الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جمعہ کے احکام و مسائل
The Book on the Day of Friday
13. باب مَا جَاءَ فِي الْقِرَاءَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ
13. باب: منبر پر قرآن پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 508
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن عطاء، عن صفوان بن يعلى بن امية، عن ابيه، قال: " سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقرا على المنبر ونادوا يا مالك ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وجابر بن سمرة. قال ابو عيسى: حديث يعلى بن امية حديث حسن صحيح غريب، وهو حديث ابن عيينة، وقد اختار قوم من اهل العلم ان يقرا الإمام في الخطبة آيا من القرآن، قال الشافعي: وإذا خطب الإمام فلم يقرا في خطبته شيئا من القرآن اعاد الخطبة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ عَلَى الْمِنْبَرِ وَنَادَوْا يَا مَالِكُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَهُوَ حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَقَدِ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَقْرَأَ الْإِمَامُ فِي الْخُطْبَةِ آيًا مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِذَا خَطَبَ الْإِمَامُ فَلَمْ يَقْرَأْ فِي خُطْبَتِهِ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ أَعَادَ الْخُطْبَةَ.
یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر پڑھتے سنا: «ونادوا يا مالك» ۱؎ اور وہ پکار کر کہیں گے اے مالک!
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، اور یہی ابن عیینہ کی حدیث ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ اور جابر بن سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اہل علم کی ایک جماعت نے امام کے خطبہ میں قرآن کی کچھ آیتیں پڑھنے کو پسند کیا ہے ۲؎، شافعی کہتے ہیں: امام جب خطبہ دے اور اس میں قرآن کچھ نہ پڑھے تو خطبہ دہرائے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 7 (3230)، و10 (3266)، وتفسیر الزخرف 1 (4819)، صحیح مسلم/الجمعة 13 (871)، (تحفة الأشراف: 11838) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: الزخرف: ۷۷ ( «مالک» جہنم کے دروغہ کا نام ہے جس کو جہنمی پکار کر کہیں گے کہ اپنے رب سے کہو کہ ہمیں موت ہی دیدے تاکہ جہنم کے عذاب سے نجات تو مل جائے، جواب ملے گا: یہاں ہمیشہ ہمیش کے لیے رہنا ہے)
۲؎: صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ میں سورۃ ق پوری پڑھا کرتے تھے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بطور وعظ ونصیحت کے قرآن کی کوئی آیت پڑھنی چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (3 / 75)
14. باب مَا جَاءَ فِي اسْتِقْبَالِ الإِمَامِ إِذَا خَطَبَ
14. باب: خطبہ کے وقت امام کی طرف منہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 509
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عباد بن يعقوب الكوفي، حدثنا محمد بن الفضل بن عطية، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله بن مسعود، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا استوى على المنبر استقبلناه بوجوهنا ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابن عمر، وحديث منصور لا نعرفه إلا من حديث محمد بن الفضل بن عطية، ومحمد بن الفضل بن عطية ضعيف ذاهب الحديث عند اصحابنا، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم يستحبون استقبال الإمام إذا خطب، وهو قول سفيان الثوري، والشافعي، واحمد، وإسحاق. قال ابو عيسى: ولا يصح في هذا الباب عن النبي صلى الله عليه وسلم شيء.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَوَى عَلَى الْمِنْبَرِ اسْتَقْبَلْنَاهُ بِوُجُوهِنَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَحَدِيثُ مَنْصُورٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ ضَعِيفٌ ذَاهِبُ الْحَدِيثِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يَسْتَحِبُّونَ اسْتِقْبَالَ الْإِمَامِ إِذَا خَطَبَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَا يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَاب عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر پر بیٹھتے تو ہم اپنا منہ آپ کی طرف کر لیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- منصور کی حدیث کو ہم صرف محمد بن فضل بن عطیہ کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- محمد بن فضل بن عطیہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ضعیف اور ذاہب الحدیث ہیں،
۳- اس باب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی کوئی چیز صحیح نہیں ہے ۱؎،
۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا عمل اسی پر ہے، وہ خطبے کے وقت امام کی طرف رخ کرنا مستحب سمجھتے ہیں اور یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،
۵- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9457) (صحیح) (یہ سند سخت ضعیف ہے، اس لیے کہ اس میں راوی محمد بن فضل بن عطیہ کی لوگوں نے تکذیب تک کی ہے، لیکن براء بن عازب اور ابن عمر، انس اور ابو سعید خدری وغیرہ سے مروی شواہد کی بنا پر صحابہ کا یہ تعامل صحیح اور ثابت ہے تفصیل کے لیے دیکھئے: الصحیحة 2080)»

