الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
The Book of Prayer - Travellers
26. باب الدُّعَاءِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ وَقِيَامِهِ:
26. باب: نماز اور دعائے شب۔
حدیث نمبر: 1788
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني عبد الله بن هاشم بن حيان العبدي ، حدثنا عبد الرحمن يعني ابن مهدي ، حدثنا سفيان ، عن سلمة بن كهيل ، عن كريب ، عن ابن عباس ، قال: بت ليلة عند خالتي ميمونة، فقام النبي صلى الله عليه وسلم من الليل فاتى حاجته، ثم غسل وجهه ويديه، ثم نام، ثم قام فاتى القربة فاطلق شناقها، ثم توضا وضوءا بين الوضوءين ولم يكثر وقد ابلغ، ثم قام فصلى، فقمت فتمطيت كراهية ان يرى، اني كنت انتبه له فتوضات فقام فصلى، فقمت عن يساره فاخذ بيدي فادارني عن يمينه، فتتامت صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم من الليل ثلاث عشرة ركعة، ثم اضطجع، فنام حتى نفخ، وكان إذا نام نفخ، فاتاه بلال، فآذنه بالصلاة فقام فصلى ولم يتوضا، وكان في دعائه: " اللهم اجعل في قلبي نورا، وفي بصري نورا، وفي سمعي نورا، وعن يميني نورا، وعن يساري نورا، وفوقي نورا، وتحتي نورا، وامامي نورا، وخلفي نورا، وعظم لي نورا "، قال كريب: وسبعا في التابوت، فلقيت بعض ولد العباس فحدثني بهن، فذكر: عصبي، ولحمي، ودمي، وشعري، وبشري، وذكر: خصلتين.حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمِ بْنِ حَيَّانَ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: بِتُّ لَيْلَةً عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ فَأَتَى حَاجَتَهُ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ فَأَتَى الْقِرْبَةَ فَأَطْلَقَ شِنَاقَهَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءًا بَيْنَ الْوُضُوءَيْنِ وَلَمْ يُكْثِرْ وَقَدْ أَبْلَغَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى، فَقُمْتُ فَتَمَطَّيْتُ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَرَى، أَنِّي كُنْتُ أَنْتَبِهُ لَهُ فَتَوَضَّأْتُ فَقَامَ فَصَلَّى، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَأَخَذَ بِيَدِي فَأَدَارَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَتَتَامَّتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ اضْطَجَعَ، فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ، وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ، فَأَتَاهُ بِلَالٌ، فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ فَقَامَ فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ، وَكَانَ فِي دُعَائِهِ: " اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَعَظِّمْ لِي نُورًا "، قَالَ كُرَيْبٌ: وَسَبْعًا فِي التَّابُوتِ، فَلَقِيتُ بَعْضَ وَلَدِ الْعَبَّاسِ فَحَدَّثَنِي بِهِنَّ، فَذَكَرَ: عَصَبِي، وَلَحْمِي، وَدَمِي، وَشَعْرِي، وَبَشَرِي، وَذَكَرَ: خَصْلَتَيْنِ.
سلمہ بن کہیل نے کریب سے اور انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گزاری، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے اور اپنی ضرورت (کی جگہ) آئے، پھر اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے، پھر سو گئے پھر اٹھے اور مشکیزے کے پاس آئے اور اس کا بندھن کھولا، پھر دو (طرح کے) وضو (بہت ہلکا وضو اور بہت زیادہ وضو) کے درمیان کا وضو کیا اور (پانی) زیادہ (استعمال) نہیں کیا اور (وضو) اچھی طرح کیا، پھر اٹھے اور نماز شروع کی تو میں اٹھا اور میں نے انگڑائی لی، اس ڈر سے کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں آپ (کے حالات جاننے) کی خاطر جاگ رہا تھا، پھر میں نے وضو کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھی۔تو میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھما کر اپنی دائیں جانب (کھڑا) کر لیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ رکعت رات کی نماز مکمل ہوئی، پھر آپ لیٹ گئے اور سو گئے حتیٰ کہ آپ کی سانس لینے کی آواز آنے لگی، آپ جب سوتے تھے تو آواز آتی تھی۔، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت بلال رضی اللہ عنہ آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دی، آپ نے نماز پڑھی (سنت فجر ادا کیں) اور وضو نہ کیا اور آپ کی دعا میں تھا: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَعَظِّمْ لِي نُورًا» "اےللہ! میرے دل میں نور ڈال دے اور میری آنکھوں میں اور میرے کانوں میں نور بھردے اورمیری دائیں طرف نور کردے اور میری بائیں طرف نور کردے اور میرے نیچے نور کر دے اور میرے آگے اور میرے پیچھے نور کردے اور میرے لئے نور کو عظیم کردے۔" (ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد) کریب نے بتایا کہ (ان کے علاوہ مزید) سات (چیزوں کے بارے میں دعا مانگی جن) کا تعلق جسم کے صندوق (پسلیوں اور اردگرد کے حصے) سے ہے، میر ی ملاقات حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بیٹے سے ہوئی تو انھوں نے مجھے ان کے بارے میں بتایا، انھوں نے بتایا کہ میرے پٹھوں، میرے گوشت، میرےخون، میرے بالوں اور میری کھال (کو نور کردے)، دو اور بھی چیزیں بتائیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں گزاری، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے اور اپنی (بول و براز) حاجت پوری کی، پھر اپنا چہرہ اور ہاتھ دھوئے، پھر سو گئے، پھر اٹھے اور مشکیزے کے پاس آ کر اس کا بندھن کھولا، پھر درمیانہ وضو کیا پانی زیادہ استعمال نہیں کیا اور وضو اچھی طرح کیا، پھر اٹھے اور نماز شروع کی تو میں اٹھا اور میں نے انگڑائی لی، اس ڈر سے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ سمجھیں کہ میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کے حالات جاننے کی خاطر جاگ رہا تھا، پھر میں نے وضو کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنے لگے تو میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے گھما کر اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تیرہ رکعت رات کی نماز مکمل ہوئی، پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے اور سو کر خراٹے لینے لگے آپصلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تھے تو خراٹے لیتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کی اطلاع دی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی (سنت فجر ادا کیں) اور وضو نہ کیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں تھا: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَعَظِّمْ لِي نُورًا» اےللہ! میرے دل میں نور پیدا فرما اور میری آنکھوں میں نور پیدا کر دے اور میرے سننے میں نور پیدا فرما اورمیرے دائیں نور کر دے اور میرے بائیں طرف نور کر دے اور میرے نیچے نور کر دے اور میرے آگے اور میرے پیچھے نور کر دے اور میرے لئے نور کو بڑھادے۔ اور ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے شاگرد کریب نے بتایا سات کا تعلق جسم سے ہے، اور سلمہ بن کہیل کہتے ہیں، میری ملاقات عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کسی بیٹے سے ہوئی تو اس نے مجھے وہ سات اعضاء بتائے، اس نے بتایا، میرے پٹھوں، میرے گوشت، میرے خون، میرے بالوں، میری کھال کو نور کر دے اور دو اور چیزیں بتائیں۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 763

