الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قاضیوں اور قضا کے آداب و احکام اور مسائل
The Book of the Etiquette of Judges
9. بَابُ: الْحُكْمِ بِالتَّشْبِيهِ وَالتَّمْثِيلِ وَذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى الْوَلِيدِ بْنِ مُسْلِمٍ فِي حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ
9. باب: تشبیہ اور مثال کے ذریعہ فیصلہ کرنا اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ولید بن مسلم کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر۔
Chapter: Passing Judgment on the Basis of a Comparison or Similarities, and Mentioning the Differences Reported From Al-Walid Bin Muslim In The Hadith Of Ibn 'Abbas
حدیث نمبر: 5391
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن هاشم، عن الوليد، عن الاوزاعي، عن الزهري، عن سليمان بن يسار، عن ابن عباس، عن الفضل بن عباس، انه كان رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم غداة النحر، فاتته امراة من خثعم , فقالت: يا رسول الله , إن فريضة الله عز وجل في الحج على عباده ادركت ابي شيخا كبيرا لا يستطيع ان يركب إلا معترضا افاحج عنه؟ قال:" نعم , حجي عنه، فإنه لو كان عليه دين قضيتيه".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ، عَنْ الْوَلِيدِ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ النَّحْرِ، فَأَتَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَرْكَبَ إِلَّا مُعْتَرِضًا أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ , حُجِّي عَنْهُ، فَإِنَّهُ لَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ قَضَيْتِيهِ".
فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ قربانی کے دن (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، آپ کے پاس قبیلہ خثعم کی ایک عورت آئی اور بولی: اللہ کے رسول! اللہ کا اپنے بندوں پر عائد کردہ فریضہ حج میرے والد پر کافی بڑھاپے میں واجب ہوا ہے، وہ سوار ہونے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے سوائے اس کے کہ انہیں باندھ دیا جائے، تو کیا میں ان کی جانب سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، ان کی طرف سے حج کر لو۔ اس لیے کہ اگر ان پر کوئی قرض ہوتا تو وہ بھی تم ہی ادا کرتیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/جزاء الصید 23 (1853)، صحیح مسلم/الحج 71 (1335)، سنن الترمذی/الحج 85 (928)، سنن ابن ماجہ/الحج 10 (2909)، (تحفة الأشراف: 11048)، مسند احمد (1/212، 313)، سنن الدارمی/المناسک 23 (1873، 1874) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: گویا اس مثال کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت پر اس کے معذور باپ کے اوپر فرض حج کی ادائیگی کا فیصلہ دیا، اسی طرح دنیا کی ہر عدالت میں «اشباہ و نظائر» کے سہارے فیصلہ کیا جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 5392
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني عمرو بن عثمان، قال: حدثنا الوليد، عن الاوزاعي، قال: اخبرني ابن شهاب. ح، واخبرني محمود بن خالد، قال: حدثنا عمر، عن الاوزاعي، حدثني الزهري، عن سليمان بن يسار، ان ابن عباس اخبره، ان امراة من خثعم استفتت رسول الله صلى الله عليه وسلم , والفضل رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقالت: يا رسول الله , إن فريضة الله عز وجل في الحج على عباده ادركت ابي شيخا كبيرا لا يستطيع ان يستوي على الراحلة فهل يجزئ؟ قال محمود: فهل يقضي ان احج عنه؟ فقال لها:" نعم". قال ابو عبد الرحمن: وقد روى هذا الحديث غير واحد , عن الزهري فلم يذكر فيه ما ذكر الوليد بن مسلم.