وضاحت:
۱؎: سند کے لحاظ سے اس باب میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے لیکن متعدد احادیث وآثار سے اس مضمون کو تقویت مل جاتی ہے (دیکھئیے الصحیحۃ رقم۲۰۸۰) عام مساجد میں یہ چیز تو بہت آسان ہے لیکن خانہ کعبہ میں مشکل ہے، تو وہاں یہ بات معاف ہو گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2080)
15. باب مَا جَاءَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ إِذَا جَاءَ الرَّجُلُ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ
15. باب: خطبہ کے دوران آدمی آئے تو پہلے دو رکعت نماز پڑھے۔
حدیث نمبر: 510
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا حماد بن زيد، عن عمرو بن دينار، عن جابر بن عبد الله، قال: بينا النبي صلى الله عليه وسلم يخطب يوم الجمعة، إذ جاء رجل، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " اصليت؟ " قال: لا، قال: " قم فاركع ". قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن صحيح اصح شيء في هذا الباب.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَصَلَّيْتَ؟ " قَالَ: لَا، قَالَ: " قُمْ فَارْكَعْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَاب.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص آیا تو آپ نے اُسے پوچھا: کیا تم نے نماز پڑھ لی؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: اٹھو اور (دو رکعت) نماز پڑھ لو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التہجد 25 (1126)، والجمعة 32 (930)، و33 (931)، صحیح مسلم/الجمعة 14 (875)، سنن النسائی/الجمعة 21 (1401)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 87 (1113)، (تحفة الأشراف: 2511)، مسند احمد (3/297، 308، 369)، سنن الدارمی/الصلاة 196 (1406) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1112)
حدیث نمبر: 511
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن ابي عمر، حدثنا سفيان بن عيينة، عن محمد بن عجلان، عن عياض بن عبد الله بن ابي سرح، ان ابا سعيد الخدري دخل يوم الجمعة ومروان يخطب، فقام يصلي، فجاء الحرس ليجلسوه فابى حتى صلى، فلما انصرف اتيناه، فقلنا: رحمك الله إن كادوا ليقعوا بك، فقال: ما كنت لاتركهما بعد شيء رايته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم ذكر ان رجلا جاء يوم الجمعة في هيئة بذة، والنبي صلى الله عليه وسلم يخطب يوم الجمعة، " فامره فصلى ركعتين والنبي صلى الله عليه وسلم يخطب ". قال ابن ابي عمر: كان سفيان بن عيينة يصلي ركعتين إذا جاء والإمام يخطب، وكان يامر به، وكان ابو عبد الرحمن المقرئ يراه. قال ابو عيسى: وسمعت ابن ابي عمر، يقول: قال سفيان بن عيينة: كان محمد بن عجلان ثقة مامونا في الحديث. قال: وفي الباب عن جابر، وابي هريرة، وسهل بن سعد. قال ابو عيسى: حديث ابي سعيد الخدري حديث حسن صحيح. والعمل على هذا عند بعض اهل العلم. وبه يقول الشافعي، واحمد، وإسحاق. وقال بعضهم: إذا دخل والإمام يخطب، فإنه يجلس ولا يصلي، وهو قول سفيان الثوري، واهل الكوفة، والقول الاول اصح. حدثنا قتيبة، حدثنا العلاء بن خالد القرشي، قال: رايت الحسن البصري دخل المسجد يوم الجمعة، والإمام يخطب فصلى ركعتين، ثم جلس. إنما فعل الحسن اتباعا للحديث. وهو روى عن جابر، عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ دَخَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَمَرْوَانُ يَخْطُبُ، فَقَامَ يُصَلِّي، فَجَاءَ الْحَرَسُ لِيُجْلِسُوهُ فَأَبَى حَتَّى صَلَّى، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: رَحِمَكَ اللَّهُ إِنْ كَادُوا لَيَقَعُوا بِكَ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ لِأَتْرُكَهُمَا بَعْدَ شَيْءٍ رَأَيْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ذَكَرَ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي هَيْئَةٍ بَذَّةٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، " فَأَمَرَهُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ ". قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: كَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ إِذَا جَاءَ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، وَكَانَ يَأْمُرُ بِهِ، وَكَانَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ يَرَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت ابْنَ أَبِي عُمَرَ، يَقُولُ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ ثِقَةً مَأْمُونًا فِي الْحَدِيثِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق. وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا دَخَلَ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، فَإِنَّهُ يَجْلِسُ وَلَا يُصَلِّي، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ خَالِدٍ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: رَأَيْتُ الْحَسَنَ الْبَصْرِيَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ جَلَسَ. إِنَّمَا فَعَلَ الْحَسَنُ اتِّبَاعًا لِلْحَدِيثِ. وَهُوَ رَوَى عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ.
