الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
The Book of the Sunnah
2. بَابُ : تَعْظِيمِ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّغْلِيظِ عَلَى مَنْ عَارَضَهُ
2. باب: حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔
حدیث نمبر: 14
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو مروان محمد بن عثمان العثماني ، حدثنا إبراهيم بن سعد بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف ، عن ابيه ، عن القاسم بن محمد ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عن الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے، تو وہ قابل رد ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصلح 5 (2697)، صحیح مسلم/الأقضیة 8 (1718)، سنن ابی داود/السنة 6 (4606)، (تحفة الأشراف: 17455)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/73، 146، 180، 240، 256، 270) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یہ ایک اہم شرعی ضابطہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ جس کام پر کتاب اور سنت صحیحہ کی کوئی دلیل نہ ہو، اور صحابہ و تابعین اور خیر القرون کے تعامل سے وہ محروم ہو تو وہ بدعت ہے۔

Aishah narrated that: The Messenger of Allah (ﷺ) said: "Whoever innovates something in this matter of ours (i.e. Islam) that is not part of it, will have it rejected."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

   صحيح البخاري2697عائشة بنت عبد اللهمن أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد
   صحيح مسلم4493عائشة بنت عبد اللهمن عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد
   صحيح مسلم4492عائشة بنت عبد اللهمن أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد
   سنن أبي داود4606عائشة بنت عبد اللهمن أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد
   سنن ابن ماجه14عائشة بنت عبد اللهمن أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد
   مشكوة المصابيح140عائشة بنت عبد اللهمن احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 140  
´بدعت کا رد`
«. . . ‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رد» . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ہمارے دین اسلام میں کوئی نئی بات نکالی جو دین سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 140]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 2697]،
[صحيح مسلم 4493]

فقہ الحدیث
➊ دین میں ہر وہ نئی بات جو قرآن، حدیث، اجماع اور آثار سلف صالحین سے ثابت نہیں بدعت کہلاتی ہے اور گمراہی ہے۔
➋ ایک طویل روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ کچھ لوگ مسجد میں حلقوں کی صورت میں کنکریوں پر سو دفعہ «الله أكبر»، سو دفعہ «لا إلٰه إلا الله» اور سو دفعہ «سبحان الله» پڑھ رہے تھے تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے انہیں اس حرکت سے منع کر دیا۔ دیکھئے: [سنن الدارمي ج1 ص286، 287 ح210 وسندہ صحیح]
↰ اس روایت کو سرفراز خان صفدر دیوبندی نے صحيح قرار دیا ہے۔ دیکھئے: [راه سنت ص 123]
➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دوسری روایت میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
«من أحدث فى ديننا ما ليس منه فهو رد»
جس نے ہمارے دین میں کوئی ایسی بات نکالی جو اس میں موجود نہیں تو وہ مردود ہے۔ [جزء من حديث لوين: 69 وسنده صحيح، شرح السنة للبغوي: 103، وسنده حسن]

