الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Al-Janaiz (Funerals)
94. بَابُ مَوْتِ يَوْمِ الاِثْنَيْنِ:
94. باب: پیر کے دن مرنے کی فضیلت کا بیان۔
(94) Chapter. Dying on Monday.
حدیث نمبر: 1387
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا معلى بن اسد , حدثنا وهيب، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها , قالت: دخلت على ابي بكر رضي الله عنه , فقال:" في كم كفنتم النبي صلى الله عليه وسلم؟ , قالت: في ثلاثة اثواب بيض سحولية ليس فيها قميص ولا عمامة، وقال لها: في اي يوم توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ , قالت: يوم الاثنين، قال: فاي يوم هذا؟ , قالت: يوم الاثنين، قال: ارجو فيما بيني وبين الليل فنظر إلى ثوب عليه كان يمرض فيه به ردع من زعفران، فقال: اغسلوا ثوبي هذا وزيدوا عليه ثوبين فكفنوني فيها، قلت: إن هذا خلق، قال: إن الحي احق بالجديد من الميت إنما هو للمهلة، فلم يتوف حتى امسى من ليلة الثلاثاء، ودفن قبل ان يصبح".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ , حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , فَقَالَ:" فِي كَمْ كَفَّنْتُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ , قَالَتْ: فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ بِيضٍ سَحُولِيَّةٍ لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ، وَقَالَ لَهَا: فِي أَيِّ يَوْمٍ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ , قَالَتْ: يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، قَالَ: فَأَيُّ يَوْمٍ هَذَا؟ , قَالَتْ: يَوْمُ الِاثْنَيْنِ، قَالَ: أَرْجُو فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَ اللَّيْلِ فَنَظَرَ إِلَى ثَوْبٍ عَلَيْهِ كَانَ يُمَرَّضُ فِيهِ بِهِ رَدْعٌ مِنْ زَعْفَرَانٍ، فَقَالَ: اغْسِلُوا ثَوْبِي هَذَا وَزِيدُوا عَلَيْهِ ثَوْبَيْنِ فَكَفِّنُونِي فِيهَا، قُلْتُ: إِنَّ هَذَا خَلَقٌ، قَالَ: إِنَّ الْحَيَّ أَحَقُّ بِالْجَدِيدِ مِنَ الْمَيِّتِ إِنَّمَا هُوَ لِلْمُهْلَةِ، فَلَمْ يُتَوَفَّ حَتَّى أَمْسَى مِنْ لَيْلَةِ الثُّلَاثَاءِ، وَدُفِنَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ".
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا ‘ ان سے ہشام بن عروہ نے ‘ ان سے ان کے باپ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں (والد ماجد) ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں (ان کی مرض الموت میں) حاضر ہوئی تو آپ نے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تم لوگوں نے کتنے کپڑوں کا کفن دیا تھا؟ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ تین سفید دھلے ہوئے کپڑوں کا۔ آپ کو کفن میں قمیض اور عمامہ نہیں دیا گیا تھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کس دن ہوئی تھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ پیر کے دن۔ پھر پوچھا کہ آج کون سا دن ہے؟ انہوں نے کہا آج پیر کا دن ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پھر مجھے بھی امید ہے کہ اب سے رات تک میں بھی رخصت ہو جاؤں گا۔ اس کے بعد آپ نے اپنا کپڑا دیکھا جسے مرض کے دوران میں آپ پہن رہے تھے۔ اس کپڑے پر زعفران کا دھبہ لگا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا میرے اس کپڑے کو دھو لینا اور اس کے ساتھ دو اور ملا لینا پھر مجھے کفن انہیں کا دینا۔ میں نے کہا کہ یہ تو پرانا ہے۔ فرمایا کہ زندہ آدمی نئے (کپڑے) کا مردے سے زیادہ مستحق ہے ‘ یہ تو پیپ اور خون کی نذر ہو جائے گا۔ پھر منگل کی رات کا کچھ حصہ گزرنے پر آپ کا انتقال ہوا اور صبح ہونے سے پہلے آپ کو دفن کیا گیا۔

