الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
95. بَابُ مَوْتِ الْفَجْأَةِ الْبَغْتَةِ:
95. باب: ناگہانی موت کا بیان۔
(95) Chapter. Sudden unexpected death.
حدیث نمبر: 1388
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سعيد بن ابي مريم، حدثنا محمد بن جعفر , قال: اخبرني هشام، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها،" ان رجلا قال للنبي صلى الله عليه وسلم: إن امي افتلتت نفسها، واظنها لو تكلمت تصدقت، فهل لها اجر إن تصدقت عنها؟ , قال: نعم".(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ أُمِّي افْتُلِتَتْ نَفْسُهَا، وَأَظُنُّهَا لَوْ تَكَلَّمَتْ تَصَدَّقَتْ، فَهَلْ لَهَا أَجْرٌ إِنْ تَصَدَّقْتُ عَنْهَا؟ , قَالَ: نَعَمْ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا کہ ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا ‘ کہا مجھے ہشام بن عروہ نے خبر دی ‘ انہیں ان کے باپ نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا اور میرا خیال ہے کہ اگر انہیں بات کرنے کا موقع ملتا تو وہ کچھ نہ کچھ خیرات کرتیں۔ اگر میں ان کی طرف سے کچھ خیرات کر دوں تو کیا انہیں اس کا ثواب ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں ملے گا۔

Narrated Aisha: A man said to the Prophet (p.b.u.h), "My mother died suddenly and I thought that if she had lived she would have given alms. So, if I give alms now on her behalf, will she get the reward?" The Prophet replied in the affirmative.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 470


   صحيح البخاري2760عائشة بنت عبد اللهأمي افتلتت نفسها وأراها لو تكلمت تصدقت أفأتصدق عنها قال نعم تصدق عنها
   صحيح البخاري1388عائشة بنت عبد اللهأمي افتلتت نفسها وأظنها لو تكلمت تصدقت فهل لها أجر إن تصدقت عنها قال نعم
   صحيح مسلم2326عائشة بنت عبد اللهأمي افتلتت نفسها ولم توص وأظنها لو تكلمت تصدقت أفلها أجر إن تصدقت عنها قال نعم
   صحيح مسلم4220عائشة بنت عبد اللهأمي افتلتت نفسها وإني أظنها لو تكلمت تصدقت فلي أجر أن أتصدق عنها قال نعم
   صحيح مسلم4221عائشة بنت عبد اللهأمي افتلتت نفسها ولم توص وأظنها لو تكلمت تصدقت أفلها أجر إن تصدقت عنها قال نعم
   سنن أبي داود2881عائشة بنت عبد اللهنعم فتصدقي عنها
   سنن ابن ماجه2717عائشة بنت عبد اللهأمي افتلتت نفسها ولم توص وإني أظنها لو تكلمت لتصدقت فلها أجر إن تصدقت عنها ولي أجر قال نعم
   سنن النسائى الصغرى3679عائشة بنت عبد اللهأمي افتلتت نفسها وإنها لو تكلمت تصدقت أفأتصدق عنها فقال رسول الله نعم فتصدق عنها
   بلوغ المرام820عائشة بنت عبد اللهامي افتلتت نفسها ولم توص واظنها لو تكلمت تصدقت افلها اجر إن تصدقت عنها
   مسندالحميدي245عائشة بنت عبد اللهنعم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2717  
´کوئی شخص وصیت کیے بغیر مر جائے تو کیا اس کی طرف سے صدقہ دیا جائے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا، اور اس نے عرض کیا: میری ماں کا اچانک انتقال ہو گیا، اور وہ وصیت نہیں کر سکیں، میرا خیال ہے کہ اگر وہ بات چیت کر پاتیں تو صدقہ ضرور کرتیں، تو کیا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کروں تو انہیں اور مجھے اس کا ثواب ملے گا یا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں (ملے گا)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2717]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انسان کو مرنے کے بعد جس طرح ان اعمال کا ثواب پہنچتا رہتا ہے جو اس نے زندگی میں کیے تھے اور ان کےنیک اثرات بعد میں جاری رہے، اسی طرح اس صدقے وغیرہ کا ثواب بھی پہنچتا ہے جو والدین کی وفات کے بعد اولاد ان کی طرف سے کرے۔

