الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
جنازے کے احکام و مسائل
The Book of Prayer - Funerals
16. باب الإِسْرَاعِ بِالْجَنَازَةِ:
16. باب: جنازے کو جلدی لے جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2188
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني ابو الطاهر ، وحرملة بن يحيى ، وهارون بن سعيد الايلي ، قال هارون حدثنا، وقال الآخران: اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس بن يزيد ، عن ابن شهاب ، قال: حدثني ابو امامة بن سهل بن حنيف ، عن ابي هريرة ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " اسرعوا بالجنازة فإن كانت صالحة قربتموها إلى الخير، وإن كانت غير ذلك كان شرا تضعونه عن رقابكم ".وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَهَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، قَالَ هَارُونُ حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " أَسْرِعُوا بِالْجَنَازَةِ فَإِنْ كَانَتْ صَالِحَةً قَرَّبْتُمُوهَا إِلَى الْخَيْرِ، وَإِنْ كَانَتْ غَيْرَ ذَلِكَ كَانَ شَرًّا تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ ".
ابو امامہ بن سہل بن حنیف نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روا یت کی انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ئے سنا ہے: " جنا زے میں جلدی کرو اگر (میت) نیک ہے تو تم نے اسے بھلا ئی کے قریب کر دیا اور اگر وہ اس کے سوا ہے تو شر ہے جسے تم اپنی گردنوں سے اتار دو گے۔
مصنف نے اپنی تین اساتذہ سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت بیان کرتے ہیں،وہ کہتےہیں،میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، جنازہ لے جاؤ کیونکہ اگر میت نیک ہے تو تم اسے بھلائی کے قریب کر رہے ہو اور اگر وہ اس کے سوا ہے تو تم شرکو اپنی گردنوں سے اتار رہے ہو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 944

   سنن النسائى الصغرى1911عبد الرحمن بن صخرأسرعوا بالجنازة فإن تك صالحة فخير تقدمونها إليه وإن تك غير ذلك فشر تضعونه عن رقابكم
   سنن النسائى الصغرى1912عبد الرحمن بن صخرأسرعوا بالجنازة فإن كانت صالحة قدمتموها إلى الخير وإن كانت غير ذلك كانت شرا تضعونه عن رقابكم
   صحيح البخاري1315عبد الرحمن بن صخرأسرعوا بالجنازة فإن تك صالحة فخير تقدمونها إليه وإن يك سوى ذلك فشر تضعونه عن رقابكم
   صحيح مسلم2188عبد الرحمن بن صخرأسرعوا بالجنازة فإن كانت صالحة قربتموها إلى الخير وإن كانت غير ذلك كان شرا تضعونه عن رقابكم
   صحيح مسلم2186عبد الرحمن بن صخرأسرعوا بالجنازة فإن تك صالحة فخير لعله قال تقدمونها عليه وإن تكن غير ذلك فشر تضعونه عن رقابكم
   جامع الترمذي1015عبد الرحمن بن صخرأسرعوا بالجنازة فإن يكن خيرا تقدموها إليه وإن يكن شرا تضعوه عن رقابكم
   سنن أبي داود3181عبد الرحمن بن صخرأسرعوا بالجنازة فإن تك صالحة فخير تقدمونها إليه وإن تك سوى ذلك فشر تضعونه عن رقابكم
   سنن ابن ماجه1477عبد الرحمن بن صخرأسرعوا بالجنازة فإن تكن صالحة فخير تقدمونها إليه وإن تكن غير ذلك فشر تضعونه عن رقابكم
   بلوغ المرام460عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏اسرعوا بالجنازة فإن تك صالحة فخير تقدمونها إليه وإن تك سوى ذلك فشر تضعونه عن رقابكم
   مسندالحميدي1052عبد الرحمن بن صخرأسرعوا بالجنازة، فإن تك صالحة، فخير تقدمونها إليه، وإن تكن سوى ذلك فشر تضعونه عن رقابكم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 460  
´میت کو دفن کرنے میں جلدی کرنی چاہیے`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنازہ لے جانے میں جلدی کیا کرو۔ اس لئے کہ اگر مرنے والا صالح اور نیک آدمی تھا تو اس کے لئے بہتر ہو گا کہ اسے بہتر جگہ کی طرف جلدی لے جاؤ اور اگر دوسرا ہے (برا آدمی ہے) تو اپنی گردن سے اتار کر رکھ دو۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 460]
لغوی تشریح:
«اَسْرِعُوا» چلنے میں جلدی کرو، یا اس کا مطلب یہ ہے کہ موت کے وقوع کے یقینی ہونے کے بعد میت کی تجہیز و تکفین میں جلدی کرو۔
«تَضَعُونَهُ» وضع سے ماخوذ ہے جس کے معنی اتار کر رکھ دینے کے ہیں۔ یہ حمل کے مقابلے میں بولا جاتا ہے جس کے معنی اٹھانے کے ہوتے ہیں۔ اور یہ کنایۃ اپنے سے دور کر دینے کے معنی میں مستعمل ہے۔

فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وفات ہو جانے کی بعد میت کو دفن کرنے میں جلدی کرنی چاہیے، دور دراز کے اقارب و احباب کو جمع کرنا اور ان کی آمد کے انتظار میں تاخیر کرنا خلاف سنت ہے، نیز اسی طرح اگر کوئی شخص اپنے گھر سے دور کسی اور جگہ یا کسی دوسرے ملک میں فوت ہو جاتا ہے تو اسے اپنے ملک میں واپس لانے کے بجائے ادھر ہی دفن کر دینا چاہیے جس ملک میں اس کی وفات ہوئی ہے، مثلاً: اگر کوئی شخص حج یا عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب جاتا ہے اور وہاں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے تو اسے واپس پاکستان لانے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اسے ادھر ہی دفن اقرب الی السنہ ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 460   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1477  
´جنازہ میں شرکت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنازہ کو جلدی لے کر چلو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اس کو نیکی کی طرف جلدی پہنچا دو گے، اور اگر بد ہے تو بدی کو اپنی گردن سے اتار پھینکو گے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1477]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
میت کو غسل دینے کے بعد کفن کرنے میں بلاوجہ تاخیر کرنا درست نہیں۔

(2)
بعض لوگ دفن کرنے میں اس لئے دیر کردیتے ہیں۔
کہ متوفی کے بعض قریبی رشتہ دار دوسرے شہر یا ملک سے آئیں گے تب دفن کیا جائے گا۔
یہ رواج غلط ہے۔
بعد میں آنے والے قبر پر جا کر میت کے حق میں دعا کریں۔
اورچاہیں تو قبر پر نماز جنازہ ادا کر لیں۔
اس کی دلیل صحیح بخاری کی یہ روایت ہے۔
کہ ایک خاتون مسجد نبویﷺ کی صفائی کیا کرتی تھی۔
ایک رات اس کی وفات ہوگئی۔
صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے رسول اللہﷺ کوتکلیف دینا مناسب نہ سمجھا اور اس کا جنازہ پڑھ کر اسے دفن کردیا۔
جب رسول اللہﷺ کو اس خاتون کی وفات کا علم ہوا تو اس کی قبر پر جا کر جنازہ پڑھا۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، الجنائز، باب الصلاۃ علی القبر بعد ما یدفن، حدیث: 1337)

(3)
جلدی دفن کرنے کی ایک حکمت یہ بھی ہے۔
کہ نیک مومن جلد اپنے ٹھکانے پر پہنچ جائے کیونکہ اس کے لئے اس جہاں میں خیر ہی خیر ہے اور بُرا آدمی جتنی جلدی گھر سے نکلے اتنا ہی بہتر ہے تاکہ دفن کرنے والے اپنے فرض سے جلد سبک دوش ہوجایئں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1477   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1015  
´جنازہ تیزی سے لے جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جنازہ تیزی سے لے کر چلو ۱؎، اگر وہ نیک ہو گا تو اسے خیر کی طرف جلدی پہنچا دو گے، اور اگر وہ برا ہو گا تو اسے اپنی گردن سے اتار کر (جلد) رکھ دو گے۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1015]
اردو حاشہ: 1؎:
جمہورکے نزدیک امراستحباب کے لیے ہے،
ابن حزم کہتے ہیں کہ وجوب کے لیے ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1015   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3181  
´جنازہ جلدی لے جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنازہ لے جانے میں جلدی کیا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے نیکی کی طرف پہنچانے میں جلدی کرو گے اور اگر نیک نہیں ہے تو تم شر کو جلد اپنی گر دنوں سے اتار پھینکو گے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3181]
فوائد ومسائل:
وفات ہوجانے کے بعد میت کو دفن کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔
دوردراز کے اقارب واحباب کو جمع کرنا اور ان کی آمد کے انتظار میں تاخیر کرنا ایک غیر شرعی اور نامناسب عمل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3181   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2188  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
میت نیک ہو یا بد اسے ہر صورت میں تیز رفتاری سے لے جانا چاہیے۔
تاکہ وہ جلد اپنے انجام تک پہنچے۔
اور ہم ا پنے فریضہ سے سبکدوش ہوں اس لیے جنازہ کو جلدی لے جانا بالاتفاق مستحب ہے۔
اور ا بن حزم رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک فرض ہے۔
جمہور کے نزدیک عام رفتار سے تیزی مراد ہے بھاگنا جائز نہیں ہے لیکن احناف کے نزدیک زیادہ تیز رفتاری مراد ہے۔
یعنی بہت تیزی کرنی چائیے اور آج کل اس بات کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں سنت پر چلنے کی توفیق دے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 2188   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.