الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
The Book of Zakat
78. بَابُ صَدَقَةِ الْفِطْرِ عَلَى الصَّغِيرِ وَالْكَبِير
78. باب: صدقہ فطر بڑوں اور چھوٹوں پر واجب ہے۔
(78) Chapter. Sadaqat-ul-Fitr is obligatory on the young and the old.
حدیث نمبر: Q1512
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
nn
‏‏‏‏ اور ابوعمرو نے بیان کیا کہ عمر ‘ علی ‘ ابن عمر ‘ جابر ‘ عائشہ ‘ طاؤس ‘ عطاء اور ابن سیرین رضی اللہ عنہم کا خیال یہ تھا کہ یتیم کے مال سے بھی زکوٰۃ دی جائے گی۔ اور زہری دیوانے کے مال سے زکوٰۃ نکالنے کے قائل تھے۔

حدیث نمبر: 1512
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال: حدثني نافع، عن ابن عمر رضي الله عنه، قال:" فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم صدقة الفطر صاعا من شعير او صاعا من تمر على الصغير والكبير والحر والمملوك".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ عَلَى الصَّغِيرِ وَالْكَبِيرِ وَالْحُرِّ وَالْمَمْلُوكِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ قطان نے عبیداللہ عمری کے واسطے سے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور کا صدقہ فطر، چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام سب پر فرض قرار دیا۔

Narrated Ibn `Umar: Allah's Apostle has made Sadaqat-ul-Fitr obligatory, (and it was), either one Sa' of barley or one Sa' of dates (and its payment was obligatory) on young and old people, and on free men as well as on slaves.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 25, Number 588


   صحيح البخاري1504عبد الله بن عمرزكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين
   صحيح البخاري1512عبد الله بن عمرصدقة الفطر صاعا من شعير أو صاعا من تمر على الصغير والكبير والحر والمملوك
   صحيح البخاري1511عبد الله بن عمرصدقة الفطر على الذكر والأنثى والحر والمملوك صاعا من تمر أو صاعا من شعير فعدل الناس به نصف صاع من بر
   صحيح البخاري1507عبد الله بن عمرزكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير
   صحيح البخاري1503عبد الله بن عمرزكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على العبد والحر والذكر والأنثى والصغير والكبير من المسلمين أمر بها أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة
   صحيح مسلم2278عبد الله بن عمرزكاة الفطر من رمضان على الناس صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين
   صحيح مسلم2280عبد الله بن عمرصدقة رمضان على الحر والعبد والذكر والأنثى صاعا من تمر أو صاعا من شعير
   صحيح مسلم2282عبد الله بن عمرزكاة الفطر من رمضان على كل نفس من المسلمين حر أو عبد أو رجل أو امرأة صغير أو كبير صاعا من تمر أو صاعا من شعير
   صحيح مسلم2284عبد الله بن عمرزكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل عبد أو حر صغير أو كبير
   صحيح مسلم2281عبد الله بن عمرأمر بزكاة الفطر صاع من تمر أو صاع من شعير
   جامع الترمذي675عبد الله بن عمرصدقة الفطر على الذكر والأنثى والحر والمملوك صاعا من تمر أو صاعا من شعير
   جامع الترمذي676عبد الله بن عمرزكاة الفطر من رمضان صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين
   سنن أبي داود1611عبد الله بن عمرصاع من تمر أو صاع من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين
