الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
43. بَابُ وُضُوءِ الرَّجُلِ مَعَ امْرَأَتِهِ وَفَضْلِ وَضُوءِ الْمَرْأَةِ:
43. باب: خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ وضو کرنا اور عورت کا بچا ہوا پانی استعمال کرنا جائز ہے۔
(43) Chapter. The performance of ablution by a man along with his wife. The utilization of water remaining after a woman has performed ablution.
حدیث نمبر: Q193
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وتوضا عمر بالحميم من بيت نصرانية.وَتَوَضَّأَ عُمَرُ بِالْحَمِيمِ مِنْ بَيْتِ نَصْرَانِيَّةٍ.
‏‏‏‏ عمر رضی اللہ عنہ نے گرم پانی سے اور عیسائی عورت کے گھر کے پانی سے وضو کیا۔


Umar Radhiallahu Anhu ne garam paani se aur Esaayi aurat ke ghar ke paani se Wuzu kiya.


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q193  
´خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ وضو کرنا اور عورت کا بچا ہوا پانی استعمال کرنا`
«. . . وَتَوَضَّأَ عُمَرُ بِالْحَمِيمِ مِنْ بَيْتِ نَصْرَانِيَّةٍ. . . .»
. . . ‏‏‏‏ عمر رضی اللہ عنہ نے گرم پانی سے اور عیسائی عورت کے گھر کے پانی سے وضو کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ وُضُوءِ الرَّجُلِ مَعَ امْرَأَتِهِ وَفَضْلِ وَضُوءِ الْمَرْأَةِ:: Q193]

تشریح:
یہ دو جدا جدا اثر ہیں پہلے کو سعید بن منصور نے اور دوسرے کو شافعی اور عبدالرزاق نے نکالا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض صرف یہ ہے کہ جیسے بعض لوگ عورت کے بچے ہوئے پانی سے طہارت کرنا منع سمجھتے تھے، اسی طرح گرم پانی سے یا کافر کے گھر کے پانی سے بھی منع سمجھتے تھے۔ حالانکہ یہ غلط ہے۔ گرم پانی سے بھی اور کافر کے گھر کے پانی سے بھی بشرطیکہ اس کا پاک ہونا یقینی ہو، طہارت کی جا سکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 193   
حدیث نمبر: 193
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، قال: اخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، انه قال:" كان الرجال والنساء يتوضئون في زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم جميعا".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ:" كَانَ الرِّجَالُ وَالنِّسَاءُ يَتَوَضَّئُونَ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمِيعًا".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم کو مالک نے نافع سے خبر دی، وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورت اور مرد سب ایک ساتھ (ایک ہی برتن سے) وضو کیا کرتے تھے۔ (یعنی وہ مرد اور عورتیں جو ایک دوسرے کے محرم ہوتے)۔


Hum se Abdullah bin Yousuf ne bayan kiya, kaha hum ko Malik ne Nafe’ se khabar di, woh Abdullah bin Umar Radhiallahu Anhuma se riwayat karte hain. Woh farmaate hain ke Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ke zamaane mein aurat aur mard sab ek saath (ek hi bartan se) Wuzu kiya karte the. (Yani woh mard aur aurtein jo ek doosre ke mahram hote).

Narrated 'Abdullah bin 'Umar: "During the lifetime of Allah's Messenger (saws) men and women used to perform ablution together."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 192


