الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام 26. باب الدُّعَاءِ فِي صَلاَةِ اللَّيْلِ وَقِيَامِهِ: باب: نماز اور دعائے شب۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک رات میں اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہا (اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کی نماز دیکھیں) اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے اور اپنی قضائے حاجت کو گئے پھر اپنا منہ اور ہاتھ دھویا۔ پھر سو رہے۔ پھر اٹھے اور مشک کے پاس آئے اور اس کا بندھن کھولا۔ پھر دو وضوؤں کے بیچ کا وضو کیا (یعنی نہ بہت مبالغہ کا نہ بہت ہلکا) اور زیادہ پانی نہیں گرایا اور پورا وضو کیا۔ پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور میں بھی اٹھا اور انگڑائی لی کہ کہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہمارا حال دیکھنے کے لئے ہوشیار تھا (اس سے معلوم ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ علم غیب کا عقیدہ نہ تھا جیسے اب جاہلوں کو انبیا علیہم السلام اور اولیا رحمہ اللہ علیہم کے ساتھ ہے) اور میں نے وضو کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں طرف کھڑا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھما کر اپنی دہنی طرف کھڑا کر لیا (اس سے معلوم ہوا کہ مقتدی ہو تو امام کی داہنی طرف کھڑا ہو) غرض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رات کو تیرہ رکعت پوری ہوئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ رہے اور سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی جب سو جاتے تھے خراٹے لیتے تھے۔ پھر بلال رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز کے لئے آگاہ کیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور صبح کی نماز ادا کی اور وضو نہیں کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا میں یہ لفظ تھے: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِى قَلْبِى نُورًا وَفِى بَصَرِى نُورًا وَفِى سَمْعِى نُورًا وَعَنْ يَمِينِى نُورًا وَعَنْ يَسَارِى نُورًا وَفَوْقِى نُورًا وَتَحْتِى نُورًا وَأَمَامِى نُورًا وَخَلْفِى نُورًا وَعَظِّمْ لِى نُورًا» تک یعنی: یا اللہ! کر دے میرے دل میں نور اور آنکھ میں نور اور کان میں نور اور میرے دائیں نور اور میرے بائیں نور اور میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور میرے آگے نور اور پیچھے نور اور بڑھا دے میرے لئے نور۔“ کریب (جو راوی حدیث ہیں) نے کہا کہ سات لفظ اور فرمائے تھے کہ وہ میرے دل میں (یعنی منہ پر نہیں آتے اس لئے کہ میں بھول گیا) پھر میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بعض اولاد سے ملاقات کی، انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ لفظ یہ ہیں اور ذکر کیا کہ میرا پٹھا اور میرا گوشت اور میرا لہو اور میرے بال اور میری کھال اور دو چیزیں اور ذکر کی (یعنی ان سب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نور مانگا)۔
کریب جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام ہیں، ان کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ وہ ایک رات ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا (جو مسلمانوں کی ماں اور ان کی خالہ ہیں) کے گھر رہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں تکیہ کے چوڑان میں لیٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی صاحبہ اس کی لمبان میں سر رکھ کر لیٹے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوتے رہے یہاں تک کہ آدھی رات ہو گئی یا کچھ پہلے یا کچھ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جاگے اور نیند کا اثر اپنے منہ پر سے اپنے ہاتھ سے پونچھنے لگے (اس کا استحباب ثابت ہوا) پھر سورۂ آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھیں (ان آیتوں کا پڑھنا بھی اس وقت مستحب ہوا) پھر ایک لٹکی ہوئی پرانی مشک کے پاس گئے اور اس سے وضو کیا اور خوب وضو کیا پھر نماز پڑھنے کھڑے ہوئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ پھر میں نے بھی ویسا ہی کیا جیسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا (یعنی آیتوں کا پڑھنا اور منہ سے نیند کا اثر پونچھنا) پھر گیا میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بازو پر کھڑا ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سیدھا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا داہنا کان پکڑ اس کو مروڑتے تھے (تاکہ بچہ کو نیند نہ آ جائے) پھر دو رکعت پڑھی، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو رکعت، پھر دو، پھر وتر پڑھے۔ پھر لیٹ رہے یہاں تک کہ مؤذن آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور ہلکی دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر نکل کر صبح کے فرض ادا کئے۔
مخرمہ بن سلیمان نے بھی اسی اسناد سے یہ روایت کی ہے اس میں اتنا زیادہ ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پرانی مشک کی طرف ارادہ کیا اور مسواک کی اور وضو کیا اور پورا وضو کیا مگر پانی بہت کم گرایا۔ پھر مجھے ہلایا تو میں اٹھا اور باقی روایت مالک رحمہ اللہ کی روایت کے مثل ہے (یعنی جو اوپر مذکور ہوئی)۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دن میں ام المؤمنین سیده میمونہ رضی اللہ عنہا جو بی بی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان کے گھر سویا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہوا، سو(آپ نے) مجھے پکڑ کر داہنی طرف کر لیا اور اس رات تیرہ رکعت پڑھی۔ پھر سو رہے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی جب سوتے خراٹے لیتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مؤذن آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ عمرو نے کہا: میں نے یہ حدیث بکیر سے بیان کی تو انہوں نے کہا: کریب نے بھی مجھ سے بیان کی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں ایک رات اپنی خالہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے گھر رہا اور میں نے ان سے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھیں تو مجھے جگا دینا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنی داہنی طرف کر لیا اور جب میں ذرا اونگھ جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے کان پکڑ لیتے کہا: پھر گیارہ رکعت پڑھیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ رہے یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے سنتا تھا۔ پھر جب فجر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت ہلکی پڑھیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ایک رات اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے اور ایک پرانی مشک سے ہلکا وضو کیا پھر ان سے وضو کے بارے میں بیان کیا کہ وضو بہت ہلکا تھا اور تھوڑے پانی سے کیا تھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں کھڑا ہوا اور میں نے وہی کیا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا پھر میں آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو پیچھے سے کھینچ کر دائیں جانب کر لیا۔ پھر نماز پڑھی اور لیٹ رہے اور سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آئے اور نماز کے لیے آگاہ کیا اور نکلے اور صبح کی نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ سفیان نے کہا کہ یہ (یعنی سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا ہے اس لیے کہ ہم کو پہنچا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سو جاتی تھیں اور دل نہ سوتا تھا۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں ایک رات اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رہا اور خیال کرتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں کر نماز پڑھتے ہیں۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور پیشاب کیا اور منہ دھویا اور دونوں ہتھیلیاں دھوئیں۔ پھر سو رہے، پھر اٹھے اور مشک کے پاس گئے اور اس کا بندھن کھولا اور لگن یا بڑے پیالے میں پانی ڈالا اور اس کو اپنے ہاتھ سے جھکایا اور وضو کیا بہت اچھا دو وضوؤں کے بیچ کا (یعنی نہ بہت ہلکا، نہ مبالغہ کا) پھر کھڑے ہوئے نماز پڑھنے لگے پھر میں بھی آیا (یعنی وضو کر کے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں بازو کی طرف کھڑا ہوا تو مجھ کو پکڑا اور داہنی طرف کھڑا کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری نماز تیرہ رکعت ہوئی۔ پھر سو گئے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سو جانے کو خراٹے ہی سے پہچانتے تھے پھر نماز کو نکلے اور نماز پڑھی اور اپنی نماز یا سجدہ میں کہتے تھے: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِى قَلْبِى نُورًا وَفِى سَمْعِى نُورًا وَفِى بَصَرِى نُورًا وَعَنْ يَمِينِى نُورًا وَعَنْ شِمَالِى نُورًا وَأَمَامِى نُورًا وَخَلْفِى نُورًا وَفَوْقِى نُورًا وَتَحْتِى نُورًا وَاجْعَلْ لِى نُورًا أَوْ قَالَ وَاجْعَلْنِى نُورًا» یا اللہ! کر دے میرے دل میں نور اور میرے کان میں نور اور میری آنکھ میں نور اور میرے داہنے نور اور میرے بائیں نور اور میرے آگے نور اور میرے پیچھے نور اور میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور کر دے میرے لیے نور یا کہتے تھے: ”مجھے نور کر دے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: میں اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے پھر گزشتہ حدیث کی مانند بیان کیا اور کہا: مجھے نور عطا کر دے اور شک کا ذکر نہیں کیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے وہی مضمون جو اوپر گزرا بیان کیا مگر منہ اور ہتھیلیاں دھونے کا ذکر نہیں کیا صرف اتنا کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشک کے پاس آئے اور اس کا بندھن کھولا، پھر دونوں وضوؤں کے درمیان کا وضو کیا، پھر اپنی خواب گاہ پر آئے اور سوئے، پھر دوسری دفعہ کھڑے ہوئے اور مشک کے پاس آئے اور اس کا بندھن کھولا اور وضو ایسا کیا کہ وضو ہی تھا اور دعا میں یہ کہا: «أَعْظِمْ لِى نُورًا» ”یا اللہ بڑا کر دے میرا نور۔“ اور «وَاجْعَلْنِى نُورًا» کا لفظ نہیں کہا۔
کریب نے روایت کی کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہے اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور مشک کے پاس گئے اور اس کو جھکایا اور اس سے وضو کیا اور پانی بہت نہیں بہایا اور وضو میں کچھ کمی بھی نہیں کی۔ اور حدیث بیان کی اور اس میں یہ بھی کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات انیس کلموں سے دعا کی۔ سلمہ نے کہا کہ مجھ سے (وہ کلمات) کریب نے بیان کیے تھے مگر مجھے اس میں سے بارہ یاد رہے اور باقی بھول گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: «اللَّهُمَّ اجْعَلْ لِى فِى قَلْبِى نُورًا وَفِى لِسَانِى نُورًا وَفِى سَمْعِى نُورًا وَفِى بَصَرِى نُورًا وَمِنْ فَوْقِى نُورًا وَمِنْ تَحْتِى نُورًا وَعَنْ يَمِينِى نُورًا وَعَنْ شِمَالِى نُورًا وَمِنْ بَيْنِ يَدَىَّ نُورًا وَمِنْ خَلْفِى نُورًا وَاجْعَلْ فِى نَفْسِى نُورًا وَأَعْظِمْ لِى نُورًا» ”یا اللہ! کر دے میرے دل میں نور اور میری زبان میں نور اور میرے کان میں نور اور میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور اور داہنے اور بائیں نور اور آگے نور اور پیچھے نور اور کر دے میری ذات میں نور اور زیادہ دے مجھے نور۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں سویا (مسلمانوں کی ماں اور اپنی خالہ) میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر جس رات میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہیں تھے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز دیکھوں تو پھر تھوڑی دیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بی بی رضی اللہ عنہا سے باتیں کیں پھر سو رہے اور حدیث بیان کی اور اس میں یہ بھی ہے کہ پھر اٹھے اور وضو کیا اور مسواک کی۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سوئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جاگے مسواک کی اور وضو کیا اور وہ یہ آیتیں پڑھتے: «إِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لأُولِى الأَلْبَابِ» سے آخر سورت تک پھر کھڑے ہوئے اور دو رکعت پڑھیں اور اس میں بہت لمبا قیام کیا اور رکوع بھی اور سجدہ بھی پھر سو رہے یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے غرض اسی طرح تین بار کیا اور چھ رکعت پڑھیں۔ ہر بار مسواک کرتے اور وضو کرتے اور ان آیتوں کو پڑھتے، پھر تین رکعت وتر پڑھی اور مؤذن نے اذان دی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کو نکلے اور یہ دعا پڑھ رہے تھے «اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِى قَلْبِى نُورًا وَفِى لِسَانِى نُورًا وَاجْعَلْ فِى سَمْعِى نُورًا وَاجْعَلْ فِى بَصَرِى نُورًا وَاجْعَلْ مِنْ خَلْفِى نُورًا وَمِنْ أَمَامِى نُورًا وَاجْعَلْ مِنْ فَوْقِى نُورًا وَمِنْ تَحْتِى نُورًا. اللَّهُمَّ أَعْطِنِى نُورًا» ”یا اللہ! کر دے میرے دل میں نور اور میری زبان میں نور اور کر دے میرے کان میں نور اور میری آنکھ میں نور اور میرے پیچھے نور اور میرے آگے نور اور میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور یا اللہ! دے مجھے نور۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گزاری تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نفل پڑھنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مشکیزے کی طرف کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا۔ پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھی تو میں بھی کھڑا ہو گیا اور میں نے بھی اسی طرح کیا جس طرح میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا اور مشکیزے (کے پانی) سے میں نے وضو کیا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پشت کے پیچھے سے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنی پشت مبارک کے پیچھے سے دائیں طرف کھڑا کر دیا۔ میں نے کہا کہ کیا یہ کام نفل میں کیا تھا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جی ہاں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مجھے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں تھے تو میں نے ان کے ساتھ وہ رات گزاری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے لگے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے سے پکڑ کر اپنی دائیں طرف کر دیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ حدیث اسی طرح اس سند کے ساتھ نقل کی گئی ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو تیرہ رکعت پڑھتے تھے۔
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ آج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز دیکھوں گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت ہلکی پڑھیں (تحیتہ الوضو) پھر دو رکعت پڑھیں اور لمبی سے لمبی اور لمبی سے لمبی پھر دو رکعت اور کہ وہ ان سے کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر دو اور کہ وہ ان سے بھی کم تھیں پھر وتر پڑھا (یعنی ایک رکعت) یہ سب تیرہ رکعات ہوئیں۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھا اور ہم ایک گھاٹ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے جابر! تم پار ہوتے ہو؟“ میں نے کہا: ہاں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پار اترے اور میں بھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاخانے گئے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وضو کا پانی رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر وضو کیا اور پھر کھڑے ہو گئے اور ایک کپڑا اوڑھے نماز پڑھتے رہے جس کے داہنے کنارے کو بائیں طرف اور بائیں کو داہنی طرف ڈال دیا تھا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا کان پکڑ کے داہنی طرف کر لیا۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز شروع کرتے تو پہلے دو ہلکی سی رکعت پڑھتے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی رات کی نماز پڑھنے کھڑا ہو تو اپنی