الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
حدیث نمبر: 249
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) قال ابو عيسى: حدثنا ابو بكر محمد بن ابان، حدثنا عبد الله بن نمير، حدثنا العلاء بن صالح الاسدي، عن سلمة بن كهيل، عن حجر بن، عن وائل بن حجر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحو حديث سفيان، عن سلمة بن كهيل.(مرفوع) قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ صَالِحٍ الْأَسَدِيُّ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ حُجْرِ بْنِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَ حَدِيثِ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ.
اس سند سے بھی وائل حجر رضی الله عنہ سے سفیان کی (پچھلی) روایت جیسی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «مسند احمد (4/317)، وکذا الدارمي انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر الذي قبله (248)
73. باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ التَّأْمِينِ
73. باب: آمین کہنے کی فضیلت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Virtue Of At-Tamin
حدیث نمبر: 250
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب محمد بن العلاء، حدثنا زيد بن حباب، حدثني مالك بن انس، حدثنا الزهري، عن سعيد بن المسيب وابى سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا امن الإمام فامنوا، فإنه من وافق تامينه تامين الملائكة، غفر له ما تقدم من ذنبه ". قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ وَأَبى سلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أَمَّنَ الْإِمَامُ فَأَمِّنُوا، فَإِنَّهُ مَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب امام آمین کہے تو تم لوگ بھی آمین کہو۔ اس لیے کہ جس کی آمین فرشتوں کی آمین سے مل گئی تو اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 111 (780)، و113 (782)، وتفسیر (4475)، صحیح مسلم/الصلاة 18 (410)، سنن ابی داود/ الصلاة 172 (934)، سنن النسائی/الافتتاح 33 (926)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 14 (851)، (تحفة الأشراف: 13230، 15240)، موطا امام مالک/الصلاة 11 (46)، مسند احمد (2/238، 469)، سنن الدارمی/الصلاة 38 (1281) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (851)
74. باب مَا جَاءَ فِي السَّكْتَتَيْنِ فِي الصَّلاَةِ
74. باب: نماز کے دونوں سکتوں کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Two Pauses [During Salat]
حدیث نمبر: 251
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا عبد الاعلى، عن سعيد، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة، قال: " سكتتان حفظتهما عن رسول الله صلى الله عليه وسلم "، فانكر ذلك عمران بن حصين، وقال: حفظنا سكتة، فكتبنا إلى ابي بن كعب بالمدينة، فكتب ابي ان حفظ سمرة، قال سعيد: فقلنا لقتادة: ما هاتان السكتتان؟ قال: إذا دخل في صلاته، وإذا فرغ من القراءة، ثم قال بعد ذلك: وإذا قرا ولا الضالين سورة الفاتحة آية 7 قال: وكان يعجبه إذا فرغ من القراءة ان يسكت حتى يتراد إليه نفسه، قال: وفي الباب عن ابي هريرة، قال ابو عيسى: حديث سمرة حديث حسن، وهو قول غير واحد من اهل العلم، يستحبون للإمام ان يسكت بعدما يفتتح الصلاة وبعد الفراغ من القراءة، وبه يقول: احمد وإسحاق واصحابنا.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ: " سَكْتَتَانِ حَفِظْتُهُمَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، وَقَالَ: حَفِظْنَا سَكْتَةً، فَكَتَبْنَا إِلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ بِالْمَدِينَةِ، فَكَتَبَ أُبَيٌّ أَنْ حَفِظَ سَمُرَةُ، قَالَ سَعِيدٌ: فَقُلْنَا لِقَتَادَةَ: مَا هَاتَانِ السَّكْتَتَانِ؟ قَالَ: إِذَا دَخَلَ فِي صَلَاتِهِ، وَإِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ، ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِكَ: وَإِذَا قَرَأَ وَلا الضَّالِّينَ سورة الفاتحة آية 7 قَالَ: وَكَانَ يُعْجِبُهُ إِذَا فَرَغَ مِنَ الْقِرَاءَةِ أَنْ يَسْكُتَ حَتَّى يَتَرَادَّ إِلَيْهِ نَفَسُهُ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهُوَ قَوْلُ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، يَسْتَحِبُّونَ لِلْإِمَامِ أَنْ يَسْكُتَ بَعْدَمَا يَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَبَعْدَ الْفَرَاغِ مِنَ الْقِرَاءَةِ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ وَإِسْحَاق وَأَصْحَابُنَا.
سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (نماز میں) دو سکتے ہیں جنہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کیا ہے، اس پر عمران بن حصین رضی الله عنہ نے اس کا انکار کیا اور کہا: ہمیں تو ایک ہی سکتہ یاد ہے۔ چنانچہ (سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں) ہم نے مدینے میں ابی بن کعب رضی الله عنہ کو لکھا، تو انہوں نے لکھا کہ سمرہ نے (ٹھیک) یاد رکھا ہے۔ سعید بن ابی عروبہ کہتے ہیں: تو ہم نے قتادہ سے پوچھا: یہ دو سکتے کون کون سے ہیں؟ انہوں نے کہا: جب نماز میں داخل ہوتے (پہلا اس وقت) اور جب آپ قرأت سے فارغ ہوتے، پھر اس کے بعد کہا اور جب «ولا الضالين» کہتے ۱؎ اور آپ کو یہ بات اچھی لگتی تھی کہ جب آپ قرأت سے فارغ ہوں تو تھوڑی دیر چپ رہیں یہاں تک کہ سانس ٹھہر جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- سمرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی حدیث آئی ہے،
۳- اہل علم میں سے بہت سے لوگوں کا یہی قول ہے کہ وہ امام کے لیے نماز شروع کرنے کے بعد اور قرأت سے فارغ ہونے کے بعد (تھوڑی دیر) چپ رہنے کو مستحب جانتے ہیں۔ اور یہی احمد، اسحاق بن راہویہ اور ہمارے اصحاب بھی کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 123 (777، 778، 779، 780)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 12 (844، 845)، (تحفة الأشراف: 4589)، وکذا (4576، و4609)، مسند احمد (5/21) (ضعیف) (حسن بصری کے سمرہ سے حدیث عقیقہ کے سوا سماع میں اختلاف ہے، نیز ”حسن“ ”مدلس“ ہیں، اور یہاں پر نہ تو ”سماع“ کی صراحت ہے، نہ ہی تحدیث کی، اس پر مستزاد یہ کہ ”قتادہ“ بھی مدلس ہیں، اور ”عنعنہ“ سے روایت ہے)»

وضاحت:
۱؎: یعنی: پہلے تو قتادہ نے دوسرے سکتے کے بارے میں یہ کہا کہ وہ پوری قراءت سے فراغت کے بعد ہے، اور بعد میں کہا کہ وہ «‏ولا الضالين» کے بعد اور سورۃ کی قراءت سے پہلے ہے، یہ قتادہ کا اضطراب ہے، اس کی وجہ سے بھی یہ روایت ضعیف مانی جاتی ہے، حقیقت یہ ہے کہ دوسرا سکتہ پوری قراءت سے فراغت کے بعد اور رکوع سے پہلے اس روایت کی تائید کئی طرق سے ہوتی ہے، (دیکھئیے ضعیف ابی داود رقم ۱۳۵-۱۳۸) امام شوکانی نے: «حصل من مجموع الروايات ثلاث سكتات» کہہ کر تین سکتے بیان کیے ہیں اور تیسرے کے متعلق کہ جو سورۃ الفاتحہ، اس کے بعد والی قرأت اور رکوع سے پہلے ہو گا - «وهي أخف من الأولى والثانية-» یہ تیسرا سکتہ افتتاح صلاۃ کے فوراً بعد سورۃ الفاتحہ سے قبل والے پہلے سکتہ اور «‏ولا الضالين» کے بعد اگلی قرأت سے قبل والے دوسرے سکتہ سے بہت ہلکا ہو گا، یعنی مام کی سانس درست ہونے کے لیے بس (دیکھئیے: تحفۃ الأحوذی ۱/۲۱۳ طبع المکتبۃ الفاروقیۃ، ملتان، پاکستان)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (844 و 845) // ضعيف سنن ابن ماجة (180 و 181)، ضعيف أبي داود (163 /777)، الإرواء (505)، المشكاة (818) //
75. باب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلاَةِ
75. باب: نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Placing The Right Hand Over The Left During the Salat
حدیث نمبر: 252
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو الاحوص، عن سماك بن حرب، عن قبيصة بن هلب، عن ابيه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يؤمنا فياخذ شماله بيمينه "، قال: وفي الباب عن وائل بن حجر، وغطيف بن الحارث، وابن عباس، وابن مسعود، وسهل بن سعد، قال ابو عيسى: حديث هلب حديث حسن، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، ومن بعدهم يرون ان يضع الرجل يمينه على شماله في الصلاة، وراى بعضهم ان يضعهما فوق السرة، وراى بعضهم ان يضعهما تحت السرة، وكل ذلك واسع عندهم، واسم هلب: يزيد بن قنافة الطائي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَؤُمُّنَا فَيَأْخُذُ شِمَالَهُ بِيَمِينِهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وغُطَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ، وابْنِ عَبَّاسٍ، وابْنِ مَسْعُودٍ، وسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ هُلْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلَاةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ، وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ عِنْدَهُمْ، وَاسْمُ هُلْبٍ: يَزِيدُ بْنُ قُنَافَةَ الطَّائِيُّ.