(مرفوع) أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ. ح، وَأَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمٍ اسْتَفْتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَالْفَضْلُ رَدِيفُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى الرَّاحِلَةِ فَهَلْ يُجْزِئُ؟ قَالَ مَحْمُودٌ: فَهَلْ يَقْضِي أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ فَقَالَ لَهَا:" نَعَمْ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ وَاحِدٍ , عَنِ الزُّهْرِيِّ فَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ مَا ذَكَرَ الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتویٰ پوچھا (فضل اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے۔) وہ بولی: اللہ کے رسول! اللہ کا اپنے بن دوں پر عائد کردہ فرض فریضۂ حج میرے والد پر اس وقت فرض ہوا ہے جب وہ کافی بوڑھے ہو چکے ہیں، وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتے، تو ان کی طرف سے میرا حج کرنا کافی ہے؟ (محمود نے ( «فهل يجزي» یعنی کافی ہے؟ کے بجائے) «فهل يقضي» (یعنی کیا ادا ہو جائے گا) کہا۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ہاں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: اس حدیث کو زہری سے ایک سے زائد لوگوں نے روایت کیا ہے، لیکن ان لوگوں نے اس کا ذکر نہیں کیا جس کا ذکر ولید نے کیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر رقم: 2635 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی ولید نے اس حدیث کو مسند فضل سے روایت کیا ہے جب کہ زہری سے روایت کرنے والے دوسرے شاگردوں نے اسے مسند ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 5393
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) قال الحارث بن مسكين قراءة عليه وانا اسمع: عن ابن القاسم، حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن سليمان بن يسار، عن عبد الله بن عباس، قال: كان الفضل بن عباس رديف رسول الله صلى الله عليه وسلم , فجاءته امراة من خثعم تستفتيه، فجعل الفضل ينظر إليها وتنظر إليه، وجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يصرف وجه الفضل إلى الشق الآخر، فقالت: يا رسول الله , إن فريضة الله عز وجل على عباده في الحج ادركت ابي شيخا كبيرا لا يستطيع ان يثبت على الراحلة , افاحج عنه؟ قال:" نعم" , وذلك في حجة الوداع.
(مرفوع) قَالَ الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ: عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ تَسْتَفْتِيهِ، فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، وَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَثْبُتَ عَلَى الرَّاحِلَةِ , أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ" , وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، اتنے میں قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ سے مسئلہ پوچھنے آئی، فضل رضی اللہ عنہ اس کی طرف دیکھنے لگے وہ ان کی طرف دیکھنے لگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا رخ دوسری طرف موڑ دیتے، وہ بولی: اللہ کے رسول! اپنے بندوں پر اللہ تعالیٰ کا فرض کردہ فریضہ حج میرے والد پر اس وقت فرض ہوا جب وہ بہت بوڑھے ہو چکے ہیں، وہ سواری پر سیدھے بیٹھ بھی نہیں سکتے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، اور یہ حجۃ الوداع کی بات ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2635 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 5394
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا ابو داود، قال: حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال: حدثني ابي، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، ان سليمان بن يسار اخبره، ان ابن عباس اخبره، ان امراة من خثعم قالت: يا رسول الله , إن فريضة الله عز وجل في الحج على عباده ادركت ابي شيخا كبيرا لا يستوي على الراحلة , فهل يقضي عنه ان احج عنه؟ قال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نعم" , فاخذ الفضل يلتفت إليها , وكانت امراة حسناء، واخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم الفضل فحول وجهه من الشق الآخر.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمَ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي الْحَجِّ عَلَى عِبَادِهِ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَوِي عَلَى الرَّاحِلَةِ , فَهَلْ يَقْضِي عَنْهُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ؟ قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ" , فَأَخَذَ الْفَضْلُ يَلْتَفِتُ إِلَيْهَا , وَكَانَتِ امْرَأَةً حَسْنَاءَ، وَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَضْلَ فَحَوَّلَ وَجْهَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ کا اپنے بندوں پر عائد کردہ فریضہ حج میرے والد پر اس وقت فرض ہوا جبکہ وہ کافی بوڑھے ہو چکے ہیں، وہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے، اگر میں ان کی طرف سے حج کر لوں تو کیا وہ ان کی طرف سے ادا ہو جائے گا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ہاں، فضل اس کی طرف مڑ مڑ کر دیکھنے لگے، وہ ایک حسین و جمیل عورت تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کو پکڑا اور ان کا رخ دوسری جانب گھما دیا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2635 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