نماز دو ہلکی رکعتوں سے شروع کرے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو نماز کے لیے اٹھتے تو «اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ قَيَّامُ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَلَكَ الْحَمْدُ أَنْتَ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ أَنْتَ الْحَقُّ وَوَعْدُكَ الْحَقُّ وَقَوْلُكَ الْحَقُّ وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ وَالْجَنَّةُ حَقٌّ وَالنَّارُ حَقٌّ وَالسَّاعَةُ حَقٌّ اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ وَبِكَ خَاصَمْتُ وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ فَاغْفِرْ لِى مَا قَدَّمْتُ وَأَخَّرْتُ وَأَسْرَرْتُ وَأَعْلَنْتُ أَنْتَ إِلَهِى لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ» کہتے یعنی ”یا اللہ! سب خوبیاں تیرے ہی لیے ہیں تو آسمان اور زمین کی روشنی ہے اور تجھی کو تعریف ہے، تو آسمان اور زمین کا تھامنے والا ہے تجھی کو تعریف ہے، تو آسمان و زمین اور جو ان میں ہیں سب کا پالنے والا ہے۔ تو سچا ہے، تیرا وعدہ سچا ہے، تیری بات سچی ہے، تیری ملاقات سچی ہے، جنت سچ ہے، دوزخ سچ ہے، قیامت سچ ہے۔ یا اللہ! میں تیری بات مانتا ہوں، تجھ پر ایمان لاتا ہوں، تجھ پر بھروسا کرتا ہوں، تیری طرف جھکتا ہوں، تیرے ساتھ ہو کر اوروں سے جھگڑتا ہوں اور تیرے ہی سے فیصلہ چاہتا ہوں سو تو میرے اگلے پچھلے، چھپے، کھلے گناہوں کو بخش دے۔ یااللہ تو ہی میرا معبود ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی روایت بیان کی جو روایت ابن جریج نے بیان کی۔ اس کے الفاظ مالک کی حدیث کے ساتھ متفق ہیں اور کوئی اختلاف نہیں سوائے دو حرفوں کے ابن جریج نے «قَيَّامُ» کی جگہ «قَيِّمُ» کا لفظ استعمال کیا اور «وَمَا أَسْرَرْتُ» کا لفظ کہا ہے اور باقی ابن عیینہ کی حدیث میں کچھ باتیں زائد ہیں اور مالك اور ابن جریج کی روایت سے کچھ باتوں میں مختلف ہے۔
مسلم نے کہا اور ہم سے شیبان نے روایت کی ان سے مہدی نے کہ میمون کے فرزند ہیں ان سے عمران قصیر نے، ان سے قیس نے، ان سے طاؤس نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، ان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حدیث۔ اور لفظ ان راویوں کے قریب قریب ہیں۔
ابی سلمہ نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کو اٹھتے تو اپنی نماز کے شروع میں کیا پڑھتے؟ انہوں نے فرمایا کہ «اللَّهُمَّ رَبَّ جِبْرَائِيلَ وَمِيكَائِيلَ وَإِسْرَافِيلَ فَاطِرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنْتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ اهْدِنِى لِمَا اخْتُلِفَ فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِكَ إِنَّكَ تَهْدِى مَنْ تَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ» یعنی ”یا اللہ! پالنے والےجبرئیل اور میکائیل اور اسرافیل کے (جبرائيل اور میکائیل دونوں رحمت کے فرشتے ہیں اور اسرافیل ان کے اور اللہ کے بیچ میں رسول ہیں) آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے ظاہر اور پوشیدہ کے جاننے والے تو اپنے بندوں میں فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں۔ سیدھی راہ بتا جس میں لوگ اختلاف کرتے ہیں اپنے حکم سے بیشک تو ہی جسے چاہے سیدھی راہ بتاتا ہے۔“
سیدنا علی مرتضیٰ بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں کھڑے ہوتے تو پڑھتے «وَجَّهْتُ وَجْهِىَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلاَتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ. أَنْتَ رَبِّى وَأَنَا عَبْدُكَ ظَلَمْتُ نَفْسِى وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِى فَاغْفِرْ لِى ذُنُوبِى جَمِيعًا إِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ وَاهْدِنِى لأَحْسَنِ الأَخْلاَقِ لاَ يَهْدِى لأَحْسَنِهَا إِلاَّ أَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّى سَيِّئَهَا لاَ يَصْرِفُ عَنِّى سَيِّئَهَا إِلاَّ أَنْتَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِى يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ» یعنی ”میں نے اپنا منہ اس کی طرف کیا جس نے آسمان و زمین بنایا ایک طرف کا ہو کر اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں اور مسلمانوں میں سے ہوں۔ یااللہ! تو بادشاہ ہے کوئی معبود نہیں مگر تو، تو میرا پالنے والا ہے اور میں تیرا غلام ہوں۔ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور اپنے گناہوں کا اقرار کیا، سو میرے سب گناہوں کو بخش دے اس لیے کہ گناہوں کو کوئی نہیں بخشتا مگر تو اور سکھا دے مجھ کو اچھی عادتیں کہ نہیں سکھاتا ان کو مگر تو اور دور رکھ مجھ سے بری عادتیں نہیں دور رکھ سکتا ان کو مگر تو، میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں اور تیرا فرمانبردار ہوں اور ساری خوبی تیرے ہاتھوں میں ہے اور شر سے تیری طرف نزدیکی حاصل نہیں ہو سکتی (یا شر اکیلا تیری طرف منسوب نہیں ہوتا مثلاً «خالق القردة و الخنازير» نہیں کہا جاتا، یا «يا رب الشر» نہیں کہا جاتا یا شر تیری طرف نہیں چڑھتا جیسے کلمہ طیب اور عمل صالح چڑھتے ہیں یا کوئی مخلوق تیرے واسطے شر نہیں اگرچہ ہمارے لیے شر ہو کیوں کہ ہم بشر ہیں اس لیے کہ ہر چیز کو تو نے حکمت کے ساتھ بنایا ہے) میری توفیق تیری طرف سے ہے اور میری التجا تیری طرف ہے تو بڑی برکت والا ہے اور بلند ذات والا ہے۔ میں تجھ سے مغفرت مانگتا ہوں اور تیری طرف جھکتا ہوں اور جب رکوع کرتے تو پڑھتے «اللَّهُمَّ لَكَ رَكَعْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ خَشَعَ لَكَ سَمْعِى وَبَصَرِى وَمُخِّى وَعَظْمِى وَعَصَبِى» یعنی ”یا اللہ! میں تیرے لیے جھکتا ہوں اور تجھ پر یقین رکھتا ہوں اور تیرا فرمانبردار ہوں۔ جھک گئے تیرے لیے میرے کان اور میری آنکھیں اور میرا مغز اور میری ہڈیاں اور میرے پٹھے۔“ اور جب سر اٹھاتے تو پڑھتے «اللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَمِلْءَ الأَرْضِ وَمِلْءَ مَا بَيْنَهُمَا وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَىْءٍ بَعْدُ» یعنی ”یااللہ! اے ہمارے پروردگار! حمد تیرے ہی لیے ہے آسمانوں بھر اور زمین بھر اور ان کے درمیان بھر اور اس کے بعد جتنا تو چاہے اس بھر اور جب سجدہ کرتے تو كہتے «اللَّهُمَّ لَكَ سَجَدْتُ وَبِكَ آمَنْتُ وَلَكَ أَسْلَمْتُ سَجَدَ وَجْهِى لِلَّذِى خَلَقَهُ وَصَوَّرَهُ وَشَقَّ سَمْعَهُ وَبَصَرَهُ تَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ» یعنی ”اے اللہ!! میں نے تیرے لیے ہی سجدہ کیا ور تجھ پر یقین لایا اور میں تیرا فرمانبردار ہوں۔ میرے منہ نے اس کے لیے سجدہ کیا جس نے اسے بنایا ہے اور تصویر کھینچی ہے اور اس کے کان اور آنکھوں کو چیرا، بڑی برکت والا ہے سب بنانے والوں سے اچھا۔“ پھر آخر میں تشہد اور سلام کے بیچ میں کہتے «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِى مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ وَمَا أَسْرَفْتُ وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّى أَنْتَ الْمُقَدِّمُ وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ» یعنی ”یا اللہ! بخش مجھ کو جو میں نے آگے کیا اور جو میں نے پیچھے کیا اور جو چھپایا اور جو ظاہر کیا اور جو حد سے زیادہ کیا جو تو جانتا ہے مجھ سے بڑھ کر، تو سب سے پہلے تھا اور سب کے بعد رہے گا تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔“
اعرج نے اسی سند سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے «الله اكبر» کہتے اور «وَجَّهْتُ وَجْهِى» پڑھتے اور «أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ» کہتے اور جب اپنا سر رکوع سے اٹھاتے تو «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» کہتے یعنی ”اللہ نے سن لیا جس نے اس کی تعریف کی اے ہمارے رب! اور سب تعریف تیرے ہی لئے ہیں“ اور کہا «صَوَّرَهُ فَأَحْسَنَ صُوَرَهُ» اور کہا جب سلام کہتے «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِى مَا قَدَّمْتُ» آخر حدیث تک اور تشہد اور سلام کے درمیان کا ذکر نہیں کیا۔
|