وعن عمران بن حصين رضي الله عنه قال: قاتل يعلى بن امية رجلا فعض احدهما صاحبه فانتزع يده من فمه فنزع ثنيته فاختصما إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال:«يعض احدكم كما يعض الفحل؟ لا دية له» متفق عليه واللفظ لمسلم.وعن عمران بن حصين رضي الله عنه قال: قاتل يعلى بن أمية رجلا فعض أحدهما صاحبه فانتزع يده من فمه فنزع ثنيته فاختصما إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقال:«يعض أحدكم كما يعض الفحل؟ لا دية له» متفق عليه واللفظ لمسلم.
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کی ایک شخص سے لڑائی ہو گئی۔ ایک نے دوسرے کو دانتوں سے کاٹا تو اس نے اپنا ہاتھ اس کے منہ سے کھینچ کر باہر نکالا تو اس کا سامنے کا دانت ٹوٹ کر گر گیا۔ دونوں اپنا جھگڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں لے گئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کیا تم ایک دوسرے کو اس طرح کاٹ کھاتے ہو جس طرح نر اونٹ کاٹتا ہے۔ اس کے لیے کوئی دیت نہیں۔“(بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
हज़रत इमरान बिन हुसैन रज़ि अल्लाहु अन्हुमा से रिवायत है कि याअला बिन उमईय्याह रज़ि अल्लाहु अन्ह की एक व्यक्ति से लड़ाई हो गई। एक ने दूसरे को दांतों से काटा तो इस ने अपना हाथ उस के मुंह से खीँच कर बाहर निकाला तो उस का सामने का दांत टूट कर गिर गया। दोनों अपना झगड़ा नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम की अदालत में ले गए। तो आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ! ’’ क्या तुम एक दूसरे को इस तरह काट खाते हो जिस तरह नर ऊंट काटता है। इस के लिए कोई दयत नहीं।” (बुख़ारी और मुस्लिम) और ये शब्द मुस्लिम के हैं।
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الديات، باب إذا عض رجلاً فوقعت ثناياه، حديث:6892، ومسلم، القسامة، باب الصائل علي نفس الإنسان وعضوه، إذا دفعه...، حديث:1673.»
'Imran bin Husain (RAA) narrated, ’Ya’la bin Umaiyah fought with another man. One of them bit the other man’s finger and the latter (whose finger was bit) pulled his hand out of the first man’s mouth (who was biting) by force, causing his incisors teeth to be pulled out. They presented their dispute to the Prophet who said, “One of you bit his brother as a male camel bites? Go and there is not Diyah for him (as a punishment for their foolishness).’Agreed upon and the wording is from Muslim.
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2657
´ایک آدمی نے دوسرے کے ہاتھ میں دانت کاٹا، اس کے ہاتھ کھینچنے پر کاٹنے والے کے آگے کے دو دانت گر گئے تو اس کے حکم کا بیان۔` عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے دوسرے کے بازو کو کاٹا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کا سامنے کا دانت گر گیا، مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باطل قرار دیا، اور فرمایا: ”تم میں سے ایک (دوسرے کے ہاتھ کو) ایسے چباتا ہے جیسے اونٹ۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2657]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) جس پر حملہ کیا جائے وہ اپنے دفاع کا حق رکھتا ہے۔
(2) اس کوشش میں اگر حملہ آور کو نقصان پہنچ جائے تو اسے دوسرے سے جرمانہ نہیں دلایا جائے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2657
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1028
´مجرم (بدنی نقصان پہنچانے والے) سے لڑنے اور مرتد کو قتل کرنے کا بیان` سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ کی ایک شخص سے لڑائی ہو گئی۔ ایک نے دوسرے کو دانتوں سے کاٹا تو اس نے اپنا ہاتھ اس کے منہ سے کھینچ کر باہر نکالا تو اس کا سامنے کا دانت ٹوٹ کر گر گیا۔ دونوں اپنا جھگڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں لے گئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” کیا تم ایک دوسرے کو اس طرح کاٹ کھاتے ہو جس طرح نر اونٹ کاٹتا ہے۔ اس کے لیے کوئی دیت نہیں۔“(بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1028»
تخریج: «أخرجه البخاري، الديات، باب إذا عض رجلاً فوقعت ثناياه، حديث:6892، ومسلم، القسامة، باب الصائل علي نفس الإنسان وعضوه، إذا دفعه...، حديث:1673.»
تشریح: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ کسی شخص کی طرف سے پہنچنے والے نقصان اور ضرر کو دور کرنے کے لیے اگر انسان سے کوئی جرم ہو جائے تو وہ جرم قابل مؤاخذہ نہیں۔ جمہور کا یہی مذہب ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1028
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1416
´قصاص کا بیان۔` عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے ایک آدمی کا ہاتھ کاٹ کھایا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو دانت کاٹنے والے کے دونوں اگلے دانت ٹوٹ گئے، وہ دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا معاملہ لے گئے تو آپ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو اونٹ کے کاٹنے کی طرح کاٹ کھاتا ہے، تمہارے لیے کوئی دیت نہیں، پھر اللہ نے یہ آیت نازل کی: «والجروح قصاص»۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1416]
اردو حاشہ: وضاخت:
1؎: یعنی: زخموں کا بھی بدلہ ہے۔ (المائدہ: 45)، لہٰذا جن میں قصاص لینا ممکن ہے ان میں قصاص لیاجائے گا اور جن میں ممکن نہیں ان میں قاضی اپنے اجتہاد سے کام لے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1416