   سنن أبي داود1614عبد الله بن عمرصاعا من شعير أو تمر أو سلت أو زبيب
   سنن أبي داود1613عبد الله بن عمرصاعا من شعير أو تمر على الصغير والكبير والحر والمملوك
   سنن ابن ماجه1826عبد الله بن عمرصدقة الفطر صاعا من شعير أو صاعا من تمر على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين
   سنن ابن ماجه1825عبد الله بن عمرأمر بزكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير
   سنن النسائى الصغرى2502عبد الله بن عمرزكاة رمضان على الحر والعبد والذكر والأنثى صاعا من تمر أو صاعا من شعير فعدل الناس به نصف صاع من بر
   سنن النسائى الصغرى2503عبد الله بن عمرصدقة الفطر على الذكر والأنثى والحر والمملوك صاعا من تمر أو صاعا من شعير قال فعدل الناس إلى نصف صاع من بر
   سنن النسائى الصغرى2504عبد الله بن عمرزكاة رمضان على كل صغير وكبير حر وعبد ذكر وأنثى صاعا من تمر أو صاعا من شعير
   سنن النسائى الصغرى2505عبد الله بن عمرزكاة الفطر من رمضان على الناس صاعا من تمر أو صاعا من شعير على كل حر أو عبد ذكر أو أنثى من المسلمين
   سنن النسائى الصغرى2506عبد الله بن عمرزكاة الفطر صاعا من تمر أو صاعا من شعير على الحر والعبد والذكر والأنثى والصغير والكبير من المسلمين أمر بها أن تؤدى قبل خروج الناس إلى الصلاة
   سنن النسائى الصغرى2507عبد الله بن عمرصدقة الفطر على الصغير والكبير والذكر والأنثى والحر والعبد صاعا من تمر أو صاعا من شعير
   سنن النسائى الصغرى2518عبد الله بن عمرصاعا من شعير أو تمر أو سلت أو زبيب
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم279عبد الله بن عمرفرض زكاة الفطر فى رمضان على الناس، صاعا من تمر، او صاعا من شعير، على كل حر او عبد، ذكر او انثى من المسلمين
   بلوغ المرام505عبد الله بن عمرزكاة الفطر صاعا من تمر او صاعا من شعير على العبد والحر والذكر والانثى والصغير والكبير من المسلمين وامر بها
   مسندالحميدي718عبد الله بن عمرصدقة الفطر صاع من شعير، أو صاع من تمر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 279  
´صدقہ فطر کا بیان`
«. . . 211- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم فرض زكاة الفطر فى رمضان على الناس، صاعا من تمر، أو صاعا من شعير، على كل حر أو عبد، ذكر أو أنثى من المسلمين. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں لوگوں پر مسلمانوں میں سے ہر آدمی پر کھجور کا ایک صاع یا جَو کا ایک صاع فرض قرار دیا ہے، چاہے آزاد ہو یا غلام، مرد ہو یا عورت . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 279]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1504، ومسلم 984، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ یہ صدقہ فطر مسلمانوں پر فرض ہے۔ دیکھئے: [ح211]
➋ ایک روایت میں آیا ہے کہ ہم صدقہ فطر ادا کرتے تھے۔۔۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ہوتے تھے۔ [صحيح مسلم: 985 2284]
◈ معلوم ہوا کہ درج بالا حدیث مرفوع ہے۔
➌ صاع کے وزان کے بارے میں اختلاف ہے - راجح یہی ہے کہ ڈھائی کلووزن کے مطابق صاع نکالا جائے تاکہ آدمی کسی شک میں نہ رہے۔
➍ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے گندم کا آدھا صاع ثابت ہے لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ وغیرہ سے پورا صاع ثابت ہے لہٰذا راجح یہی ہے کہ پورا صاع ادا کیا جائے۔
