English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

سنن نسائي سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

سنن نسائی میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (5761)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
60. باب : بيع ما ليس عند البائع
باب: بیچنے والے کے پاس غیر موجود چیز کے بیچنے کا بیان۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 4617
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ , قَالَ: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ , عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ , عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ , قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , يَأْتِينِي الرَّجُلُ فَيَسْأَلُنِي الْبَيْعَ لَيْسَ عِنْدِي أَبِيعُهُ مِنْهُ , ثُمَّ أَبْتَاعُهُ لَهُ مِنَ السُّوقِ , قَالَ:" لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ".
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس آدمی آتا ہے اور وہ مجھ سے ایسی چیز خریدنا چاہتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی۔ کیا میں اس سے اس چیز کو بیچ دوں اور پھر وہ چیز اسے بازار سے خرید کر دے دوں؟ آپ نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس نہ ہو اسے مت بیچو۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4617]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/البیوع 70 (3503)، سنن الترمذی/البیوع 19 (1232)، سنن ابن ماجہ/التجارات 20 (2187)، (تحفة الأشراف: 3436)، مسند احمد (3/402، 434) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥حكيم بن حزام القرشي، أبو خالدصحابي
👤←👥يوسف بن ماهك الفارسي
Newيوسف بن ماهك الفارسي ← حكيم بن حزام القرشي
ثقة
👤←👥جعفر بن أبي وحشية اليشكري، أبو بشر
Newجعفر بن أبي وحشية اليشكري ← يوسف بن ماهك الفارسي
ثقة
👤←👥هشيم بن بشير السلمي، أبو معاوية
Newهشيم بن بشير السلمي ← جعفر بن أبي وحشية اليشكري
ثقة ثبت كثير التدليس والإرسال الخفي
👤←👥زياد بن أيوب الطوسي، أبو هاشم
Newزياد بن أيوب الطوسي ← هشيم بن بشير السلمي
ثقة حافظ
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
جامع الترمذي
1232
لا تبع ما ليس عندك
جامع الترمذي
1233
أبيع ما ليس عندي
جامع الترمذي
1235
أبيع ما ليس عندي
سنن أبي داود
3503
لا تبع ما ليس عندك
سنن ابن ماجه
2187
لا تبع ما ليس عندك
المعجم الصغير للطبراني
540
لا تبع ما ليس عندك
سنن النسائى الصغرى
4605
لا تبع طعاما حتى تشتريه وتستوفيه
سنن النسائى الصغرى
4607
لا تبعه حتى تقبضه
سنن النسائى الصغرى
4617
لا تبع ما ليس عندك
سنن نسائی کی حدیث نمبر 4617 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4617
اردو حاشہ:
سودا نہ کر کیونکہ ممکن ہے وہ چیز تجھے بازار سے نہ ملے یا تیرے طے شدہ بھاؤ سے مہنگی ملے، پھر تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔ ویسے اگر کسی معین چیز کا سودا نہ ہو بلکہ عام چیز جو بازار سے ملتی ہے اور خریدار کو علم ہو کہ یہ چیز اس کے پاس نہیں، بازار سے لا کر دے گا تو ان شاء اللہ اس کا سودا کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ سابقہ حدیث میں وضاحت بیع سلم یا سلف کی بحث میں آئے گی۔
[سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4617]

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3503
جو چیز آدمی کے پاس موجود نہ ہو اسے نہ بیچے۔
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آدمی آتا ہے اور مجھ سے اس چیز کی بیع کرنا چاہتا ہے جو میرے پاس موجود نہیں ہوتی، تو کیا میں اس سے سودا کر لوں، اور بازار سے لا کر اسے وہ چیز دے دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس موجود نہ ہو اسے نہ بیچو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3503]
فوائد ومسائل:

دوکاندار بعض اوقات اپنے گاہکوں کی کئی مطلوبہ چیزیں جو ان کے پاس نہیں ہوتیں۔
اسی وقت بازار سے منگوا کر دیتے ہیں۔
اور مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ گاہک بس انہی سے متعلق رہے یہ صورت جائز نہیں۔
وہی سودا بیچنا چاہیے۔
جو موجود نہ ہو۔
الا یہ کہ گاہک از خود دوکاندار سے چیز منگوا کر دینے کا مطالبہ کرے۔


کوئی جانور جو بھاگ گیا ہو اسے فروخت کردینا۔
یا کوئی مال فریقین میں متنازع ہو۔
تو فیصلہ اور قبضہ ہونے سے پہلے ہی فروخت کردینا جائز نہیں۔


کوئی چیز خرید رکھی ہو مگر وصول نہ کی ہو۔
اور قبضے میں نہ آئی ہو۔
تو ا س کو بیچنا ناجائز ہے۔
خیال رہے کہ معروف تجارتی طریق پر بیع سلف (سلم) کا معاملہ جائز ہے۔
جس کی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
[سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3503]

مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2187
جو چیز پاس میں نہ ہو اس کا بیچنا اور جس چیز کا ضامن نہ ہو اس میں نفع لینا منع ہے۔
حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اللہ کے رسول! ایک آدمی مجھ سے ایک چیز خریدنا چاہتا ہے، اور وہ میرے پاس نہیں ہے، کیا میں اس کو بیچ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کو نہ بیچو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2187]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  ممنوع صورت کی وضاحت یہ ہے کہ بیچنے والے کے پاس ایک چیز موجود نہیں مگر وہ اس کی قیمت متعین کرے کے وصول کرلیتا ہے اور کہتا ہے:
جب میرے پاس وہ چیز آئے گی، تب تمہیں دے دوں گا۔
معلوم نہیں وہ چیز آئے یا نہ آئے، یا آئے تو خریدار کو پسند آئے یا نہ آئے، یوں وہ چیز دی ہوئی قیمت سے ہلکی ہو۔
اس سے دونوں میں اختلاف اور جھگڑا پیدا ہونے کا خطرہ ہے، اس لیے یہ صورت منع ہے۔

(2)
  غیر معین چیز کی بیع بھی اس میں شامل ہے، مثلاً:
دریا میں جال ڈالنے سے پہلے یہ کہا جائے کہ جال میں جتنی مچھلیاں آئیں گی وہ میں اتنے کی تمہیں بیچتا ہوں، جب کہ یہ معلوم نہیں کہ جال میں کم مچھلیاں آئیں گی یا زیادہ، چھوٹی مچھلیاں آئیں گی یا بڑی یا آئیں گی ہی نہیں، اس لیے جب مچھلیاں باہر آ جائیں پھر ان کی بیع ہو سکتی ہے۔
پہلی صورت بیع غرر میں شامل ہے۔
جو منع ہے۔ (دیکھیے، حدیث: 2194، 2195)

(3)
  اگر چیز کی قسم، مقدار اور صفات کا تعین کر لیا جائے نیز ادائیگی کا وقت مقرر ہو جائے تو اس کی قیمت پیشگی دے کر بعد میں مقرر وقت پر چیز وصول کر لینا جائز ہے۔
اسے بیع سلم یا سلف کہتے ہیں۔ (دیکھیے حدیث: 2280، 2282)
[سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2187]