ہلب طائی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری امامت کرتے تو بائیں ہاتھ کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ہلب رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں وائل بن حجر، غطیف بن حارث، ابن عباس، ابن مسعود اور سہیل بن سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ آدمی نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھے ۱؎، اور بعض کی رائے ہے کہ انہیں ناف کے اوپر رکھے اور بعض کی رائے ہے کہ ناف کے نیچے رکھے، ان کے نزدیک ان سب کی گنجائش ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة (809)، (تحفة الأشراف: 11735)، مسند احمد (5/226، 227) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس کے برعکس امام مالک سے جو ہاتھ چھوڑنے کا ذکر ہے وہ شاذ ہے صحیح نہیں، مؤطا امام مالک میں بھی ہاتھ باندھنے کی روایت موجود ہے شوافع، احناف اور حنابلہ سب اس بات پر متفق ہیں کہ نماز میں ہاتھ باندھنا ہی سنت ہے، اب رہا یہ مسئلہ کہ ہاتھ باندھے کہاں جائیں سینے پر یا زیر ناف؟ تو بعض حضرات زیر ناف باندھنے کے قائل ہیں مگر زیر ناف والی حدیث ضعیف ہے، بعض لوگ سینے پر باندھنے کے قائل ہیں ان کی دلیل وائل بن حجر رضی الله عنہ کی روایت «صلیت مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فوضع یدہ الیمنیٰ علی یدہ الیسریٰ علی صدرہ» ہے، اس روایت کی تخریج ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں کی ہے اور یہ ابن خزیمہ کی شرط کے مطابق ہے اور اس کی تائید ہلب الطائی کی روایت سے بھی ہوتی ہے جس کی تخریج امام احمد نے اپنی مسند میں ان الفاظ کے ساتھ کی ہے «رأیت رسول اللہ ینصرف عن یمینہ وعن یسارہ ورأیتہ یضع ہذہ علی صدرہ ووصف یحییٰ الیمنیٰ علی الیسریٰ فوق المفصل» (یزید بن قنافہ ہُلب الطائی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (سلام پھیرتے وقت) دیکھا کہ آپ (پہلے) دائیں جانب مڑتے اور پھر بائیں جانب، اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں بھی دیکھا کہ آپ اپنے ہاتھوں کو سینے پر رکھتے تھے، امام احمد بن حنبل کے استاذ یحییٰ بن سعید نے ہلب رضی الله عنہ کے اس بیان کی عملی وضاحت اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر جوڑ کے اوپر باندھ کر کی)۔ اس کے سارے رواۃ ثقہ ہیں اور اس کی سند متصل ہے (مسند احمد ۵/۲۲۶) اور وائل بن حجر کی روایت پر جو اعتراض کیا جاتا ہے کہ اس میں اضطراب ہے، ابن خزیمہ کی روایت میں «علی صدرہ» ہے، بزار کی روایت میں «عند صدرہ» ہے اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں «تحت السرۃ» ہے تو یہ اعتراض صحیح نہیں ہے، کیونکہ مجرد اختلاف سے اضطراب لازم نہیں آتا بلکہ اضطراب کے لیے شرط ہے کہ تمام وجوہ اختلاف برابر ہوں اور یہاں ایسا نہیں ہے ابن ابی شیبہ کی روایت میں «تحت السرۃ» کا جو لفظ ہے وہ مدرج ہے، اسے جان بوجھ کر بعض مطبع جات کی طرف سے اس روایت میں داخل کر دیا گیا ہے اور ابن خزیمہ کی روایت میں «علی صدرہ» اور بزار کی روایت «عند صدرہ» جو آیا ہے تو ان دونوں میں ابن خزیمہ والی روایت راجح ہے، کیونکہ ہلب طائی رضی الله عنہ کی روایت اس کے لیے شاہد ہے، اور طاؤس کی ایک مرسل روایت بھی اس کی تائید میں ہے اس کے برعکس بزار کی حدیث کی کوئی شاہد روایت نہیں۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (809)
76. باب مَا جَاءَ فِي التَّكْبِيرِ عِنْدَ الرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ
76. باب: رکوع اور سجدہ جاتے وقت اللہ اکبر کہنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Takbir For The Bowing And Prostration Positions
حدیث نمبر: 253
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو الاحوص، عن ابي إسحاق، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن علقمة، والاسود، عن عبد الله بن مسعود، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يكبر في كل خفض ورفع وقيام وقعود "، وابو بكر، وعمر. قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وانس، وابن عمر، وابي مالك الاشعري , وابي موسى , وعمران بن حصين , ووائل بن حجر , وابن عباس، قال ابو عيسى: حديث عبد الله بن مسعود حديث حسن صحيح، والعمل عليه عند اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم ابو بكر , وعمر، وعثمان , وعلي وغيرهم ومن بعدهم من التابعين وعليه عامة الفقهاء والعلماء.