English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

صحیح بخاری میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (7563)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
6. باب هل يعطى أكبر من سنه:
باب: کیا بدلہ میں قرض والے اونٹ سے زیادہ عمر والا اونٹ دیا جا سکتا ہے؟
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 2392
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَقَاضَاهُ بَعِيرًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَعْطُوهُ، فَقَالُوا: مَا نَجِدُ إِلَّا سِنًّا أَفْضَلَ مِنْ سِنِّهِ، فَقَالَ الرَّجُلُ: أَوْفَيْتَنِي أَوْفَاكَ اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَعْطُوهُ، فَإِنَّ مِنْ خِيَارِ النَّاسِ أَحْسَنَهُمْ قَضَاءً".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے یحییٰ قطان نے، ان سے سفیان ثوری نے کہ مجھ سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنا قرض کا اونٹ مانگنے آیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اسے اس کا اونٹ دے دو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ قرض خواہ کے اونٹ سے اچھی عمر کا ہی اونٹ مل رہا ہے۔ اس پر اس شخص (قرض خواہ) نے کہا مجھے تم نے میرا پورا حق دیا۔ تمہیں اللہ تمہارا حق پورا پورا دے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے وہی اونٹ دے دو کیونکہ بہترین شخص وہ ہے جو سب سے زیادہ بہتر طریقہ پر اپنا قرض ادا کرتا ہو۔ [صحيح البخاري/كتاب الاستقراض/حدیث: 2392]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥أبو هريرة الدوسيصحابي
👤←👥أبو سلمة بن عبد الرحمن الزهري، أبو سلمة
Newأبو سلمة بن عبد الرحمن الزهري ← أبو هريرة الدوسي
ثقة إمام مكثر
👤←👥سلمة بن كهيل الحضرمي، أبو يحيى
Newسلمة بن كهيل الحضرمي ← أبو سلمة بن عبد الرحمن الزهري
ثقة
👤←👥سفيان الثوري، أبو عبد الله
Newسفيان الثوري ← سلمة بن كهيل الحضرمي
ثقة حافظ فقيه إمام حجة وربما دلس
👤←👥يحيى بن سعيد القطان، أبو سعيد
Newيحيى بن سعيد القطان ← سفيان الثوري
ثقة متقن حافظ إمام قدوة
👤←👥مسدد بن مسرهد الأسدي، أبو الحسن
Newمسدد بن مسرهد الأسدي ← يحيى بن سعيد القطان
ثقة حافظ
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
صحيح البخاري
2606
لصاحب الحق مقالا وقال اشتروا له سنا فأعطوها إياه فقالوا إنا لا نجد سنا إلا سنا هي أفضل من سنه قال فاشتروها فأعطوها إياه من خيركم أحسنكم قضاء
صحيح البخاري
2609
أفضلكم أحسنكم قضاء
صحيح البخاري
2390
خيركم أحسنكم قضاء
صحيح البخاري
2393
خياركم أحسنكم قضاء
صحيح البخاري
2392
خيار الناس أحسنهم قضاء
صحيح البخاري
2306
خيركم أحسنكم قضاء
صحيح البخاري
2305
خياركم أحسنكم قضاء
صحيح مسلم
4111
خياركم محاسنكم قضاء
صحيح مسلم
4110
لصاحب الحق مقالا فقال لهم اشتروا له سنا فأعطوه إياه فقالوا إنا لا نجد إلا سنا هو خير من سنه قال فاشتروه فأعطوه إياه من خيركم أو خيركم أحسنكم قضاء
صحيح مسلم
4112
خيركم أحسنكم قضاء
جامع الترمذي
1317
لصاحب الحق مقالا ثم قال اشتروا له بعيرا فأعطوه إياه فطلبوه فلم يجدوا إلا سنا أفضل من سنه فقال اشتروه فأعطوه إياه خيركم أحسنكم قضاء
جامع الترمذي
1316
خياركم أحاسنكم قضاء
سنن النسائى الصغرى
4697
خياركم أحسنكم قضاء
سنن النسائى الصغرى
4622
خياركم أحسنكم قضاء
سنن ابن ماجه
2423
خيركم أحاسنكم قضاء
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2392 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2392
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرض کی ادائیگی کے وقت اگر کوئی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصل سے زیادہ واپس کر دے تو یہ اس کی سخاوت اور فیاضی ہے۔
ایسا کرنا منع نہیں، البتہ چیز کی پابندی قبول یا عائد کرنا کہ اس قدر دے رہا ہوں اور اتنا وصول کروں گا، یہ صریح سود ہے۔
شریعت نے اس سے منع کیا ہے۔
دراصل بعض حضرات کا موقف ہے کہ قرض کی ادائیگی کے وقت وصف میں عمدہ دینا تو جائز ہے لیکن مقدار میں زیادہ دینا ممنوع ہے۔
