کہ اسے جنت میں اس کا ٹھکا نا دکھایا جا تا ہے اور اسے (موت کو قبول کرنے یا مؤخرکرانے کا) اختیار دیا جا تا ہے۔"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فر ما ن: "اے اللہ!رفیق اعلیٰ!"وہ آخری بات تھی جو آپ نے کہی۔
امام زہری رحمۃ ا للہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر نے بہت سے اہل علم لوگوں کی مو جو دگی میں خبردی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تندرستی کے زمانے میں فر یا کرتے تھے۔"کسی نبی کی روح اس وقت تک قبض نہیں کی جا تی۔یہاں تک کہ اسے جنت میں اپنا مقام دکھا دیا جا تا ہے،پھر اس کو اختیا ر دیا جا تا ہے۔"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کا وقت آیا اور اس وقت آپ کاسر میرے زانو پر تھا۔آپ کچھ دیر غشی طاری رہی پھر آپ کو افاقہ ہوا تو آپ نے چھت کی طرف نگا ہیں اٹھا ئیں،پھر فر یا:" اے اللہ!رفیق اعلیٰ!"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: میں نے(دل میں)) کہا:اب آپ ہمیں نہیں چنیں گے۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فر یا:اور میں نے وہ حدیث پہچان لی جو آپ ہم سے بیان فر یا کرتے تھے۔وہ آپ کےاپنے الفاظ میں بالکل صحیح تھی:'کسی نبی کو اس وقت تک کبھی موت نہیں آئی یہاں تک کہ اسے جنت میں اس کا ٹھکا نا دکھایا جا تا ہے اور اسے (موت کو قبول کرنے یا مؤخرکرانے کا)اختیار دیا جا تا ہے۔"حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری بول جو آپ کی زبان پر آیا،یہ تھا،"اے اللہ!اوپر کاساتھی۔"
حدیث نمبر: 6298
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، وحدثنا عبد بن حميد كلاهما، عن ابي نعيم ، قال حدثنا ابو نعيم، حدثنا عبد الواحد بن ايمن ، حدثني ابن ابي مليكة ، عن القاسم بن محمد ، عن عائشة ، قالت: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا خرج اقرع بين نسائه، فطارت القرعة على عائشة، وحفصة، فخرجتا معه جميعا، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا كان بالليل سار مع عائشة يتحدث معها، فقالت: حفصة لعائشة: الا تركبين الليلة بعيري واركب بعيرك، فتنظرين وانظر، قالت: بلى، فركبت عائشة على بعير حفصة، وركبت حفصة على بعير عائشة، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى جمل عائشة وعليه حفصة، فسلم، ثم سار معها حتى نزلوا، فافتقدته عائشة فغارت، فلما نزلوا جعلت تجعل رجلها بين الإذخر، وتقول: يا رب سلط علي عقربا، او حية، تلدغني رسولك ولا استطيع ان اقول له شيئا ".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ ، قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ أَيْمَنَ ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَرَجَ أَقْرَعَ بَيْنَ نِسَائِهِ، فَطَارَتِ الْقُرْعَةُ عَلَى عَائِشَةَ، وَحَفْصَةَ، فَخَرَجَتَا مَعَهُ جَمِيعًا، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ بِاللَّيْلِ سَارَ مَعَ عَائِشَةَ يَتَحَدَّثُ مَعَهَا، فَقَالَتْ: حَفْصَةُ لِعَائِشَةَ: أَلَا تَرْكَبِينَ اللَّيْلَةَ بَعِيرِي وَأَرْكَبُ بَعِيرَكِ، فَتَنْظُرِينَ وَأَنْظُرُ، قَالَتْ: بَلَى، فَرَكِبَتْ عَائِشَةُ عَلَى بَعِيرِ حَفْصَةَ، وَرَكِبَتْ حَفْصَةُ عَلَى بَعِيرِ عَائِشَةَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى جَمَلِ عَائِشَةَ وَعَلَيْهِ حَفْصَةُ، فَسَلَّمَ، ثُمَّ سَارَ مَعَهَا حَتَّى نَزَلُوا، فَافْتَقَدَتْهُ عَائِشَةُ فَغَارَتْ، فَلَمَّا نَزَلُوا جَعَلَتْ تَجْعَلُ رِجْلَهَا بَيْنَ الْإِذْخِرِ، وَتَقُولُ: يَا رَبِّ سَلِّطْ عَلَيَّ عَقْرَبًا، أَوْ حَيَّةً، تَلْدَغُنِي رَسُولُكَ وَلَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقُولَ لَهُ شَيْئًا ".
قاسم بن محمد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے جا تے تو اپنی ازواج کے درمیان قرعہ اندازی کرتے، ایک مرتبہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کےنام قرعہ نکلا، وہ دونوں آپ کے ساتھ سفر پر نکلیں، جب را ت کا وقت ہو تا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ سفر کرتے اور ان کے ساتھ باتیں کرتے تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: آج رات تم میرے اونٹ پر کیوں نہیں سوار ہو جا تیں۔اور میں تمھا رے اونٹ پر سوار ہو جا تی ہوں، پھر تم بھی دیکھو اور میں بھی دیکھتی ہوں۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیوں نہیں!پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر سوار ہو گئیں اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اونٹ کے پاس آئے تو اس پر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا (سوار) تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور ان کے ساتھ چلتے رہے حتی کہ منزل پر اتر گئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس نہیں پا یا تو انھیں سخت رشک آیا، جب سب لوگ اترے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے پاؤں اذخر (کی گھاس) میں مار مارکر کہنے لگیں: یارب! مجھ پر کوئی بچھو یا سانپ مسلط کردے جو مجھے ڈس لے وہ تیرے رسول ہیں اور میں انھیں کچھ کہہ بھی نہیں سکتی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفرپر نکلتے تو اپنی ازواج کے درمیان قرعہ اندازی کرتے،ایک مرتبہ حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کےنام قرعہ نکلا،وہ دونوں آپ کے ساتھ سفر پر نکلیں،جب را ت کا وقت ہو تا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ سفر کرتے اور ان کے ساتھ باتیں کرتے تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کہا: آج رات تم میرے اونٹ پر کیوں نہیں سوار ہو جا تیں۔اور میں تمھا رے اونٹ پر سوار ہو جا تی ہوں، پھر تم بھی دیکھو اور میں بھی دیکھتی ہوں۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: کیوں نہیں!پھر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اونٹ پر سوار ہو گئیں اور حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے اونٹ کے پاس آئے تو اس پر حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (سوار)تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کیا اور ان کے ساتھ چلتے رہے حتی کہ منزل پر اتر گئے،حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس نہیں پا یا تو انھیں سخت رشک آیا،جب سب لوگ اترے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے پاؤں اذخر(کی گھاس) میں مار مارکر کہنے لگیں:یارب! مجھ پر کو ئی بچھو یا سانپ مسلط کردے جو مجھے ڈس لے وہ تیرے رسول ہیں اور میں انھیں کچھ کہہ بھی نہیں سکتی۔(کیونکہ اونٹوں کاتبادلہ خود ہی کیا تھا)

Previous    9    10    11    12    13    14    15    16    17    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.