عیاض بن عبداللہ بن ابی سرح سے روایت ہے کہ ابو سعید خدری رضی الله عنہ جمعہ کے دن (مسجد میں) داخل ہوئے، مروان بن حکم خطبہ دے رہے تھے، وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، پہریدار آئے تاکہ انہیں بٹھا دیں لیکن وہ نہیں مانے اور نماز پڑھ ہی لی، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے ان کے پاس آ کر کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے قریب تھا کہ یہ لوگ آپ سے ہاتھا پائی کر بیٹھتے، تو انہوں نے کہا: میں تو یہ دونوں رکعتیں ہرگز چھوڑنے والا تھا نہیں، بعد اس کے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے، پھر انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص جمعہ کے دن پراگندہ حالت میں آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے تو آپ نے اسے دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا، اس نے دو رکعتیں پڑھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔ ابن ابی عمر کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ جب مسجد میں آتے اور امام خطبہ دے رہا ہوتا تو دو رکعتیں پڑھتے تھے، وہ اس کا حکم بھی دیتے تھے، اور ابوعبدالرحمٰن المقری بھی اسے درست سمجھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- میں نے ابن ابی عمر کو کہتے سنا کہ سفیان بن عیینہ کہتے تھے کہ محمد بن عجلان ثقہ ہیں اور حدیث میں مامون ہیں،
۳- اس باب میں جابر، ابوہریرہ اور سہل بن سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ جب کوئی مسجد میں داخل ہو اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ بیٹھ جائے نماز نہ پڑھے، یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے،
۵- پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ علاء بن خالد قرشی کہتے ہیں: میں نے حسن بصری کو دیکھا کہ وہ جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوئے اور امام خطبہ دے رہا تھا، تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر بیٹھے، حسن بصری نے ایسا حدیث کی اتباع میں کیا، یہ حدیث انہوں نے جابر سے اور جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الزکاة 39 (1675)، (مختصرا)، سنن النسائی/الجمعة 26 (1409)، والزکاة 55 (2537)، (تحفة الأشراف: 4272)، مسند احمد (3/25)، (کلہم بدون ذکر قصة مروان) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے مسجد میں داخل ہوتے وقت دو رکعت تحیۃ المسجد کی تاکید ثابت ہوتی ہے، اس باب میں اور بہت سی احادیث ہیں حتیٰ کہ تحیۃ المسجد کے لیے مکروہ اوقات کی بھی رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ یہ سببی صلاۃ ہے، ہاں اگر کوئی ایسے وقت مسجد میں داخل ہو کہ جب کسی فرض وسنت صلاۃ کا وقت تھا تو فرض وسنت صلاۃ سے تحیۃ المسجد کی بھی ادائیگی ہو جائیگی۔

قال الشيخ الألباني: (حكاية عياض بن عبد الله بن أبي السرح عن أبي سعيد الخدري) حسن صحيح، (قول العلاء بن خالد القرشي عن الحسن البصري) ضعيف الإسناد، ابن ماجة (1113)
16. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْكَلاَمِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ
16. باب: امام کے خطبہ دینے کی حالت میں گفتگو کرنے کی کراہت۔
حدیث نمبر: 512
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن عقيل، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " من قال يوم الجمعة والإمام يخطب: انصت فقد لغا ". قال: وفي الباب عن ابن ابي اوفى، وجابر بن عبد الله. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح. والعمل عليه عند اهل العلم: كرهوا للرجل ان يتكلم والإمام يخطب، وقالوا: إن تكلم غيره فلا ينكر عليه إلا بالإشارة. واختلفوا في رد السلام وتشميت العاطس والإمام يخطب، فرخص بعض اهل العلم في رد السلام وتشميت العاطس والإمام يخطب، وهو قول احمد، وإسحاق، وكره بعض اهل العلم من التابعين وغيرهم ذلك وهو قول الشافعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ قَالَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ: أَنْصِتْ فَقَدْ لَغَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: كَرِهُوا لِلرَّجُلِ أَنْ يَتَكَلَّمَ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، وَقَالُوا: إِنْ تَكَلَّمَ غَيْرُهُ فَلَا يُنْكِرْ عَلَيْهِ إِلَّا بِالْإِشَارَةِ. وَاخْتَلَفُوا فِي رَدِّ السَّلَامِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، فَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي رَدِّ السَّلَامِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَكَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ ذَلِكَ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران کسی سے کہا: چپ رہو تو اس نے لغو بات کی یا اس نے اپنا جمعہ لغو کر لیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن ابی اوفی اور جابر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اسی پر عمل ہے، علماء نے آدمی کے لیے خطبہ کے دوران گفتگو کرنا مکروہ جانا ہے اور کہا ہے کہ اگر کوئی دوسرا گفتگو کرے تو اسے بھی منع نہ کرے سوائے اشارے کے،
۴- البتہ دوران خطبہ سلام کے جواب دینے اور چھینکنے والے کے جواب میں «يرحمك الله» کہنے کے سلسلہ میں اختلاف ہے بعض اہل علم نے دوران خطبہ سلام کا جواب دینے اور چھینکنے والے کے جواب میں «يرحمك الله» کہنے کی اجازت دی ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے اسے مکروہ قرار دیا ہے، اور یہی شافعی کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجمعة 36 (934)، صحیح مسلم/الجمعة 3 (851)، سنن ابی داود/ الصلاة 235 (1112)، سنن النسائی/الجمعة 22 (1402)، والعیدین 21 (1578)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 86 (1110)، (تحفة الأشراف: 13206)، موطا امام مالک/الجمعة 2 (6)، مسند احمد (2/244، 272، 280، 393، 396، 485، 518، 532)، سنن الدارمی/الصلاة 195 (1589) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اسے جمعہ کی فضیلت نہیں ملی بلکہ اس سے محروم رہا، یہ معنی نہیں کہ اس کی نماز ہی نہیں ہوئی کیونکہ اس بات پر اجماع ہے کہ اس کی نماز جمعہ ادا ہو جائے گی، البتہ وہ جمعہ کی فضیلت سے محروم رہے گا، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ پورے انہماک اور توجہ سے سننا چاہیئے، اور خطبہ کے دوران کوئی ناروا حرکت نہیں کرنی چاہیئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1110)
17. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ التَّخَطِّي يَوْمَ الْجُمُعَةِ
17. باب: جمعہ کے دن (دوران خطبہ) لوگوں کی گردنیں پھاندنے کی کراہت۔
حدیث نمبر: 513
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا رشدين بن سعد، عن زبان بن فائد، عن سهل بن معاذ بن انس الجهني، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من تخطى رقاب الناس يوم الجمعة اتخذ جسرا إلى جهنم ". قال: وفي الباب عن جابر. قال ابو عيسى: حديث سهل بن معاذ بن انس الجهني حديث غريب، لا نعرفه إلا من حديث رشدين بن سعد، والعمل عليه عند اهل العلم كرهوا ان يتخطى الرجل رقاب الناس يوم الجمعة، وشددوا في ذلك، وقد تكلم بعض اهل العلم في رشدين بن سعد وضعفه من قبل حفظه.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَبَّانَ بْنِ فَائِدٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ اتَّخَذَ جِسْرًا إِلَى جَهَنَّمَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا أَنْ يَتَخَطَّى الرَّجُلُ رِقَابَ النَّاسِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَشَدَّدُوا فِي ذَلِكَ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ وَضَعَّفَهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
معاذ بن انس جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے دن جس نے لوگوں کی گردنیں پھاندیں اس نے جہنم کی طرف لے جانے والا پل بنا لیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے۔ سہل بن معاذ بن انس جہنی کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف رشد بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- البتہ اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ انہوں نے اس بات کو مکروہ سمجھا ہے، کہ آدمی جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھاندے اور انہوں نے اس میں سختی سے کام لیا ہے۔ اور ان کے حفظ کے تعلق سے انہیں ضعیف گردانا ہے۔ بعض اہل علم نے رشدین بن سعد پر کلام کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 88 (1116)، (تحفة الأشراف: 11292)، مسند احمد (3/437) (حسن) (سند میں رشدین بن سعد اور زبان بن فائد دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی وجہ سے حسن لغیرہ ہے، تراجع الالبانی45، السراج المنیر 1512، والصحیحہ 3122)»