Narrated Hisham's father: Aisha said, "I went to Abu Bakr (during his fatal illness) and he asked me, 'In how many garments was the Prophet shrouded?' She replied, 'In three Suhuliya pieces of white cloth of cotton, and there was neither a shirt nor a turban among them.' Abu Bakr further asked her, 'On which day did the Prophet die?' She replied, 'He died on Monday.' He asked, 'What is today?' She replied, 'Today is Monday.' He added, 'I hope I shall die sometime between this morning and tonight.' Then he looked at a garment that he was wearing during his illness and it had some stains of saffron. Then he said, 'Wash this garment of mine and add two more garments and shroud me in them.' I said, 'This is worn out.' He said, 'A living person has more right to wear new clothes than a dead one; the shroud is only for the body's pus.' He did not die till it was the night of Tuesday and was buried before the morning."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 469


   صحيح البخاري5814عائشة بنت عبد اللهحين توفي سجي ببرد حبرة
   صحيح البخاري1271عائشة بنت عبد اللهكفن النبي في ثلاثة أثواب سحول كرسف ليس فيها قميص ولا عمامة
   صحيح البخاري1387عائشة بنت عبد اللهفي ثلاثة أثواب بيض سحولية ليس فيها قميص ولا عمامة في أي يوم توفي رسول الله قالت يوم الاثنين أرجو فيما بيني وبين الليل فنظر إلى ثوب عليه كان يمرض فيه به ردع من زعفران فقال اغسلوا ثو
   صحيح البخاري1272عائشة بنت عبد اللهكفن في ثلاثة أثواب ليس فيها قميص ولا عمامة
   صحيح البخاري1273عائشة بنت عبد اللهكفن في ثلاثة أثواب بيض سحولية ليس فيها قميص ولا عمامة
   صحيح البخاري1264عائشة بنت عبد اللهكفن في ثلاثة أثواب يمانية بيض سحولية من كرسف ليس فيهن قميص ولا عمامة
   صحيح مسلم2183عائشة بنت عبد اللهسجي رسول الله حين مات بثوب حبرة
   صحيح مسلم2179عائشة بنت عبد اللهكفن رسول الله في ثلاثة أثواب بيض سحولية من كرسف ليس فيها قميص ولا عمامة
   صحيح مسلم2180عائشة بنت عبد اللهكفن في ثلاثة أثواب سحول يمانية ليس فيها عمامة ولا قميص
   صحيح مسلم2182عائشة بنت عبد اللهفي ثلاثة أثواب سحولية
   جامع الترمذي996عائشة بنت عبد اللهكفن النبي في ثلاثة أثواب بيض يمانية ليس فيها قميص ولا عمامة
   سنن أبي داود3151عائشة بنت عبد اللهكفن رسول الله في ثلاثة أثواب يمانية بيض ليس فيها قميص ولا عمامة
   سنن أبي داود3149عائشة بنت عبد اللهأدرج النبي في ثوب حبرة ثم أخر عنه
   سنن أبي داود3120عائشة بنت عبد اللهسجي في ثوب حبرة
   سنن النسائى الصغرى1899عائشة بنت عبد اللهكفن في ثلاثة أثواب بيض سحولية ليس فيها قميص ولا عمامة
   سنن النسائى الصغرى1898عائشة بنت عبد اللهكفن النبي في ثلاثة أثواب سحولية بيض
   سنن النسائى الصغرى1900عائشة بنت عبد اللهكفن رسول الله في ثلاثة أثواب بيض يمانية كرسف ليس فيها قميص ولا عمامة
   سنن ابن ماجه1469عائشة بنت عبد اللهكفن في ثلاثة أثواب بيض يمانية ليس فيها قميص ولا عمامة
   بلوغ المرام431عائشة بنت عبد اللهحين توفي سجي ببرد حبرة
   بلوغ المرام437عائشة بنت عبد الله كفن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم في ثلاثة اثواب بيض سحولية من كرسف ليس فيها قميص ولا عمامة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 431  