   صحيح البخاري193عبد الله بن عمرالرجال والنساء يتوضئون في زمان رسول الله جميعا
   سنن أبي داود80عبد الله بن عمرنتوضأ نحن والنساء على عهد رسول الله من إناء واحد ندلي فيه أيدينا
   سنن أبي داود79عبد الله بن عمرالرجال والنساء يتوضئون في زمان رسول الله من الإناء الواحد جميعا
   سنن النسائى الصغرى343عبد الله بن عمرالرجال والنساء يتوضئون في زمان رسول الله جميعا
   سنن النسائى الصغرى71عبد الله بن عمرالرجال والنساء يتوضئون في زمان رسول الله جميعا
   سنن ابن ماجه381عبد الله بن عمرالرجال والنساء يتوضئون على عهد رسول الله من إناء واحد
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم63عبد الله بن عمر إن الرجال والنساء كانوا يتوضؤون فى زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم جميعا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 80  
´عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: كُنَّا نَتَوَضَّأُ نَحْنُ وَالنِّسَاءُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ نُدْلِي فِيهِ أَيْدِيَنَا . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہم اور عورتیں مل کر ایک برتن سے وضو کرتے، اور ہم اپنے ہاتھ اس میں (باری باری) ڈالتے تھے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 80]
فوائد و مسائل:
➊ یہ صورت حجاب سے پہلے کی رہی ہو گی اور حجاب کے بعد یہ معاملہ شوہروں اور ان کی بیویوں کے مابین یا محارم کے مابین محدود ہو گیا۔ اور مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ عورت کا مستعمل (بچا ہوا) پانی، خواہ عورت محرم ہو یا غیر محرم، پاک ہے اس سے وضو اور غسل جائز ہے۔
➋ جب غیر محرم مرد کا مستعمل (بچا ہوا) پانی عورت استعمال کر سکتی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ غیر محرم مرد کا بچا ہو اکھانا بھی عورت کھا سکتی ہے۔ شریعت میں اس سے ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ «والله أعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 80   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 63  
´مردوں اور عورتوں کا اکٹھے وضو کرنا`
«. . . وبه: ان ابن عمر كان يقول: إن الرجال والنساء كانوا يتوضؤون فى زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم جميعا . . .»
. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مرد اور عورتیں اکٹھے وضو کرتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 63]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 193، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ اس روایت کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں:
اول: خاوند اور بیوی یا محارم مل کر ایک دوسرے کے سامنے اکٹھے وضو کرتے تھے۔
دوم: غیر مرد اور غیر عورتیں مل کر ایک دوسرے کے سامنے اکھٹے وضو کرتے تھے۔
◈ ان میں سے پہلا مفہوم ہی راجح ہے اور اگر دوسرا مفہوم مراد لیا جائے تو یہ پردے کے حکم سے پہلے کا عمل ہے جسے آیت پردہ نے منسوخ کر دیا ہے۔
➋ اگر عورت کسی برتن وغیرہ سے پانی لے کر وضو کرے اور پھر اس میں پانی باقی رہ جائے تو اس پانی سے مرد کا وضو کرنا جائز ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 206   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 71  
´مردوں اور عورتوں کے ایک ساتھ وضو کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مرد اور عورتیں ایک ساتھ (یعنی ایک ہی برتن سے) وضو کرتے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 71]
71۔ اردو حاشیہ: اس باب کا مقصد یہ ہے کہ پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پانی جوٹھا نہیں ہو جاتاکہ دوسرا شخص اسے استعمال نہ کر سکے، اس لیے بیک وقت کئی افراد (مرد و عورت) ایک برتن میں ہاتھ ڈال کر وضو کرسکتے ہیں، البتہ یہ بات ضرور ہے کہ اگر عورت غیرمحتاط قسم کی ہو تو اس کے وضو کرنے کے بعد مرد اس پانی سے وضو نہ کرے کیونکہ وہ چھینٹوں وغیرہ سے پرہیز نہیں کرے گی۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں مرد و عورت سے مراد ایک گھر کے مرد اور عورت (میاں بیوی) ہیں نہ کہ مختلف گھروں کے غیرمحرم کیونکہ اسلام میں مرد و زن کے اختلاط کی اجازت نہیں۔ یا پھر اس حدیث میں اس وقت کا ذکر ہے جبکہ ابھی پردے کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔ واللہ أعلم۔ یہی رائے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اختیار کی ہے۔ دیکھیے: [فتح الباری: 392/1، تحت حدیث: 193]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 71   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 343  
´عورت کے وضو سے بچے ہوئے پانی کے استعمال کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مرد اور عورتیں دونوں ایک ساتھ وضو کرتے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 343]
343۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث 71 اور اس کے فوائد و مسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 343   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث381  
´مرد اور عورت کے ایک ہی برتن سے وضو کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مرد و عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ہی برتن سے وضو کیا کرتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 381]
اردو حاشہ:
(1)
  گزشتہ باب میں بیان ہوا کہ میاں بیوی ایک ہی برتن میں اکھٹے غسل کرسکتےہیں۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اکھٹے وضو بھی کرسکتے ہیں۔
اس باب کی احادیث سے صراحت کے ساتھ ثابت ہوگیا کہ یہ درست ہے۔

