الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
حدیث نمبر: 732
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا ابو داود، حدثنا شعبة، قال: كنت اسمع سماك بن حرب، يقول: احد ابني ام هانئ، حدثني فلقيت انا افضلهما، وكانت ام هانئ جدته، فحدثني، عن جدته، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليها فدعى بشراب فشرب، ثم ناولها فشربت، فقالت: يا رسول الله، اما إني كنت صائمة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الصائم المتطوع امين نفسه، إن شاء صام وإن شاء افطر ". قال شعبة: فقلت له: اانت سمعت هذا من ام هانئ، قال: لا، اخبرني ابو صالح واهلنا، عن ام هانئ. وروى حماد بن سلمة هذا الحديث، عن سماك بن حرب، فقال: عن هارون بن بنت ام هانئ، عن ام هانئ، ورواية شعبة احسن، هكذا حدثنا محمود بن غيلان، عن ابي داود، فقال: امين نفسه، وحدثنا غير محمود، عن ابي داود، فقال: امير نفسه او امين نفسه على الشك، وهكذا روي من غير وجه عن شعبة امين او امير نفسه على الشك. قال: وحديث ام هانئ في إسناده مقال، والعمل عليه عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، ان الصائم المتطوع إذا افطر فلا قضاء عليه إلا ان يحب ان يقضيه، وهو قول سفيان الثوري، واحمد، وإسحاق، والشافعي.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: كُنْتُ أَسْمَعُ سِمَاكَ بْنَ حَرْبٍ، يَقُولُ: أَحَدُ ابْنَيْ أُمِّ هَانِئٍ، حَدَّثَنِي فَلَقِيتُ أَنَا أَفْضَلَهُمَا، وكانت أم هانئ جدته، فَحَدَّثَنِي، عَنْ جَدَّتِهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا فَدَعَى بِشَرَابٍ فَشَرِبَ، ثُمَّ نَاوَلَهَا فَشَرِبَتْ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَمَا إِنِّي كُنْتُ صَائِمَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الصَّائِمُ الْمُتَطَوِّعُ أَمِينُ نَفْسِهِ، إِنْ شَاءَ صَامَ وَإِنْ شَاءَ أَفْطَرَ ". قَالَ شُعْبَةُ: فَقُلْتُ لَهُ: أَأَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ أُمِّ هَانِئٍ، قَالَ: لَا، أَخْبَرَنِي أَبُو صَالِحٍ وَأَهْلُنَا، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ. وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، فَقَالَ: عَنْ هَارُونَ بْنِ بِنْتِ أُمِّ هَانِئٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، وَرِوَايَةُ شُعْبَةَ أَحْسَنُ، هَكَذَا حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، عَنْ أَبِي دَاوُدَ، فَقَالَ: أَمِينُ نَفْسِهِ، وحَدَّثَنَا غَيْرُ مَحْمُودٍ، عَنْ أَبِي دَاوُدَ، فَقَالَ: أَمِيرُ نَفْسِهِ أَوْ أَمِينُ نَفْسِهِ عَلَى الشَّكِّ، وَهَكَذَا رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ شُعْبَةَ أَمِينُ أَوْ أَمِيرُ نَفْسِهِ عَلَى الشَّكِّ. قَالَ: وَحَدِيثُ أُمِّ هَانِئٍ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الصَّائِمَ الْمُتَطَوِّعَ إِذَا أَفْطَرَ فَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِ إِلَّا أَنْ يُحِبَّ أَنْ يَقْضِيَهُ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَالشَّافِعِيِّ.
شعبہ کہتے ہیں کہ میں سماک بن حرب کو کہتے سنا کہ ام ہانی رضی الله عنہا کے دونوں بیٹوں میں سے ایک نے مجھ سے حدیث بیان کی تو میں ان دونوں میں جو سب سے افضل تھا اس سے ملا، اس کا نام جعدہ تھا، ام ہانی اس کی دادی تھیں، اس نے مجھ سے بیان کیا کہ اس کی دادی کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں آئے تو آپ نے کوئی پینے کی چیز منگائی اور اسے پیا۔ پھر آپ نے انہیں دیا تو انہوں نے بھی پیا۔ پھر انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! میں تو روزے سے تھی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نفل روزہ رکھنے والا اپنے نفس کا امین ہے، چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو نہ رکھے۔ شعبہ کہتے ہیں: میں نے سماک سے پوچھا: کیا آپ نے اسے ام ہانی سے سنا ہے؟ کہا: نہیں، مجھے ابوصالح نے اور ہمارے گھر والوں نے خبر دی ہے اور ان لوگوں نے ام ہانی سے روایت کی۔ حماد بن سلمہ نے بھی یہ حدیث سماک بن حرب سے روایت کی ہے۔ اس میں ہے ام ہانی کی لڑکی کے بیٹے ہارون سے روایت ہے، انہوں نے ام ہانی سے روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- شعبہ کی روایت سب سے بہتر ہے، اسی طرح ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ہے اور محمود نے ابوداؤد سے روایت کی ہے، اس میں «أمين نفسه» ہے، البتہ ابوداؤد سے محمود کے علاوہ دوسرے لوگوں نے جو روایت کی تو ان لوگوں نے «أمير نفسه أو أمين نفسه» شک کے ساتھ کہا۔ اور اسی طرح شعبہ سے متعدد سندوں سے بھی «أمين أو أمير نفسه» شک کے ساتھ وارد ہے۔ ام ہانی کی حدیث کی سند میں کلام ہے۔
۲- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ نفل روزہ رکھنے والا اگر روزہ توڑ دے تو اس پر کوئی قضاء لازم نہیں الا یہ کہ وہ قضاء کرنا چاہے۔ یہی سفیان ثوری، احمد، اسحاق بن راہویہ اور شافعی کا قول ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 18001) (صحیح) (سابقہ حدیث سے تقویت پا کر یہ صحیح لغیرہ ہے)»

وضاحت:
۱؎: یہی جمہور کا قول ہے، ان کی دلیل ام ہانی کی روایت ہے جس میں ہے «فإن شئت فأقضى وإن شئت فلا تقضى» نیز ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی روایت ہے جس میں ہے «أفطر فصم مكانه إن شئت» یہ دونوں روایتیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نفل روزہ توڑ دینے پر قضاء لازم نہیں، حنفیہ کہتے ہیں کہ قضاء لازم ہے، ان کی دلیل عائشہ و حفصہ رضی الله عنہما کی روایت ہے جو ایک باب کے بعد آ رہی ہے، لیکن وہ ضعیف ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح تخريج المشكاة (2079)، صحيح أبي داود (2120)
35. باب صِيَامِ الْمُتَطَوِّعِ بِغَيْرِ تَبْيِيتٍ
35. باب: رات میں روزے کی نیت کئے بغیر نفلی روزہ رکھنے کا بیان۔
Chapter: Performing A Voluntary Fast Without Planning It The Night Before
حدیث نمبر: 733
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا وكيع، عن طلحة بن يحيى، عن عمته عائشة بنت طلحة، عن عائشة ام المؤمنين، قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما، فقال: " هل عندكم شيء "، قالت: قلت: لا، قال: " فإني صائم ".(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَمَّتِهِ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ: " هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ "، قَالَتْ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: " فَإِنِّي صَائِمٌ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن میرے پاس آئے اور آپ نے پوچھا: کیا تمہارے پاس کچھ (کھانے کو) ہے میں نے عرض کیا: نہیں، تو آپ نے فرمایا: تو میں روزے سے ہوں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصیام 32 (1154)، سنن ابی داود/ الصیام 72 (2455)، سنن النسائی/الصیام 67 (2324)، سنن ابن ماجہ/الصیام 26 (1701)، (تحفة الأشراف: 17872)، مسند احمد (6/49، 207) (حسن صحیح)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، الإرواء (965)، صحيح أبي داود (2119)
