الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Book on Marriage
32. باب مَا جَاءَ فِي الشَّرْطِ عِنْدَ عُقْدَةِ النِّكَاحِ
32. باب: عقد نکاح کے وقت شرط لگانے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Conditions When Contracting A Marriage
حدیث نمبر: 1127
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا يوسف بن عيسى، حدثنا وكيع، حدثنا عبد الحميد بن جعفر، عن يزيد بن ابي حبيب، عن مرثد بن عبد الله اليزني ابي الخير، عن عقبة بن عامر الجهني، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن احق الشروط ان يوفى بها ما استحللتم به الفروج ". حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى، حدثنا يحيى بن سعيد، عن عبد الحميد بن جعفر نحوه. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، منهم عمر بن الخطاب، قال: إذا تزوج رجل امراة وشرط لها ان لا يخرجها من مصرها فليس له ان يخرجها، وهو قول: بعض اهل العلم، وبه يقول: الشافعي، واحمد، وإسحاق، وروي عن علي بن ابي طالب، انه قال: شرط الله قبل شرطها كانه راى للزوج ان يخرجها وإن كانت اشترطت على زوجها ان لا يخرجها، وذهب بعض اهل العلم إلى هذا، وهو قول: سفيان الثوري، وبعض اهل الكوفة.(مرفوع) حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَرْثَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْيَزَنِيِّ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَحَقَّ الشُّرُوطِ أَنْ يُوفَى بِهَا مَا اسْتَحْلَلْتُمْ بِهِ الْفُرُوجَ ". حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: إِذَا تَزَوَّجَ رَجُلٌ امْرَأَةً وَشَرَطَ لَهَا أَنْ لَا يُخْرِجَهَا مِنْ مِصْرِهَا فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُخْرِجَهَا، وَهُوَ قَوْلُ: بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ: الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَرُوِي عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهُ قَالَ: شَرْطُ اللَّهِ قَبْلَ شَرْطِهَا كَأَنَّهُ رَأَى لِلزَّوْجِ أَنْ يُخْرِجَهَا وَإِنْ كَانَتِ اشْتَرَطَتْ عَلَى زَوْجِهَا أَنْ لَا يُخْرِجَهَا، وَذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَبَعْضِ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
عقبہ بن عامر جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے زیادہ پوری کیے جانے کی مستحق وہ شرطیں ہیں جن کے ذریعے تم نے شرمگاہیں حلال کی ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ انہیں میں عمر بن خطاب بھی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب کسی شخص نے کسی عورت سے شادی کی اور یہ شرط لگائی کہ وہ اسے اس کے شہر سے باہر نہیں لے جائے گا تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اسے باہر لے جائے، یہی بعض اہل علم کا قول ہے۔ اور شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں،
۳- البتہ علی بن ابی طالب سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کی شرط یعنی اللہ کا حکم عورت کی شرط پر مقدم ہے، گویا ان کی نظر میں شوہر کے لیے اسے اس کے شہر سے باہر لے جانا درست ہے اگرچہ اس نے اپنے شوہر سے اسے باہر نہ لے جانے کی شرط لگا رکھی ہو، اور بعض اہل علم اس جانب گئے ہیں اور یہی سفیان ثوری اور بعض اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشروط 6 (2721)، والنکاح 53 (5151)، صحیح مسلم/النکاح 8 (1418)، سنن ابی داود/ النکاح 40 (2139)، سنن النسائی/النکاح 42 (3281)، سنن ابن ماجہ/النکاح 41 (1954)، (تحفة الأشراف: 9953)، مسند احمد (4/144، 150، 152)، سنن الدارمی/النکاح 21 (2249) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1954)
33. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُسْلِمُ وَعِنْدَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ
33. باب: اگر کوئی مسلمان ہو جائے اور اس کے عقد میں دس بیویاں ہوں تو وہ کیا کرے؟
Chapter: What Has Been Related About A Man Who Accepted Islam While Having Ten Wives
حدیث نمبر: 1128
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة، عن سعيد بن ابي عروبة، عن معمر، عن الزهري، عن سالم بن عبد الله، عن ابن عمر، ان غيلان بن سلمة الثقفي اسلم، وله عشر نسوة في الجاهلية فاسلمن معه، " فامره النبي صلى الله عليه وسلم ان يتخير اربعا منهن ". قال ابو عيسى: هكذا رواه معمر، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، قال: وسمعت محمد بن إسماعيل، يقول: هذا حديث غير محفوظ، والصحيح ما روى شعيب بن ابي حمزة وغيره، عن الزهري، قال: حدثت عن محمد بن سويد الثقفي، ان غيلان بن سلمة اسلم، وعنده عشر نسوة، قال محمد: وإنما حديث الزهري، عن سالم، عن ابيه، ان رجلا من ثقيف طلق نساءه، فقال له عمر: لتراجعن نساءك او لارجمن قبرك كما رجم قبر ابي رغال. قال ابو عيسى: والعمل على حديث غيلان بن سلمة عند اصحابنا، منهم الشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ غَيْلَانَ بْنَ سَلَمَةَ الثَّقَفِيَّ أَسْلَمَ، وَلَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَأَسْلَمْنَ مَعَهُ، " فَأَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَخَيَّرَ أَرْبَعًا مِنْهُنَّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَاهُ مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ إِسْمَاعِيل، يَقُولُ: هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ وَغَيْرُهُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ، أَنَّ غَيْلَانَ بْنَ سَلَمَةَ أَسْلَمَ، وَعِنْدَهُ عَشْرُ نِسْوَةٍ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَإِنَّمَا حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ ثَقِيفٍ طَلَّقَ نِسَاءَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: لَتُرَاجِعَنَّ نِسَاءَكَ أَوْ لَأَرْجُمَنَّ قَبْرَكَ كَمَا رُجِمَ قَبْرُ أَبِي رِغَالٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ غَيْلَانَ بْنِ سَلَمَةَ عِنْدَ أَصْحَابِنَا، مِنْهُمْ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ غیلان بن سلمہ ۱؎ ثقفی نے اسلام قبول کیا، جاہلیت میں ان کی دس بیویاں تھیں، وہ سب بھی ان کے ساتھ اسلام لے آئیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ ان میں سے کسی چار کو منتخب کر لیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اسی طرح اسے معمر نے بسند «الزهري عن سالم بن عبدالله عن ابن عمر» روایت کیا ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ یہ حدیث غیر محفوظ ہے۔ اور صحیح وہ ہے جو شعیب بن ابی حمزہ وغیرہ نے بسند «الزهري عن محمد بن سويد الثقفي» روایت کی ہے کہ غیلان بن سلمہ نے اسلام قبول کیا تو ان کے پاس دس بیویاں تھیں۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ صحیح زہری کی حدیث ہے جسے انہوں نے سالم بن عبداللہ سے اور سالم نے اپنے والد عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ ثقیف کے ایک شخص نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی تو عمر نے اس سے کہا: تم اپنی بیویوں سے رجوع کر لو ورنہ میں تمہاری قبر کو پتھر ماروں گا جیسے ابورغال ۳؎ کی قبر کو پتھر مارے گئے تھے۔
۴- ہمارے اصحاب جن میں شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی شامل ہیں کے نزدیک غیلان بن سلمہ کی حدیث پر عمل ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/النکاح 40 (1953)، (تحفة الأشراف: 6949) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: غیلان بن سلمہ ثقیف کے سرداروں میں سے تھے، فتح طائف کے بعد انہوں نے اسلام قبول کیا۔
۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمان کے لیے چار سے زائد بیویاں ایک ہی وقت میں رکھنا جائز نہیں، لیکن اس حکم سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی مستثنیٰ ہے، آپ کے حرم میں بیک وقت نو بیویاں تھیں، یہ رعایت خاص آپ کے لیے تھی اور اس میں بہت سی دینی، سیاسی، مصلحتیں کار فرما تھیں آپ کے بعد یہ کسی کے لیے جائز نہیں۔
۳؎: ابورغال کے بارے میں دو مختلف روایتیں ہیں، پہلی روایت یہ ہے کہ یہ طائف کے قبیلہ ثقیف کا یک شخص تھا جس نے ابرہہ کی مکے کی جانب رہبری کی تھی وہ مغمس کے مقام پر مرا اور وہیں دفن کیا گیا اور اس کی قبر پر پتھراؤ کرنا عام رسم بن گئی، دوسری روایت ہے کہ ابورغال قوم ثمود کا وہ واحد شخص تھا جو ہلاکت سے بچ گیا تھا، ثمود کی تباہی کے وقت وہ مکیّ میں مقیم تھا اور اس جگہ کی حرمت کے باعث محفوظ رہا تاہم مکیّ سے نکلنے کے فوراً بعد مر گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی فوج کے ساتھ الحجر کے مقام سے گزر رہے تھے تو آپ نے یہ بات بیان فرمائی تھی، الأغانی کی ایک حکایت میں ابورغال کو طائف کا بادشاہ اور بنو ثقیف کا جدا مجد بھی بیان کیا گیا ہے، اس کے معاملے میں حافظ ابن قتیبہ اور مسعودی ایسے مصنف ایک اور روایت نقل کرتے ہیں کہ بنو ثقیف ہی نے ابورغال کو جو ایک ظالم اور بے انصاف شخص تھا قتل کیا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1953)
34. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُسْلِمُ وَعِنْدَهُ أُخْتَانِ
34. باب: جو شخص اسلام قبول کرے اور اس کی زوجیت میں دو بہنیں ہوں۔
Chapter: What Has Been Related About A Man Who Accepts Islam While He Is Married To Two Sisters
حدیث نمبر: 1129
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابن لهيعة، عن ابي وهب الجيشاني، انه سمع ابن فيروز الديلمي يحدث، عن ابيه: قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إني اسلمت وتحتي اختان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اختر ايتهما شئت ".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجَيْشَانِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ فَيْرُوزَ الدَّيْلَمِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ: قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَسْلَمْتُ وَتَحْتِي أُخْتَانِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اخْتَرْ أَيَّتَهُمَا شِئْتَ ".
فیروز دیلمی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسلام قبول کر لیا ہے اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ان دونوں میں سے جسے چاہو منتخب کر لو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطلاق 25 (2243)، سنن ابن ماجہ/النکاح 39 (1951)، (تحفة الأشراف: 11061) (حسن)»

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (1951)
حدیث نمبر: 1130
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا وهب بن جرير، حدثنا ابي، قال: سمعت يحيى بن ايوب يحدث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن ابي وهب الجيشاني، عن الضحاك بن فيروز الديلمي، عن ابيه، قال: قلت: يا رسول الله، اسلمت وتحتي اختان، قال:" اختر ايتهما شئت ". هذا حديث حسن، وابو وهب الجيشاني اسمه: الديلم بن هوشع.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَال: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ أَيُّوبَ يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجَيْشَانِيِّ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ فَيْرُوزَ الدَّيْلَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَسْلَمْتُ وَتَحْتِي أُخْتَانِ، قَالَ:" اخْتَرْ أَيَّتَهُمَا شِئْتَ ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو وَهْبٍ الْجَيْشَانِيُّ اسْمُهُ: الدَّيْلَمُ بْنُ هَوْشَعَ.