➎ بہتر اور افضل یہی ہے کہ گندم، جو، کھجور اور انگور وغیرہ پھلوں، غلے اور کھانے سے صاع نکالا جائے لیکن اگر مجبوری یا کوئی شرعی عذر ہو تو صاع کی مروجہ رقم سے ادائیگی بھی جائز ہے۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے بصرہ میں عدی کی طرف حکم لکھ کر بھیجا تھا کہ اہلِ دیوان کے عطیات میں سے ہر انسان کے بدلے آدھا درہم لیا جائے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 3/174 ح10368، وسنده صحيح]
◈ ابواسحاق السبیعی فرماتے تھے کہ میں نے لوگوں کو رمضان میں صدقہ فطر میں طعام (کھانے) کے بدلے دراہم دیتے ہوئے پایا ہے۔ [ابن ابئ شيبه ح 10371، و سنده صحيح]
➏ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ صدقۂ فطر صرف کھجور میں سے دیتے تھے سوائے ایک دفعہ کے (جب کھجوریں نہ ملیں تو) آپ نے جَو دیئے۔ [الموطأ 1/284 ح635، وسنده صحيح]
➐ صدقہ فطر صرف مساکین کا حق ہے۔ [ديكهئے سنن ابي داؤد: 1609، وسنده حسن]
◈ لہٰذا اسے آٹھ قسم کے مستحقینِ زکوٰۃ میں تقسیم کرنا غلط ہے۔ دیکھئے: زاد المعاد [2/22] اور عبادات میں بدعات اور سنت نبوی سے ان کا رد [ص212]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 211   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1825  
´صدقہ فطر کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور اور جو سے ایک ایک صاع صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھر لوگوں نے دو مد گیہوں کو ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو کے برابر کر لیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1825]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صاع ایک پیمانہ ہے جیسے ہمارے ہاں ٹوپہ ہوتا ہے۔
جو چیز عام خوراک کے طور پر استعمال ہوتی ہو اسے اس پیمانے سے ماپ کر صدقہ فطر ادا کرنا چاہیے۔

(2)
اس پیمانے کا اندازہ 5 اور 1/3 رطل، یعنی تقریبا ڈھائی کلو ہے اور بعض کے نزدیک 2100 گرام ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر نے اس اجتہاد سے اتفاق نہیں کیا کہ گندم کا نصف صاع کھجوروں کے ایک صاع کے برابر ہے۔
گندم کا آدھا صاع کافی ہونے کا قول حضرت معاویہ کا ہے جیسے کہ حدیث 1829 میں آ رہا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1825   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 505  
´صدقہ فطر کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے غلام، آزاد، مرد، عورت، بچے، بوڑھے سب پر صدقہ فطر واجب کیا ہے۔ ایک صاع (ٹوپا) کھجوروں سے یا ایک صاع جو سے اور اس کے متعلق حکم دیا ہے کہ یہ فطرانہ نماز کیلئے نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے۔ (بخاری و مسلم) ابن عدی اور دارقطنی میں ضعیف سند سے ہے کہ اس روز غرباء کو در بدر پھرنے سے بے نیاز کر دو۔ [بلوغ المرام/حدیث: 505]
لغوی تشریح:
بَابُ صَدَقَۃِ الْفِطْرِ رمضان کے اختتام پر فطرانہ دینا۔ امام قسطلانی رحمہ الله کے بقول فطرانے کی فرضیت رمضان المبارک میں عید سے صرف دو روز پہلے دو ہجری میں ہوئی۔ ٘فَرَضَ اسے واجب اور لازم قرار دیا گیا۔ یہ صدقۂ فطر (فطرانے) کے وجوب کی واضح دلیل ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ فَرَضَ قَدَرَ کے معنی میں استعمال ہوا ہے لیکن یہ ظاہر کے سراسر خلاف ہے۔
مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ یعنی کافروں میں سے نہ ہو، اس لیے کافر غلام کا صدقۂ فطر نہیں نکالا جاتا۔
أُغْنُوھُمْ إغناء سے امر کا صیغہ ہے۔ ضمیر جمع جو مفعول ہونے کی وجہ سے نصبی حالت میں ہے، فقراء کی طرف راجع ہے، یعنی ھم ضمیر سے مراد محتاج اور ضرورت مند لوگ ہیں۔