امام بخاری ؒ نے عنوان میں تنبیہ فرمائی کہ دونوں طرح جائز ہے بشرطیکہ عقد کرتے وقت اضافے کی شرط نہ ہو یا اُن کے ہاں طے شدہ دستور نہ ہو۔
اگر کوئی اپنی طرف سے عرف اور شرط کے بغیر زیادہ دیتا ہے تو یہ احسان ہے سود نہیں جیسا کہ مقروض آدمی اگر قرض خواہ کی کوئی ضرورت پوری کر دے تو ایسا کرنا سود نہیں۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2392]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4622
جانور میں بیع سلم یا ادھار معاملہ کرنے کا بیان۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ ایک شخص کا ایک جوان اونٹ باقی تھا، وہ آپ کے پاس تقاضا کرتا ہوا آیا تو آپ نے (صحابہ سے) فرمایا: اسے دے دو، انہیں اس سے زیادہ عمر کے ہی اونٹ ملے تو آپ نے فرمایا: اسی کو دے دو، اس نے کہا: آپ نے پورا پورا ادا کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4622]
اردو حاشہ:
خاص عمر کا اونٹ اس نے آپ سے دو دانتا اونٹ لینا تھا۔ آپ نے اسے رباعی اونٹ دیا جسے ہماری زبان میں چوگا کہتے ہیں جس کا رباعی دانت نیا نکلنے لگے۔ رباعی چھ سال کے اونٹ کو کہتے ہیں اور دو دانتا (جسے ہماری زبان میں دوندا کہتے ہیں) چار سال کے اونٹ کو۔ گویا آپ نے کافی بہتر اور قیمتی اونٹ دیا۔ معلوم ہوا اگرمقروض اپنی خوشی سے قرض خواہ کو اس کے مال سے اچھا یا زیادہ مال دے دے تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ کوئی ایسی شرط نہ لگائی گئی ہو۔ جانوروں میں عین برابری ممکن بھی نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ جیسا جانور لیا گیا تھا، بالکل ویسا ہی جس میں بال برابر بھی فرق نہ ہو، دیا جائے، لہٰذا دینے والا بہتر دینے کی کوشش کرے۔ خوشی سے زائد یا بہتر دینے کو سود نہیں کہیں گے بلکہ یہ حسن خلق ہے۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4622]

الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4110
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ حق (قرض) تھا، تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت لہجہ سے تقاضا کیا، جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے اسے سبق سکھانے کا ارادہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صاحب حق کو بات کہنے کا حق حاصل ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو فرمایا: (اس کی عمر کا) اونٹ خرید کر اسے دے دو۔ انہوں نے عرض کیا، نہیں اس کے جانور کی عمر... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4110]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مقروض،
اگر قرض خواہ کا قرض ادا کرنے میں ٹال مٹول یا تاخیری حربے اختیار کرے،
تو قرض خواہ سخت رویہ اختیار کر سکتا ہے،
لیکن اگر مقروض منصفانہ رویہ اختیار کرے،
یا جائز عذر پیش کرے تو پھر بلا وجہ شدت برتنا جائز نہیں ہے،
لیکن پھر بھی مقروض کو،
قرض خواہ کی سخت کلامی کو جو بلا محل اور نامناسب ہو،
حتی الوسع برداشت کرنا چاہیے،
کیونکہ وہ صاحب حق ہے،
غصہ میں آ سکتا ہے،
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض خواہ کا جو بقول امام قرطبی،
یہودی تھا،
یا بقول علامہ ملا علی قاری بدو یا ضعیف الایمان تھا،
اس کا نامعقول رویہ برداشت کیا،
حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ٹال مٹول یا تاخیری حربہ سے کام نہیں لیا تھا اور اس کے باوجود آپ نے صحابہ کرام کو اس کو کچھ کہنے سے روک دیا۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4110]

الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4111
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کم عمر جانور قرض لیا اور اس سے بڑی عمر کا دیا، اور فرمایا: تم میں سے بہترین لوگ وہی ہیں، جو قرض ادا کرنے میں بہترین ہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4111]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
محاسن:
محسن یا أحسن کی جمع ہے،
جس کو عام طور پر احاسن ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4111]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2306