´میت کو غسل دینے سے پہلے دھاری دار چادر سے ڈھانپ دینا`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دھاری دار چادر سے ڈھانپ دیا گیا۔ . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 431]
لغوی تشریح:
«سُجَّيَ» تسجیۃ (باب تفعيل) سے صیغہ مجہول ہے۔ ڈھانپنے کے معنی میں ہے۔
«بِبُرْدِ حِبَرَةِ» اس میں مضاف اور مضاف الیہ کی شکل بھی بنتی ہے اور موصوف صفت کی بھی۔ اور «بُرْد» کی باپر ضمہ اور راساکن ہے۔ چادر یا دھاری دار کپڑا۔
اور «حِبَرَة» میں حا پر فتحہ ہے۔ بیل بوٹے والی چادر۔ اور یہ ڈھانپنے کا عمل غسل سے پہلے تھا۔
فوائد و مسائل:
➊ میت کو غسل دینے سے پہلے دھاری دار چادر سے ڈھانپ دینا بھی جائز ہے۔
➋ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی وارد ہوئی ہے۔
➌ اس حدیث سے حیات النبی کا مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہو گیا کہ اگر آپ نے وفات نہیں پائی تو آپ کے ساتھ وہ عمل کیوں کیا گیا جو فوت ہونے والوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، یعنی غسل اور تدفین و تجہیز وغیرہ۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 431   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 437  
´میت کو خواہ مرد ہو یا عورت تین کپڑوں میں کفن دینا`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سحولیہ کے بنے ہوئے سوتی سفید رنگ کے تین کپڑوں میں کفن دیا گیا تھا، جس میں قمیص اور پگڑی نہیں تھی . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 437]
لغوی تشریح:
«كُفٌنَ» تکفین سے ماخوذ ہے۔
«ثَلَاثَةَ اَثَّوَابٟ» تین کپڑوں یعنی ازار، چادر اور لفافے میں کفن دیا گیا۔
«بِيض» با کے نیچے کسرہ ہے اور یہ «اُبْيَض» کی جمع ہے۔
«سُحُو لِيَّةِ» سین اور حا دونوں پر ضمہ ہے۔ اور سین پر فتحہ اور حا پر ضمہ بھی منقول ہے۔ سحول کی طرف منسوب ہے جو یمن کا ایک قصبہ یا بستی ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ فتحہ کی صورت میں یہ قصار (دھوبی) کی طرف منسوب ہو گا کیونکہ «سحل» سے مراد صاف کرنا ہے اور دھوبی کپڑے کو دھو کر صاف کرتا ہے۔ اس اعتبار سے «سحوليه» کے معنی «نقيه» (صفائی و طہارت اور پاکیزگی و نظافت) کے ہوں گے۔
«كُرْسُف» کاف اور سین دونوں پر ضمہ اور ان کے درمیان میں را ساکن ہے۔ اس سے مراد روئی ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ میت کو خواہ مرد ہو یا عورت تین کپڑوں میں کفن دینا چاہیے۔ عورتوں کو تین کپڑوں سے زائد کفن دینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ واللہ اعلم ان کپڑوں میں نہ تو قیمص ہو اور نہ پگڑی۔ اور کفن میں سوتی کپڑا بہتر ہے۔
➋ تین کپڑوں سے مراد جمہور کے نزدیک تین بڑی چادریں ہیں اور بعض کے ہاں اس سے مراد کفنی، تہبند اور بڑی چادر ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 437   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1469  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا، جس میں کرتہ اور عمامہ نہ تھا، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا گیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا؟ تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: لوگ دھاری دار چادر لائے تھے مگر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس میں نہیں کفنایا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1469]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
کفن کا سفید ہونا بہتر ہے۔
جیسے آگے حدیث (1473)
میں بھی آ رہا ہے۔

(2)
رنگدار یا دھاری دار کپڑے کا کفن بنانا بھی جائز ہے۔