تنبیہ:
حدیثِ «لُوَيْن» کا حوالہ المکتبة الشاملة سے لیا گیا ہے۔ نیز دیکھئے: [جزء فيه من حديث لوين/مطبوع ح71 وسنده صحيح]
➍ جو شخص کتاب و سنت کو مضبوطی سے پکڑتا ہے اور ہر قسم کی بدعات سے دور رہتا ہے تو یہ شخص صراط مستقیم پر گامزن اور کامیاب ہے۔
➎ مشہور تابعی امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ہم سے پہلے گزرنے والے علماء فرماتے تھے کہ سنت کو مضبوطی سے پکڑنے میں نجات ہے۔ [سنن الدارمي: 97 و سنده صحيح]
➏ تابعی عبداللہ بن فیروز الدیلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مجھے پتا چلا ہے کہ دین کے خاتمے کی ابتدا ترک سنت سے ہو گی۔ [سنن الدارمي: 98 وسنده صحيح]
↰ یاد رہے کہ حجت ہونے کے لحاظ سے حدیث اور سنت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں جیسا کہ سلف صالحین اور اصول حدیث سے ثابت ہے لہٰذا جو شخص صحیح حدیث کا تارک ہے وہ سنت کا بھی تارک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تارک سنت پر لعنت بھیجی ہے۔ دیکھئے: [سنن الترمذي 2154، وسنده حسن]
➐ جلیل القدر تابعی امام حسان بن عطیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
جو قوم بھی اپنے دین میں کوئی بدعت نکالتی ہے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ان سے سنتیں اٹھا لیتا ہے، پھر وہ سنتیں قیامت تک ان کے پاس واپس نہیں آتیں۔ [سنن الدارمي: 99 وسندہ صحیح]
➑ مشہور جلیل القدر تابعی امام اور فقیہ ابوقلابہ عبداللہ بن زید الجرمی رحمہ اللہ نے فرمایا:
بدعتی لوگ گمراہ ہیں اور میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ جہنم میں جائیں گے۔ [سنن الدارمي: 101، وسنده صحيح]
➒ یاد رہے کہ شریعت میں بدعات کا تعلق ان ایجادات سے ہے جن کا بغیر ادلہ شرعیہ کے دین میں اضافہ کیا گیا ہے، رہی دنیاوی ایجادات تو ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ حدیث «أنتم أعلم بأمر دنياكم» تم دنیا کے معاملات زیادہ جانتے ہو۔ [صحيح مسلم: 2363، دارالسلام: 6128] کی رُو سے وہ تمام دنیاوی ایجادات جائز ہیں جن کے ذریعے سے شریعت پر کوئی زد نہیں آتی۔
➓ حمص شام کے تبع تابعین میں سے ثقہ امام ابوزرعہ یحییٰ بن ابی عمر السیبانی رحمہ اللہ (متوفی148ھ) فرماتے ہیں:
یہ کہا جاتا تھا کہ بدعتی کی توبہ اللہ قبول نہیں کرتا اور (دوسری بات یہ ہے کہ) بدعتی ایک بدعت چھوڑ کر اس سے زیادہ بری بدعت میں داخل ہو جاتا ہے۔ [كتاب البدع والنهي عنها: 144، وسنده حسن]
◄ معلوم ہوا کہ اگر کوئی بدعتی اپنی بدعت سے لوگوں کے سامنے توبہ کر لے تو پھر کافی عرصے تک اسے زیر نگرانی رکھنا چاہئیے، کیونکہ عام اہل بدعت کا یہی دستور ہے کہ وہ ایک بدعت سے نکل کر دوسری خطرناک بدعت سے دوچار ہو جاتے ہیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 140   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث14  
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی چیز ایجاد کی جو اس میں سے نہیں ہے، تو وہ قابل رد ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 14]
اردو حاشہ: (1) (فِيْ أَمْرِنَا)
سے مراد، دینی اور شرعی معاملات ہیں یا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ہیں، اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ دین کیا ہے۔
دین کے جو معاملات عبادات یا عقائد سے تعلق رکھتے ہیں ان میں اپنی رائے سے کمی بیشی کرنا بدعت کہلاتا ہے۔
اسی کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ہر بدعت گمراہی ہے۔ (صحيح مسلم، الجمعة، باب تخفيف الصلاة والخطبة، حديث: 867)
دنیوی معاملات، مثلا لباس کے مختلف انداز، کھانا پکانے کے علاقائی طریقے یا کاشت کاری کے جدید آلات کا استعمال ان کا شرعی بدعت سے تعلق نہیں۔
لیکن ان میں وہ کام بہرحال منع ہوں گے جو شریعت کے بیان کردہ عام اصولوں کے خلاف ہوں، مثلا ایسا لباس جو پردہ کے بنیادی مقصد کو پورا نہ کرے، یا غیر مسلموں کا لباس سمجھا جاتا ہو، وغیرہ
(2) (فَهُوَ رَدٌّ)
وہ ناقابل قبول ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو یہ عمل قبول نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کی تردید اور اس سے منع کرنا چاہیے۔
یا یہ مطلب ہے کہ اللہ کے ہاں قبول نہیں ہو گا اور اس پر ثواب کے بجائے گناہ ہو گا۔

(3)
وہ کام، جس سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص وجہ سے اجتناب فرمایا ہو۔
درآں حالیکہ آپ اس کی خواہش رکھتے ہوں، وہ بنیادی طور پر جائز ہوتا ہے، جب وہ رکاوٹ دور ہو جائے تو اسے انجام دینا بدعت میں شامل نہیں ہو گا۔
مثلا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پورے ماہ رمضان میں نماز تراویح پڑھانے سے اجتناب، تاکہ وہ فرض نہ ہو جائے، یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن مجید کو ایک نسخہ کی صورت میں جمع نہ کرنا، کیونکہ ہر وقت نئی آیات نازل ہونے یا کسی پہلی آیت کے منسوخ ہونے کا امکان موجود تھا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی تو یہ امکان باقی نہ رہا، اس لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے قرآن مجید کا ایک مستند نسخہ تیار کر لیا۔
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز تروایح کا باجماعت اہتمام کرنے کا حکم دیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 14   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4606  
´سنت کی پیروی ضروری ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اس میں نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‏‏‏‏ ابن عیسیٰ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی ایسا کام کرے جو ہمارے طریقے کے خلاف ہو تو وہ مردود ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4606]
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں دین کے لیے لفظ (أمرنا) استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ ہدایت کا سرچشمہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم ہی ہیں، اس لیے آپ کے ارشاد کے بغیر کوئی کام بھی اللہ کے ہاں عبادت یا تقریب کا درجہ نہیں پاسکتا۔


(فهو رد) وہ مردود ہے کے دو مفہوم میں، یعنی وہ کام باطل اور مردود ہے، نیز وہ آدمی جو اس کا مرتکب ہووہ بھی مردود اور قابل نفرین ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4606   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.