الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: تہجد کا بیان
The Book of Salat-Ut-Tahajjud (Night Prayer)
30. بَابُ مَنْ لَمْ يَتَطَوَّعْ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ:
30. باب: اس کے بارے میں جس نے فرض کے بعد سنت نماز نہیں پڑھی۔
(30) Chapter. Whoever did not offer the Salat (prayer) after the prescribed complusory (congregational) SaIat.
حدیث نمبر: 1174
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله , قال: حدثنا سفيان، عن عمرو , قال: سمعت ابا الشعثاء جابرا , قال: سمعت ابن عباس رضي الله عنهما , قال:" صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثمانيا جميعا وسبعا جميعا , قلت: يا ابا الشعثاء اظنه اخر الظهر وعجل العصر وعجل العشاء واخر المغرب، قال: وانا اظنه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو , قَالَ: سَمِعْتُ أبَا الشَّعْثَاءِ جَابِرًا , قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانِيًا جَمِيعًا وَسَبْعًا جَمِيعًا , قُلْتُ: يَا أَبَا الشَّعْثَاءِ أَظُنُّهُ أَخَّرَ الظُّهْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ وَعَجَّلَ الْعِشَاءَ وَأَخَّرَ الْمَغْرِبَ، قَالَ: وَأَنَا أَظُنُّهُ".
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عمرو بن دینار سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالشعثاء جابر بن عبداللہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آٹھ رکعت ایک ساتھ (ظہر اور عصر) اور سات رکعت ایک ساتھ (مغرب اور عشاء ملا کر) پڑھیں۔ (بیچ میں سنت وغیرہ کچھ نہیں) ابوالشعثاء سے میں نے کہا میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر آخر وقت میں اور عصر اول وقت میں پڑھی ہو گی۔ اسی طرح مغرب آخر وقت میں پڑھی ہو گی اور عشاء اول وقت میں۔ ابوالشعثاء نے کہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے۔

Narrated `Amr: I heard Abu Ash-sha'tha' Jabir saying, "I heard Ibn `Abbas saying, 'I offered with Allah's Apostle eight rak`at (of Zuhr and `Asr prayers) together and seven rak`at (the Maghrib and the `Isha' prayers) together.' " I said, "O Abu Ash-shatha! I think he must have prayed the Zuhr late and the `Asr early; the `Isha early and the Maghrib late." Abu Ash-sha'tha' said, "I also think so." (See Hadith No. 518 Vol. 1).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 21, Number 270


   صحيح البخاري543عبد الله بن عباسصلى بالمدينة سبعا وثمانيا الظهر والعصر والمغرب والعشاء
   صحيح البخاري562عبد الله بن عباسصلى النبي سبعا جميعا وثمانيا جميعا
   صحيح البخاري1174عبد الله بن عباسصليت مع رسول الله ثمانيا جميعا وسبعا جميعا
   صحيح مسلم1634عبد الله بن عباسصليت مع النبي ثمانيا جميعا وسبعا جميعا
   صحيح مسلم1635عبد الله بن عباسصلى بالمدينة سبعا وثمانيا الظهر والعصر والمغرب والعشاء
   سنن أبي داود1214عبد الله بن عباسصلى بنا رسول الله بالمدينة ثمانيا وسبعا الظهر والعصر والمغرب والعشاء
   سنن النسائى الصغرى604عبد الله بن عباسصليت وراء رسول الله ثمانيا جميعا وسبعا جميعا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 1633  
´اقامت میں دو نمازوں کو جمع کرنا`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمَدِينَةِ، فِي غَيْرِ خَوْفٍ، وَلَا مَطَرٍ . . .»
. . . ‏‏‏‏ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اور عصر کو اور مغرب اور عشاء کو مدینہ میں بغیر خوف اور بارش کے جمع کیا (سعید بن جبیر کہتے ہیں:) میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ فرمایا: اس لئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی امت پر کوئی مشقت نہ ہو. . . [صحيح مسلم/كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا/باب الْجَمْعِ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ فِي الْحَضَرِ:: 1633]

➋ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی کا بیان ہے:
«صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة ثمانيا جميعا، وسبعا جميعا، الظهر والعصر، والمغرب والعشاء .»
میں نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں ظہر و عصر کی آٹھ رکعات اور مغرب و عشا کی سات رکعات جمع کر کے پڑھیں۔ [صحيح البخاري: 543، 1174، صحيح مسلم: 55/705]

فوائد و مسائل:
◈ شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں:
«والجمع الذى ذكره ابن عباس لم يكن بهذا ولا بهذا، وبهذا استدل أحمد به على الجمع لهذه الأمور بطريق الأولى، فإن هذا الكلام يدل على أن الجمع لهذه الأمور أولى، وهذا من باب التنبيه بالفعل، فانه اذا جمع ليرفع الحرج الحاصل بدون الخوف والمطر والسفر، فالخرج الحاصل بهذه أولى أن يرفع، والجمع لها أولى من الجمع لغيرها.»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جس جمع کا ذکر کیا ہے، وہ نہ خوف کی وجہ سے تھی، نہ بارش کی وجہ سے۔ اسی حدیث سے امام احمد رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ خوف اور بارش میں تو بالاولیٰ جمع ہو گی. اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان امور میں نمازوں کو جمع کرنا بالاولیٰ جائز ہے۔ یہ تنبیہ بالفعل کی قبیل سے ہے . جب خوف، بارش اور سفر کے بغیر جو مشقت ہوتی ہے، اس مشقت کو ختم کرنے کے لیے دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، تو ان اسباب کی مشقت کو ختم کرنا تو بالاولیٰ جائز ہو گا، لہٰذا خوف، بارش اور سفر کی بنا پر نمازوں کو جمع کرنا دیگر امور کی بنا پر جمع کی نسبت زیادہ جائز ہو گا۔ [مجموع الفتاوي: 76/24]