حدیث نمبر: 734
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا بشر بن السري، عن سفيان، عن طلحة بن يحيى، عن عائشة بنت طلحة، عن عائشة ام المؤمنين، قالت: كان النبي صلى الله عليه وسلم ياتيني، فيقول: " اعندك غداء " فاقول: لا، فيقول: " إني صائم "، قالت: فاتاني يوما، فقلت: يا رسول الله إنه قد اهديت لنا هدية، قال: " وما هي؟ " قالت: قلت: حيس، قال: " اما إني قد اصبحت صائما " قالت: ثم اكل. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي، فَيَقُولُ: " أَعِنْدَكِ غَدَاءٌ " فَأَقُولُ: لَا، فَيَقُولُ: " إِنِّي صَائِمٌ "، قَالَتْ: فَأَتَانِي يَوْمًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ قَدْ أُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ، قَالَ: " وَمَا هِيَ؟ " قَالَتْ: قُلْتُ: حَيْسٌ، قَالَ: " أَمَا إِنِّي قَدْ أَصْبَحْتُ صَائِمًا " قَالَتْ: ثُمَّ أَكَلَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آتے تو پوچھتے: کیا تمہارے پاس کھانا ہے؟ میں کہتی: نہیں۔ تو آپ فرماتے: تو میں روزے سے ہوں، ایک دن آپ میرے پاس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے پاس ایک ہدیہ آیا ہے۔ آپ نے پوچھا: کیا چیز ہے؟ میں نے عرض کیا: حیس، آپ نے فرمایا: میں صبح سے روزے سے ہوں، پھر آپ نے کھا لیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: ایک قسم کا کھانا جو کھجور، ستّو اور گھی سے تیار کیا جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، الإرواء (965)، صحيح أبي داود (2119)
36. باب مَا جَاءَ فِي إِيجَابِ الْقَضَاءِ عَلَيْهِ
36. باب: نفل روزہ توڑنے پر اس کی قضاء لازم ہے۔
Chapter: What Has Been Reported About: The Obligation On Him To Make Up
حدیث نمبر: 735
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا كثير بن هشام، حدثنا جعفر بن برقان، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: كنت انا وحفصة صائمتين، فعرض لنا طعام اشتهيناه فاكلنا منه، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبدرتني إليه حفصة، وكانت ابنة ابيها، فقالت: يا رسول الله إنا كنا صائمتين، فعرض لنا طعام اشتهيناه فاكلنا منه، قال: " اقضيا يوما آخر مكانه ". قال ابو عيسى: وروى صالح بن ابي الاخضر، ومحمد بن ابي حفصة هذا الحديث، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة مثل هذا، ورواه مالك بن انس، ومعمر، وعبيد الله بن عمر، وزياد بن سعد، وغير واحد من الحفاظ، عن الزهري، عن عائشة مرسلا، ولم يذكروا فيه عن عروة، وهذا اصح لانه روي عن ابن جريج، قال: سالت الزهري، قلت له: احدثك عروة، عن عائشة، قال: لم اسمع من عروة في هذا شيئا، ولكني سمعت في خلافة سليمان بن عبد الملك من ناس، عن بعض من سال عائشة عن هذا الحديث. حدثنا بذلك94 علي بن عيسى بن يزيد البغدادي، حدثنا روح بن عبادة، عن ابن جريج فذكر الحديث. وقد ذهب قوم من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم إلى هذا الحديث، فراوا عليه القضاء إذا افطر، وهو قول مالك بن انس.