وضاحت:
۱؎: یہ ترجمہ «اتّخَذَ» معروف کے صیغے کا ہے مشہور اعراب مجہول کے صیغے «اتُّخِذَ» کے ساتھ ہے، اس صورت میں ترجمہ یوں ہو گا کہ جو جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھاندے گا وہ جہنم کا پل بنا دیا جائے گا جس پر چڑھ کر لوگ جہنم کو عبور کریں گے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1116) // ضعيف سنن ابن ماجة (230)، المشكاة (1392)، ضعيف الجامع الصغير (5516) //
18. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الاِحْتِبَاءِ وَالإِمَامُ يَخْطُبُ
18. باب: امام کے خطبہ دینے کی حالت میں احتباء کرنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 514
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عباس بن محمد الدوري، ومحمد بن حميد الرازي، قالا: حدثنا ابو عبد الرحمن المقرئ، عن سعيد بن ابي ايوب، حدثني ابو مرحوم، عن سهل بن معاذ، عن ابيه، ان النبي صلى الله عليه وسلم " نهى عن الحبوة يوم الجمعة والإمام يخطب ". قال ابو عيسى: وهذا حديث حسن، وابو مرحوم اسمه عبد الرحيم بن ميمون، وقد كره قوم من اهل العلم الحبوة يوم الجمعة والإمام يخطب، ورخص في ذلك بعضهم منهم عبد الله بن عمر وغيره، وبه يقول احمد، وإسحاق: لا يريان بالحبوة والإمام يخطب باسا.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي أَبُو مَرْحُومٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنِ الْحِبْوَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو مَرْحُومٍ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مَيْمُونٍ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْحِبْوَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، وَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُهُمْ مِنْهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُهُ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: لَا يَرَيَانِ بِالْحِبْوَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ بَأْسًا.
معاذ بن انس جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن جب کہ امام خطبہ دے رہا ہو گھٹنوں کو پیٹ کے ساتھ ملا کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- عام اہل علم نے جمعہ کے دن حبوہ کو مکروہ جانا ہے، اور بعض نے اس کی رخصت دی ہے، انہیں میں سے عبداللہ بن عمر وغیرہ ہیں۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، یہ دونوں امام کے خطبہ دینے کی حالت میں حبوہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 234 (1110)، (تحفة الأشراف: 11299)، مسند احمد (3/439) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: «حبوہ» ایک مخصوص بیٹھک کا نام ہے، اس کی صورت یہ ہے کہ سرین پر بیٹھا جائے اور دونوں گھٹنوں کو کھڑا رکھا جائے اور انہیں دونوں ہاتھوں سے باندھ لیا جائے، اس سے ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح بیٹھنے سے نیند آتی ہے اور ہوا خارج ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن، المشكاة (1293)، صحيح أبي داود (1017)
19. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ رَفْعِ الأَيْدِي عَلَى الْمِنْبَرِ
19. باب: منبر پر ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 515
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا حصين، قال: سمعت عمارة بن رويبة الثقفي، وبشر بن مروان يخطب، فرفع يديه في الدعاء، فقال عمارة: " قبح الله هاتين اليديتين القصيرتين، لقد رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما يزيد على ان يقول هكذا، واشار هشيم بالسبابة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَارَةَ بْنَ رُوَيْبَةَ الثَّقَفِيَّ، وَبِشْرُ بْنُ مَرْوَانَ يَخْطُبُ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي الدُّعَاءِ، فَقَالَ عُمَارَةُ: " قَبَّحَ اللَّهُ هَاتَيْنِ الْيُدَيَّتَيْنِ الْقُصَيَّرَتَيْنِ، لَقَدْ رأَيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا يَزِيدُ عَلَى أَنْ يَقُولَ هَكَذَا، وَأَشَارَ هُشَيْمٌ بِالسَّبَابةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