◈ محدث العصر، علامہ البانی رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول «فى غير خوف ولا مطر» کی شرح میں فرماتے ہیں:
«فإنه يشعر أن الجمع للمطر كان معروفا فى عهدم صلى الله عليه وسلم، ولو لم يكن كذلك، لما كان ثمة فائدة من نفي المطر كسبب مبرر للجمع، فتامل»
یہ الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بارش کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنا معروف تھا۔ غور فرمائیے! اگر ایسا نہ ہوتا، تو بارش کو جمع کے جواز کے سبب کے طور پر ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ [ارواءالغليل: 3 40]
مکمل مضمون بارش میں دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا پڑھئیے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث\صفحہ نمبر: 238   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 604  
´دوران اقامت (حضر میں) جمع بین الصلاتین کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (ظہر و عصر کی) آٹھ رکعتیں، اور (مغرب و عشاء کی) سات رکعتیں ملا کر پڑھیں۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 604]
604 ۔ اردو حاشیہ: اس مفہوم کی روایت پیچھے گزر چکی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث: 590۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 604   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1214  
´دو نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینے میں ہمارے ساتھ ظہر و عصر ملا کر آٹھ رکعتیں اور مغرب و عشاء ملا کر سات رکعتیں پڑھیں۔ سلیمان اور مسدد کی روایت میں «بنا» یعنی ہمارے ساتھ کا لفظ نہیں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے صالح مولیٰ توامہ نے ابن عباس سے روایت کیا ہے، اس میں «بغير مطر» بغیر بارش کے الفاظ ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1214]
1214۔ اردو حاشیہ:
غرض اس سے یہی تھی۔ جو سنن ابی داود حدیث [1211] میں بیان ہوئی ہے کہ امت کو مشقت نہ ہو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور جمہور امت نے اس کو عادت بنا لینے کی اجازت نہیں دی، صرف نہایت ہی ضرورت کے وقت اجازت دی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1214   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1174  
1174. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ (ظہر و عصر کی) آٹھ رکعتیں اکٹھی اور (مغرب و عشاء کی) سات رکعتیں اکٹھی ادا کیں۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ابوالشعشاء! میرا گمان ہے کہ آپ نے ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کیا ہو گا، اسی طرح عشاء کو مقدم اور مغرب کو مؤخر کیا ہو گا۔ ابوالشعشاء نے کہا: میرا بھی یہی خیال ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1174]
حدیث حاشیہ:
یہ عمرو بن دینار کا خیال ہے ورنہ یہ حدیث صاف ہے کہ دو نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے۔
دوسری روایت میں ہے کہ یہ واقعہ مدینہ منورہ کا ہے نہ وہاں کوئی خوف تھا نہ بندش تھی۔
اوپر گزر چکا ہے کہ اہلحدیث کے نزدیک یہ جائز ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ سنتوں کا ترک کرناجائز ہے اور سنت بھی یہی ہے کہ جمع کرے تو سنتیں نہ پڑھے۔
(مولانا وحید الزماں مرحوم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1174   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1174  
1174. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ (ظہر و عصر کی) آٹھ رکعتیں اکٹھی اور (مغرب و عشاء کی) سات رکعتیں اکٹھی ادا کیں۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے کہا: ابوالشعشاء! میرا گمان ہے کہ آپ نے ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کیا ہو گا، اسی طرح عشاء کو مقدم اور مغرب کو مؤخر کیا ہو گا۔ ابوالشعشاء نے کہا: میرا بھی یہی خیال ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1174]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں بحالت اقامت نمازوں کو جمع کرنے کی صورت بیان کی گئی ہے۔
کسی معقول سبب کی بنا پر بحالت اقامت بھی دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ خوف، بارش، آندھی، بیماری یا اور کوئی ہنگامی ضرورت۔
بلاوجہ نمازوں کو جمع کرنا درست نہیں۔
پھر سنن اور نوافل کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن مقیم ہونے کی صورت میں جمع کرتے وقت پہلی نماز کے بعد والی سنتیں چھوڑ دینی چاہئیں، مثلاً:
اگر ظہر و عصر کو جمع کیا ہے تو ظہر کی آخری سنتیں اور اگر مغرب و عشاء کو جمع کیا ہے تو مغرب کی سنتیں نہ پڑھی جائیں۔
حضرت ابن عباس ؓ نے ایک دفعہ بصرہ میں ظہر اور عصر کو جمع کیا اور ان کے درمیان کچھ نہ پڑھا، پھر انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات اکٹھی پڑھی تھیں اور آپ نے درمیان میں کچھ نہیں پڑھا تھا۔
(سنن النسائي، المواقیت، حدیث: 591)
اس حدیث کے پیش نظر بحالت اقامت دو نمازوں کو جمع کرتے وقت پہلی نماز کے بعد والی سنتیں چھوڑ دینے میں چنداں حرج نہیں۔
صحیح بخاری کی مذکورہ روایت اسی صورت پر محمول ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1174   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.