اگر جائز نہ ہوتا تو صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نبی اکرمﷺ کے لئے ایسا کفن تیار نہ کرتے۔

(3)
رسول اللہﷺ کو تین کپڑوں میں کفن دیا گیا۔
اس سے معلوم ہواکہ مرد وعورت کفن کے کپڑوں میں برابر ہیں۔
عورت کےلئے کفن میں مرد سے زیادہ کپڑے استعمال کرنے کا جواز کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1469   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 996  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے کفن کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تین سفید ۱؎ یمنی کپڑوں میں کفنایا گیا ۲؎ نہ ان میں قمیص ۳؎ تھی اور نہ عمامہ۔ لوگوں نے عائشہ رضی الله عنہا سے کہا: لوگ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کپڑوں اور ایک دھاری دار چادر میں کفنایا گیا تھا؟ تو ام المؤمنین عائشہ نے کہا: چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے واپس کر دیا تھا، آپ کو اس میں نہیں کفنایا گیا تھا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 996]
اردو حاشہ:
1؎:
تین سفید کپڑوں سے مراد تین بڑی چادریں ہیں اور بعض کے نزدیک کفنی،
تہ بند اور بڑی چادر ہے۔

2؎:
اس سے معلوم ہوا کہ کفن تین کپڑوں سے زیادہ مکروہ ہے بالخصوص عمامہ (پگڑی) جسے متاخرین حنفیہ اور مالکیہ نے رواج دیا ہے سراسر بدعت ہے رہی ابن عباس کی روایت جس میں ہے ((كُفِّنَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ فِي ثَلاثَةِ أَثْوَابٍ بحرانية:
 الحلة،
 ثوبان،
 وقميصه الذي مات فيه)
)
 تو یہ منکر ہے اس کے راوی یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں،
اسی طرح عبادہ بن صامت کی حدیث ((خَيْرُ الْكَفَنِ الْحُلَّةُ)) بھی ضعیف ہے اس کے راوی نسي مجہول ہیں۔

3؎:
اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ کفن میں قمیص مستحب نہیں جمہور کا یہی قول ہے،
لیکن مالکیہ اور حنفیہ استحباب کے قائل ہیں،
وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اس میں احتمال یہ ہے کہ دونوں ہو اور یہ بھی احتمال ہے کہ شمار کی گئی چیز کی نفی ہو یعنی قمیص اور عمامہ ان تینوں میں شامل نہیں تھے بلکہ یہ دونوں زائد تھے،
اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ پہلا احتمال ہی صحیح ہے اور اس کا مطلب یہی ہے کفن میں قمیص اور عمامہ نہیں تھا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 996   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1387  
1387. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:میں حضرت ابو بکر ؓ کے پاس حاضر ہوئی تو انھوں نے فرمایا:تم نے نبی کریم ﷺ کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا تھا؟میں نے جواب دیا:تین سحولی چادروں میں، جن میں نہ قمیص تھی اور نہ عمامہ ہی تھا۔ پھر انھوں نے فرمایا:نبی کریم ﷺ نے کس روز وفات پائی تھی؟ حضرت عائشہ ؓ نے کہا:پیر کے دن۔ ابو بکر ؓ نے فرمایا:آج کون سا دن ہے؟انھوں نے جواب دیا:آج پیر کا دن ہے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا:میں امید کرتا ہوں کہ اس وقت سے لے کر رات تک وفات پاجاؤں گا۔ پھر انھوں نے اپنے کپڑے کی طرف دیکھا جس میں وہ بیمار ہوئے تھے اور اس میں ایک زعفران کا نشان تھا، آپ نےفرمایا کہ میرے اسی کپڑے کو دھو ڈالو، اسی پر دو چادروں کااضافہ کردو اور ان میں مجھے کفن دینا، میں نےکہا:یہ کپڑا تو پراناہے۔ انھوں نےفرمایا:زندہ آدمی نئے کپڑوں کامردے سے زیادہ حقدار ہے، کیونکہ آخر کار کفن تو پیپ کی نذر ہونے والا ہے۔ پھر منگل کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1387]
حدیث حاشیہ:
سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے پیر کے دن موت کی آرزو کی‘ اس سے باب کا مطلب ثابت ہوا۔
حضرت صدیق ؓ نے اپنے کفن کے لیے اپنے روز مرہ کے کپڑوں کو ہی زیادہ پسند فرمایا جن میں آپ روزانہ عبادت الٰہی کیا کرتے تھے۔
آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ ؓ نے جب آپ کا یہ حال دیکھا تو وہ ہائے کرنے لگیں، مگر آپ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو بلکہ اس آیت کو پڑھو ﴿وَجَاءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ﴾ یعنی آج سکرات موت کا وقت آگیا۔
حضرت صدیق ؓ کے فضائل ومناقب کے لیے دفتر بھی ناکافی ہے رضي اللہ عنه وأرضاہ علامہ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
وَرَوَى أَبُو دَاوُدَ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ مَرْفُوعًا لَا تُغَالُوا فِي الْكَفَنِ فَإِنَّهُ يُسْلَبُ سَرِيعًا وَلَا يُعَارِضُهُ حَدِيثُ جَابِرٍ فِي الْأَمْرِ بِتَحْسِينِ الْكَفَنِ أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ فَإِنَّهُ يُجْمَعُ بَيْنَهُمَا بِحَمْلِ التَّحْسِينِ عَلَى الصِّفَةِ وَحَمْلِ الْمُغَالَاةِ عَلَى الثَّمَنِ وَقِيلَ التَّحْسِينُ حَقُّ الْمَيِّتِ فَإِذَا أَوْصَى بِتَرْكِهِ اتُّبِعَ كَمَا فَعَلَ الصِّدِّيقُ وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ اخْتَارَ ذَلِكَ الثَّوْبَ بِعَيْنِهِ لِمَعْنًى فِيهِ مِنَ التَّبَرُّكِ بِهِ لِكَوْنِهِ صَارَ إِلَيْهِ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ لِكَوْنِهِ كَانَ جَاهَدَ فِيهِ أَوْ تَعَبَّدَ فِيهِ وَيُؤَيِّدهُ مَا رَوَاهُ بن سَعْدٍ مِنْ طَرِيقِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أبي بكر قَالَ قَالَ أَبُو بَكْرٍ كَفِّنُونِي فِي ثَوْبَيَّ اللَّذَيْنِ كُنْتُ أُصَلِّي فِيهِمَا۔
(فتح الباري، ج: 6 ص: 5)
اور ابوداؤ نے حدیث علی سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ قیمتی کپڑا کفن میں نہ دو وہ تو جلد ہی ختم ہوجاتا ہے۔
حدیث جابر میں عمدہ کفن دینے کا بھی حکم آیا ہے۔
عمدہ سے مراد صاف ستھرا کپڑا اور قیمتی سے گراں قیمت کپڑا مراد ہے۔
ہردو حدیث میں یہی تطبیق ہے۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ تحسین میت کے حق میں ہے اگر وہ چھوڑنے کی وصیت کرجائے تو اس کی اتباع کی جائے گی۔
جیسا کہ حضرت صدیق اکبر ؓ نے کیا۔
یہ بھی احتمال ہے کہ حضرت صدیق اکبر نے اپنے ان کپڑوں کو بطور تبرک پسند فرمایا ہو، کیونکہ وہ آپ کو نبی کریم ﷺ سے حاصل ہوئے تھے یا یہ کہ ان میں آپ نے بڑے بڑے مجاہدے کئے تھے یا ان میں عبادت الٰہی کی تھی۔
اس کی تائید میں ایک روایت میں آپ کے یہ لفظ بھی منقول ہیں کہ مجھے میرے ان ہی دو کپڑوں میں کفن دینا جن میں میں نے نمازیں ادا کی ہیں۔
وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ اسْتِحْبَابُ التَّكْفِينِ فِي الثِّيَابِ الْبِيضِ وَتَثْلِيثِ الْكَفَنِ وَطَلَبِ الْمُوَافَقَةِ فِيمَا وَقَعَ للأكابر تبركا بذلك وَفِيهِ جَوَازُ التَّكْفِينِ فِي الثِّيَابِ الْمَغْسُولَةِ وَإِيثَارِ الْحَيِّ بِالْجَدِيدِ وَالدَّفْنِ بِاللَّيْلِ وَفَضْلُ أَبِي بَكْرٍ وَصِحَّةُ فِرَاسَتِهِ وَثَبَاتُهُ عِنْدَ وَفَاتِهِ وَفِيهِ أَخْذُ الْمَرْءِ الْعِلْمَ عَمَّنْ دُونَهُ وَقَالَ أَبُو عُمَرَ فِيهِ أَنَّ التَّكْفِينَ فِي الثَّوْبِ الْجَدِيدِ وَالْخَلَقِ سَوَاءٌ۔
یعنی اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سفید کپڑوں کا کفن دینا اور تین کپڑے کفن میں استعمال کرنا مستحب ہے اور اکابر سے نبی اکرم ﷺ کی بطور تبرک موافقت طلب کرنا بھی مستحب ہے۔
