الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
13. بَابُ وَقْتِ الْعَصْرِ:
13. باب: نماز عصر کے وقت کا بیان۔
(13) Chapter. The time of the Asr prayer.
حدیث نمبر: 550
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: حدثني انس بن مالك، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي العصر والشمس مرتفعة حية، فيذهب الذاهب إلى العوالي، فياتيهم والشمس مرتفعة، وبعض العوالي من المدينة على اربعة اميال او نحوه".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ حَيَّةٌ، فَيَذْهَبُ الذَّاهِبُ إِلَى الْعَوَالِي، فَيَأْتِيهِمْ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ، وَبَعْضُ الْعَوَالِي مِنْ الْمَدِينَةِ عَلَى أَرْبَعَةِ أَمْيَالٍ أَوْ نَحْوِهِ".
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا کہ کہا ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عصر کی نماز پڑھتے تو سورج بلند اور تیز روشن ہوتا تھا۔ پھر ایک شخص مدینہ کے بالائی علاقہ کی طرف جاتا وہاں پہنچنے کے بعد بھی سورج بلند رہتا تھا (زہری نے کہا کہ) مدینہ کے بالائی علاقہ کے بعض مقامات تقریباً چار میل پر یا کچھ ایسے ہی واقع ہیں۔

Narrated Anas bin Malik: Allah's Apostle used to offer the `Asr prayer at a time when the sun was still hot and high and if a person went to Al-`Awali (a place) of Medina, he would reach there when the sun was still high. Some of Al-`Awali of Medina were about four miles or so from the town.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 525


   صحيح البخاري550أنس بن مالكيصلي العصر والشمس مرتفعة حية
   صحيح البخاري7329أنس بن مالكيصلي العصر فيأتي العوالي والشمس مرتفعة
   صحيح مسلم1408أنس بن مالكيصلي العصر والشمس مرتفعة حية
   جامع الترمذي156أنس بن مالكصلى الظهر حين زالت الشمس
   سنن أبي داود404أنس بن مالكيصلي العصر والشمس بيضاء مرتفعة حية
   سنن النسائى الصغرى507أنس بن مالكيصلي العصر ثم يذهب الذاهب إلى قباء فيأتيهم وهم يصلون والشمس مرتفعة
   سنن النسائى الصغرى553أنس بن مالكيصلي الظهر إذا زالت الشمس ويصلي العصر بين صلاتيكم هاتين يصلي المغرب إذا غربت الشمس يصلي العشاء إذا غاب الشفق يصلي الصبح إلى أن ينفسح البصر
   سنن النسائى الصغرى508أنس بن مالكيصلي العصر والشمس مرتفعة حية
   سنن النسائى الصغرى509أنس بن مالكيصلي بنا العصر والشمس بيضاء محلقة
   سنن النسائى الصغرى545أنس بن مالكالسائل عن وقت الصلاة ما بين هذين وقت
   سنن ابن ماجه682أنس بن مالكيصلي العصر والشمس مرتفعة حية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 507  
´عصر جلدی پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھتے تھے، پھر جانے والا قباء جاتا، زہری اور اسحاق دونوں میں سے ایک کی روایت میں ہے تو وہ ان کے پاس پہنچتا اور وہ لوگ نماز پڑھ رہے ہوتے، اور دوسرے کی روایت میں ہے: اور سورج بلند ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 507]
507 ۔ اردو حاشیہ: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز کا سایہ ایک مثل ہوتے ہی عصر کی نماز ادا فرما لیتے تھے جب کہ قباء والے کام کاج اور دیگر مصروفیات کی بنا پر نماز کچھ دیر سے پڑھتے تھے۔ گویا سورج زرد ہونے سے پہلے پہلے نماز پڑھنا بلاکراہت جائز ہے مگر افضل یہی ہے کہ مثل اول ہوتے ہی نماز پڑھ لی جائے کیونکہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 507   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 508  
´عصر جلدی پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر پڑھتے اور سورج بلند اور تیز ہوتا، اور جانے والا (نماز پڑھ کر) عوالی جاتا، اور سورج بلند ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 508]
508 ۔ اردو حاشیہ: عوالی سے مراد مدینے کی وہ مضافاتی بستیاں ہیں جو مدینہ منورہ کے بلند اطراف میں آباد تھیں۔ وہ کم از کم دو میل اور زیادہ سے زیادہ آٹھ میل تک دور تھیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 508   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 545  
´فجر کے اول وقت کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے فجر کے وقت کے بارے میں پوچھا، تو جب ہم نے دوسرے دن صبح کی تو آپ نے ہمیں جس وقت فجر کی پو پھٹی نماز کھڑی کرنے کا حکم دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر جب دوسرا دن آیا، اور خوب اجالا ہو گیا تو حکم دیا تو نماز کھڑی کی گئی، پھر آپ نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر فرمایا: نماز کا وقت پوچھنے والا کہاں ہے؟ انہی دونوں کے درمیان (فجر کا) وقت ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 545]
545 ۔ اردو حاشیہ: پو پھٹنے سے مراد بھی صبح صادق ہی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 545   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 553  
´فجر کے آخری وقت کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اس وقت پڑھتے تھے، جب سورج ڈھل جاتا تھا، اور عصر تمہاری ان دونوں نمازوں ۱؎ کے درمیان پڑھتے تھے، اور مغرب اس وقت پڑھتے تھے جب سورج ڈوب جاتا تھا، اور عشاء اس وقت پڑھتے تھے جب شفق غائب جاتی تھی، پھر اس کے بعد انہوں نے کہا: اور آپ فجر پڑھتے تھے یہاں تک کہ نگاہ پھیل جاتی تھی ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 553]
553 ۔ اردو حاشیہ:
➊اس دور میں لوگ عصر کی نماز تاخیر سے پڑھنے لگے تھے، اس لیے فرمایا کہ آپ کی عصر کی نماز تمھاری آج کل کی ظہر اور عصر کے درمیان ہوتی تھی، یعنی تمھاری موجودہ عصر سے بہت پہلے پڑھ لیتے تھے۔
نظر دور تک دیکھنے لگتی۔ یہ صبح کی نماز کا آخری وقت نہیں بلکہ آپ کی نماز کے اختتام کا وقت تھا، گویا صبح کی نماز کا مختار وقت ختم ہو جاتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 553   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث682  
´نماز عصر کا وقت۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر اس وقت پڑھا کرتے تھے جب سورج اونچا اور زندہ ہوتا تھا، چنانچہ (نماز پڑھ کر) کوئی شخص عوالی ۱؎ میں جاتا تو سورج بلند ہی ہوتا تھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 682]
اردو حاشہ:
(1)
سورج روشن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے رنگ میں زردی نہیں ہوتی تھی بلکہ سفید ہوتا تھا۔
جب کہ تاخیر کی صورت میں سورج کا رنگ تبدیل ہوکر زرد یا سرخ ہوجاتا ہے۔