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُنْتُ أَنَا وَحَفْصَةُ صَائِمَتَيْنِ، فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَدَرَتْنِي إِلَيْهِ حَفْصَةُ، وَكَانَتِ ابْنَةَ أَبِيهَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا صَائِمَتَيْنِ، فَعُرِضَ لَنَا طَعَامٌ اشْتَهَيْنَاهُ فَأَكَلْنَا مِنْهُ، قَالَ: " اقْضِيَا يَوْمًا آخَرَ مَكَانَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى صَالِحُ بْنُ أَبِي الْأَخْضَرِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ مِثْلَ هَذَا، وَرَوَاهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَمَعْمَرٌ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَزِيَادُ بْنُ سَعْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ مُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ عُرْوَةَ، وَهَذَا أَصَحُّ لِأَنَّهُ رُوِيَ عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: سَأَلْتُ الزُّهْرِيَّ، قُلْتُ لَهُ: أَحَدَّثَكَ عُرْوَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَ: لَمْ أَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ فِي هَذَا شَيْئًا، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ فِي خِلَافَةِ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ مِنْ نَاسٍ، عَنْ بَعْضِ مَنْ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ94 عَلِيُّ بْنُ عِيسَى بْنِ يَزِيدَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ. وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، فَرَأَوْا عَلَيْهِ الْقَضَاءَ إِذَا أَفْطَرَ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں اور حفصہ دونوں روزے سے تھیں، ہمارے پاس کھانے کی ایک چیز آئی جس کی ہمیں رغبت ہوئی، تو ہم نے اس میں سے کھا لیا۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ گئے، تو حفصہ مجھ سے سبقت کر گئیں - وہ اپنے باپ ہی کی بیٹی تو تھیں - انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! ہم لوگ روزے سے تھے۔ ہمارے سامنے کھانا آ گیا، تو ہمیں اس کی خواہش ہوئی تو ہم نے اسے کھا لیا، آپ نے فرمایا: تم دونوں کسی اور دن اس کی قضاء کر لینا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- صالح بن ابی اخضر اور محمد بن ابی حفصہ نے یہ حدیث بسند «زہری عن عروہ عن عائشہ» اسی کے مثل روایت کی ہے۔ اور اسے مالک بن انس، معمر، عبیداللہ بن عمر، زیاد بن سعد اور دوسرے کئی حفاظ نے بسند «الزہری عن عائشہ» مرسلاً روایت کی ہے اور ان لوگوں نے اس میں عروہ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ اس لیے کہ ابن جریج سے مروی ہے کہ میں نے زہری سے پوچھا: کیا آپ سے اسے عروہ نے بیان کیا اور عروہ سے عائشہ نے روایت کی ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے اس سلسلے میں عروہ سے کوئی چیز نہیں سنی ہے۔ میں نے سلیمان بن عبدالملک کے عہد خلافت میں بعض ایسے لوگوں سے سنا ہے جنہوں نے ایسے شخص سے روایت کی ہے جس نے اس حدیث کے بارے میں عائشہ سے پوچھا،
۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت اسی حدیث کی طرف گئی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ کوئی نفل روزہ توڑ دے تو اس پر قضاء لازم ہے ۱؎ مالک بن انس کا یہی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائی فی الکبری) (تحفة الأشراف: 16419) (ضعیف) (جعفر بن برقان زہری سے روایت میں ضعیف ہیں، نیز صحیح بات یہ ہے کہ اس میں عروہ کا واسطہ غلط ہے سند میں عروہ ہیں ہی نہیں)»

وضاحت:
۱؎: لیکن جمہور نے اسے تخییر پر محمول کیا ہے کیونکہ ام ہانی کی ایک روایت میں ہے «وإن كان تطوعاً فإن شئت فأقضي وإن شئت فلا تقضي» اور اگر نفلی روزہ ہے تو چاہو تو تم اس کی قضاء کرو اور چاہو تو نہ کرو اس روایت کی تخریج احمد نے کی ہے اور ابوداؤد نے بھی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ضعيف أبي داود (423) // عندنا برقم (531 / 2457) //
