English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

مسند الحميدي سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

مسند الحمیدی میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (1337)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربي لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربي لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث نمبر 481
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 481
حَدَّثنا سُفْيَانُ ، قَالَ: حَدَّثنا الزُّهْرِيُّ ، وَحَفِظْتُهُ مِنْهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" جِئْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ عَلَى أَتَانٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ، فَمَرَرْنَا عَلَى بَعْضِ الصَّفِ، فَنَزَلْنَا فَتَرَكْنَاهَا تَرْتَعُ، وَدَخَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلاةِ، فَلَمْ يَقُلْ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا" .
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں اور سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت عرفہ میں تھے، ہم ایک صف کے کچھ حصے کے آگے سے گزرے، ہم اس سے اترے اور ہم نے اسے چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز میں شامل ہو گئے، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ بھی نہیں کہا۔ [مسند الحميدي/حدیث: 481]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 76، 493، 861، 1857، 4412، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 504، ومالك فى «الموطأ» برقم: 531، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 833، 834، 835، 837، 838، 882، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2151، 2356، 2381، 2393، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 751، 753، والنسائي فى «الكبریٰ» 830، 832، 5833، وأبو داود فى «سننه» برقم: 715، 716، والترمذي فى «جامعه» برقم: 337، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1455، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 947، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2382، 2423»

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥عبد الله بن العباس القرشي، أبو العباسصحابي
👤←👥عبيد الله بن عبد الله الهذلي، أبو عبد الله
Newعبيد الله بن عبد الله الهذلي ← عبد الله بن العباس القرشي
ثقة فقيه ثبت
👤←👥محمد بن شهاب الزهري، أبو بكر
Newمحمد بن شهاب الزهري ← عبيد الله بن عبد الله الهذلي
الفقيه الحافظ متفق على جلالته وإتقانه
👤←👥سفيان بن عيينة الهلالي، أبو محمد
Newسفيان بن عيينة الهلالي ← محمد بن شهاب الزهري
ثقة حافظ حجة
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
صحيح البخاري
861
أقبلت راكبا على حمار أتان وأنا يومئذ قد ناهزت الاحتلام ورسول الله يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار فمررت بين يدي بعض الصف فنزلت وأرسلت الأتان ترتع ودخلت في الصف فلم ينكر ذلك علي أحد
صحيح البخاري
76
يصلي بمنى إلى غير جدار فمررت بين يدي بعض الصف وأرسلت الأتان ترتع فدخلت في الصف فلم ينكر ذلك علي
صحيح البخاري
4412
أنه أقبل يسير على حمار ورسول الله قائم بمنى في حجة الوداع يصلي بالناس فسار الحمار بين يدي بعض الصف ثم نزل عنه فصف مع الناس
صحيح البخاري
1857
أقبلت وقد ناهزت الحلم أسير على أتان لي ورسول الله قائم يصلي بمنى حتى سرت بين يدي بعض الصف الأول ثم نزلت عنها فرتعت فصففت مع الناس وراء رسول الله
صحيح مسلم
1125
أقبل يسير على حمار ورسول الله قائم يصلي بمنى في حجة الوداع يصلي بالناس قال فسار الحمار بين يدي بعض الصف ثم نزل عنه فصف مع الناس
صحيح مسلم
1124
يصلي بالناس بمنى فمررت بين يدي الصف فنزلت فأرسلت الأتان ترتع ودخلت في الصف فلم ينكر ذلك علي أحد
سنن أبي داود
715
لم ينكر ذلك أحد
سنن النسائى الصغرى
753
جئت أنا والفضل على أتان لنا ورسول الله يصلي بالناس بعرفة ثم ذكر كلمة معناها فمررنا على بعض الصف فنزلنا وتركناها ترتع فلم يقل لنا رسول الله شيئا
سنن ابن ماجه
947
يصلي بعرفة فجئت أنا والفضل على أتان فمررنا على بعض الصف فنزلنا عنها وتركناها ثم دخلنا في الصف
مسندالحميدي
481
جئت أنا والفضل على أتان ورسول الله صلى الله عليه وسلم بعرفة فمررنا على بعض الصف فنزلنا فتركناها ترتع، ودخلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلاة فلم يقل لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا
مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 481 کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:481
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گدھا نا پاک نہیں ہے، صرف اس کا گوشت کھانا حرام ہے، اس پر سوار ہونا ٹھیک ہے، تمام مقتدیوں کا سترہ امام کا سترہ ہی ہوتا ہے، ان کو سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس حدیث سے تقریری حدیث کی حجیت ثابت ہوتی ہے۔
[مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 481]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 753
نمازی کے سامنے سترہ نہ ہو تو کون سی چیز نماز توڑ دیتی ہے اور کون سی نہیں توڑتی؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں: میں اور فضل دونوں اپنی ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے (پھر انہوں نے ایک بات کہی جس کا مفہوم تھا:) تو ہم صف کے کچھ حصہ سے گزرے، پھر ہم اترے اور ہم نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ نہیں کہا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 753]
753 ۔ اردو حاشیہ: امام بخاری رحمہ اللہ کی رائے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سترہ تھا جیسا کہ دیگر مفصل روایات سے واضح ہوتا ہے، لہٰذا امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہوتا ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 493]
اس لیے یہ روایت اس باب کے تحت نہیں آنی چاہیے تھی۔ بعض لوگوں نے اس روایت سے استدلال کیا ہے کہ گدھے کا گزرنا نماز نہیں توڑتا، مگر یہ استدلال کمزور ہے کیونکہ توڑنے نہ توڑنے کی بحث اس وقت ہے جب آگے سترہ نہ ہو اور وہ سترے اور نمازیوں کے درمیان سے گزری ہو۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 753]

مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث947
کس چیز کے نمازی کے سامنے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مقام عرفہ میں نماز پڑھا رہے تھے، میں اور فضل ایک گدھی پر سوار ہو کر صف کے کچھ حصے کے سامنے سے گزرے، پھر ہم سواری سے اترے اور گدھی کو چھوڑ دیا، پھر ہم صف میں شامل ہو گئے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 947]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس سے معلوم ہواکہ نمازی کے آگے سے گدھا گزر جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی جب کہ حدیث 950 تا 952 میں آرہا ہے۔
کہ گدھے کے گزرنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔
لیکن نماز نہ ٹوٹنے پر اس حدیث سےاستدلال قوی نہیں کیونکہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لئے کافی ہوتا ہے اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے امام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے نہیں گزرے تھے۔
[سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 947]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1857
1857. حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ میں اپنی گدھی پر سوار ہو کر آیا جبکہ میں قریب البلوغ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں کھڑے نماز پڑھا رہے تھے حتی کہ میں پہلی صف کے ایک حصے کے آگے سے گزر گیا۔ پھر میں اس سے اترااور وہ چرنے لگی۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لوگوں کے ہمراہ صف میں شریک ہو گیا۔ (راوی حدیث یونس) نے ابن شہاب سے روایت کیا ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں نماز پڑھا رہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1857]
حدیث حاشیہ:
عبداللہ بن عباس ؓ ان دنوں نابالغ تھے۔
باوجود اس کے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا، امام بخاری ؒ نے باب کا مطلب اسی سے ثابت فرمایا ہے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1857]

مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 861
861. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں گدھی پر سوار ہو کر آیا جبکہ میں اس وقت قریب البلوغ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں دیوار کے علاوہ (کسی چیز کی طرف منہ کر کے) لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ میں صف کے ایک حصے سے گزر کر خود صف میں شامل ہو گیا اور گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ اس ساری کاروائی کے متعلق مجھ پر کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:861]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے بھی امام بخاری ؒ نے باب کا مطلب ثابت کیا ہے۔
حضرت ابن عباس اس وقت نابالغ تھے، ان کا صف میں شریک ہونا اور وضو کرنا نماز پڑھنا ثابت ہوا۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ بلوغت سے پہلے بھی لڑکوں کو ضرورضرور نماز کی عادت ڈلوانی چاہیے۔
اسی لیے سات سال کی عمر سے نماز کا حکم کرنا ضروری ہے اور دس سال کی عمر ہونے پر ان کو دھمکا کر بھی نماز کا عادی بنانا چاہیے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 861]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:76
76. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں ایک دن گدھی پر سوار ہو کر آیا۔ اس وقت میں قریب البلوغ تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں کسی دیوار کو سامنے کیے بغیر نماز پڑھا رہے تھے۔ میں ایک صف کے آگے سے گزرا اور گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور خود صف میں شامل ہو گیا۔ مجھ پر کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:76]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب بچہ سمجھ داراور ہوشیار ہو جائے تو حامل حدیث ہو سکتا ہے لیکن ادائے حدیث کے لیے اس کا بالغ ہونا شرط ہے۔
امام یحییٰ بن معین فرماتے ہیں کہ تحمل حدیث کے لیے راوی کی عمر کم ازکم پندرہ سال ہونی چاہیےکیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو احد کے دن جنگ میں شریک نہیں ہونے دیا تھا اسی طرح حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی جنگ بدر کے موقع پر واپس کردیا تھا، کیونکہ ان دونوں کی عمریں پندرہ سال سے کم تھیں لیکن امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تحمل حدیث کے لیے سمجھدار اور ہوشیار ہونا تو ضروری ہے لیکن عمر کی قید نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن صحابہ کو جنگ میں شریک نہیں کیا تھا اس کی وجہ یہ تھی کہ جنگ میں قوت اور معاملہ فہمی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس لیے آپ نے چھوٹی عمر والوں کو واپس کردیا تھا البتہ تحمل حدیث کے لیے طاقت درکار نہیں ہوتی بلکہ اس کا مدار صرف ہوشیاری اورسمجھداری پر ہے۔
سمجھدار بچہ اگر بچپن کی کوئی بات بالغ ہونے کے بعد نقل کرتا ہے تو وہ معتبر ہوگی چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سے محدثین نے کئی ایک مسائل کا استنباط کیا ہے۔
(فتح الباري: 225/1)
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 76]

الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4412
4412. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے بتایا کہ وہ گدھی پر سوار ہو کر آئے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں کھڑے لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ گدھی صف کے کچھ حصے کے آگے سے گزری۔ پھر وہ اس سے اتر کر لوگوں کے ساتھ صف میں شامل ہو گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4412]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابن عباس ؓ دوران جماعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سے نہیں گزرے تھے بلکہ کچھ مقتدیوں کے آگے سے گزرے تھے۔
چونکہ امام کا سترہ لوگوں کاسترہ ہوتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کوئی سرزنش نہیں فرمائی۔
جب جماعت ہورہی ہوتو امام کے آگے سے اور جب نمازی اکیلا پڑھ رہا ہوتو اس کے آگے سے گزرنا سخت منع ہے۔
امام اور انفرادی نماز پڑھنے والوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آگے سترہ ضرور رکھیں۔
چونکہ اس حدیث میں حجۃ الوداع کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو ذکر فرمایا ہے۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4412]