56. بَابُ مَنْ رَأَى إِذَا اشْتَرَى طَعَامًا جِزَافًا أَنْ لاَ يَبِيعَهُ حَتَّى يُئْوِيَهُ إِلَى رَحْلِهِ، وَالأَدَبِ فِي ذَلِكَ:
56. باب: جو شخص غلہ کا ڈھیر بن ناپے تولے خریدے وہ جب تک اس کو اپنے ٹھکانے نہ لائے، کسی کے ہاتھ نہ بیچے اور اس کے خلاف کرنے والے کی سزا کا بیان۔
(56) Chapter. Whoever had the opinion that whoever bought foodstuff without measuring or weighing (blindly) should not sell it before bringing into his house; and the punishment for whoever disobeys this order.
● صحيح البخاري | 6852 | عبد الله بن عمر | يبيعوه في مكانهم حتى يؤووه إلى رحالهم |
● صحيح البخاري | 2137 | عبد الله بن عمر | يبتاعون جزافا يعني الطعام يضربون أن يبيعوه في مكانهم حتى يؤووه إلى رحالهم |
● صحيح البخاري | 2124 | عبد الله بن عمر | يباع الطعام إذا اشتراه حتى يستوفيه |
● صحيح البخاري | 2126 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● صحيح البخاري | 2131 | عبد الله بن عمر | الذين يشترون الطعام مجازفة يضربون على عهد رسول الله أن يبيعوه حتى يؤووه إلى رحالهم |
● صحيح البخاري | 2133 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه |
● صحيح البخاري | 2136 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● صحيح البخاري | 2167 | عبد الله بن عمر | يبيعوه في مكانه حتى ينقلوه |
● صحيح البخاري | 2166 | عبد الله بن عمر | نهانا النبي أن نبيعه حتى يبلغ به سوق الطعام |
● صحيح مسلم | 3841 | عبد الله بن عمر | انتقاله من المكان الذي ابتعناه فيه إلى مكان سواه قبل أن نبيعه |
● صحيح مسلم | 3840 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● صحيح مسلم | 3844 | عبد الله بن عمر | من اشترى طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه ويقبضه |
● صحيح مسلم | 3845 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه |
● صحيح مسلم | 3846 | عبد الله بن عمر | إذا اشتروا طعاما جزافا أن يبيعوه في مكانه حتى يحول |
● صحيح مسلم | 3847 | عبد الله بن عمر | إذا ابتاعوا الطعام جزافا يضربون في أن يبيعوه في مكانهم وذلك حتى يؤووه إلى رحالهم |
● صحيح مسلم | 3842 | عبد الله بن عمر | من اشترى طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● سنن أبي داود | 3492 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● سنن أبي داود | 3493 | عبد الله بن عمر | نبتاع الطعام فيبعث علينا من يأمرنا بانتقاله من المكان الذي ابتعناه فيه إلى مكان سواه قبل أن نبيعه |
● سنن أبي داود | 3495 | عبد الله بن عمر | نهى أن يبيع أحد طعاما اشتراه بكيل حتى يستوفيه |
● سنن أبي داود | 3494 | عبد الله بن عمر | نهى رسول الله أن يبيعوه حتى ينقلوه |
● سنن أبي داود | 3498 | عبد الله بن عمر | إذا اشتروا الطعام جزافا أن يبيعوه حتى يبلغه إلى |
● سنن النسائى الصغرى | 4611 | عبد الله بن عمر | نهاهم أن يبيعوا في مكانهم الذي ابتاعوا فيه حتى ينقلوه إلى سوق الطعام |
● سنن النسائى الصغرى | 4599 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● سنن النسائى الصغرى | 4600 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يقبضه |
● سنن النسائى الصغرى | 4612 | عبد الله بن عمر | رأيت الناس يضربون على عهد رسول الله إذا اشتروا الطعام جزافا أن يبيعوه حتى يؤووه إلى رحالهم |
● سنن النسائى الصغرى | 4610 | عبد الله بن عمر | نهاهم رسول الله أن يبيعوه في مكانه حتى ينقلوه |
● سنن النسائى الصغرى | 4609 | عبد الله بن عمر | يأمرنا بانتقاله من المكان الذي ابتعنا فيه إلى مكان سواه قبل أن نبيعه |
● سنن النسائى الصغرى | 4608 | عبد الله بن عمر | نهى أن يبيع أحد طعاما اشتراه بكيل حتى يستوفيه |
● سنن ابن ماجه | 2229 | عبد الله بن عمر | نهانا رسول الله أن نبيعه حتى ننقله من مكانه |
● سنن ابن ماجه | 2226 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
● موطا امام مالك رواية ابن القاسم | 499 | عبد الله بن عمر | من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه |
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 499
´قبضے کے بغیر مال بیچنا جائز نہیں ہے`
«. . . 238- وبه: عن عبد الله بن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”من ابتاع طعاما فلا يبعه حتى يستوفيه.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا عباللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کھانا (غلہ) خریدے تو جب تک اسے پورا اپنے قبضے میں نہ لے لے آگے نہ بیچے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 499]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2126 ومسلم 1526/32 من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ غلے کی خرید و فروخت پورا قبٖضہ لئے بغیر جائز نہیں ہے۔
➋ نیز دیکھئے ح 29، 287