2306. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص قرض کی ادائیگی کا تقاضا کرتے ہوئے آیا اور اس سلسلے میں اس نے کچھ سخت لہجہ اختیار کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے چاہا کہ اسے دبوچ لیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، اسے نظر انداز کردوکیونکہ حق دار کو اس انداز سے بات چیت کرنے کا حق حاصل ہے۔ پھرآپ نے فرمایا: اس کو اس کے اونٹ جیسا اونٹ دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے ہاں اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ موجود ہے؟ آپ نے فرمایا: ’ٗ’وہی دے دو۔ تم میں سے اچھے وہی لوگ ہیں جو واجبات خوبی کے ساتھ ادا کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2306]
حدیث حاشیہ:
یہیں سے باب کا مطلب نکلتا ہے کیوں کہ آپ نے جو حاضر تھے دوسروں کو اونٹ دینے کے لیے وکیل کیا۔
اور جب حاضر کو وکیل کرنا جائز ہوا حالانکہ وہ خود کام کرسکتا ہے تو غائب کو بطریق اولیٰ وکیل کرنا جائز ہوگا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے ایسا ہی فرمایا ہے اور علامہ عینی ؒ پر تعجب ہے کہ انہوں نے ناحق حافظ صاحب ؒ پر اعتراض جمایا کہ حدیث سے غائب کی وکالت نہیں نکلتی، اولیت کا تو کیا ذکر ہے، حالانکہ اولیت کی وجہ خود حافظ صاحب کے کلام میں مذکور ہے۔
حافظ صاحب نے انتقاض الاعتراض میں کہا جس شخص کے فہم کا یہ حال ہو اس کو اعتراض کرنا کیا زیب دیتا ہے۔
نعوذ باللّٰہ من التعصب و سوءالفهم۔
(وحیدی)
اس حدیث سے اخلاق محمدی پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ قرض خواہ کی سخت گوئی کا مطلق اثر نہیں لیا، بلکہ وقت سے پہلے ہی اس کا قرض احسن طور پر ادا کرادیا۔
اللہ پاک ہر مسلمان کو یہ اخلاق حسنہ عطا کرے۔
آمین
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2306]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2393
2393. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک شخص کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے ایک خاص عمر کا اونٹ واجب الاداتھا۔ جب وہ آپ سے تقاضا کرنے آیا توآپ نے فرمایا: اسے اونٹ دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا تو نہ مل سکا بلکہ اس سے زیادہ عمرکا اونٹ دستیاب ہوا۔ تو آپ نے فرمایا: وہی دےدو۔ اس شخص نے کہا: آپ نے مجھے پورا حق دے دیاہے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا پوراپورا ثواب دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو ادائیگی کے لحاظ سے بہترین ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2393]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ قرض خواہ کو اس کے حق سے زیادہ دے دینا بڑا کار ثواب ہے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2393]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2609
2609. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایک خاص عمر کا اونٹ کسی سے بطور قرض لیا۔ قرض خواہ نے آکرسختی سے تقاضا کیا تو (صحابہ رضوان اللہ عنھم أجمعین نے اسے مارنے کاارادہ کیا)آپ نے فرمایا: حقدار کو ایسی گفتگو کرنے کاحق پہنچتا ہے۔ پھر آپ نے اسے ایک بہتر عمر کااونٹ اداکیا اورفرمایا: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو(اپنے ذمے قرض کی) ادائیگی بہتر طریقے سے کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2609]
حدیث حاشیہ:
باب کی مطابقت ظاہر ہے کہ اس زیادتی میں دوسرے لوگ جو وہاں بیٹھے تھے شریک نہیں ہوئے۔
بلکہ اسی کو ملی جس کا اونٹ آپ پر قرض تھا۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2609]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2305
2305. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمےایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ تقاضا کرنے آیا تو آپ نے فرمایا: اسے اونٹ دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہ مل سکا اور اس کے اونٹ سے بڑا اونٹ پایا تو آپ نے فرمایا: وہی اس کو دے دو۔ اس شخص نے کہا: آپ نے میرا حق پورا پورا دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی آپ کو پورا بدلہ دے۔ نبی نے فرمایا: تم میں سے اچھا شخص وہ ہے جو ادائیگی کرنے میں بہتر ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2305]
حدیث حاشیہ:
مستحب ہے کہ قرض ادا کرنے والا قرض سے بہتر اور زیادہ مال قرض دینے والے کو ادا کرے، تاکہ اس کے احسان کا بدلہ ہو، کیوں کہ اس نے قرض حسنہ دیا۔
اور بلا شرط جو زیادہ دیا جائے وہ سود نہیں ہے۔
بلکہ وہ ﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾ (الرحمن: 60)
کے تحت ہے
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2305]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2606
2606. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے کچھ قرض تھا۔ (اس نے سختی سے اس کا تقاضا کیا تو) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے چاہا کہ اس کی خبر لیں لیکن آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔ جس کا کوئی حق ہوتا ہے، اسے کچھ کہنے کا بھی حق ہے۔ آپ نے مزید فرمایا: اس کے لیے اونٹ خریدکر اسے دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے عرض کیا: ہمیں اس عمر کا اونٹ نہیں ملتا بلکہ اس سے بہتر عمر کااونٹ دستیاب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے وہی خریدو اور اسے دے دو کیونکہ تم میں بہتر وہی شخص ہے جو (اپنے ذمے واجبات کی)ادائیگی بہتر طریقے سے کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2606]
حدیث حاشیہ:
بعضوں نے کہا اس حدیث کی مناسبت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔
کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابورافع ؓ کو وکیل کیا تھا۔
انہوں نے اونٹ خریدا، تو ان کا قبضہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قبضہ تھا اس لیے قبضہ سے پہلے یہ ہبہ نہ ہوا تواس کا جواب یہ ہے کہ ابورافع صرف خریدنے کے لیے وکیل ہوئے تھے نہ ہبہ کے لیے، تو ان کا قبضہ ہبہ کے احکام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قبضہ نہ تھا۔
پس امام بخاری ؒ کا مطلب حدیث سے نکل آیا اور غیر مقبوض کا ہبہ ثابت ہوا۔
(وحیدی)
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2606]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2305
2305. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمےایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ تقاضا کرنے آیا تو آپ نے فرمایا: اسے اونٹ دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہ مل سکا اور اس کے اونٹ سے بڑا اونٹ پایا تو آپ نے فرمایا: وہی اس کو دے دو۔ اس شخص نے کہا: آپ نے میرا حق پورا پورا دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی آپ کو پورا بدلہ دے۔ نبی نے فرمایا: تم میں سے اچھا شخص وہ ہے جو ادائیگی کرنے میں بہتر ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2305]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ بیماری یا سفر کے عذر کی وجہ سے وکیل کیا جاسکتا ہے، اگر کوئی عذر نہیں ہے تو فریق ثانی کی رضامندی سے وکیل کرنا چاہیے۔
امام بخاری ؒ کے نزدیک یہ تکلف محض ہے۔
جو شخص شہر میں موجود ہے، اسے کوئی عذر نہیں وہ بھی وکیل کرسکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موجود صحابۂ کرام ؓ سے فرمایا:
اسے اونٹ دےدو۔
اگرچہ یہ خطاب حاضرین کےلیے ہے لیکن عرف کے اعتبار سے ہر وکیل کو شامل ہے۔
خواہ وہ غائب ہو یا حاضر، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام ؓ کو وکیل بنایا، حالانکہ آپ مقیم اور تندرست تھے، نہ آپ غائب تھے اور نہ آپ بیمار اور مسافر ہی تھے۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ جب حاضر کےلیے وکیل کرنا جائز ہے، حالانکہ وہ خود کام کرسکتا ہے تو غائب کو بطریق اولیٰ وکیل کرنا جائز ہے،اس لیے کہ وہ اس کا محتاج ہے۔