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يُكَبِّرُ فِي كُلِّ خَفْضٍ وَرَفْعٍ وَقِيَامٍ وَقُعُودٍ "، وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وأَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ , وَأَبِي مُوسَى , وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ , ووَائِلِ بْنِ حُجْرٍ , وَابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ , وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ , وَعَلِيٌّ وَغَيْرُهُمْ وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ وَعَلَيْهِ عَامَّةُ الْفُقَهَاءِ وَالْعُلَمَاءِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر جھکنے، اٹھنے، کھڑے ہونے اور بیٹھنے کے وقت اللہ اکبر کہتے ۱؎ اور ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما بھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ، انس، ابن عمر، ابو مالک اشعری، ابوموسیٰ، عمران بن حصین، وائل بن حجر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام کا جن میں ابوبکر، عمر، عثمان علی رضی الله عنہم وغیرہ شامل ہیں اور ان کے بعد کے تابعین کا عمل اسی پر ہے اور اسی پر اکثر فقہاء و علماء کا عمل بھی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/التطبیق 34 (1084)، و83 (1143)، و90 (1150)، وفی السہو70 (1320)، (تحفة الأشراف: 9174) وکذا (9470)، مسند احمد (1/486، 442، 443)، سنن الدارمی/الصلاة 40 (1283م) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس طرح دو رکعت والی نماز میں کل گیارہ تکبیریں اور چار رکعت والی نماز میں ۲۲ تکبیریں ہوئیں اور پانچوں فرض نمازوں میں کل ۹۴ تکبیریں ہوئیں، واضح رہے کہ رکوع سے اٹھتے وقت آپ «سمع الله لمن حمده‏» کہتے تھے، اس لیے اس حدیث کے عموم سے یہ مستثنیٰ ہے، ان تکبیرات میں سے صرف تکبیر تحریمہ فرض ہے باقی سب سنت ہیں اگر وہ کسی سے چھوٹ جائیں تو نماز ہو جائے گی البتہ فضیلت اور سنت کی موافقت اس سے فوت ہو جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (330)
77. باب مِنْهُ آخَرُ
77. باب: رکوع اور سجود کے وقت ”اللہ اکبر“ کہنے سے متعلق ایک اور باب۔
Chapter: Something Else
حدیث نمبر: 254
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن منير المروزي، قال: سمعت علي بن الحسن، قال: اخبرنا عبد الله بن المبارك، عن ابن جريج، عن الزهري، عن ابي بكر بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان " يكبر وهو يهوي ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وهو قول اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ومن بعدهم من التابعين، قالوا: يكبر الرجل وهو يهوي للركوع والسجود.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ الْمَرْوَزِيُّ، قَال: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْحَسَنِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يُكَبِّرُ وَهُوَ يَهْوِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ مِنَ التَّابِعِينَ، قَالُوا: يُكَبِّرُ الرَّجُلُ وَهُوَ يَهْوِي لِلرُّكُوعِ وَالسُّجُودِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جھکتے وقت «الله أكبر» کہتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے تابعین میں سے اہل علم کا قول یہی ہے کہ رکوع اور سجدہ کے لیے جھکتے ہوئے آدمی «الله أكبر» کہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14868) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (331)
78. باب مَا جَاءَ فِي رَفْعِ الْيَدَيْنِ عِنْدَ الرُّكُوعِ
78. باب: رکوع کے وقت دونوں ہاتھ اٹھانے (رفع یدین) کا بیان۔
Chapter: Raising The Hands For the Bowing Position
حدیث نمبر: 255