حصین کہتے ہیں کہ بشر بن مروان خطبہ دے رہے تھے، انہوں نے دعا ۱؎ کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، تو میں نے عمارہ بن رویبہ کو کہتے سنا: اللہ ان دونوں چھوٹے ہاتھوں کو غارت کرے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صرف اس طرح کرتے تھے اس سے زیادہ کچھ نہیں، اور ہشیم نے اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجمعة 13 (874)، سنن ابی داود/ الصلاة 230 (1104)، سنن النسائی/الجمعة 29 (1413)، (تحفة الأشراف: 10377)، مسند احمد (4/135، 136، 261)، سنن الدارمی/الصلاة 201 (1601) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: صحیح مسلم میں «فی الدعاء» کا لفظ نہیں ہے، مولف نے اسی لفظ سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ خطبہ جمعہ کی حالت میں دعا میں ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیئے، اور مسلم کی روایت کے مطابق حدیث کا مطلب ہے کہ خطبہ میں بہت زیادہ ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیئے اور وہ جو صحیح بخاری میں انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ بارش کے لیے دعا کی اور ہاتھ اٹھایا، تو بقول بعض ائمہ یہ استسقاء (بارش کے طلب) کی دعا تھی اس لیے اٹھایا تھا، صحیح بات یہ ہے کہ عمارہ بن رویبہ نے مطلق حالت خطبہ میں ہاتھوں کو زیادہ حرکت کی بابت تنبیہ کی تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (1012)
20. باب مَا جَاءَ فِي أَذَانِ الْجُمُعَةِ
20. باب: جمعہ کی اذان کا بیان۔
حدیث نمبر: 516
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا حماد بن خالد الخياط، عن ابن ابي ذئب، عن الزهري، عن السائب بن يزيد، قال: " كان الاذان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وابي بكر، وعمر إذا خرج الإمام وإذا اقيمت الصلاة، فلما كان عثمان رضي الله عنه، زاد النداء الثالث على الزوراء ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: " كَانَ الْأَذَانُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ إِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ وَإِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى الزَّوْرَاءِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے زمانے میں (پہلی) اذان اس وقت ہوتی جب امام نکلتا اور (دوسری) جب نماز کھڑی ہوتی ۱؎ پھر جب عثمان رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے زوراء ۲؎ میں تیسری اذان کا اضافہ کیا ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجمعة 21 (912)، و22 (913)، و24 (915)، و25 (916)، سنن ابی داود/ الصلاة 225 (1087)، سنن النسائی/الجمعة 15 (1393)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 97 (1135)، (تحفة الأشراف: 3799)، مسند احمد (3/450) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہاں دوسری اذان سے مراد اقامت ہے۔
۲؎: زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام تھا۔
۳؎: عثمان رضی الله عنہ نے مسجد سے دور بازار میں پہلی اذان دلوائی، اور فی زمانہ لوگوں نے یہ اذان مسجد کے اندر کر دی ہے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اذان عثمان رضی الله عنہ کی سنت ہے، اگر کہیں واقعی اس طرح کی ضرورت موجود ہو تو اذان مسجد سے باہر دی جائے، ویسے اب مائک کے انتظام اور اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں گھڑیوں کی موجودگی کے سبب اس طرح کی اذان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی، جس ضرورت کے تحت عثمان رضی الله عنہ یہ زائد اذان دلوائی تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1135)
21. باب مَا جَاءَ فِي الْكَلاَمِ بَعْدَ نُزُولِ الإِمَامِ مِنَ الْمِنْبَرِ
21. باب: منبر سے اترنے کے بعد امام کا بات چیت کرنا جائز ہے۔
حدیث نمبر: 517