(2)
مردوں اور عورتوں کے اکھٹے وضو کرنے سے مراد خاوند بیوی کا اکھٹا وضو کرنا بھی ہوسکتا ہے اور محرم مردوں عورتوں کا مل کر وضو کرنا بھی مراد ہوسکتا ہےکیونکہ وضو کے اعضاء محرم کے سامنے ظاہر کیے جا سکتے ہیں۔
محرم سے مراد وہ رشتہ دار ہیں جن سے ہمیشہ کے لیے نکاح حرام ہے، مثلاً:
ماں، بیٹا، بہن، بھائی اور باپ، بیٹی وغیرہ۔
عورت کو ان رشتہ داروں سے پردہ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔
وہ افراد جن سے نکاح وقتی طور پر حرام ہے محرم نہیں ہیں کیونکہ سالی سے نکاح سرف اسوقت تک حرام ہے جب تک اس کی بہن (بیوی)
نکاح میں ہے۔
اگر بیوی فوت ہوجائے یا اسے طلاق ہوجائے تواس کی بہن (سالی)
سے نکاح جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 381   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:193  
193. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں مرد، عورتیں مل کر وضو کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:193]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں ہے کہ مرد،عورتیں اکٹھے وضو کیا کرتے تھے۔
اس کے لیے لفظ (جميعاً)
استعمال ہوا ہے۔
اس کے دو معنی ہیں:
(كلهم)
اس کامطلب یہ ہے کہ سب وضو کرتے تھے۔
اس میں وقت کی رعایت نہیں ہوگی، یعنی سب وضو کرتے تھے، خواہ وقت الگ الگ ہو۔
(معاً)
اس لفظ كے اعتبار سے وقت كی رعایت بھی ہوگی، یعنی ایک ہی وقت میں ایک ساتھ وضو کرلیتے تھے تو ممکن ہے کہ مرد، عورتوں کا مل کروضو کرنا نزول حجاب سے پہلے کا واقعہ ہو یا اس سے وہ مرد عورتیں مراد ہوں جو ایک دوسرے کے محرم ہوں۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے میاں بیوی مراد ہوں۔
اس حدیث کا یہ بھی مطلب بیان کیا جاتا ہے کہ مرد ایک جگہ مل کر وضو کرتے اور عورتیں ان سے علیحدہ ایک جگہ مل کر وضو کرتیں۔
(فتح الباري: 392/1)
لیکن ایک روایت میں صراحت ہے کہ سب ایک ہی برتن سے وضو کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 79)
لہٰذا یہ آخری مفہوم صحیح معلوم نہیں ہوتا۔

امام بخاری ؒ نے اپنا مدعا ثابت کرنے کے لیے اس روایت سے بایں طور پر استدلال کیا ہے جب عہد نبوی میں مرد عورتیں اکٹھے وضو کرتےتھے اور برتن بھی ایک ہوتا تھا، اسی میں ہاتھ ڈال کر وضو کیا جاتا تھا، اس موقع پر یہ احتیاط نہیں ہو سکتی کہ مرد، عورتوں کے ہاتھ بیک وقت برتن میں پڑتے ہوں اور اکٹھے ہی برتن سے نکلتے ہوں، پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام ایک ہی وقت وضو سے فارغ ہوتے ہوں۔
اگر مرد پہلے فارغ ہو گیا تو بقیہ پانی عورت کے حق میں باقی ماندہ ہوا اور اگر عورت پہلے فوت ہوگئی تو وہ پانی مرد کے لیے باقی بچ رہا۔
اگر دونوں میں سے کسی ایک کے لیے بقیہ پانی ناقابل استعمال یا ناجائز ہوتا تو عہد رسالت میں ہرگز اس کی اجازت نہ دی جاتی۔
جب اجتماعی طور پر کوئی خرابی لازم نہیں آتی توانفرادی طور پر بھی نہیں آنی چاہیے۔
البتہ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرد کو عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کرنے سے منع کیا ہے۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 82)
محدثین عظام نے اس کے کئی ایک جوابات دیے ہیں جو حسب ذیل ہیں:
(الف)
۔
نہی کا تعلق اس پانی سے ہے جو اعضائے وضو سے گرے جسے ماءِ مستعمل کہاجاتا ہے اور اباحت کا تعلق اس پانی سے ہے جو وضو کرنے کے بعد برتن میں بچ رہے۔
(ب)
۔
نہی تحریم کے لیے نہیں بلکہ کراہت تنزیہی ہے اور اس قسم کی کراہت اباحت کے ساتھ جمع ہوسکتی ہے۔
گویا عورت سے بچا ہوا پانی مرد کے لیے استعمال کرنا خلاف اولیٰ ہے۔
لیکن ہمارے نزدیک اس کاجواب یہ ہے کہ عام طور پر عورتیں طہارت کے سلسلے میں بے احتیاط ہوتی ہیں، اس لیے مردوں کو حکم ہوا کہ وہ عورتوں کا استعمال شدہ پانی دوبارہ استعمال نہ کریں۔
اس میں عام طبقوں کی رعایت کی گئی ہے، لہٰذا اجتماعی اور انفرادی حالت کا فرق برقرار رکھا گیا ہے۔
اگر مرد عورت اجتماعی طور پر وضو کریں تو کسی کو ناگواری نہیں ہوتی، لیکن اگر عورت پانی بچا دے تو مرد کو اس کے استعمال کرنے میں گھن محسوس ہوتی ہے، جیسا کہ ایک جگہ کھانا کھانے میں کسی کوتکلیف نہیں ہوتی، لیکن کسی کا بقیہ کھانا تناول کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ ہوتی ہے۔
اس بنا پر نہ اجتماعی طور پر بیک وقت اکٹھے وضو کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
اور نہ عورت کو مرد کے بقیہ پانی کے استعمال ہی سے روکا گیا ہے، بلکہ صرف مرد کوعورت کے باقی چھوڑے ہوئے پانی کے استعمال سے روکا گیا ہے۔
اس میں عام طبیعتوں کے رجحان کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔
شریعت وساوس کا سد باب کرنا چاہتی ہے تاکہ عبادت شرح صدر سے ہو۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 193   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.