English
🏠 💻 📰 👥 🔍 🧩 🅰️ 📌 ↩️

سنن ترمذي سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
حدیث کتب میں نمبر سے حدیث تلاش کریں:

سنن ترمذی میں ترقیم شاملہ سے تلاش کل احادیث (3956)
حدیث نمبر لکھیں:
حدیث میں عربی لفظ/الفاظ تلاش کریں
عربی لفظ / الفاظ لکھیں:
حدیث میں اردو لفظ/الفاظ تلاش کریں
اردو لفظ / الفاظ لکھیں:
17. باب ما جاء في النصيحة
باب: خیر خواہی اور بھلائی کرنے کا بیان۔
اظهار التشكيل
حدیث نمبر: 1926
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنِ الْقَعْقَاعِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الدِّينُ النَّصِيحَةُ " ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَنْ؟ قَالَ: " لِلَّهِ، وَلِكِتَابِهِ، وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ، وَعَامَّتِهِمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَابِ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَتَمِيمٍ الدَّارِيِّ، وَجَرِيرٍ، وَحَكِيمِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، وَثَوْبَانَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: دین سراپا خیر خواہی ہے، لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کس کے لیے؟ فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے ائمہ (حکمرانوں) اور عام مسلمانوں کے لیے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابن عمر، تمیم داری، جریر، «حكيم بن أبي يزيد عن أبيه» اور ثوبان رضی الله عنہم سے احادیث آئی ہیں۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 1926]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12863) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا اور اس کی ذات پر صحیح طور پر ایمان رکھنا یہ اللہ کے ساتھ خیر خواہی ہے، جس کا فائدہ انسان کو خود اپنی ذات کو پہنچتا ہے، ورنہ اللہ عزوجل کی خیر خواہی کون کر سکتا ہے، اس کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ نصیحت اور خیر خواہی کا حق اللہ کے لیے ہے جو وہ اپنی مخلوق سے کرتا ہے، اور اس کی کتاب (قرآن) کے ساتھ خیر خواہی اس کے احکام پر عمل کرنا ہے، اس میں غور و فکر اور تدبر کرنا اس کی تعلیمات کو پھیلانا اس میں تحریف سے بچنا، اس کی تصدیق کرنے کے ساتھ اس کی تلاوت کا التزام کرنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا پابند ہونا، اس کی رسالت کی تصدیق کرنا اور اس کی فرماں برداری کرنا یہ رسول کی خیر خواہی ہے، مسلمان حکمراں اور ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق اور غیر معصیت میں ان کی اعانت و اطاعت کی جائے، سیدھے راستے سے انحراف کرنے کی صورت میں ان کے خلاف خروج و بغاوت سے گریز کرتے ہوئے انہیں معروف کا حکم دیا جائے، سوائے اس کے کہ ان سے صریحاً کفر کا اظہار ہو تو ایسی صورت میں ترک اعانت ضروری ہے، عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ دنیا و آخرت سے متعلق جو بھی خیر اور بھلائی کے کام ہیں ان سے انہیں آگاہ کیا جائے، اور شر و فساد کے کاموں میں ان کی صحیح رہنمائی کی جائے، اور برائی سے روکا جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (26) ، غاية المرام (332)

الرواة الحديث:
اسم الشهرة
الرتبة عند ابن حجر/ذهبي
أحاديث
👤←👥أبو هريرة الدوسيصحابي
👤←👥أبو صالح السمان، أبو صالح
Newأبو صالح السمان ← أبو هريرة الدوسي
ثقة ثبت
👤←👥القعقاع بن حكيم الكناني
Newالقعقاع بن حكيم الكناني ← أبو صالح السمان
ثقة
👤←👥محمد بن عجلان القرشي، أبو عبد الله
Newمحمد بن عجلان القرشي ← القعقاع بن حكيم الكناني
صدوق حسن الحديث
👤←👥صفوان بن عيسى القرشي، أبو محمد
Newصفوان بن عيسى القرشي ← محمد بن عجلان القرشي
ثقة
👤←👥محمد بن بشار العبدي، أبو بكر
Newمحمد بن بشار العبدي ← صفوان بن عيسى القرشي
ثقة حافظ
تخريج الحديث:
کتاب
نمبر
مختصر عربی متن
جامع الترمذي
1926
الدين النصيحة لله ولكتابه ولأئمة المسلمين وعامتهم
سنن النسائى الصغرى
4204
الدين النصيحة لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم
سنن النسائى الصغرى
4205
الدين النصيحة لله ولكتابه ولرسوله ولأئمة المسلمين وعامتهم
سنن ترمذی کی حدیث نمبر 1926 کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1926
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا اوراس کی ذات پر صحیح طورپر ایمان رکھنا یہ اللہ کے ساتھ خیرخواہی ہے،
جس کا فائدہ انسان کو خود اپنی ذات کو پہنچتا ہے،
ورنہ اللہ عزوجل کی خیرخواہی کون کرسکتا ہے،
اس کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ نصیحت اور خیرخواہی کا حق اللہ کے لیے ہے جو وہ اپنی مخلوق سے کرتا ہے،
اور اس کی کتاب (قرآن) کے ساتھ خیر خواہی اس کے احکام پر عمل کرنا ہے،
اس میں غوروفکراور تدبرکرنا اس کی تعلیمات کو پھیلانا اس میں تحریف سے بچنا،
اس کی تصدیق کرنے کے ساتھ اس کی تلاوت کا التزام کرنا ہے،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کا پابند ہونا،
اس کی رسالت کی تصدیق کرنا اور اس کی فرماں برداری کرنا یہ رسول کی خیر خواہی ہے،
مسلمان حکمراں اور ائمہ کی خیر خواہی یہ ہے کہ حق اور غیر معصیت میں ان کی اعانت و اطاعت کی جائے،
سیدھے راستے سے انحراف کرنے کی صورت میں ان کے خلاف خروج و بغاوت سے گریز کرتے ہوئے انہیں معروف کا حکم دیاجائے،
سوائے اس کے کہ ان سے صریحاً کفر کا اظہار ہوتو ایسی صورت میں ترک اعانت ضروری ہے،
عام مسلمانوں کی خیر خواہی یہ ہے کہ دنیا وآخرت سے متعلق جو بھی خیراوربھلائی کے کام ہیں ان سے انہیں آگاہ کیا جائے،
اور شروفساد کے کاموں میں ان کی صحیح رہنمائی کی جائے،
اور برائی سے روکاجائے۔
[سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1926]