37. باب مَا جَاءَ فِي وِصَالِ شَعْبَانَ بِرَمَضَانَ
37. باب: روزہ رکھ کر شعبان کو رمضان سے ملا دینے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Connecting Fasts Of Sha'ban To Ramadan
حدیث نمبر: 736
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن منصور، عن سالم بن ابي الجعد، عن ابي سلمة، عن ام سلمة، قالت: " ما رايت النبي صلى الله عليه وسلم يصوم شهرين متتابعين إلا شعبان ورمضان ". وفي الباب عن عائشة. قال ابو عيسى: حديث ام سلمة حديث حسن، وقد روي هذا الحديث ايضا عن ابي سلمة، عن عائشة، انها قالت: " ما رايت النبي صلى الله عليه وسلم في شهر اكثر صياما منه في شعبان، كان يصومه إلا قليلا بل كان يصومه كله ".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: " مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ إِلَّا شَعْبَانَ وَرَمَضَانَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ سَلَمَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ، كَانَ يَصُومُهُ إِلَّا قَلِيلًا بَلْ كَانَ يَصُومُهُ كُلَّهُ ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو لگاتار دو مہینوں کے روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے شعبان ۱؎ اور رمضان کے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ام سلمہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن ہے،
۲- اس باب میں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے،
۳- اور یہ حدیث ابوسلمہ سے بروایت عائشہ بھی مروی ہے وہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے رکھتے نہیں دیکھا، آپ شعبان کے سارے روزے رکھتے، سوائے چند دنوں کے بلکہ پورے ہی شعبان روزے رکھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الصیام 33 (2177)، و70 (2354)، سنن ابن ماجہ/الصیام 4 (1648)، (تحفة الأشراف: 18232) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ الصیام 11 (2336)، وسنن النسائی/الصیام 70 (2355)، و مسند احمد (6/311) من غیر ہذا الطریق۔»

وضاحت:
۱؎: شعبان میں زیادہ روزے رکھنے کی وجہ ایک حدیث میں یہ بیان ہوئی ہے کہ اس مہینہ میں اعمال رب العالمین کی بارگاہ میں پیش کئے جاتے ہیں تو آپ نے اس بات کو پسند فرمایا کہ جب آپ کے اعمال بارگاہ الٰہی میں پیش ہوں تو آپ روزے کی حالت میں ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1648)
حدیث نمبر: 737
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا عبدة، عن محمد بن عمرو، حدثنا ابو سلمة، عن عائشة، عن النبي صلى الله عليه وسلم بذلك، وروي عن ابن المبارك، انه قال: في هذا الحديث، قال: هو جائز في كلام العرب إذا صام اكثر الشهر ان يقال صام الشهر كله، ويقال: قام فلان ليله اجمع ولعله تعشى واشتغل ببعض امره، كان ابن المبارك قد راى كلا الحديثين متفقين، يقول: إنما معنى هذا الحديث انه كان يصوم اكثر الشهر. قال ابو عيسى: وقد روى سالم ابو النضر، وغير واحد، عن ابي سلمة، عن عائشة نحو رواية محمد بن عمرو.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ: فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: هُوَ جَائِزٌ فِي كَلَامِ الْعَرَبِ إِذَا صَامَ أَكْثَرَ الشَّهْرِ أَنْ يُقَالَ صَامَ الشَّهْرَ كُلَّهُ، وَيُقَالُ: قَامَ فُلَانٌ لَيْلَهُ أَجْمَعَ وَلَعَلَّهُ تَعَشَّى وَاشْتَغَلَ بِبَعْضِ أَمْرِهِ، كَأَنَّ ابْنَ الْمُبَارَكِ قَدْ رَأَى كِلَا الْحَدِيثَيْنِ مُتَّفِقَيْنِ، يَقُولُ: إِنَّمَا مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ كَانَ يَصُومُ أَكْثَرَ الشَّهْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ نَحْوَ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو.