10. بَابُ: ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ فِيهِ
10. باب: اس حدیث میں یحییٰ بن ابی اسحاق کے شاگردوں کے اختلاف کا ذکر۔
Chapter: Mentioning the Different Reports from Yahya Ibn Abi Ishaq
حدیث نمبر: 5395
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا مجاهد بن موسى، عن هشيم، عن يحيى بن ابي إسحاق، عن سليمان بن يسار، عن عبد الله بن عباس: ان رجلا سال النبي صلى الله عليه وسلم: إن ابي ادركه الحج وهو شيخ كبير لا يثبت على راحلته , فإن شددته خشيت ان يموت , افاحج عنه؟ قال:" افرايت لو كان عليه دين فقضيته اكان مجزئا؟" قال: نعم، قال:" فحج عن ابيك".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، عَنْ هُشَيْمٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أَبِي أَدْرَكَهُ الْحَجُّ وَهُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَثْبُتُ عَلَى رَاحِلَتِهِ , فَإِنْ شَدَدْتُهُ خَشِيتُ أَنْ يَمُوتَ , أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:" أَفَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقَضَيْتَهُ أَكَانَ مُجْزِئًا؟" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَحُجَّ عَنْ أَبِيكَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: میرے والد پر حج فرض ہو گیا ہے، اور وہ اس قدر بوڑھے ہو گئے ہیں کہ سواری پر بیٹھ نہیں سکتے، اور اگر انہیں باندھ دوں تو خطرہ ہے کہ وہ اس سے مر نہ جائیں، کیا میں ان کی طرف سے حج ادا کر لوں؟ آپ نے فرمایا: اگر ان پر کچھ قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتے تو کیا وہ کافی ہوتا؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: تو تم اپنے باپ کی طرف سے حج کر لو۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2635 (شاذ) (اس واقعہ میں سائل کا مرد ہونا شاذ ہے)»

قال الشيخ الألباني: شاذ مضطرب والمحفوظ أن السائل امرأة والمسؤول عنه أبوها
حدیث نمبر: 5396
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا يزيد، قال: حدثنا هشام، عن محمد، عن يحيى بن ابي إسحاق، عن سليمان بن يسار، عن الفضل بن العباس انه كان رديف النبي صلى الله عليه وسلم , فجاءه رجل , فقال: يا رسول الله , إن امي عجوز كبيرة، إن حملتها لم تستمسك، وإن ربطتها خشيت ان اقتلها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ارايت لو كان على امك دين اكنت قاضيه" قال: نعم، قال:" فحج عن امك".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَاءَهُ رَجُلٌ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أُمِّي عَجُوزٌ كَبِيرَةٌ، إِنْ حَمَلْتُهَا لَمْ تَسْتَمْسِكْ، وَإِنْ رَبَطْتُهَا خَشِيتُ أَنْ أَقْتُلَهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكَ دَيْنٌ أَكُنْتَ قَاضِيَهُ" قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَحُجَّ عَنْ أُمِّكَ".
فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، اتنے میں ایک شخص نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! میری ماں بہت بڑی بوڑھی عورت ہیں، اگر میں انہیں سوار کر دوں تو وہ اسے پکڑ نہیں سکیں گی اور اگر انہیں باندھ دوں تو خطرہ ہے کہ وہ میرے اس عمل سے مر نہ جائیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری ماں پر کچھ قرض ہوتا تو تم اسے ادا کرتے یا نہیں؟ اس نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تم اپنی ماں کی طرف سے حج کرو۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2644 (شاذ)»

قال الشيخ الألباني: شاذ والمحفوظ خلافة كما ذكرت في الذي قبله
حدیث نمبر: 5397
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا ابو داود، قال: حدثنا الوليد بن نافع، قال: حدثنا شعبة، عن يحيى بن ابي إسحاق، قال: سمعت سليمان بن يسار يحدثه، عن الفضل بن العباس، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: يا نبي الله , إن ابي شيخ كبير لا يستطيع الحج وإن حملته لم يستمسك , افاحج عنه؟ قال:" حج عن ابيك". قال ابو عبد الرحمن: سليمان لم يسمع من الفضل بن العباس.
(مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ يُحَدِّثُهُ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ وَإِنْ حَمَلْتُهُ لَمْ يَسْتَمْسِكْ , أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:" حُجَّ عَنْ أَبِيكَ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: سُلَيْمَانُ لَمْ يَسْمَعْ مِنَ الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ.
فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے نبی! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، حج نہیں کر سکتے، اگر میں انہیں سوار کر دوں، تو اسے پکڑ کر بیٹھ نہیں سکیں گے، کیا میں ان کی طرف سے حج کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اپنے باپ کی طرف سے حج کرو۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: سلیمان کا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے سماع ثابت نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2644 (شاذ)»

قال الشيخ الألباني: شاذ
حدیث نمبر: 5398
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن معمر، قال: حدثنا ابو عاصم، عن زكريا بن إسحاق، عن عمرو بن دينار، عن ابي الشعثاء، عن ابن عباس، ان رجلا جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم , فقال: إن ابي شيخ كبير , افاحج عنه؟ قال:" نعم , ارايت لو كان عليه دين فقضيته اكان يجزئ عنه؟".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ , أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ:" نَعَمْ , أَرَأَيْتَ لَوْ كَانَ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَقَضَيْتَهُ أَكَانَ يُجْزِئُ عَنْهُ؟".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میرے والد کافی بوڑھے ہیں، کیا میں ان کی طرف سے حج کروں؟ آپ نے فرمایا: ہاں، تمہارا کیا خیال ہے اگر ان پر قرض ہوتا اور تم اسے ادا کرتے تو کافی ہوتا یا نہیں؟۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5389) (شاذ)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
11. بَابُ: الْحُكْمِ بِاتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ
11. باب: اہل علم کے اتفاق و اجماع کے مطابق فیصلہ کرنے کا بیان۔
Chapter: Ruling According to the Consensus of the Scholars
حدیث نمبر: 5399
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) اخبرنا محمد بن العلاء، قال: حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عمارة هو ابن عمير، عن عبد الرحمن بن يزيد، قال: اكثروا على عبد الله ذات يوم , فقال عبد الله:" إنه قد اتى علينا زمان ولسنا نقضي، ولسنا هنالك، ثم إن الله عز وجل قدر علينا ان بلغنا ما ترون، فمن عرض له منكم قضاء بعد اليوم فليقض بما في كتاب الله، فإن جاء امر ليس في كتاب الله، فليقض بما قضى به نبيه صلى الله عليه وسلم، فإن جاء امر ليس في كتاب الله ولا قضى به نبيه صلى الله عليه وسلم، فليقض بما قضى به الصالحون، فإن جاء امر ليس في كتاب الله، ولا قضى به نبيه صلى الله عليه وسلم ولا قضى به الصالحون فليجتهد رايه ولا يقول إني اخاف، وإني اخاف فإن الحلال بين، والحرام بين، وبين ذلك امور مشتبهات فدع ما يريبك إلى ما لا يريبك". قال ابو عبد الرحمن: هذا الحديث جيد.
(موقوف) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ هُوَ ابْنُ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: أَكْثَرُوا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ذَاتَ يَوْمٍ , فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" إِنَّهُ قَدْ أَتَى عَلَيْنَا زَمَانٌ وَلَسْنَا نَقْضِي، وَلَسْنَا هُنَالِكَ، ثُمَّ إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدَّرَ عَلَيْنَا أَنْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ، فَمَنْ عَرَضَ لَهُ مِنْكُمْ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ فَلْيَقْضِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَلَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ فَلْيَجْتَهِدْ رَأْيَهُ وَلَا يَقُولُ إِنِّي أَخَافُ، وَإِنِّي أَخَافُ فَإِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا الْحَدِيثُ جَيِّدٌ.