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، وابن ابي عمر، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم " إذا افتتح الصلاة يرفع يديه حتى يحاذي منكبيه وإذا ركع وإذا رفع راسه من الركوع " وزاد ابن ابي عمر في حديثه، وكان " لا يرفع بين السجدتين ".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِيَ مَنْكِبَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ " وَزَادَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ فِي حَدِيثِهِ، وَكَانَ " لَا يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ نماز شروع کرتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ انہیں اپنے دونوں کندھوں کے بالمقابل کرتے، اور جب رکوع کرتے اور رکوع سے اپنا سر اٹھاتے (تو بھی اسی طرح دونوں ہاتھ اٹھاتے) ۱؎۔ ابن ابی عمر (ترمذی کے دوسرے استاذ) نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے، دونوں سجدوں کے درمیان نہیں اٹھاتے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 83 (735)، و84 (736)، و85 (738)، و86 (739)، صحیح مسلم/الصلاة 9 (390)، سنن ابی داود/ الصلاة 116 (771)، سنن النسائی/الافتتاح 1 (877، 878، 879)، و86 (1026)، والتطبیق 19 (1058)، و21 (1060)، و37 (1089)، و85 (1155)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 15 (858)، (تحفة الأشراف: 6816)، موطا امام مالک/الصلاة 4 (16)، مسند احمد (2/8، 18، 44، 45، 47، 63، 100، 147)، سنن الدارمی/الصلاة 41 (1485)، و71 (1347) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تکبیر تحریمہ کے وقت، رکوع جاتے ہوئے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین مسنون ہے اور بعض حدیثوں سے تیسری رکعت کے لیے کھڑے ہوتے وقت بھی رفع یدین کرنا ثابت ہے، صحابہ کرام اور تابعین عظام میں زیادہ تر لوگوں کا اسی پر عمل ہے، خلفاء راشدین اور عشرہ مبشرہ سے بھی رفع یدین ثابت ہے، جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رفع یدین کی حدیثیں منسوخ ہیں وہ صحیح نہیں کیونکہ رفع یدین کی حدیثیں ایسے صحابہ سے بھی مروی ہیں جو آخر میں اسلام لائے تھے مثلاً وائل بن حجر ہیں جو غزوہ تبوک کے بعد ۹ ھ میں داخل اسلام ہوئے ہیں، اور یہ اپنے اسلام لانے کے دوسرے سال جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو وہ سخت سردی کا زمانہ تھا انہوں نے صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ کپڑوں کے نیچے سے رفع یدین کرتے تھے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (858)
حدیث نمبر: 256
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) قال ابو عيسى: حدثنا الفضل بن الصباح البغدادي، حدثنا سفيان بن عيينة، حدثنا الزهري بهذا الإسناد، نحو حديث ابن ابي عمر. قال: وفي الباب عن عمر، وعلي، ووائل بن حجر، ومالك بن الحويرث، وانس، وابي هريرة، وابي حميد، وابي اسيد، وسهل بن سعد، ومحمد بن مسلمة، وابي قتادة، وابي موسى الاشعري، وجابر، وعمير الليثي. قال ابو عيسى: حديث ابن عمر حديث حسن صحيح، وبهذا يقول بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم ابن عمر , وجابر بن عبد الله , وابو هريرة , وانس وابن عباس , وعبد الله بن الزبير وغيرهم، ومن التابعين الحسن البصري , وعطاء , وطاوس , ومجاهد , ونافع , وسالم بن عبد الله , وسعيد بن جبير وغيرهم، وبه يقول: مالك , ومعمر , والاوزاعي , وابن عيينة , وعبد الله بن المبارك , والشافعي , واحمد , وإسحاق، وقال عبد الله بن المبارك: قد ثبت حديث من يرفع يديه، وذكر حديث الزهري، عن سالم، عن ابيه، ولم يثبت حديث ابن مسعود ان النبي صلى الله عليه وسلم " لم يرفع يديه إلا في اول مرة، حدثنا بذلك احمد بن عبدة الآملي، حدثنا وهب بن زمعة، عن سفيان بن عبد الملك، عن عبد الله بن المبارك، قال: وحدثنا يحيى بن موسى، قال: حدثنا إسماعيل بن ابي اويس، قال: كان مالك بن انس يرى رفع اليدين في الصلاة، وقال يحيى، وحدثنا عبد الرزاق، قال: كان معمر يرى رفع اليدين في الصلاة وسمعت الجارود بن معاذ، يقول: كان سفيان بن عيينة , وعمر بن هارون , والنضر بن شميل يرفعون ايديهم إذا افتتحوا الصلاة وإذا ركعوا وإذا رفعوا رءوسهم.(مرفوع) قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي عُمَرَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، وَمَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ، وَأَنَسٍ، وأبي هريرةَ، وأبي حُمْيدٍ، وَأبي أُسَيْدٍ، وسَهْلِ بن سعدٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، وأبي قتادةَ، وَأبي موسى الأشعري، وجابرِ، وعُمَيْرٍ اللَّيْثِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَبِهَذَا يَقُولُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ ابْنُ عُمَرَ , وَجَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , وَأَبُو هُرَيْرَةَ , وَأَنَسٌ وَابْنُ عَبَّاسٍ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ وَغَيْرُهُمْ، وَمِنَ التَّابِعِينَ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ , وَعَطَاءٌ , وَطَاوُسٌ , وَمُجَاهِدٌ , وَنَافِعٌ , وَسَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , وَسَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ وَغَيْرُهُمْ، وَبِهِ يَقُولُ: مَالِكٌ , وَمَعْمَرٌ , وَالْأَوْزَاعِيُّ , وَابْنُ عُيَيْنَةَ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ , وَالشَّافِعِيُّ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق، وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ: قَدْ ثَبَتَ حَدِيثُ مَنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ، وَذَكَرَ حَدِيثَ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الْآمُلِيُّ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ زَمْعَةَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: كَانَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ يَرَى رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ، وقَالَ يَحْيَى، وَحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: كَانَ مَعْمَرٌ يَرَى رَفْعَ الْيَدَيْنِ فِي الصَّلَاةِ وسَمِعْت الْجَارُودَ بْنَ مُعَاذٍ، يَقُولُ: كَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , وَعُمَرُ بْنُ هَارُونَ , وَالنَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ يَرْفَعُونَ أَيْدِيَهُمْ إِذَا افْتَتَحُوا الصَّلَاةَ وَإِذَا رَكَعُوا وَإِذَا رَفَعُوا رُءُوسَهُمْ.
‏‏‏‏ امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر، علی، وائل بن حجر، مالک بن حویرث، انس، ابوہریرہ، ابوحمید، ابواسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ، ابوقتادۃ، ابوموسیٰ اشعری، جابر اور عمیر لیثی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- یہی صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمر، جابر بن عبداللہ، ابوہریرہ، انس، ابن عباس، عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہم وغیرہ شامل ہیں اور تابعین میں سے حسن بصری، عطاء، طاؤس، مجاہد، نافع، سالم بن عبداللہ، سعید بن جبیر وغیرہ کہتے ہیں، اور یہی مالک، معمر، اوزاعی، ابن عیینہ، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں،
۴- عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں: جو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے ہیں ان کی حدیث (دلیل) صحیح ہے، پھر انہوں نے بطریق زہری روایت کی ہے،
۵- اور ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے والی ثابت نہیں ہے،
۶- مالک بن انس نماز میں رفع یدین کو صحیح سمجھتے تھے،
۷- عبدالرزاق کا بیان ہے کہ معمر بھی نماز میں رفع یدین کو صحیح سمجھتے تھے،
۸- اور میں نے جارود بن معاذ کو کہتے سنا کہ سفیان بن عیینہ، عمر بن ہارون اور نضر بن شمیل اپنے ہاتھ اٹھاتے جب نماز شروع کرتے اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر ما قبله (255)
79. باب مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلاَّ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ
79. باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم صرف پہلی مرتبہ ہاتھ اٹھاتے تھے۔
Chapter: What Has Been Related That The Prophet (saws) Would Not Raise His Hands Except For The First Time
حدیث نمبر: 257
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن عاصم بن كليب، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن علقمة، قال: قال عبد الله بن مسعود: " الا اصلي بكم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى فلم يرفع يديه إلا في اول مرة ". قال: وفي الباب عن البراء بن عازب، قال ابو عيسى: حديث ابن مسعود حديث حسن، وبه يقول: غير واحد من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، وهو قول سفيان الثوري واهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَبِهِ يَقُولُ: غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
علقمہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ نے کہا: کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نماز نہ پڑھاؤں؟ تو انہوں نے نماز پڑھائی اور صرف پہلی مرتبہ اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں براء بن عازب رضی الله عنہما سے بھی حدیث آئی ہے،