   صحيح البخاري6316عبد الله بن عباساللهم اجعل في قلبي نورا وفي بصري نورا وفي سمعي نورا وعن يميني نورا وعن يساري نورا وفوقي نورا وتحتي نورا وأمامي نورا وخلفي نورا واجعل لي نورا
   صحيح مسلم1788عبد الله بن عباساللهم اجعل في قلبي نورا وفي بصري نورا وفي سمعي نورا وعن يميني نورا وعن يساري نورا وفوقي نورا وتحتي نورا وأمامي نورا وخلفي نورا وعظم لي نورا
   صحيح مسلم1799عبد الله بن عباساللهم اجعل في قلبي نورا وفي لساني نورا واجعل في سمعي نورا واجعل في بصري نورا واجعل من خلفي نورا ومن أمامي نورا واجعل من فوقي نورا ومن تحتي نورا اللهم أعطني نورا
   صحيح مسلم1794عبد الله بن عباساللهم اجعل في قلبي نورا وفي سمعي نورا وفي بصري نورا وعن يميني نورا وعن شمالي نورا وأمامي نورا وخلفي نورا وفوقي نورا وتحتي نورا واجعل لي نورا
   سنن النسائى الصغرى1122عبد الله بن عباساللهم اجعل في قلبي نورا واجعل في سمعي نورا واجعل في بصري نورا واجعل من تحتي نورا واجعل من فوقي نورا وعن يميني نورا وعن يساري نورا واجعل أمامي نورا واجعل خلفي نورا وأعظم لي نورا ثم نام حتى نفخ فأتاه بلال فأيقظه للصلاة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1788  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
شِنَاقْ:
اس رسی کو کہتے ہیں،
جس سے مشکیزہ کو کھونٹی کے ساتھ باندھا جاتا ہے اور اس تسمہ کو بھی کہتے ہیں جس سے مشکیزہ کا منہ باندھا جاتا ہے۔
(2)
تَمَطَّيْتُ:
میں نے انگڑائی لی۔
(3)
سَبْعاً فِيْ التَّابُوْتِ:
اس کے معنی میں اختلاف ہے،
بعض نے اس کا معنی صدر (سینہ)
کیا ہے،
بعض دل کے ارد گرد پسلیاں وغیرہ،
بعض نے صندوق کیا ہے،
سات باتیں میرے صندوق میں لکھی پڑی ہیں لیکن صحیح معنی یہ ہے کہ سات چیزیں جن کا انسانی جسم سے تعلق ہے لیکن میں ان کو بھول گیا ہوں،
اس لیے ان کے شاگرد سلمہ بن کہیل نے حضرت عباس رضی الله تعالیٰ عنہما کے کسی لڑ کے سے پوچھا،
اس نے وہ سات چیزیں بتائیں،
لیکن سلمہ لسان اور نفس بھول گئے،
باقی پانچ بیان کر دیں۔
فوائد ومسائل:

