الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
مسند عبدالله بن مبارك کل احادیث 289 :حدیث نمبر
مسند عبدالله بن مبارك
متفرق
حدیث نمبر: 71
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا جدي، ثنا حبان،انا عبد الله بن المبارك، عن مالك بن انس، بهذا الإسناد نحوهحَدَّثَنَا جَدِّي، ثَنَا حَبَّانُ،أَنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ
امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے مالک بن انس رحمہ اللہ سے اس سند کے ساتھ ایسی ہی حدیث بیان کی ہے (جیسی کہ اوپر گزر چکی ہے)

تخریج الحدیث: «مذکورہ بالاحدیث میں تخریج گزر چکی ہے۔»

حكم: صحیح
حدیث نمبر: 72
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن ابن لهيعة، حدثني الحارث بن يزيد، اخبرني كثير الاعرج، قال: كنا بذي الصواري ومعنا ابو فاطمة الازدي، وقد اسودت جبهته وركبتاه من كثرة السجود، فقال لنا ذات يوم: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ابا فاطمة، اكثر من السجود، فإنه ليس من عبد مسلم يسجد لله سجدة، إلا رفعه الله بها درجة".عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ، حَدَّثَنِي الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ، أَخْبَرَنِي كَثِيرٌ الأَعْرَجُ، قَالَ: كُنَّا بِذِي الصَّوَارِي وَمَعَنَا أَبُو فَاطِمَةَ الأَزْدِيُّ، وَقَدِ اسْوَدَّتْ جَبْهَتُهُ وَرُكْبَتَاهُ مِنْ كَثْرَةِ السُّجُودِ، فَقَالَ لَنَا ذَاتَ يَوْمٍ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا فَاطِمَةَ، أَكْثِرْ مِنَ السُّجُودِ، فَإِنَّهُ لَيْسَ مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً، إِلا رَفَعَهُ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةَ".
کثیر اعرج نے کہا کہ ہم ذی صواری (جگہ)پر تھے اور ہمارے ساتھ ابوفاطمہ ازدی بھی تھے، ان کی پیشانی اور گھٹنے کثرت سجود کے سبب سیاہ ہوچکے تھے۔ (انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں کہ میں جس پر استقامت اختیار کروں اور اسے بجا لاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سجدوں کو لازماً اختیار کر لو۔ کیوں کہ بے شک تو اللہ کے لیے ایک سجدہ بھی کرے گا تو اس کے بدلے اللہ تیرا ایک درجہ ضرو ر بلند کرے گا اور اس کے سبب تیرا ایک گناہ یقینا معاف کرے گا۔)

تخریج الحدیث: «الزهد، ابن مبارك: 457، سنن ابن ماجة: 1422، مسند احمد: 3/428۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ قرار دیا ہے۔»