۳- صحابہ کرام اور تابعین میں سے بہت سے اہل علم یہی کہتے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 119 (748)، سنن النسائی/الافتتاح 87 (1027)، والتطبیق 20 (1059)، (تحفة الأشراف: 9468)، مسند احمد (1/388، 442) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جو لوگ رفع یدین کی مشروعیت کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں انہوں نے اسی روایت سے استدلال کیا ہے، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے، امام احمد اور امام بخاری نے عاصم بن کلیب کی وجہ سے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے، اور اگر اسے صحیح مان بھی لیا جائے تو یہ ان روایتوں کے معارض نہیں جن سے رکوع جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا اثبات ہوتا ہے، اس لیے کہ رفع یدین مستحب ہے فرض یا واجب نہیں، دوسرے یہ کہ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے اسے نہ کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اوروں کی روایت غلط ہو، عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے بہت سے مسائل مخفی رہ گئے تھے، ہو سکتا ہے یہ بھی انہیں میں سے ہو جیسے جنبی کے تیمم کا مسئلہ ہے یا (رکوع کے درمیان دونوں ہاتھوں کی) تطبیق کی منسوخی کا معاملہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح صفة الصلاة - الأصل، المشكاة (809)
80. باب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَدَيْنِ عَلَى الرُّكْبَتَيْنِ فِي الرُّكُوعِ
80. باب: رکوع میں دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Placing the Hands On The Knees While Bowing
حدیث نمبر: 258
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا احمد بن منيع، حدثنا ابو بكر بن عياش، حدثنا ابو حصين، عن ابي عبد الرحمن السلمي، قال: قال لنا عمر بن الخطاب رضي الله عنه: " إن الركب سنت لكم فخذوا بالركب "، قال: وفي الباب عن سعد , وانس، وابي حميد، وابي اسيد، وسهل بن سعد، ومحمد بن مسلمة، وابي مسعود، قال ابو عيسى: حديث عمر حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، ومن بعدهم لا اختلاف بينهم في ذلك، إلا ما روي عن ابن مسعود وبعض اصحابه، انهم كانوا يطبقون والتطبيق منسوخ عند اهل العلم.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا أَبُو حَصِينٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ لَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: " إِنَّ الرُّكَبَ سُنَّتْ لَكُمْ فَخُذُوا بِالرُّكَبِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ , وَأَنَسٍ، وَأَبِي حُمَيْدٍ، وَأَبِي أُسَيْدٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، وَأَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ لَا اخْتِلَافَ بَيْنَهُمْ فِي ذَلِكَ، إِلَّا مَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَبَعْضِ أَصْحَابِهِ، أَنَّهُمْ كَانُوا يُطَبِّقُونَ وَالتَّطْبِيقُ مَنْسُوخٌ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ ہم سے عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: گھٹنوں کو پکڑنا تمہارے لیے مسنون کیا گیا ہے، لہٰذا تم (رکوع میں) گھٹنے پکڑے رکھو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سعد، انس، ابواسید، سہل بن سعد، محمد بن مسلمہ اور ابومسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام، تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس سلسلے میں ان کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ سوائے اس کے جو ابن مسعود اور ان کے بعض شاگردوں سے مروی ہے کہ وہ لوگ تطبیق ۱؎ کرتے تھے، اور تطبیق اہل علم کے نزدیک منسوخ ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/التطبیق 2 (1035)، (تحفة الأشراف: 10482) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر انہیں دونوں رانوں کے درمیان کر لینے کو تطبیق کہتے ہیں، یہ حکم شروع اسلام میں تھا پھر منسوخ ہو گیا اور عبداللہ بن مسعود کو اس کی منسوخی کا علم نہیں ہو سکا تھا، اس لیے وہ تاحیات تطبیق کرتے کراتے رہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

Previous    7    8    9    10    11    12    13    14    15    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.