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحت جماعت اور امامت کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ امام کسی کو نماز پڑھانے کی نیت کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز پڑھ رہے تھے اور بعد میں پیشگی اطلاع کے بغیر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آپﷺ کے ساتھ شریک ہو گئے،
جس سے معلوم ہوا نابالغ بچہ کی نماز اور اس کا مقتدی بننا صحیح ہے۔

اگر مقتدی صرف ایک ہو تو وہ دائیں طرف کھڑا ہو گا اگر وہ ناواقفیت کی بنا پر بائیں طرف کھڑا ہو جائے تو اس کو گھما کر پیچھے سےدائیں طرف کیا جائےگا۔

کسی بزرگ یا نیک شخصیت کے حالات کا تجسس اس لیے کرنا تاکہ ان کو اپنایا جا سکے درست ہے۔

آپﷺ رات کو دعائے نوری کرتے تھے جس کا مقصد یہ تھا کہ اے اللہ میرے دل،
میرے قالب،
میری روح،
میرے جسم اور جسم کے ہرحصہ میں اور میری رگ رگ اور ریشہ میں نور بھر دے صرف مجھے ہی ازسر تا پیر نور نہ بنا بلکہ میرے گردو پیش میرے آگے پیچھے اور اوپر نیچے ہر طرف نور ہی نور کر دے،
تاکہ میں لوگوں کے لیے ہر اعتبار اور ہر حیثیت سے مشعل راہ بنوں اور میرے ہر قول وفعل اور حرکت میں نور ہی نور ہو۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپﷺ کو عالم الغیب نہیں سمجھتے تھے اس لیے کہتے ہیں کہ میں انگڑائی لے کر اٹھے تاکہ آپﷺ یہ نہ سمجھیں کہ میں آپﷺ کے حالات جاننے کے لیے جاگ رہا تھا۔

بقول امام قسطلانی عبداللہ بن عباس کا لڑکا علی بن عبداللہ تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1788   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.