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو داود الطيالسي، حدثنا جرير بن حازم، عن ثابت، عن انس بن مالك، قال: " كان النبي صلى الله عليه وسلم يكلم بالحاجة إذا نزل عن المنبر ". قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه إلا من حديث جرير بن حازم. قال: وسمعت محمدا، يقول: وهم جرير بن حازم في هذا الحديث، والصحيح ما روي عن ثابت، عن انس، قال: " اقيمت الصلاة فاخذ رجل بيد النبي صلى الله عليه وسلم، فما زال يكلمه حتى نعس بعض القوم ". قال محمد: والحديث هو هذا. وجرير بن حازم ربما يهم في الشيء، وهو صدوق، قال محمد: وهم جرير بن حازم في حديث ثابت، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا اقيمت الصلاة فلا تقوموا حتى تروني ". قال محمد: ويروى عن حماد بن زيد، قال: كنا عند ثابت البناني فحدث حجاج، الصواف، عن يحيى بن ابي كثير، عن عبد الله بن ابي قتادة، عن ابيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " إذا اقيمت الصلاة فلا تقوموا حتى تروني " فوهم جرير فظن ان ثابتا حدثهم عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلَّمُ بِالْحَاجَةِ إِذَا نَزَلَ عَنِ الْمِنْبَرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ. قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: وَهِمَ جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: " أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَأَخَذَ رَجُلٌ بِيَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا زَالَ يُكَلِّمُهُ حَتَّى نَعَسَ بَعْضُ الْقَوْمِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَالْحَدِيثُ هُوَ هَذَا. وَجَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ رُبَّمَا يَهِمُ فِي الشَّيْءِ، وَهُوَ صَدُوقٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَهِمَ جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ فِي حَدِيثِ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَيُرْوَى عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ فَحَدَّثَ حَجَّاجٌ، الصَّوَّافُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي " فَوَهِمَ جَرِيرٌ فَظَنَّ أَنَّ ثَابِتًا حَدَّثَهُمْ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت کی بات اس وقت کرتے جب آپ منبر سے اترتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ہم اس حدیث کو صرف جریر بن حازم کی روایت سے جانتے ہیں، اور میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ جریر بن حازم کو اس حدیث میں وہم ہوا ہے، اور صحیح وہی ہے جو بطریق: «ثابت عن أنس» مروی ہے، انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نماز کھڑی ہوئی اور ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا تو آپ برابر اس سے گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ بعض لوگوں کو اونگھ آنے لگی۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: حدیث یہی ہے، اور جریر کو کبھی کبھی وہم ہو جاتا ہے حالانکہ وہ صدوق ہیں۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ جریر بن حازم کو ثابت کی حدیث میں (بھی) جسے ثابت نے انس سے اور انس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے وہم ہوا ہے (جو یہ ہے کہ) آپ نے فرمایا: جب نماز کھڑی ہو جائے تو تم اس وقت تک نہ کھڑے ہو جب تک کہ مجھے نہ دیکھ لو۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: نیز حماد بن زید سے روایت کی جاتی ہے کہ ہم لوگ ثابت بنانی کے پاس تھے، اور حجاج صواف نے یحییٰ ابن ابی کثیر کے واسطہ سے حدیث بیان کی، جسے یحییٰ نے عبداللہ بن ابوقتادہ سے اور عبداللہ نے اپنے والد ابوقتادہ سے اور ابوقتادہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: جب نماز کھڑی ہو جائے تو تم کھڑے نہ ہو جب تک کہ مجھے نہ دیکھ لو چنانچہ جریر کو وہم ہوا، انہیں گمان ہوا کہ ثابت نے ان سے بیان کیا ہے اور ثابت نے انس سے اور انس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 240 (1120)، سنن النسائی/الجمعة 36 (1420)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 89 (1117)، (تحفة الأشراف: 260)، مسند احمد (3/127) (شاذ) (جریر سے وہم ہوا ہے، واقعہ عشاء کا ہے، نہ کہ جمعہ کا، جیسا کہ مسلم کی حدیث نمبر370میں ہے)»

قال الشيخ الألباني: شاذ، والمحفوظ الذي بعده.، ابن ماجة (1117)

Previous    1    2    3    4    5    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.