حكم: حسن صحیح
حدیث نمبر: 73
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن يحيى بن ايوب، عن عبيد الله بن زحر، عن علي بن يزيد، عن القاسم، عن ابي امامة، عن ابي ايوب الانصاري، قال: نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم شهرا، فبقيت في عمله كله فرايته إذا زالت الشمس، او زاغت، او كما قال، إن كان في يده عمل الدنيا رفضه، وإن كان نائما، فكانما نوقظ له فيقوم فيغتسل، او يتوضا، ثم يركع اربع ركعات يتمهن ويحسنهن ويتمكن فيهن، فلما اراد ان ينطلق، قلت: يا رسول الله، مكثت عندي شهرا ولوددت انك ملئت الخير من ذلك، فبقيت في عملك كله، فرايتك إذا زالت الشمس او زاغت فإن كان في يدك عمل رفضته، فإن كنت نائما توقظ فتغتسل او تتوضا، ثم تركع اربع ركعات تتمهن وتحسنهن وتتمكن فيهن؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن ابواب السماء وابواب الجنة يفتحن في تلك الساعة، فلا يوافي احد بهذه الصلاة، فاحببت ان يصعد مني إلى ربي في تلك الساعة خير"، قال عبد الله: وزادني الاوزاعي، قال: فاحب ان يرفع عملي في اول عمل العابدين.عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، قَالَ: نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا، فَبَقِيتُ فِي عَمَلِهِ كُلِّهِ فَرَأَيْتُهُ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ، أَوْ زَاغَتْ، أَوْ كَمَا قَالَ، إِنْ كَانَ فِي يَدِهِ عَمَلُ الدُّنْيَا رَفَضَهُ، وَإِنْ كَانَ نَائِمًا، فَكَأَنَّمَا نُوقِظُ لَهُ فَيَقُومُ فَيَغْتَسِلُ، أَوْ يَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يَرْكَعُ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ يُتِمُّهُنَّ وَيُحْسِنُهُنَّ وَيَتَمَكَّنُ فِيهِنَّ، فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَنْطَلِقَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَكَثْتَ عِنْدِي شَهْرًا وَلَوَدِدْتُ أَنَّكَ مُلِئْتَ الْخَيْرَ مِنْ ذَلِكَ، فَبَقِيتَ فِي عَمَلِكَ كُلِّهِ، فَرَأَيْتُكَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ أَوْ زَاغَتْ فَإِنْ كَانَ فِي يَدِكَ عَمَلٌ رَفَضْتَهُ، فَإِنْ كُنْتَ نَائِمًا تُوقَظُ فَتَغْتَسِلُ أَوْ تَتَوَضَّأُ، ثُمَّ تَرْكَعُ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ تُتِمُّهُنَّ وَتُحْسِنُهُنَّ وَتَتَمَكَّنُ فِيهِنَّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَبْوَابَ السَّمَاءِ وَأَبْوَابَ الْجَنَّةِ يُفتَحْنَ فِي تِلْكَ السَّاعَةِ، فَلا يُوَافِي أَحَدٌ بِهَذِهِ الصَّلاةِ، فَأَحْبَبْتُ أَنْ يَصْعَدَ مِنِّي إِلَى رَبِّي فِي تِلْكَ السَّاعَةِ خَيْرٌ"، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَزَادَنِي الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: فَأُحِبُّ أَنْ يُرْفَعَ عَمَلِي فِي أَوَّلِ عَمَلِ الْعَابِدِينَ.
سیدنا ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ (ان کے ہاں)(اترے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام کاموں کے لیے باقی رہا۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب سورج ڈھل جاتا یا ٹیڑھا ہوجاتا ہے یا جیسے میں نے کہا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے کسی کام میں مصروف ہوتے تو آپ اسے چھوڑ دیتے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوتے تو گویا ہم آپ کو اس کے لیے بیدار کردیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے، غسل یا وضو کرتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعتیں پڑھتے، انہیں مکمل کرتے، خوبصورت کرتے اور انہیں خوب اطمینان و تمکین سے ادا فرماتے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ہمارے گھر سے)جانے کا ارادہ فرمایا تو میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ایک مہینہ رہے اور یقینا میں نے جانا کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے خیر و بھلائی سے بھر دیے گئے۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب کاموں کو جاننے کے لیے آپ کے ساتھ رہا (مسنون اعمال کا خوب مشاہدہ کرنے کے لیے)، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب سورج ڈھل جاتا یا ٹیڑھا ہوجاتا، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کوئی کام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چھوڑ دیتے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار کیا جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل یا وضو فرماتے، پھر چار رکعتیں پڑھتے، آپ انہیں مکمل کرتے، خوبصورت کرتے اور انہیں خوب اطمینان و تمکین سے ادا فرماتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک آسمان کے دروازے اور جنت کے دروازے اس گھڑی اس کے لیے کھول دیے جاتے ہیں۔ جو بندہ اس نماز کے ساتھ تو میں نے پسند کیا کہ میرے لیے، میرے رب کی طرف اس گھڑی میں خیر و بھلائی چڑھ۔

تخریج الحدیث: «سنن ابوداؤد: 1270، جامع ترمذی مع تحفة الأحوذي: 348/1 (459)، سنن ابن ماجۃ: 1157۔ امام ترمذی نے فرمایا: ’’حدیث عبد اللہ بن السائب حدیث حسن غریب‘‘۔»

حكم: حسن غریب
حدیث نمبر: 74
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن شعبة، عن منصور، عن ذر، عن يسيع، عن النعمان بن بشير، عن النبي صلى الله عليه وسلم: " إن الدعاء هو العبادة"، ثم قرا: وقال ربكم ادعوني استجب لكم سورة غافر آية 60".عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ يُسَيْعٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الدُّعَاءَ هَوَ الْعِبَادَةُ"، ثُمَّ قَرَأَ: وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ سورة غافر آية 60".
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ بے شک دعا عبادت ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (آیت)پڑھی:﴿ وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ﴾ (المؤمن: 60)اور تمہارے رب نے فرمایا: مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔

تخریج الحدیث: «جامع ترمذي، تفسیر القرآن، باب ومن سورة البقرة: 2969، سنن أبي داؤد: 1479۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح
حدیث نمبر: 75
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا جدي، نا حبان، انا عبد الله قال: واخبرني سفيان نحوا منهحَدَّثَنَا جَدِّي، نَا حَبَّانُ، أَنا عَبْدُ اللَّهِ قَالَ: وَأَخْبَرَنِي سُفْيَانُ نَحْوًا مِنْهُ
دوسری سند سے اسی حدیث کو بیان فرمایا ہے۔

تخریج الحدیث: «اس حدیث کی تخریج پچھلی حدیث کے تحت دیکھیں۔»

حكم: صحیح
حدیث نمبر: 76
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن عبيد الله بن عمر، عن سعيد المقبري، عن عمر بن ابي بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام، عن ابيه، ان عمار بن ياسر دخل المسجد، فصلى ركعتين خفيفتين، فقال له رجل: قد خففتهما يا ابا اليقظان؟ قال: ارايتني نقصت من حدودها شيئا، ولكن خففتهما، بادرت بهما السهو، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن الرجل ليصلي الصلاة ولعله لا يكون له من صلاته إلا عشرها او تسعها او ثمنها او سبعها او خمسها".عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: قَدْ خَفَّفْتَهُمَا يَا أَبَا الْيَقْظَانِ؟ قَالَ: أَرَأَيْتَنِي نَقَصْتُ مِنْ حُدُودِهَا شَيْئًا، وَلَكِنْ خَفَّفْتُهُمَا، بَادَرْتُ بِهِمَا السَّهْوَ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ الرَّجُلَ لَيُصَلِّي الصَّلاةَ وَلَعَلَّهُ لا يَكُونُ لَهُ مِنْ صَلاتِهِ إِلا عُشْرُهَا أَوْ تُسْعُهَا أَوْ ثُمُنُهَا أَوْ سُبُعُهَا أَوْ خُمُسُهَا".
ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام بیان کرتے ہیں کہ بے شک عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما مسجد میں داخل ہوئے تو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھیں۔ ایک آدمی نے ان سے کہا: اے ابویقظان! یقینا میں نے انہیں یاد کرلیا ہے۔ فرمایا کہ کیا تو نے مجھے دیکھا کہ میں نے ان کی حدود میں سے کوئی چیز کم کی ہے، لیکن میں نے ان میں تخفیف کی ہے، میں نے ان دونوں کے ساتھ، بھولنے سے جلدی کی ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: بے شک آدمی یقینا نماز پڑھتا ہے اور شاید کہ اس کے لیے اس کی نماز میں سے نہیں ہوتا، مگر اس کا دسواں، نواں، آٹھواں، ساتواں اور یا پانچواں حصہ۔

تخریج الحدیث: «مسند أحمد: 18894۔ شیخ شعیب نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: صحیح
حدیث نمبر: 77
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن زائدة بن قدامة، نا السائب بن حبيش الكلاعي، عن معدان بن ابي طلحة اليعمري، قال: قال لي ابو الدرداء: اين مسكنك؟ فقلت: في قرية دون حمص، فقال ابو الدرداء: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من ثلاثة في قرية ولا بدو لا تقام فيهم الصلاة إلا استحوذ عليهم الشيطان، فعليك بالجماعة فإنما ياكل الذئب القاصية"، قال السائب: يعني بالجماعة: الجماعة في الصلاة.عَنْ زَائِدَةَ بْنِ قُدَامَةَ، نا السَّائِبُ بْنُ حُبَيْشٍ الْكَلاعِيُّ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ الْيَعْمَرِيِّ، قَالَ: قَالَ لِي أَبُو الدَّرْدَاءِ: أَيْنَ مَسْكَنُكَ؟ فَقُلْتُ: فِي قَرْيَةٍ دُونَ حِمْصَ، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ ثَلاثَةٍ فِي قَرْيَةٍ وَلا بَدْوٍ لا تُقَامُ فِيهِمُ الصَّلاةُ إِلا اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ، فَعَلَيْكَ بِالْجَمَاعَةِ فَإِنَّمَا يَأْكُلُ الذِّئْبُ الْقَاصِيَةَ"، قَالَ السَّائِبُ: يَعْنِي بِالْجَمَاعَةِ: الْجَمَاعَةَ فِي الصَّلاةِ.
معدان بن ابی طلحہ یعمری نے کہا کہ مجھے ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تیری رہائش کہاں ہے؟ میں نے کہا کہ حمص سے پہلے ایک بستی میں۔ ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا: جو کوئی بھی تین آدمی، جو کسی بستی یا دیہات میں رہتے ہوں، ان میں نماز نہ قائم کی جاتی ہو تو لازماً شیطان ان پر غالب آجاتا ہے، پس تو جماعت کو لازم پکڑ، بے شک بھیڑیا دور چلنے والی (بکری)کو کھاجاتا ہے۔ سائب(بن حبیش)نے کہا کہ جماعت سے آپ کی مراد نماز والی جماعت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن أبي داؤد: 547۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔»