(2) (عوالی)
سے مراد مدینہ کی کچھ نواحی بستیاں ہیں جو مدینہ سے نجد کی سمت واقع ہیں۔
ان میں سے کوئی بستی دوتین میل کے فاصلے پر ہے کوئی چار میل یا زیادہ سب سے زیادہ فاصلہ آٹھ میل ہے۔

(3)
اس روایت سے عصر کے وقت کا کوئی واضح تعین نہیں ہو پاتا کیونکہ عوالی بستیوں کا فاصلہ ایک دوسری سے بہت مختلف ہے۔
علاوہ ازیں سال کے مختلف موسموں میں عصر کے بعد مغرب کا وقت بھی کم وبیش ہوتا رہتا ہے تاہم اس سے یہ بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ آپ عصر کی نماز اوّل وقت میں ادا فرما لیا کرتے تھے لیکن یہ اوّل وقت کون سا تھا؟ اس کی وضاحت اس روایت سے ہو جاتی ہے جس میں آپ نے ظہر کی نماز سورج کے ڈھلتے ہی پڑھ لی اور عصر کی نماز اس وقت پڑھی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابرہو گیا۔ (سنن النسائی، المواقیت، باب اول وقت العصر، حدیث: 505)
اس سے عصر کی نماز کا اوّل وقت یقیناً متعین ہوجاتا ہے اور وہ ہے (اصلی سایہ نکال کر)
سائے کا ایک مثل ہوجانا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 682   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:550  
550. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نماز عصر اس وقت پڑھتے تھے جب آفتاب بلند اور تیز ہوتا۔ دریں اثنا اگر کوئی عوالی تک جاتا تو ان کے ہاں ایسے وقت پہنچ جاتا کہ سورج ابھی بلند ہوتا تھا۔ اور عوالی کے بعض مقامات مدینہ منورہ سے کم و بیش چار میل پر واقع تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:550]
حدیث حاشیہ:
(1)
عوالي کے متعلق مسافت کی تحدید حضرت امام زہری ؒ کی طرف سے ہے، یہ حدیث کا حصہ نہیں۔
عوالی مدینہ منورہ کے گرد ونواح کا وہ علاقہ کہلاتا تھا جہاں مشرقی جانب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے مکانات تھے۔
یہ علاقہ مدینہ طیبہ سے 2 سے 8 میل تک واقع تھا۔
اس کے بالمقابل مغربی جانب کے علاقے کو سوافل کہا جاتا تھا۔
رسول اللہ ﷺ جب نماز عصر ادا کرتے توآفتاب ابھی بلند ہوتا اور اس کی آب و تاب میں کمی نہ آئی ہوتی۔
اگر مقتدی حضرات میں سے کوئی عوالی کے علاقے تک جاتا تو بھی سورج بلند ہوتا، اگرچہ پہلے سے کم بلند ہوتا لیکن اس قدر اونچا ضرور ہوتا کہ ابھی اسے بلندی ہی سے تعبیر کیا جاتا۔
یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز عصر پڑھنے میں جلدی کرتے تھے، کیونکہ نماز کے بعد چار میل کا فاصلہ طے کرنے کے باوجود سورج بلندی ہی سے تعبیر کیاجاتا تھا۔
(فتح الباري: 39/2) (2)
ایک روایت میں حضرت انس ؓ کا بیان منقول ہے، فرماتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ جب ہمیں نماز عصر پڑھاتے تو سورج ابھی سفید اور بلند ہوتا۔
نماز سے فراغت کے بعد میں مدینے کےدوسرے کنارے پر آباد اپنی قوم کے پاس جاتا اور انھیں نماز پڑھنے کے متعلق کہتا کہ ہم تو نماز سے فارغ ہوچکے ہیں، آپ بھی ادا کرلیں۔
اس حدیث کے بعد امام طحاوی ؒ لکھتے ہیں:
ہم جانتے ہیں کہ حضرت انس ؓ کی قوم سورج کے زرد ہونے سے پہلے نماز ادا کرلیتی تھی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ بہت جلد نماز عصر ادا کرلیا کرتے تھے۔
(شرح معاني الآثار: 1/112)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 550   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.