فیروز دیلمی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اسلام قبول کیا ہے اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں۔ آپ نے فرمایا: ان دونوں میں سے جسے چاہو، منتخب کر لو۔ (اور دوسرے کو طلاق دے دو)
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن)»
35. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِي الْجَارِيَةَ وَهِيَ حَامِلٌ
35. باب: آدمی کوئی لونڈی خریدے اور وہ حاملہ ہو تو کیا حکم ہے؟
Chapter: (What Has Been Related About) A Man Who Buys A Slave Girl Who Is Pregnant
حدیث نمبر: 1131
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص الشيباني البصري، حدثنا عبد الله بن وهب، حدثنا يحيى بن ايوب، عن ربيعة بن سليم، عن بسر بن عبيد الله، عن رويفع بن ثابت، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يسق ماءه ولد غيره ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وقد روي من غير وجه عن رويفع بن ثابت، والعمل على هذا عند اهل العلم، لا يرون للرجل إذا اشترى جارية وهي حامل ان يطاها حتى تضع، وفي الباب: عن ابي الدرداء، وابن عباس، والعرباض بن سارية، وابي سعيد.(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَسْقِ مَاءَهُ وَلَدَ غَيْرِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، لَا يَرَوْنَ لِلرَّجُلِ إِذَا اشْتَرَى جَارِيَةً وَهِيَ حَامِلٌ أَنْ يَطَأَهَا حَتَّى تَضَعَ، وَفِي الْبَاب: عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَالْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ.
رویفع بن ثابت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنی (منی) کسی غیر کے بچے کو نہ پلائے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- یہ اور بھی کئی طرق سے رویفع بن ثابت رضی الله عنہ سے روایت کی گئی ہے،
۳- اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ یہ لوگ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں سمجھتے کہ وہ جب کوئی حاملہ لونڈی خریدے تو وہ اس سے صحبت کرے جب تک کہ اسے وضع حمل نہ ہو جائے،
۴- اس باب میں ابو الدرداء، ابن عباس، عرباض بن ساریہ اور ابو سعید خدری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ النکاح 45 (2158)، (تحفة الأشراف: 3615)، مسند احمد (4/108)، سنن الدارمی/السیر 37 (2520) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: یعنی جو لونڈی کسی اور سے حاملہ ہو پھر وہ اسے خریدے تو اس سے صحبت نہ کرے جب تک کہ اسے وضع حمل نہ ہو جائے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، الإرواء (2137)، صحيح أبي داود (1874)
36. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَسْبِي الأَمَةَ وَلَهَا زَوْجٌ هَلْ يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَطَأَهَا
36. باب: اگر کوئی شخص جہاد میں کسی عورت کو قید کرے۔
Chapter: What Has Been Related (About A Man) Who Captures A Slave Woman That Has A Husband, Is It Lawful For Him To Have Relations With Her?
حدیث نمبر: 1132
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، حدثنا عثمان البتي، عن ابي الخليل، عن ابي سعيد الخدري، قال: " اصبنا سبايا يوم اوطاس ولهن ازواج في قومهن، فذكروا ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فنزلت والمحصنات من النساء إلا ما ملكت ايمانكم سورة النساء آية 24. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وهكذا رواه الثوري، عن عثمان البتي، عن ابي الخليل، عن ابي سعيد، وابو الخليل اسمه: صالح بن ابي مريم، وروى همام هذا الحديث، عن قتادة، عن صالح ابي الخليل عن ابي علقمة الهاشمي، عن ابي سعيد، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ الْبَتِّيُّ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: " أَصَبْنَا سَبَايَا يَوْمَ أَوْطَاسٍ وَلَهُنَّ أَزْوَاجٌ فِي قَوْمِهِنَّ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَتْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ النِّسَاءِ إِلا مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 24. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهَكَذَا رَوَاهُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عُثْمَانَ الْبَتِّيِّ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، وَأَبُو الْخَلِيلِ اسْمُهُ: صَالِحُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، وَرَوَى هَمَّامٌ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ عَنْ أَبِي عَلْقَمَةَ الْهَاشِمِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے جنگ اوطاس کے دن کچھ عورتیں قید کیں۔ اور ان کی قوم میں ان عورتوں کے شوہر موجود تھے، لوگوں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو یہ آیت نازل ہوئی «والمحصنات من النساء إلا ما ملكت أيمانكم» تم پر شوہر والی عورتیں بھی حرام ہیں الا یہ کہ وہ تمہاری ملکیت میں آ گئی ہوں (النساء: ۲۴)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اسی طرح سے اسے ثوری نے بطریق: «عثمان البتي عن أبي الخليل عن أبي سعيد» روایت کیا ہے -

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الرضاع 9 (1456)، والمؤلف في تفسیر النساء (3017)، وانظر الحدیث الآتي (تحفة الأشراف: 4077) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1871)
حدیث نمبر: 1132M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا بذلك عبد بن حميد، حدثنا حبان بن هلال، حدثنا همام.(مرفوع) حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عَبدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ.