اس سند سے بھی اسے ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عبداللہ بن مبارک اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ کلام عرب میں یہ جائز ہے کہ جب کوئی مہینے کے اکثر ایام روزہ رکھے تو کہا جائے کہ اس نے پورے مہینے کے روزے رکھے، اور کہا جائے کہ اس نے پوری رات نماز پڑھی حالانکہ اس نے شام کا کھانا بھی کھایا اور بعض دوسرے کاموں میں بھی مشغول رہا۔ گویا ابن مبارک دونوں حدیثوں کو ایک دوسرے کے موافق سمجھتے ہیں۔ اس طرح اس حدیث کا مفہوم یہ ہوا کہ آپ اس مہینے کے اکثر ایام میں روزہ رکھتے تھے،
۲- سالم ابوالنضر اور دوسرے کئی لوگوں نے بھی بطریق ابوسلمہ عن عائشہ محمد بن عمرو کی طرح روایت کی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد المؤلف (تحفة الأشراف: 17756) (حسن صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصوم 52 (1969)، وصحیح مسلم/الصیام 34 (1156)، وسنن النسائی/الصیام 34 (2179، 2180)، و35 (2181-2187)، وسنن ابن ماجہ/الصیام 30 (1710)، وط/الصیام 22 (56)، و مسند احمد (6/39، 58، 84، 107، 128، 143، 103، 165، 233، 242، 249، 268)، من غیر ہذا الطریق ویتصرف یسیر فی السیاق»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (1648)
38. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الصَّوْمِ فِي النِّصْفِ الثَّانِي مِنْ شَعْبَانَ لِحَالِ رَمَضَانَ
38. باب: رمضان کی تعظیم میں شعبان کے دوسرے نصف میں روزہ رکھنے کی کراہت۔
Chapter: What Has Been Related About It Being Disliked To Fast During The Second Half Of Sha'ban For The Sake of Ramdan
حدیث نمبر: 738
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن العلاء بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا بقي نصف من شعبان فلا تصوموا ". قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، لا نعرفه إلا من هذا الوجه على هذا اللفظ، ومعنى هذا الحديث عند بعض اهل العلم ان يكون الرجل مفطرا، فإذا بقي من شعبان شيء اخذ في الصوم لحال شهر رمضان، وقد روي عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم ما يشبه قولهم، حيث قال صلى الله عليه وسلم: " لا تقدموا شهر رمضان بصيام إلا ان يوافق ذلك صوما كان يصومه احدكم " وقد دل في هذا الحديث انما الكراهية على من يتعمد الصيام لحال رمضان.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا بَقِيَ نِصْفٌ مِنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُومُوا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ عَلَى هَذَا اللَّفْظِ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَكُونَ الرَّجُلُ مُفْطِرًا، فَإِذَا بَقِيَ مِنْ شَعْبَانَ شَيْءٌ أَخَذَ فِي الصَّوْمِ لِحَالِ شَهْرِ رَمَضَانَ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يُشْبِهُ قَوْلَهُمْ، حَيْثُ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقَدَّمُوا شَهْرَ رَمَضَانَ بِصِيَامٍ إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ ذَلِكَ صَوْمًا كَانَ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ " وَقَدْ دَلَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّمَا الْكَرَاهِيَةُ عَلَى مَنْ يَتَعَمَّدُ الصِّيَامَ لِحَالِ رَمَضَانَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدھا شعبان رہ جائے تو روزہ نہ رکھو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم اسے ان الفاظ کے ساتھ صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،
۲- اور اس حدیث کا مفہوم بعض اہل علم کے نزدیک یہ ہے کہ آدمی پہلے سے روزہ نہ رکھ رہا ہو، پھر جب شعبان ختم ہونے کے کچھ دن باقی رہ جائیں تو ماہ رمضان کی تعظیم میں روزہ رکھنا شروع کر دے۔ نیز ابوہریرہ رضی الله عنہ سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ چیزیں روایت کی ہے جو ان لوگوں کے قول سے ملتا جلتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماہ رمضان کے استقبال میں پہلے سے روزہ نہ رکھو اس کے کہ ان ایام میں کوئی ایسا روزہ پڑ جائے جسے تم پہلے سے رکھتے آ رہے ہو۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کراہت اس شخص کے لیے ہے جو عمداً رمضان کی تعظیم میں روزہ رکھے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصیام 12 (2337)، سنن الدارمی/الصوم 34 (1782)، (تحفة الأشراف: 14051) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابن ماجہ/الصیام 5 (1651)، وسنن الدارمی/الصوم 34 (1781) من غیر ہذا الطریق۔»