(فتح الباري: 608/4)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2305]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2306
2306. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص قرض کی ادائیگی کا تقاضا کرتے ہوئے آیا اور اس سلسلے میں اس نے کچھ سخت لہجہ اختیار کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے چاہا کہ اسے دبوچ لیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، اسے نظر انداز کردوکیونکہ حق دار کو اس انداز سے بات چیت کرنے کا حق حاصل ہے۔ پھرآپ نے فرمایا: اس کو اس کے اونٹ جیسا اونٹ دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے ہاں اس کے اونٹ سے بہتر اونٹ موجود ہے؟ آپ نے فرمایا: ’ٗ’وہی دے دو۔ تم میں سے اچھے وہی لوگ ہیں جو واجبات خوبی کے ساتھ ادا کریں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2306]
حدیث حاشیہ:
(1)
حق طلب کرنے میں سخت رویہ اختیار کرنا اس وقت روا ہے جب فریق ثانی ٹال مٹول سے کام لے اور واجبات کی ادائیگی میں اچھا رویہ اختیار نہ کرے لیکن جو شخص انصاف پسند اور معاملات کا اچھا ہو اور اگر پاس نہ ہو تو معذرت کرے، ایسے شخص کے ساتھ سخت کلامی درست نہیں۔
(2)
اس حدیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمانہ کا پتہ چلتا ہے کہ آپ نے قرض خواہ کی سخت کلامی کا مطلقاً کوئی اثر نہیں لیا بلکہ خندہ پیشانی سے قبل از وقت اس کا قرض ادا کردیا۔
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو یہ اخلاق حسنہ اپنانے کی توفیق دے۔
(3)
حافظ ابن حجر ؓ نے شارح بخاری ابن منیر کے حوالے سے اس عنوان کی فقاہت بایں الفاظ بیان کی ہے:
قرض کی ادائیگی بروقت کرنا ضروری ہے اس بنا پر اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس میں وکالت صحیح نہیں کیونکہ مؤکل کی طرف سے وکیل اختیارکرنے میں دیر ہوسکتی ہے،اس اعتراض کو دور کرنے کے لیے یہ عنوان قائم کیا ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے اور یہ ممانعت ٹال مٹول کے قبیل سے نہیں ہے۔
(فتح الباري609/4)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2306]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2390
2390. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے قرض کا تقاضا کیا تو اس نے تقاضا کرنے میں سختی سے کام لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اس کی طرف لپکے تو آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو کیونکہ صاحب حق کو بات کرنے کا حق ہے۔ اس کے لیے کوئی اونٹ خریدو اور اسے دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے کہا: ہمیں تو اس کے اونٹ (کی عمر) سے زیادہ عمر کا اونٹ ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہی خرید لو اور اسے دے دو کیونکہ تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو ادائیگی کے اعتبار سے بہتر ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2390]
حدیث حاشیہ:
(1)
اجناس کے تبادلے میں، اگر وہ ہم جنس ہوں تو دو باتیں ضروری ہیں:
برابر ہونا اور نقد ہونا۔
اگر مختلف اجناس کا باہمی تبادلہ کرنا ہو تو ایک چیز کا ہونا ضروری ہے کہ سودا دست بدست ہو، البتہ کمی بیشی جائز ہے لیکن حیوانات میں کوئی پابندی نہیں۔
ان کا باہمی تبادلہ ادھار بھی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے اور ان میں کمی بیشی بھی درست ہے جیسا کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ایک اونٹ لیتا اور صدقے کے دو اونٹ دینے کا وعدہ کرتا تھا۔
(مسند أحمد: 171/2)
البتہ بعض روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوان کو حیوان کے بدلے ادھار پر فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3356)
امام شافعی ؒ نے ان احادیث کے درمیان تطبیق اس طرح دی ہے کہ یہاں ادھار سے مراد دونوں طرف سے ادھار ہے، یعنی بيع الكالئ بالكالئ مراد ہے۔
(فتح الباري: 72/5)
بہرحال حیوانات کی خریدوفروخت کے متعلق وسعت ہے۔
ایک جانور کو دو یا اس سے زیادہ اسی جنس کے جانوروں کے عوض نقد اور ادھار پر فروخت کرنا جائز ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو غلاموں کے عوض ایک غلام خریدا تھا۔
(صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 4113(1602)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2390]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2393
2393. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک شخص کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے ایک خاص عمر کا اونٹ واجب الاداتھا۔ جب وہ آپ سے تقاضا کرنے آیا توآپ نے فرمایا: اسے اونٹ دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا تو نہ مل سکا بلکہ اس سے زیادہ عمرکا اونٹ دستیاب ہوا۔ تو آپ نے فرمایا: وہی دےدو۔ اس شخص نے کہا: آپ نے مجھے پورا حق دے دیاہے اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا پوراپورا ثواب دے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو ادائیگی کے لحاظ سے بہترین ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2393]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ مقروض کو خوش دلی اور فیاضی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ادائیگی کے وقت بدمزگی پیدا کرنا یا تنگ دلی کا اظہار، اخلاق اور مروت کے منافی ہے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2393]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2606
2606. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک شخص کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے کچھ قرض تھا۔ (اس نے سختی سے اس کا تقاضا کیا تو) صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے چاہا کہ اس کی خبر لیں لیکن آپ نے فرمایا: اسے چھوڑ دو۔ جس کا کوئی حق ہوتا ہے، اسے کچھ کہنے کا بھی حق ہے۔ آپ نے مزید فرمایا: اس کے لیے اونٹ خریدکر اسے دے دو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم أجمعین نے عرض کیا: ہمیں اس عمر کا اونٹ نہیں ملتا بلکہ اس سے بہتر عمر کااونٹ دستیاب ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے لیے وہی خریدو اور اسے دے دو کیونکہ تم میں بہتر وہی شخص ہے جو (اپنے ذمے واجبات کی)ادائیگی بہتر طریقے سے کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2606]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے غیر مقبوض چیز کا ہبہ ثابت کیا ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ خرید کر اسے دے دینے کا حکم دیا، حالانکہ آپ نے اس خرید کردہ اونٹ پر قبضہ نہیں کیا تھا، لہذا غیر مقبوض چیز کا ہبہ ثابت ہوا۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2606]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2609
2609. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے ایک خاص عمر کا اونٹ کسی سے بطور قرض لیا۔ قرض خواہ نے آکرسختی سے تقاضا کیا تو (صحابہ رضوان اللہ عنھم أجمعین نے اسے مارنے کاارادہ کیا)آپ نے فرمایا: حقدار کو ایسی گفتگو کرنے کاحق پہنچتا ہے۔ پھر آپ نے اسے ایک بہتر عمر کااونٹ اداکیا اورفرمایا: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو(اپنے ذمے قرض کی) ادائیگی بہتر طریقے سے کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2609]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض کے اونٹ کے عوض بہتر عمر والا اونٹ ادا کرنے کا حکم دیا، اس بہتری اور اضافے میں وہاں بیٹھنے والوں کو شریک نہیں کیا بلکہ اس کا حق دار صرف تقاضا کرنے والا تھا۔
اگر ہدیہ دینے والے کا مقصد دوسروں کو شریک کرنا ہو جیسا کہ کھانے پینے کی چیزوں میں رواج ہوتا ہے یا قرائن سے معلوم ہو جائے تو ہم مجلس شریک ہوں گے، بصورت دیگر صرف وہی حق دار ہو گا جسے ہدیہ پیش کیا گیا ہے۔
اگر ہدیہ دینے والے کا مقصد کوئی معین ذات ہے تو اس میں غیر شریک نہیں ہو گا۔
(2)
حدیث سے مطابقت اس طرح ہے کہ تقاضا کرنے والے کو حق سے زیادہ دیا گیا تو اس کے لیے یہ ہدیہ ہوا جس میں دوسروں کو شریک نہیں کیا گیا۔
واللہ أعلم
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2609]