حكم: حسن
حدیث نمبر: 78
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن ابن ابي ذئب، عن سعيد المقبري، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من لم يدع الزور والعمل به والجهل، فليس لله حاجة بان يدع طعامه وشرابه".عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ لَمْ يَدَعِ الزُّورَ وَالْعَمَلَ بِهِ وَالْجَهْلَ، فَلَيْسَ لِلَّهِ حَاجَةٌ بِأَنْ يَدَعَ طَعَامَهُ وَشَرَابَهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے جھوٹ نہ چھوڑا اور اس کے ساتھ عمل کرنا (نہ چھوڑا)اور جہالت (نہ چھوڑی)تو اللہ کو اس کے کھانے اور پینے چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح بخاري: 1903، 6057۔»

حكم: صحیح
حدیث نمبر: 79
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
عن اسامة بن زيد، عن سعيد المقبري، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " رب صائم ليس له من صيامه إلا الجوع، ورب قائم ليس له من قيامه إلا السهر".عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " رُبَّ صَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ صِيَامِهِ إِلا الْجُوعُ، وَرُبَّ قَائِمٍ لَيْسَ لَهُ مِنْ قِيَامِهِ إِلا السَّهَرُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کئی روزے دار ایسے ہیں کہ اس کے لیے اس کے روزے سے بھوک کے سوا کچھ نہیں اور کئی قیام کرنے والے ایسے ہیں کہ اس کے لیے اس کے قیام سے سوائے بیداری کے کچھ نہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجة: 1690۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن صحیح‘‘ کہا ہے۔»

حكم: حسن صحیح
حدیث نمبر: 80
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
انا مالك، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من انفق زوجين في سبيل الله، نودي في الجنة: يا عبد الله، هذا خير، فإن كان من اهل الصلاة، دعي من باب الصلاة، وإن كان من اهل الصدقة، دعي من باب الصدقة، وإن كان من اهل الجهاد، دعي من باب الجهاد، وإن كان من اهل الصيام، دعي من باب الريان"، فقال ابو بكر: بابي وامي انت يا رسول الله، ما على احد يدعى من هذه الابواب من ضرورة، فهل احد يدعى من الابواب كلها؟ قال:" نعم، وارجو ان تكون منهم".أنا مَالِكٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، نُودِيَ فِي الْجَنَّةِ: يَا عَبْدَ اللَّهِ، هَذَا خَيْرٌ، فَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلاةِ، دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلاةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ، دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ، دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ، دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: بِأَبِي وَأُمِّي أَنْتَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا عَلَى أَحَدٍ يُدْعَى مِنْ هَذِهِ الأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، فَهَلْ أَحَدٌ يُدْعَى مِنَ الأَبْوَابِ كُلِّهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ، وَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے اللہ کے راستے میں دو جوڑے خرچ کیے، اسے جنت میں منادی دی جائے گی، اے اللہ کے بندے! یہ بہتر ہے۔ اگر وہ نماز والوں سے ہوا تو اسے نماز کے دروازے سے آواز دی جائے گی اور اگر وہ زکوۃ والوں سے ہوا تو اسے زکوٰۃ کے دروازے سے آواز دی جائے گی اور اگر وہ جہاد والوں سے ہوا تو اسے جہاد کے دروازے سے آواز دی جائے گی اور اگر وہ روزے والوں سے ہوا تو اسے باب ریان (بہت سیراب کرنے والا)سے آواز دی جائے گی۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان، اس بات کی کوئی ضرورت تو نہیں کہ ان تمام دروازوں سے کسی کو آواز دی جائے (لیکن)کیا کوئی ایسا ہے کہ جسے ان تمام دروازوں سے ہی آواز دی جائے؟ فرمایا کہ ہاں اور میں امید کرتا ہوں کہ تو انہی میں سے ہے۔

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1897، 2841، 3216، 3666، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1027، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1006، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2480، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 308، 3418، 3419، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2237، 2438، 3135، 3183، 3184، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2231، 2558، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3674، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18635، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7748، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1212، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» برقم: 2970، 6161
الزهد، ابن مبارك: 467، صحیح مسلم: 7/115، رقم: 85، 86، صحیح البخاری: 4/90، موطا: 3/50، مسند احمد: 2/366، مستدرك حاکم: 2/87۔»

حكم: صحیح

Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.