(2)
فوت شدہ والدین کی طرف سے صدقے کےلیے یہ شرط نہیں کہ انہوں نے وصیت کی ہو۔

(3)
آج کل ایصال ثواب کے نام سے جو محفلیں برپا کی جاتی ہیں اور کھانے کھلائے جاتے ہیں ان کی حیثیت محض ایک رسم کی ہے۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ خاموشی سے کسی مستحق کی مناسب امداد کردی جائے۔

(4)
قرض اور دوسرے مالی حقوق کی ادائیگی میں جس طرح زندگی میں نیابت ممکن ہے، اسی طرح وفات کے بعد بھی کسی کا قرض دوسرا آدمی ادا کردے تو فوت شدہ شخص برئ الذمہ ہو جاتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2717   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 820  
´وصیتوں کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میری والدہ اچانک وفات پا گئی ہیں اور انہوں نے کوئی وصیت نہیں کی۔ میرا اس کے بارے میں خیال ہے کہ اگر وہ کوئی گفتگو کرتیں تو صدقہ (ضرور) کرتیں۔ کیا انہیں ثواب ملے گا اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں (بخاری و مسلم) یہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 820»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الوصايا، باب ما يستحب لمن توفي فجأة أن يتصدقوا عنه.....، حديث:2760، ومسلم، الزكاة، باب وصول ثواب الصدقة عن الميت إليه، حديث:1004.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولاد کی جانب سے صدقے کا ثواب والدین کو پہنچتا ہے اور بغیر وصیت کے صدقہ کرنا بھی جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 820   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1388  
1388. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا:میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیاہے اور مجھے یقین ہے۔کہ اگر وہ بول سکتیں تو ضرور صدقہ وخیرات کرتیں۔ کیا میں ان کی طرف سے صدقہ دوں تو انھیں کچھ ثواب ملے گا؟آپ نے فرمایا:ہاں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1388]
حدیث حاشیہ:
باب کی حدیث لاکرامام بخاری نے یہ ثابت کیا کہ مومن کے لیے ناگہانی موت سے کوئی ضرر نہیں۔
گو آنحضرت ﷺ نے اس سے پناہ مانگی ہے کیونکہ اس میں وصیت کرنے کی مہلت نہیں ملتی۔
ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے کہ ناگہانی موت مومن کے لیے راحت ہے اور بدکار کے لیے غصے کی پکڑ ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1388   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1388  
1388. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا:میری والدہ کا اچانک انتقال ہوگیاہے اور مجھے یقین ہے۔کہ اگر وہ بول سکتیں تو ضرور صدقہ وخیرات کرتیں۔ کیا میں ان کی طرف سے صدقہ دوں تو انھیں کچھ ثواب ملے گا؟آپ نے فرمایا:ہاں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1388]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ مومن کے لیے ناگہانی موت نقصان دہ نہیں ہوتی، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے سامنے اس ناگہانی موت کا ذکر ہوا تو آپ نے کسی قسم کی ناگواری کا اظہار نہیں فرمایا، البتہ ایک دوسری حدیث میں آپ نے اس ناگہانی موت کو ناراضی کی پکڑ قرار دیا ہے۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3310)
کیونکہ انسان اس صورت میں ضروری وصیت نہیں کر سکتا اور نہ اسے توبہ کرنے کی مہلت ہی ملتی ہے۔
ایک حدیث میں ہے کہ اچانک موت مومن کے لیے راحت اور بدکار کے لیے باعث افسوس ہے، لیکن یہ روایت سخت ضعیف ہے۔
دیکھیے:
(الموسوعة الحديثية، مسند أحمد: 491/4) (2)
حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ جسے اچانک موت آ جائے اس کی اولاد کو چاہیے کہ نیک اعمال سے اس کی تلافی کرے، لیکن ایسے نیک اعمال ہوں جس سے میت کو فائدہ پہنچ سکتا ہو اور نیابت ہو سکتی ہو۔
(فتح الباري: 323/3)
والله أعلم۔
(3)
حدیث مذکور میں جن کی والدہ کے انتقال کا ذکر ہوا ہے وہ سعد بن عبادہ ؓ تھے۔
ان کی والدہ کا نام عمرہ تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1388   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.