ہمام نے اس حدیث کو بطریق: «قتادة عن صالح أبي الخليل عن أبي علقمة الهاشمي عن أبي سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) سنن ابی داود/ النکاح 45 (2155)، سنن النسائی/النکاح 59 (3335)، (تحفة الأشراف: 7134)، مسند احمد (3/84) والمؤلف في تفسیر النساء (3016) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1871)
37. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ مَهْرِ الْبَغِيِّ
37. باب: زانیہ کی کمائی کی حرمت کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Dowry Of The Baghi
حدیث نمبر: 1133
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن ابي بكر بن عبد الرحمن، عن ابي مسعود الانصاري، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ثمن الكلب ومهر البغي وحلوان الكاهن". قال: وفي الباب، عن رافع بن خديج، وابي جحيفة، وابي هريرة، وابن عباس. قال ابو عيسى: حديث ابي مسعود حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ وَمَهْرِ الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَأَبِي جُحَيْفَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت ۱؎، زانیہ کی کمائی ۲؎ اور کاہن کی مٹھائی ۳؎ سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں رافع بن خدیج، ابوجحیفہ، ابوہریرہ، اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 113 (2237)، والاجارة 20 (2282)، والطلاق 51 (5346)، والطب 46 (5761)، صحیح مسلم/المساقاة 9 (البیوع 30)، (1567)، سنن ابی داود/ البیوع 41 (3428)، و 65 (3481)، سنن النسائی/الصید والذبائح 15 (4297)، البیوع 91 (4670)، سنن ابن ماجہ/التجارات 9 (2159)، (تحفة الأشراف: 10010 و موطا امام مالک/البیوع 29 (68)، مسند احمد (1/118، 120، 140، 141) ویأتي عند المؤلف في البیوع 46 (1276)، والطب 24 (2071) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کتا نجس ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہو گی، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے، اسی سبب سے کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے، الا یہ کہ کسی اشد ضرورت مثلاً گھر جائیداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔
۲؎: چونکہ زنا کبیرہ گناہ اور فحش امور میں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اور حرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد عورت۔
۳؎: علم غیب اللہ رب العالمین کے لیے خاص ہے، اس کا دعویٰ کرنا عظیم گناہ ہے، اسی طرح اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی عوام سے باطل طریقے سے جو مال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2590)
38. باب مَا جَاءَ أَنْ لاَ يَخْطُبَ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ
38. باب: آدمی اپنے مسلمان بھائی کے شادی کے پیغام پر پیغام نہ دے۔
Chapter: What Has Been Related About A Man Is Not To Propose To A Woman Who Has Been Proposed To By His Brother
حدیث نمبر: 1134
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، وقتيبة، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال قتيبة: يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، وقال احمد: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يبيع الرجل على بيع اخيه ولا يخطب على خطبة اخيه". قال: وفي الباب، عن سمرة، وابن عمر. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، قال مالك بن انس: إنما معنى كراهية ان يخطب الرجل على خطبة اخيه: إذا خطب الرجل المراة فرضيت به فليس لاحد ان يخطب على خطبته، وقال الشافعي: معنى هذا الحديث لا يخطب الرجل على خطبة اخيه: هذا عندنا إذا خطب الرجل المراة فرضيت به وركنت إليه، فليس لاحد ان يخطب على خطبته، فاما قبل ان يعلم رضاها او ركونها إليه فلا باس ان يخطبها، والحجة في ذلك حديث فاطمة بنت قيس، حيث جاءت النبي صلى الله عليه وسلم فذكرت له، ان ابا جهم بن حذيفة، ومعاوية بن ابي سفيان خطباها، فقال: اما ابو جهم فرجل لا يرفع عصاه عن النساء، واما معاوية فصعلوك لا مال له، ولكن انكحي اسامة فمعنى هذا الحديث عندنا والله اعلم ان فاطمة لم تخبره برضاها بواحد منهما، ولو اخبرته لم يشر عليها بغير الذي ذكرت.