الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جمعہ کے فضائل و مسائل
The Book of Jumu\'ah (Friday Prayer)
15. بَابُ : الأَذَانِ لِلْجُمُعَةِ
15. باب: جمعہ کی اذان کا بیان۔
حدیث نمبر: 1395
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الاعلى، قال: حدثنا المعتمر، عن ابيه، عن الزهري، عن السائب بن يزيد، قال:" كان بلال يؤذن إذا جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر يوم الجمعة، فإذا نزل اقام، ثم كان كذلك في زمن ابي بكر وعمر رضي الله عنهما".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ:" كَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ إِذَا جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِذَا نَزَلَ أَقَامَ، ثُمَّ كَانَ كَذَلِكَ فِي زَمَنِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا".
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ اس وقت اذان دیتے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر بیٹھ جاتے، پھر جب آپ اترتے تو وہ اقامت کہتے، اسی طرح ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی ہوتا رہا۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 1393 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   سنن النسائى الصغرى1394سائب بن يزيدلم يكن لرسول الله غير مؤذن واحد التأذين يوم الجمعة حين يجلس الإمام
   سنن النسائى الصغرى1395سائب بن يزيدبلال يؤذن إذا جلس رسول الله على المنبر يوم الجمعة فإذا نزل أقام ثم كان كذلك في زمن أبي بكر وعمر ما
   سنن ابن ماجه1135سائب بن يزيدما كان لرسول الله إلا مؤذن واحد إذا خرج أذن وإذا نزل أقام وأبو بكر وعمر كذلك فلما كان عثمان وكثر الناس زاد النداء الثالث على دار في السوق يقال لها الزوراء فإذا خرج أذن وإذا نزل أقام

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1395  
´جمعہ کی اذان کا بیان۔`
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ اس وقت اذان دیتے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر بیٹھ جاتے، پھر جب آپ اترتے تو وہ اقامت کہتے، اسی طرح ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی ہوتا رہا۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1395]
1395۔ اردو حاشیہ: ان دونوں روایات میں جمعے کی صرف ایک ہی اذان کو عہدِ رسالت و شیخین کا معمول بتلایا گیا ہے، اس لیے جہاں ضرورت نہ ہو، اور درحقیقت فی زمانہ غالباً اس کی ضرورت بھی نہیں ہے، وہاں اس کے مطابق ایک ہی اذان کا اہتمام کرنا چاہیے، البتہ جہاں اس کی ضرورت ہو، وہاں جمعے کی پہلی اذان دی جا سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1395   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1135  
´جمعہ کے دن اذان کا بیان۔`
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صرف ایک ہی مؤذن تھے ۱؎، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ کے لیے) نکلتے تو وہ اذان دیتے، اور جب منبر سے اترتے تو اقامت کہتے، ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں بھی ایسا ہی تھا، جب عثمان رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اور لوگ زیادہ ہو گئے، تو انہوں نے زوراء نامی ۲؎ بازار میں ایک مکان پر، تیسری اذان کا اضافہ کر دیا، چنانچہ جب عثمان رضی اللہ عنہ (خطبہ دینے کے لیے) نکلتے تو مؤذن (دوبارہ) اذان دیتا، اور جب منبر سے اترتے تو تکبیر کہتا ۳؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1135]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خطبہ شروع ہونے سے پہلے جو اذان کہی جاتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں جمعے کے لئے صرف وہی اذان ہوتی تھی۔
پھر نماز شروع کرتے وقت اقامت کہی جاتی تھی۔
جسے دوسری اذان کا نام دیا گیا۔
ان دو اذانوں (اذان اور اقامت)
کے علاوہ جو اذان ہے۔
اسے یہاں تیسری اذان کہا گیا ہے کیونکہ وہ ان دونوں کے بعد شروع ہوئی اور یہ وہ اذان ہے۔
جو خطبہ شروع ہونے سے کافی پہلے کہی جاتی ہے۔
تاکہ لوگ جمعے کی تیاری کرکے بروقت مسجد میں پہنچ سکیں۔

(2)
فجر کی اذان سے پہلے بھی ایک اور اذان کہی جاتی ہے۔
جسے عرف عام میں تہجد کی اذان کہتے ہیں۔
اس کی حکمت بھی یہی ہے کہ مسلمان فجر کی اذان سے پہلے بیدار ہوجائیں تاکہ ضروری حاجات سے فارغ ہوکر وضو وغیرہ کرکے بروقت فجر کی نماز کےلئے مسجد میں پہنچ سکیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فجر کی اس پہلی اذان پر قیاس کرتے ہوئے جمعے کی پہلی اذان شروع کی۔
کیونکہ جسطرح فجر سے پہلے کا وقت غفلت کا ہوتا ہے۔
اسی طرح جمعےسے پہلے کا وقت بھی مصروفیت کیوجہ سے ایک طرح غفلت کا وقت ہی ہوتا ہے اس طرح جمعے سے پہلے کا وقت بھی مصروفیت کی وجہ سے ایک طرح سے غفلت کا وقت ہی ہوتا ہے۔
لہٰذا وقت سے پہلے ہی توجہ دلانے اور ہوشیار کرنے کے لئے اذان کہی جاتی ہے۔

(3)
حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جمعے کی پہلی اذان مسجد سے باہر بازار میں کہلوائی تاکہ زیادہ لوگ متوجہ ہوسکیں۔
آج کے دور میں لاؤڈ اسپیکر کی وجہ سے مسجد کے اندر کہی ہوئی اذان سے بھی یہی مقصد حاصل ہوجاتا ہے۔
اس لئے اس اذان کامسجد سے باہر ہونا ضروری نہیں۔

(4)
جمعے کی پہلی اذان خلفائے راشدین رضوان للہ عنہم اجمعین کی سنت ہے۔
اللہ کےرسولﷺ نے فرمایا تھا۔
میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین رضوان للہ عنہم اجمعین کی سنت اختیار کرو (سنن ابن ماجه حدیث: 42)
 سنت نبوی ﷺ کےمطابق صرف ایک اذان کہنا یا خلیفہ راشد رضوان للہ عنہم اجمعین کی سنت کے مطابق دو اذانیں کہنا دونوں طرح جائز ہے۔
تاہم سنت نبوی ﷺ کے مطابق ایک ہی اذان کہنا زیادہ بہتر ہے البتہ بعض اہل علم کے نزدیک لاؤڈ اسپیکر اور گھڑیوں کے عام ہونے کی وجہ سے موجودہ دور میں پہلی اذان کا جواز بھی باقی نہیں رہتا۔
تاہم جہاں یہ چیزیں نہ ہوں۔
تو وہاں ضرورت کے مطابق اس پر عمل کرنا جائز ہوگا۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1135   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.