عَنِ الطَّوَافِ دست دراز سوال کرنے کے لیے گلی کوچوں اور بازاروں میں گھومنے پھرنے سے بے نیاز کر دیں اور لوگوں کے سامنے اپنی معاشی ضروریات طلب کرنے کے لیے ہاتھ پھیلانے سے روک دیں۔ یہ بے نیازی اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے کہ فطرانہ عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے۔

فوائد و مسائل 505: ➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فطرانہ مسلمانوں کے تمام افراد پر واجب ہے اور اس کی ادائیگی کا حکم بھی نماز سے پہلے پہلے ہے تاکہ معاشرے کے ضرورتمند افراد اس روز مانگنے سے بے نیاز ہو کر عام مسلمانوں کے ساتھ خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانے کی مقدار ایک صاع مقرر فرمائی ہے۔
➌ صدقۂ فطر میں نقدی ادا کرنے کا مؤقف بعض علماے کرام نے اپنایا ہے لیکن فرامینِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اسوۂ حسنہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ صدقۂ فطر میں وہ جنس ادا کرنی چاہیے جو اہل خانہ کی عمومی غذا ہو، مثلاً: گندم، چاول اور کھجور وغیرہ۔
➍ غیرمسلم غلام کا فطرانہ نہیں، البتہ جن افراد کی کفالت کسی کے ذمہ ہو ان سب کا فطرانہ وہ خود ادا کرے گا۔
➎ حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ صدقۂ فطرکے لیے نصاب کا مالک ہونا بھی ضروری نہیں۔
➏ فرض کا لفظ بتارہا ہے کہ فطرانہ ادا کرنا نہایت ضروری اور لازمی ہے۔ امام اسحٰق بن راہویہ رحمہ الله نے تو فطرانے کے وجوب پر اجماع کا دعوٰی کیا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 505   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 676  
´صدقہ فطر کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو مسلمانوں میں سے ہر آزاد اور غلام، مرد اور عورت پر فرض کیا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 676]
اردو حاشہ: 1؎:
اس روایت میں لفظ ((فَرَضَ)) استعمال ہوا ہے جس کے معنی فرض اور لازم ہونے کے ہیں،
اس سے معلوم ہوا کہ صدقہ فطر فرض ہے بعض لوگوں نے((فَرَضَ)) کو قَدَّرَ کے معنی میں لیا ہے لیکن یہ ظاہر کے سراسر خلاف ہے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ روایت میں ((مِنْ الْمُسْلِمِينَ)) کی قید اتفاقی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 676   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1611  
´صدقہ فطر کتنا دیا جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کھجور سے ایک صاع اور جو سے ایک صاع فرض کیا ہے، جو مسلمانوں میں سے ہر آزاد اور غلام پر، مرد اور عورت پر (فرض) ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1611]
1611. اردو حاشیہ:
➊ جناب عبد اللہ بن مسلمہ کی یہ حدیث امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے د و طرح سے حاصل ہوئی ہے۔ایک بطور تحدیث کے امام صاحب نے طلبہ کی جماعت میں بیان فرمائی یا ان پر پڑھی گئی۔اوردوسرے خاص عبد اللہ بن مسلمہ کو پڑھ کر سنائی۔اور اس دوسری صورت میں (من رمضان) کی صراحت بھی کی۔
(صاع) غلہ نا پنے کا برتن ہوتا ہے۔جس میں چار مد ہوتے ہیں۔اور ایک مد متوسط ہاتھوں والے انسان کے دونوں ہاتھ ملا کر بھرنے کی مقدار کو کہتے ہیں۔اور اس سلسلے میں معیا ر اہل مدینہ کا ہی ناپ ہے۔ جیسے کہ حدیث میں ہے <حدیث>۔(الوزن وزن اهل مكة والميكال ميكال اهل المدينه)(سنن ابی دائود۔البیوع حدیث 3340) یعنی وزن اہل مکہ کا معتبر ہے۔اور کیل(کسی چیز کا بھر کر ماپ)اہل مدینہ کا اور یہ گزر چکا ہے کہ گند م کا ایک صاع کم وبیش ڈھائی کلو کے برابر ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1611   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1512  