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَقُتَيْبَةُ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ قُتَيْبَةُ: يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ أَحْمَدُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَبِيعُ الرَّجُلُ عَلَى بَيْعِ أَخِيهِ وَلَا يَخْطُبُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَمُرَةَ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: إِنَّمَا مَعْنَى كَرَاهِيَةِ أَنْ يَخْطُبَ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ: إِذَا خَطَبَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فَرَضِيَتْ بِهِ فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَخْطُبَ عَلَى خِطْبَتِهِ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ لَا يَخْطُبُ الرَّجُلُ عَلَى خِطْبَةِ أَخِيهِ: هَذَا عِنْدَنَا إِذَا خَطَبَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ فَرَضِيَتْ بِهِ وَرَكَنَتْ إِلَيْهِ، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَخْطُبَ عَلَى خِطْبَتِهِ، فَأَمَّا قَبْلَ أَنْ يَعْلَمَ رِضَاهَا أَوْ رُكُونَهَا إِلَيْهِ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَخْطُبَهَا، وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ حَدِيثُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، حَيْثُ جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَتْ لَهُ، أَنَّ أَبَا جَهْمِ بْنَ حُذَيْفَةَ، وَمُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ خَطَبَاهَا، فَقَالَ: أَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَرَجُلٌ لَا يَرْفَعُ عَصَاهُ عَنِ النِّسَاءِ، وَأَمَّا مُعَاوِيَةُ فَصُعْلُوكٌ لَا مَالَ لَهُ، وَلَكِنْ انْكِحِي أُسَامَةَ فَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَنَا وَاللَّهُ أَعْلَمُ أَنَّ فَاطِمَةَ لَمْ تُخْبِرْهُ بِرِضَاهَا بِوَاحِدٍ مِنْهُمَا، وَلَوْ أَخْبَرَتْهُ لَمْ يُشِرْ عَلَيْهَا بِغَيْرِ الَّذِي ذَكَرَتْ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نہ کوئی اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں سمرہ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- مالک بن انس کہتے ہیں: آدمی کے اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجنے کی ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے کسی عورت کو پیغام دیا ہو اور وہ عورت اس سے راضی ہو گئی ہو، تو کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے،
۴- شافعی کہتے ہیں کہ اس حدیث کہ آدمی اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ بھیجے کا مطلب ہمارے نزدیک یہ ہے کہ جب آدمی نے کسی عورت کو پیغام بھیجا ہو اور وہ عورت اس سے راضی ہو گئی ہو اور اس کی طرف مائل ہو گئی ہو تو ایسی صورت میں کسی کے لیے درست نہیں کہ وہ اس کے پیغام پر اپنا پیغام بھیجے، لیکن اس کی رضا مندی اور اس کا میلان معلوم ہونے سے پہلے اگر وہ اسے پیغام دے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس کی دلیل فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کی یہ حدیث ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر ذکر کیا کہ ابوجہم بن حذیفہ اور معاویہ بن ابی سفیان نے انہیں نکاح کا پیغام دیا ہے تو آپ نے فرمایا: ابوجہم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اپنا ڈنڈا عورتوں سے نہیں اٹھاتے (یعنی عورتوں کو بہت مارتے ہیں) رہے معاویہ تو وہ غریب آدمی ہیں ان کے پاس مال نہیں ہے، لہٰذا تم اسامہ بن زید سے نکاح کر لو۔ ہمارے نزدیک اس حدیث کا مفہوم (اور اللہ بہتر جانتا ہے) یہ ہے کہ فاطمہ نے ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی اپنی رضا مندی کا اظہار نہیں کیا تھا اور اگر وہ اس کا اظہار کر دیتیں تو اسے چھوڑ کر آپ انہیں اسامہ رضی الله عنہ سے نکاح کا مشورہ نہ دیتے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 58 (2140)، صحیح مسلم/النکاح 6 (1413)، سنن ابی داود/ النکاح 18 (2080)، سنن النسائی/النکاح 20 (3241)، سنن ابن ماجہ/النکاح 10 (1867)، والتجارات 13 (2172)، (تحفة الأشراف: 13123)، مسند احمد (2/238) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الشروط 8 (2723)، والنکاح 45 (5144)، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور)، سنن النسائی/البیوع 16 (4496)، و 21 (4510)، مسند احمد (2/274، 311، 318، 394، 411، 427، 457، 487، 489، 508، 516، 529)، سنن الدارمی/النکاح 7 (2221)، (وانظر إیضا الارقام: 1190 و1222 و1304) من غیر ہذا الوجہ۔»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2172)
حدیث نمبر: 1135
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، قال: انبانا شعبة، قال: اخبرني ابو بكر بن ابي الجهم، قال: دخلت انا، وابو سلمة بن عبد الرحمن على فاطمة بنت قيس، فحدثتنا ان زوجها طلقها ثلاثا ولم يجعل لها سكنى ولا نفقة، قالت: ووضع لي عشرة اقفزة عند ابن عم له خمسة شعيرا وخمسة برا، قالت: فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، قالت: فقال:" صدق"، قالت: فامرني ان اعتد في بيت ام شريك، ثم قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن بيت ام شريك بيت يغشاه المهاجرون، ولكن اعتدي في بيت ابن ام مكتوم فعسى ان تلقي ثيابك ولا يراك، فإذا انقضت عدتك فجاء احد يخطبك فآذنيني"، فلما انقضت عدتي خطبني ابو جهم، ومعاوية، قالت: فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرت ذلك له، فقال:" اما معاوية فرجل لا مال له، واما ابو جهم فرجل شديد على النساء"، قالت: فخطبني اسامة بن زيد فتزوجني، فبارك الله لي في اسامة. هذا حديث صحيح، وقد رواه سفيان الثوري، عن ابي بكر بن ابي الجهم نحو هذا الحديث، وزاد فيه، فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم:" انكحي اسامة". حدثنا محمود، حدثنا وكيع، عن سفيان، عن ابي بكر بن ابي الجهم بهذا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي الْجَهْمِ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَلَى فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ، فَحَدَّثَتْنَا أَنَّ زَوْجَهَا طَلَّقَهَا ثَلَاثًا وَلَمْ يَجْعَلْ لَهَا سُكْنَى وَلَا نَفَقَةً، قَالَتْ: وَوَضَعَ لِي عَشَرَةَ أَقْفِزَةٍ عِنْدَ ابْنِ عَمٍّ لَهُ خَمْسَةً شَعِيرًا وَخَمْسَةً بُرًّا، قَالَتْ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قَالَتْ: فَقَالَ:" صَدَقَ"، قَالَتْ: فَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَدَّ فِي بَيْتِ أُمِّ شَرِيكٍ، ثُمَّ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بَيْتَ أُمِّ شَرِيكٍ بَيْتٌ يَغْشَاهُ الْمُهَاجِرُونَ، وَلَكِنْ اعْتَدِّي فِي بَيْتِ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ فَعَسَى أَنْ تُلْقِي ثِيَابَكِ وَلَا يَرَاكِ، فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُكِ فَجَاءَ أَحَدٌ يَخْطُبُكِ فَآذِنِينِي"، فَلَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِي خَطَبَنِي أَبُو جَهْمٍ، وَمُعَاوِيَةُ، قَالَتْ: فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ:" أَمَّا مُعَاوِيَةُ فَرَجُلٌ لَا مَالَ لَهُ، وَأَمَّا أَبُو جَهْمٍ فَرَجُلٌ شَدِيدٌ عَلَى النِّسَاءِ"، قَالَتْ: فَخَطَبَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ فَتَزَوَّجَنِي، فَبَارَكَ اللَّهُ لِي فِي أُسَامَةَ. هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَزَادَ فِيهِ، فَقَالَ لِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" انْكِحِي أُسَامَةَ". حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي الْجَهْمِ بِهَذَا.
