الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام
The Book of Mosques and Places of Prayer
34. باب اسْتِحْبَابِ التَّبْكِيرِ بِالْعَصْرِ:
34. باب: عصر اول وقت پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1408
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث . ح، قال: وحدثنا محمد بن رمح ، اخبرنا الليث ، عن ابن شهاب ، عن انس بن مالك ، انه اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " كان يصلي العصر، والشمس مرتفعة حية، فيذهب الذاهب إلى العوالي، فياتي العوالي، والشمس مرتفعة "، ولم يذكر قتيبة: فياتي العوالي.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح، قَالَ: وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " كَانَ يُصَلِّي الْعَصْرَ، وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ حَيَّةٌ، فَيَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى الْعَوَالِي، فَيَأْتِي الْعَوَالِيَ، وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ "، وَلَمْ يَذْكُرْ قُتَيْبَةُ: فَيَأْتِي الْعَوَالِيَ.
قتیبہ بن سعید اور محمد بن رمح نے کہا: لیث نے ہمیں ابن شہاب سے روایت کی، انھوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے ان کو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصرکی نماز (ایسے وقت میں) پڑھتے تھے جب سورج بلند اور زندہ (روشنی میں کمی کے بغیر) ہوتا تھا، عوالی کی طرف جانے والا (عصر پڑھ کر) چلتا اور عوالی (مدینہ کے بالائی حصے کی بستیوں میں) پہنچتا تو سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔یہ بستیاں مدینہ سے دو تا آٹھ میل کی میل کی مسافت پر تھیں۔ قتیبہ نے (اپنی حدیث میں) عوالی پہنچنے کا ذکر نہیں کیا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز ایسے وقت میں پڑھتے تھے کہ سورج بلند اور زندہ ہوتا تھا، پس عوالی کی طرف جانے والا (عصر پڑھ کر) چلتا تھا تو وہ عوالی ایسے وقت میں پہنچ جاتا تھا کہ آفتاب ابھی بلند ہوتا تھا۔ اور قتیبہ رضی اللہ تعالی عنہ نے عوالی پہنچنے کا ذکر نہیں کیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 621