1512. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام پر صدقہ فطرایک صاع جوَیا ایک صاع کھجور فرض کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1512]
حدیث حاشیہ:
(1)
صدقہ فطر ادا کرنے میں صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں بلکہ ہر شخص پر اس کا ادا کرنا ضروری ہے جس کے پاس عید کے دن اپنے اہل و عیال کی خوراک سے اتنا غلہ زائد موجود ہو کہ وہ گھر کے ہر فرد کی طرف سے فطرانہ ادا کر سکے۔
امام ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ زکاۃ میں نصاب کی ملکیت کا اعتبار نہیں بلکہ ہر اس انسان پر واجب ہے جو عید کی رات اور دن اپنی خوراک سے ایک صاع زائد غلہ رکھتا ہو، یہی جمہور کا قول ہے۔
(الجامع للاختیارات الفقیھیة: 408/1۔
412)

اس حدیث میں ایک صاع بطور فطرانہ ادا کرنے کا ذکر ہے لیکن حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ فرماتی ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں گندم سے دو مد، یعنی نصف صاع بطور فطرانہ ادا کرتے تھے۔
(مسندأحمد: 350/6)
علامہ ابن قیم ؒ نے بھی اسی موقف کو اختیار کیا ہے اور چند احادیث کے حوالے سے اسے مضبوط بھی کہا ہے۔
خوف طوالت کے پیش نظر ہم صرف زاد المعاد کے حوالے پر اکتفا کرتے ہیں۔
(زادالمعادلابن القیم، فصل في ھدیه صلی اللہ علیه وسلم في زکاةالفطر: 19/2،20)
علامہ البانی ؒ لکھتے ہیں:
گندم سے نصف صاع فطرانہ ادا کیا جا سکتا ہے۔
شیخ الاسلام کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔
(تمام المنة: 387)
علامہ ابن حزم نے متعدد احادیث و آثار ذکر کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گندم سے نصف صاع بھی دیا جا سکتا ہے۔
(محلیٰ ابن حزم: 129/6)
عرب میں دوسری اشیائے خوردنی کے مقابلے میں گندم قیمتی ہوتی تھی اس لیے نصف صاع کا اعتبار کیا گیا ہے۔
ہمارے ہاں چونکہ عام دستیاب ہے، اس لیے ہمیں گندم سے ایک صاع ہی ادا کرنا چاہیے، البتہ غریب اور نادار لوگوں کے لیے نصف صاع ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے۔
(2)
رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر کے دو مقاصد بیان فرمائے ہیں جن کی تفصیل یہ ہے:
دوران رمضان روزے کی حالت میں صرف کھانے پینے ہی پر پابندی نہیں ہوتی بلکہ ہر عضو بالخصوص زبان پر کنٹرول بھی ضروری ہوتا ہے، تاہم احتیاط کے باوجود روزے دار سے کوتاہیاں سرزد ہو جاتی ہیں۔
اس قسم کی غلطیوں کی تلافی کے لیے صدقہ فطر کو کفارہ کی حیثیت دی گئی ہے۔
مسلم معاشرے میں سب لوگ یکساں نہیں ہوتے، کچھ لوگ صاحب حیثیت ہوتے ہیں جبکہ بعض مفلس اور نادار ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے اہل ثروت کے اموال میں غرباء و مساکین کا بھی حصہ رکھا ہے، اور صدقہ فطر اس حق کو ادا کرنے کی ایک عملی شکل ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان مقاصد کی نشاندہی بایں الفاظ فرمائی ہے:
صدقہ فطر روزے داروں کے لیے فحش گوئی اور لغویات سے پاکیزگی کا باعث اور غرباء کے لیے خوراک کا ایک ذریعہ ہے۔
(سنن أبي داود، الزکاة، حدیث: 1609)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1512   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.