ابوبکر بن ابی جہم کہتے ہیں کہ میں اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن دونوں فاطمہ بنت قیس رضی الله عنہا کے پاس آئے انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ ان کے شوہر نے انہیں تین طلاق دے دی اور نہ ان کے لیے رہائش کا انتظام کیا اور نہ کھانے پینے کا۔ اور انہوں نے میرے لیے دس بوری غلہ، پانچ بوری جو کے اور پانچ گیہوں کے اپنے چچا زاد بھائی کے پاس رکھ دیں، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا: انہوں نے ٹھیک کیا، اور مجھے آپ نے حکم دیا کہ میں ام شریک کے گھر میں عدت گزاروں، پھر مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام شریک کے گھر مہاجرین آتے جاتے رہتے ہیں۔ تم ابن ام مکتوم کے گھر میں عدت گزارو۔ وہاں یہ بھی سہولت رہے گی کہ تم (سر وغیرہ سے) کپڑے اتارو گی تو تمہیں وہ نہیں دیکھ پائیں گے، پھر جب تمہاری عدت پوری ہو جائے اور کوئی تمہارے پاس پیغام نکاح لے کر آئے تو مجھے بتانا، چنانچہ جب میری عدت پوری ہو گئی تو ابوجہم اور معاویہ نے مجھے پیغام بھیجا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: معاویہ تو ایسے آدمی ہیں کہ ان کے پاس مال نہیں، اور ابوجہم عورتوں کے لیے سخت واقع ہوئے ہیں۔ پھر مجھے اسامہ بن زید رضی الله عنہ نے پیغام بھیجا اور مجھ سے شادی کر لی۔ اللہ تعالیٰ نے اسامہ میں مجھے برکت عطا فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث صحیح ہے،
۲- اسے سفیان ثوری نے بھی ابوبکر بن ابی جہم سے اسی حدیث کی طرح روایت کیا ہے، اور اس میں انہوں نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ مجھ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسامہ سے نکاح کر لو۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطلاق 6 (1480)، سنن النسائی/الطلاق 15 (3447)، و 72 (3581)، سنن ابن ماجہ/الطلاق 10 (2035)، (تحفة الأشراف: 18037) (صحیح) و أخرجہ کل من: صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور)، سنن ابی داود/ الطلاق 39 (2284)، سنن النسائی/النکاح 8 (3224)، و21 (3246)، والطلاق 4 (2024)، و9 2032)، موطا امام مالک/الطلاق 23 (67)، مسند احمد (6/414، 415) سنن الدارمی/النکاح 7 (2223)، والطلاق 10 (2320) من غیر ہذا الوجہ وانظر ما یأتي عند المؤلف برقم: 1180»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء // 1804 // (6 / 209)، صحيح أبي داود (1976)

Previous    2    3    4    5    6    7    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.