   صحيح البخاري550أنس بن مالكيصلي العصر والشمس مرتفعة حية
   صحيح البخاري7329أنس بن مالكيصلي العصر فيأتي العوالي والشمس مرتفعة
   صحيح مسلم1408أنس بن مالكيصلي العصر والشمس مرتفعة حية
   جامع الترمذي156أنس بن مالكصلى الظهر حين زالت الشمس
   سنن أبي داود404أنس بن مالكيصلي العصر والشمس بيضاء مرتفعة حية
   سنن النسائى الصغرى507أنس بن مالكيصلي العصر ثم يذهب الذاهب إلى قباء فيأتيهم وهم يصلون والشمس مرتفعة
   سنن النسائى الصغرى553أنس بن مالكيصلي الظهر إذا زالت الشمس ويصلي العصر بين صلاتيكم هاتين يصلي المغرب إذا غربت الشمس يصلي العشاء إذا غاب الشفق يصلي الصبح إلى أن ينفسح البصر
   سنن النسائى الصغرى508أنس بن مالكيصلي العصر والشمس مرتفعة حية
   سنن النسائى الصغرى509أنس بن مالكيصلي بنا العصر والشمس بيضاء محلقة
   سنن النسائى الصغرى545أنس بن مالكالسائل عن وقت الصلاة ما بين هذين وقت
   سنن ابن ماجه682أنس بن مالكيصلي العصر والشمس مرتفعة حية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 507  
´عصر جلدی پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھتے تھے، پھر جانے والا قباء جاتا، زہری اور اسحاق دونوں میں سے ایک کی روایت میں ہے تو وہ ان کے پاس پہنچتا اور وہ لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے، اور دوسرے کی روایت میں ہے: اور سورج بلند ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 507]
507 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کا سایہ ایک مثل ہوتے ہی عصر کی نماز ادا فرما لیتے تھے جب کہ قباء والے کام کاج اور دیگر مصروفیات کی بنا پر نماز کچھ دیر سے پڑھتے تھے۔ گویا سورج زرد ہونے سے پہلے پہلے نماز پڑھنا بلاکراہت جائز ہے مگر افضل یہی ہے کہ مثل اول ہوتے ہی نماز پڑھ لی جائے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 507   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 508  
´عصر جلدی پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھتے اور سورج بلند اور تیز ہوتا، اور جانے والا (نماز پڑھ کر) عوالی جاتا، اور سورج بلند ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 508]
508 ۔ اردو حاشیہ: عوالی سے مراد مدینے کی وہ مضافاتی بستیاں ہیں جو مدینہ منورہ کے بلند اطراف میں آباد تھیں۔ وہ کم از کم دو میل اور زیادہ سے زیادہ آٹھ میل تک دور تھیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 508   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 545  
´فجر کے اول وقت کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے فجر کے وقت کے بارے میں پوچھا، تو جب ہم نے دوسرے دن صبح کی تو آپ نے ہمیں جس وقت فجر کی پو پھٹی نماز کھڑی کرنے کا حکم دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر جب دوسرا دن آیا، اور خوب اجالا ہو گیا تو حکم دیا تو نماز کھڑی کی گئی، پھر آپ نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر فرمایا: نماز کا وقت پوچھنے والا کہاں ہے؟ انہی دونوں کے درمیان (فجر کا) وقت ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 545]
545 ۔ اردو حاشیہ: پو پھٹنے سے مراد بھی صبح صادق ہی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 545   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 553  
´فجر کے آخری وقت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اس وقت پڑھتے تھے، جب سورج ڈھل جاتا تھا، اور عصر تمہاری ان دونوں نمازوں ۱؎ کے درمیان پڑھتے تھے، اور مغرب اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈوب جاتا تھا، اور عشاء اس وقت پڑھتے تھے جب شفق غائب جاتی تھی، پھر اس کے بعد انہوں نے کہا: اور آپ فجر پڑھتے تھے یہاں تک کہ نگاہ پھیل جاتی تھی ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 553]
553 ۔ اردو حاشیہ:
➊اس دور میں لوگ عصر کی نماز تاخیر سے پڑھنے لگے تھے، اس لیے فرمایا کہ آپ کی عصر کی نماز تمھاری آج کل کی ظہر اور عصر کے درمیان ہوتی تھی، یعنی تمھاری موجودہ عصر سے بہت پہلے پڑھ لیتے تھے۔
نظر دور تک دیکھنے لگتی۔ یہ صبح کی نماز کا آخری وقت نہیں بلکہ آپ کی نماز کے اختتام کا وقت تھا، گویا صبح کی نماز کا مختار وقت ختم ہو جاتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 553   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث682  
´نماز عصر کا وقت۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر اس وقت پڑھا کرتے تھے جب سورج اونچا اور زندہ ہوتا تھا، چنانچہ (نماز پڑھ کر) کوئی شخص عوالی ۱؎ میں جاتا تو سورج بلند ہی ہوتا تھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 682]
اردو حاشہ:
(1)
سورج روشن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے رنگ میں زردی نہیں ہوتی تھی بلکہ سفید ہوتا تھا۔
جب کہ تاخیر کی صورت میں سورج کا رنگ تبدیل ہوکر زرد یا سرخ ہوجاتا ہے۔

(2) (عوالی)
سے مراد مدینہ کی کچھ نواحی بستیاں ہیں جو مدینہ سے نجد کی سمت واقع ہیں۔
ان میں سے کوئی بستی دوتین میل کے فاصلے پر ہے کوئی چار میل یا زیادہ سب سے زیادہ فاصلہ آٹھ میل ہے۔

(3)
اس روایت سے عصر کے وقت کا کوئی واضح تعین نہیں ہو پاتا کیونکہ عوالی بستیوں کا فاصلہ ایک دوسری سے بہت مختلف ہے۔
علاوہ ازیں سال کے مختلف موسموں میں عصر کے بعد مغرب کا وقت بھی کم وبیش ہوتا رہتا ہے تاہم اس سے یہ بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ آپ عصر کی نماز اوّل وقت میں ادا فرما لیا کرتے تھے لیکن یہ اوّل وقت کون سا تھا؟ اس کی وضاحت اس روایت سے ہو جاتی ہے جس میں آپ نے ظہر کی نماز سورج کے ڈھلتے ہی پڑھ لی اور عصر کی نماز اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابرہو گیا۔ (سنن النسائی، المواقیت، باب اول وقت العصر، حدیث: 505)
اس سے عصر کی نماز کا اوّل وقت یقیناً متعین ہوجاتا ہے اور وہ ہے (اصلی سایہ نکال کر)
سائے کا ایک مثل ہوجانا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 682   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1408  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
الشَّمسُ حّيَّة:
سورج زندہ ہوتا تھا،
یعنی اس کی رنگت زردی یا سرخی مائل نہیں ہوتی تھی ابھی اس میں گرمی اور تپش موجود ہوتی تھی۔
(2)
عَوَالِي:
مدینہ کی نجد کی طرف والی آبادیاں بلند سطح پر واقع تھیں،
اس لیے ان کو عوالی کہتے تھے۔
قریب ترین آبادیاں دو یا تین میل کے فاصلہ پر واقع تھیں اور دور واقع آبادیاں،
چھ سے آٹھ میل کے فاصلہ پر تھیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1408   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.