وضاحت:
۱؎: شعبان کے نصف ثانی میں روزہ رکھنے کی ممانعت امت کو اس لیے ہے تاکہ رمضان کے روزوں کے لیے قوت و توانائی برقرار رہے، رہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس ممانعت میں داخل نہیں اس لیے کہ آپ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ شعبان کے روزوں کو رمضان سے ملا لیا کرتے تھے چونکہ آپ کو روحانی قوت حاصل تھی اس لیے روزہ آپ کے لیے کمزوری کا سبب نہیں بنتا تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1651)
39. باب مَا جَاءَ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ
39. باب: پندرھویں شعبان کی رات کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Middle Night Of Sha'ban
حدیث نمبر: 739
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا الحجاج بن ارطاة، عن يحيى بن ابي كثير، عن عروة، عن عائشة، قالت: فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة، فخرجت فإذا هو بالبقيع، فقال: " اكنت تخافين ان يحيف الله عليك ورسوله؟ " قلت: يا رسول الله، إني ظننت انك اتيت بعض نسائك، فقال: " إن الله عز وجل ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا، فيغفر لاكثر من عدد شعر غنم كلب ". وفي الباب عن ابي بكر الصديق. قال ابو عيسى: حديث عائشة لا نعرفه إلا من هذا الوجه من حديث الحجاج، وسمعت محمدا يضعف هذا الحديث، وقال يحيى بن ابي كثير: لم يسمع من عروة، والحجاج بن ارطاة، لم يسمع من يحيى بن ابي كثير.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً، فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِيعِ، فَقَالَ: " أَكُنْتِ تَخَافِينَ أَنْ يَحِيفَ اللَّهُ عَلَيْكِ وَرَسُولُهُ؟ " قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّكَ أَتَيْتَ بَعْضَ نِسَائِكَ، فَقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَنْزِلُ لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَيَغْفِرُ لِأَكْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ كَلْبٍ ". وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكرٍ الصِّدِّيقِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ الْحَجَّاجِ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا يُضَعِّفُ هَذَا الْحَدِيثَ، وقَالَ يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ: لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، لَمْ يَسْمَعْ مِنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غائب پایا۔ تو میں (آپ کی تلاش میں) باہر نکلی تو کیا دیکھتی ہوں کہ آپ بقیع قبرستان میں ہیں۔ آپ نے فرمایا: کیا تم ڈر رہی تھی کہ اللہ اور اس کے رسول تم پر ظلم کریں گے؟ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرا گمان تھا کہ آپ اپنی کسی بیوی کے ہاں گئے ہوں گے۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پندرھویں شعبان ۲؎ کی رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے، اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث کو ہم اس سند سے صرف حجاج کی روایت سے جانتے ہیں،
۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو اس حدیث کی تضعیف کرتے سنا ہے، نیز فرمایا: یحییٰ بن ابی کثیر کا عروہ سے اور حجاج بن ارطاۃ کا یحییٰ بن ابی کثیر سے سماع نہیں،
۳- اس باب میں ابوبکر صدیق رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الاقامة 191 (1389)، (تحفة الأشراف: 1735) (ضعیف) (مؤلف نے سبب بیان کر دیا ہے کہ حجاج بن ارطاة ضعیف راوی ہے، اور سند میں دوجگہ انقطاع ہے)»

وضاحت:
۱؎: اس باب کا ذکر یہاں استطراداً شعبان کے ذکر کی وجہ سے کیا گیا ہے ورنہ گفتگو یہاں صرف روزوں کے سلسلہ میں ہے۔