➌ جمیل بن عبدالرحمٰن المؤذن نے سعید بن المسیب رحمہ اللہ سے کہا: حکومت کی طرف سے لوگوں کے لئے جو غلے مقرر ہیں، میں انہیں جار (نامی ایک مقام) میں خرید لیتا ہوں پھر میں چاہتا ہوں کہ (قبضے کے بغیر) میعاد لگا کر اس غلے کو لوگوں کے ہاتھ بیچ دوں۔ سعید رحمہ اللہ نے کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ لوگوں کو وہ غلہ بیچجو جس کو تم نے (بغیر قبضے کے) خریدا ہے؟
اس نے کہا: جی ہاں، تو سعید (بن المسیب رحمہ اللہ) نے اسے منع کر دیا۔ [الموطا 642/2 ح1371 وسنده حسن]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 238
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2229
´بغیر ناپ تول کے اندازے سے بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ سواروں سے گیہوں (غلہ) کا ڈھیر بغیر ناپے تولے اندازے سے خریدتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کے بیچنے سے اس وقت تک منع کیا جب تک کہ ہم اسے اس کی جگہ سے منتقل نہ کر دیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2229]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ غلہ اندازے سے خریدنا درست ہے، لیکن ماپ کر لینا بہتر ہے۔
(2)
چیز کو خریدنے کے بعد اپنی ملکیت میں لے لینا اور وہاں سے اٹھا لینا چاہیے، بعد میں فروخت کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2229
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3494
´قبضہ سے پہلے غلہ بیچنا منع ہے۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ”لوگ اٹکل سے بغیر ناپے تولے (ڈھیر کے ڈھیر) بازار کے بلند علاقے میں غلہ خریدتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچنے سے منع فرمایا جب تک کہ وہ اسے اس جگہ سے منتقل نہ کر لیں“ (تاکہ مشتری کا پہلے اس پر قبضہ ثابت ہو جائے پھر بیچے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3494]
فوائد ومسائل:
(جزافاً) کے معنی ہیں کہ اس کا کیل (ناپ) یا وزن متعین نہ ہوتا تھا۔
بلکہ ویسے ہی ایک ڈھیر کا سودا کرلیا جاتا تھا۔
اور پھر اسے ویسے ہی تولے بغیر اور قبضے میں لیے ڈھیر ہی کی شکل میں فروخت کردیا جاتا تھا۔
اسے بعض افراد نے جائز قرار دیا ہے۔
لیکن احادیث کے الفاظ سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔
کہ غلہ ناپ تول کرلیا جائے۔
ڈھیری کی شکل میں اسے قبضے میں لئے بغیر ناپ تول کے بغیر بیچنا جائز نہیں۔
اور ڈھیری کا قبضہ یہی ہے۔
کہ اسے دوسری جگہ منتقل کردیا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3494
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2137
2137. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ان لوگوں کو پٹتے دیکھا جو غلے کا ڈھیر اندازے سے خریدتے، پھر اسی جگہ فروخت کرتے تاآنکہ وہ غلہ اپنے ٹھکانوں میں لے جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2137]
حدیث حاشیہ:
حدیث سے نکلا کہ حاکم اسلام بیع فاسد پر سزا دے سکتا ہے۔
امام مالک کا مذہب یہ ہے کہ جو چیز اندازے سے بن ناپ تول خریدی جائے اس کو قبضے سے پہلے بیچ سکتا ہے۔
اس حدیث سے ان کا رد ہوتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2137
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2137
2137. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نےفرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ان لوگوں کو پٹتے دیکھا جو غلے کا ڈھیر اندازے سے خریدتے، پھر اسی جگہ فروخت کرتے تاآنکہ وہ غلہ اپنے ٹھکانوں میں لے جائیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2137]
حدیث حاشیہ:
(1)
قبضے میں لینے کی تفصیل یہ ہے کہ اگر خریدى ہوئی چیز ہاتھ میں پکڑی جاسکتی ہو جیسا کہ درہم ودینار یا بازار کا سودا سلف وغیرہ تو اسے ہاتھ میں لینے سے قبضہ مکمل ہوجاتا ہے۔
اگر کوئی جائیداد وغیرہ منقولہ ہے تو اس کا قبضہ یہ ہے کہ مالک اس سے دست برادر ہوجائے، مثلاً:
زمین یا باغ کا قبضہ یہ ہے کہ مالک اسے خریدار کے حوالے کردے اور اگر کوئی چیز ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جاسکتی ہے تو اس کا قبضہ یہ ہے کہ خریدار اسے ایسی جگہ منتقل کردے جہاں مالک کا عمل دخل نہ ہوجیسا کہ غلہ اور حیوان کی خریدوفروخت کے وقت ہوتا ہے۔
امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ اگر بیع کو ماپ تول کر مالک کے پاس ہی رہنے دیا جائے تو اسے شرعی قبضہ نہیں کہا جائے گا یہاں تک کہ مشتری اسے ایسی جگہ منتقل کردے جہاں مالک کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔
(2)
اس عنوان اور پیش کردہ حدیث کا یہی مقصد ہے کہ خریدی ہوئی چیز،خواہ ماپ تول کرلی جائے یا اندازے سے اس پر قبضے سے پہلے اسے فروخت کرنا صحیح نہیں جبکہ امام مالک ؒ کہتے ہیں:
جو چیز ماپ تول کے بغیر صرف اندازے سے خریدی جائے اسے قبضے کے بغیر بھی آگے فروخت کیا جاسکتا ہے۔
یہ موقف حدیث کے خلاف تھا، اس لیے تردید ضروری تھی۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حاکم وقت خلاف شرع خریدوفروخت کرنے پر سزا دے سکتا ہے۔
حاکم کو چاہیے کہ وہ منڈیوں میں اپنے کارندے تعینات کرے جو خلاف شرع کاموں کی نگہداشت کریں۔
(فتح الباري: 444/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2137