جیسے صدیق اکبرؓ نے آنحضرت ﷺ کے یوم وفات پیر کے دن کی موافقت کی خواہش ظاہر فرمائی اور اس حدیث دھلے ہوئے کپڑوں کا کفن دینا بھی جائز ثابت ہوا اور یہ بھی کہ عمدہ نئے کپڑوں کے لیے زندوں پر ایثار کرنا مستحب ہے جیسا کہ صدیق اکبر ؓ نے فرمایا اور رات میں دفن کرنے کا جواز بھی ثابت ہوا اور حضرت ابوبکر صدیق ؓ کی فضیلت وفراست بھی ثابت ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ علم حاصل کرنے میں بڑوں کے لیے چھوٹوں سے بھی استفادہ جائز ہے۔
جیسا کہ صدیق اکبر ؓ نے اپنی صاحبزادی سے استفادہ فرمایا۔
ابو عمر نے کہا کہ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ نئے اور پرانے کپڑوں کا کفن دینا برابر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1387   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1387  
1387. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:میں حضرت ابو بکر ؓ کے پاس حاضر ہوئی تو انھوں نے فرمایا:تم نے نبی کریم ﷺ کو کتنے کپڑوں میں کفن دیا تھا؟میں نے جواب دیا:تین سحولی چادروں میں، جن میں نہ قمیص تھی اور نہ عمامہ ہی تھا۔ پھر انھوں نے فرمایا:نبی کریم ﷺ نے کس روز وفات پائی تھی؟ حضرت عائشہ ؓ نے کہا:پیر کے دن۔ ابو بکر ؓ نے فرمایا:آج کون سا دن ہے؟انھوں نے جواب دیا:آج پیر کا دن ہے۔ حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا:میں امید کرتا ہوں کہ اس وقت سے لے کر رات تک وفات پاجاؤں گا۔ پھر انھوں نے اپنے کپڑے کی طرف دیکھا جس میں وہ بیمار ہوئے تھے اور اس میں ایک زعفران کا نشان تھا، آپ نےفرمایا کہ میرے اسی کپڑے کو دھو ڈالو، اسی پر دو چادروں کااضافہ کردو اور ان میں مجھے کفن دینا، میں نےکہا:یہ کپڑا تو پراناہے۔ انھوں نےفرمایا:زندہ آدمی نئے کپڑوں کامردے سے زیادہ حقدار ہے، کیونکہ آخر کار کفن تو پیپ کی نذر ہونے والا ہے۔ پھر منگل کی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1387]
حدیث حاشیہ:
(1)
موت کا وقت مقرر ہے کسی کو اس میں اختیار نہیں، لیکن رسول اللہ ﷺ کی وفات کے دن مرنے کی خواہش کرنا جائز ہے۔
حضرت ابوبکر ؓ زندگی میں شدید اتباع کے ساتھ ساتھ یہ چاہتے تھے کہ موت میں بھی رسول الله ﷺ کی اتباع کروں اگرچہ ان کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی، کیونکہ ان کی وفات منگل کی رات ہوئی، تاہم اتصال اور وقت کا قرب ان سے فوت نہیں ہوا۔
حدیث میں ہے کہ جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات مرنا ایک مسلمان آدمی کے لیے فتنہ قبر سے حفاظت کا باعث ہے۔
لیکن امام ترمذی نے خود وضاحت کر دی ہے کہ اس کی سند صحیح نہیں، کیونکہ اس میں ایک راوی ربیعہ بن سیف ہیں جو حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص ؓ سے بیان کرتے ہیں، حالانکہ اس ربیعہ کا ان سے سماع ثابت نہیں، البتہ شیخ البانی ؓ اور دیگر کئی محققین نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
دیکھیے:
(جامع الترمذي، الجنائز، حدیث: 1074، و صحیح سنن الترمذي للألباني: 454/1، رقم: 1074)
بہرحال حضرت ابوبکرؓ کا مقصد، حیات و ممات میں رسول اللہ ﷺ کی موافقت و اتباع کرنا تھا حتی کہ موت میں بھی آپ سے موافقت کا اظہار کیا جو ان کے اختیار میں نہ تھی۔
(2)
حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے سات جمادی الاخری کو غسل کیا تو سردی لگنے سے بخار ہو گیا۔
پندرہ دن اس مرض میں مبتلا رہے۔
بالآخر 22 جمادی الاخری منگل کی رات 13 ہجری کو وفات پائی۔
إنا لله و إنا إليه راجعون۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1387   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.