۲؎: اسی کو برصغیر ہندو پاک میں لیلۃ البراءت بھی کہتے ہیں، جس کا فارسی ترجمہ شب براءت ہے۔ اور اس میں ہونے والے اعمال بدعت وخرافات کے قبیل سے ہیں، نصف شعبان کی رات کی فضیلت کے حوالے سے کوئی ایک بھی صحیح روایت اور حدیث احادیث کی کتب میں نہیں ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، ابن ماجة (1389) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (295)، المشكاة (1299) الصفحة (406)، ضعيف الجامع الصغير (1761) //
40. باب مَا جَاءَ فِي صَوْمِ الْمُحَرَّمِ
40. باب: محرم کے روزے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About Fasting For Al-Muharram
حدیث نمبر: 740
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن حميد بن عبد الرحمن الحميري، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " افضل الصيام بعد شهر رمضان شهر الله المحرم ". قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ماہ رمضان کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینے ۱؎ محرم کا روزہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصیام 38 (1163)، سنن ابی داود/ الصیام 55 (2429)، سنن النسائی/قیام اللیل 6 (1614)، سنن ابن ماجہ/قیام الصیام 43 (1742)، (تحفة الأشراف: 12292)، مسند احمد (2/342، 244، 535) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اللہ کی طرف اس مہینہ کی نسبت اس کے شرف و فضل کی علامت ہے، جیسے بیت اللہ اور ناقۃ اللہ وغیرہ ہیں، محرم چار حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے، ماہ محرم ہی سے اسلامی سال کا آغاز ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1742)
حدیث نمبر: 741
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن حجر، قال: اخبرنا علي بن مسهر، عن عبد الرحمن بن إسحاق، عن النعمان بن سعد، عن علي، قال: ساله رجل، فقال: اي شهر تامرني ان اصوم بعد شهر رمضان؟ قال له: ما سمعت احدا يسال عن هذا إلا رجلا سمعته يسال رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا قاعد عنده، فقال: يا رسول الله اي شهر تامرني ان اصوم بعد شهر رمضان؟ قال: " إن كنت صائما بعد شهر رمضان فصم المحرم، فإنه شهر الله، فيه يوم تاب فيه على قوم، ويتوب فيه على قوم آخرين ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: سَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ؟ قَالَ لَهُ: مَا سَمِعْتُ أَحَدًا يَسْأَلُ عَنْ هَذَا إِلَّا رَجُلًا سَمِعْتُهُ يَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا قَاعِدٌ عِنْدَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ شَهْرٍ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصُومَ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ؟ قَالَ: " إِنْ كُنْتَ صَائِمًا بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ فَصُمْ الْمُحَرَّمَ، فَإِنَّهُ شَهْرُ اللَّهِ، فِيهِ يَوْمٌ تَابَ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ، وَيَتُوبُ فِيهِ عَلَى قَوْمٍ آخَرِينَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ان سے پوچھا: ماہ رمضان کے بعد کس مہینے میں روزہ رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں؟ تو انہوں نے اس سے کہا: میں نے اس سلسلے میں سوائے ایک شخص کے کسی کو پوچھتے نہیں سنا، میں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرتے سنا، اور میں آپ کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! ماہ رمضان کے بعد آپ مجھے کس مہینے میں روزہ رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اگر ماہ رمضان کے بعد تمہیں روزہ رکھنا ہی ہو تو محرم کا روزہ رکھو، وہ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ایسا ہے جس میں اللہ نے کچھ لوگوں پر رحمت کی ۱؎ اور اس میں دوسرے لوگوں پر بھی رحمت کرے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 10295) (ضعیف) (سند میں نعمان بن سعد لین الحدیث ہیں، اور ان سے روایت کرنے والے ”عبدالرحمن بن اسحاق بن الحارث ابو شیبہ“ ضعیف ہیں)»

وضاحت:
۱؎: یعنی بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دی۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، التعليق الرغيب (2 / 77) // ضعيف الجامع الصغير (1298) //

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.