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ لوگوں نے ایک دن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بہت سارے موضوعات پر بات چیت کی، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم پر ایک زمانہ ایسا بھی گزر چکا ہے کہ ہم نہ تو کوئی فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کے قابل تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے مقدر کر رکھا تھا کہ ہم اس مقام کو پہنچے جو تم دیکھ رہے ہو، لہٰذا آج کے بعد سے جس کسی کو فیصلہ کرنے کی ضرورت آ پڑے تو چاہیئے کہ وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں ہے، پھر اگر ایسا کوئی معاملہ اسے درپیش آئے جو کتاب اللہ (قرآن) میں نہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، اور اگر کوئی ایسا معاملہ ہو جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ اس سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نیک لوگوں نے کیا ہو ۱؎، اور اگر کوئی ایسا معاملہ آئے جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو، نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس سلسلے میں کوئی فیصلہ ہو اور نہ ہی نیک لوگوں کا) تو اسے چاہیئے کہ اپنی عقل سے اجتہاد کرے اور یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر ہے، مجھے ڈر ہے، کیونکہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں تو تم ان باتوں کو چھوڑ دو جو تمہیں شک میں ڈالیں اور وہ کرو جو شک سے بالاتر ہوں۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ حدیث بہت اچھی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9399) (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: مراد نیک علماء ہیں، کیونکہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں صالحین صحابہ کرام ہی تھے، اور ان کی اکثریت عالم تھی، خلاصہ کلام یہ کہ صحابہ کرام کا اجماع مراد ہے، اسی طرح ہر زمانہ کے نیک علماء و ائمہ کرام کا اجماع بھی دلیل ہو گا، اور چونکہ مراد زمانہ کے علماء کا اجماع ہے اس لیے اس سے ایک عالم کی تقلید شخصی ہرگز مراد نہیں ہو سکتی، جیسا کہ بعض مقلدین نے اس سے تقلید شخصی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوف
حدیث نمبر: 5400
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) اخبرني محمد بن علي بن ميمون، قال: حدثنا الفريابي، قال: حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن عمارة بن عمير، عن حريث بن ظهير، عن عبد الله بن مسعود، قال: اتى علينا حين ولسنا نقضي ولسنا هنالك، وإن الله عز وجل قدر ان بلغنا ما ترون، فمن عرض له قضاء بعد اليوم , فليقض فيه بما في كتاب الله، فإن جاء امر ليس في كتاب الله فليقض بما قضى به نبيه، فإن جاء امر ليس في كتاب الله ولم يقض به نبيه صلى الله عليه وسلم فليقض بما قضى به الصالحون، ولا يقول احدكم إني اخاف، وإني اخاف، فإن الحلال بين، والحرام بين، وبين ذلك امور مشتبهة، فدع ما يريبك إلى ما لا يريبك".
(موقوف) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ حُرَيْثِ بْنِ ظُهَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: أَتَى عَلَيْنَا حِينٌ وَلَسْنَا نَقْضِي وَلَسْنَا هُنَالِكَ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدَّرَ أَنْ بَلَغْنَا مَا تَرَوْنَ، فَمَنْ عَرَضَ لَهُ قَضَاءٌ بَعْدَ الْيَوْمِ , فَلْيَقْضِ فِيهِ بِمَا فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ نَبِيُّهُ، فَإِنْ جَاءَ أَمْرٌ لَيْسَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَلَمْ يَقْضِ بِهِ نَبِيُّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَقْضِ بِمَا قَضَى بِهِ الصَّالِحُونَ، وَلَا يَقُولُ أَحَدُكُمْ إِنِّي أَخَافُ، وَإِنِّي أَخَافُ، فَإِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ، فَدَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے اوپر ایک ایسا وقت آیا کہ اس وقت نہ ہم فیصلہ کرتے تھے اور نہ ہی فیصلہ کرنے کے اہل تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے وہ مقام مقدر کر دیا جہاں تم ہمیں دیکھ رہے ہو، لہٰذا جس کسی کو آج کے بعد کوئی معاملہ درپیش ہو تو وہ اس کا فیصلہ اس کے مطابق کرے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں ہے، اور اگر اس کے پاس کوئی ایسا معاملہ آئے جو اللہ کی کتاب (قرآن) میں نہیں ہے تو وہ اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کیا تھا، اور اگر کوئی ایسا معاملہ درپیش ہو جو نہ کتاب اللہ (قرآن) میں ہو اور نہ ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کوئی فیصلہ کیا ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کرے جو نیک لوگوں نے کیا ہو، اور تم میں سے کوئی یہ نہ کہے کہ مجھے ڈر لگ رہا ہے، مجھے ڈر لگ رہا ہے، کیونکہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان کے درمیان کچھ شبہ والی چیزیں ہیں، لہٰذا جو شک میں ڈالے اسے چھوڑ دو اور جو شک میں نہ ڈالے اسے لے لو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 9197) (صحیح) (اس کے راوی ”حریث“ مجہول ہیں، لیکن پچھلی سند صحیح لغیرہ ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

Previous    1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.