الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
62. بَابُ الْبَوْلِ عِنْدَ سُبَاطَةِ قَوْمٍ:
62. باب: کسی قوم کی کوڑی پر پیشاب کرنا۔
(62) Chapter. To urinate near the dumps of some people.
حدیث نمبر: 226
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عرعرة، قال: حدثنا شعبة، عن منصور، عن ابي وائل، قال: كان ابو موسى الاشعري يشدد في البول، ويقول: إن بني إسرائيل كان إذا اصاب ثوب احدهم قرضه، فقال حذيفة: ليته امسك،" اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم سباطة قوم فبال قائما".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ يُشَدِّدُ فِي الْبَوْلِ، وَيَقُولُ: إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَ إِذَا أَصَابَ ثَوْبَ أَحَدِهِمْ قَرَضَهُ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: لَيْتَهُ أَمْسَكَ،" أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُبَاطَةَ قَوْمٍ فَبَالَ قَائِمًا".
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے منصور کے واسطے سے بیان کیا، وہ ابووائل سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ اشعری پیشاب (کے بارہ) میں سختی سے کام لیتے تھے اور کہتے تھے کہ بنی اسرائیل میں جب کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا۔ تو اسے کاٹ ڈالتے۔ ابوحذیفہ کہتے ہیں کہ کاش! وہ اپنے اس تشدد سے رک جاتے (کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کی کوڑی پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔


Hum se Muhammed bin ’Ar’arah ne bayan kiya, kaha hum se Sho’bah ne Mansoor ke waaste se bayan kiya, woh Abu Waail se naql karte hain, woh kehte hain ke Abu Musa Ash’ari peshaab (ke baare) mein sakhti se kaam lete the aur kehte the ke Bani Israel mein jab kisi ke kapde ko peshaab lag jaata to use kaat daalte. Abu Huzaifah kehte hain ke kaash! Woh apne is tashaddud se ruk jaate (kiunki) Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam kisi qaum ki koodi (kooda karkat daalne ki jagah) par tashreef laaye aur Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne wahaan khade ho kar peshaab kiya.

Narrated Abu Wail: Abu Musa Al-Ash`ari used to lay great stress on the question of urination and he used to say, "If anyone from Bani Israel happened to soil his clothes with urine, he used to cut that portion away." Hearing that, Hudhaifa said to Abu Wail, "I wish he (Abu Musa) didn't (lay great stress on that matter)." Hudhaifa added, "Allah's Apostle went to the dumps of some people and urinated while standing."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 226


   صحيح البخاري225حذيفة بن حسيلأتى سباطة قوم خلف حائط فقام كما يقوم أحدكم فبال فانتبذت منه فأشار إلي فجئته فقمت عند عقبه حتى فرغ
   صحيح البخاري2471حذيفة بن حسيلبال قائما
   صحيح البخاري226حذيفة بن حسيلبال قائما
   صحيح مسلم625حذيفة بن حسيلأتى سباطة خلف حائط فقام كما يقوم أحدكم فبال فانتبذت منه فأشار إلي فجئت فقمت عند عقبه حتى فرغ
   سنن النسائى الصغرى28حذيفة بن حسيلمشى إلى سباطة قوم فبال قائما
   سنن النسائى الصغرى26حذيفة بن حسيلأتى سباطة قوم فبال قائما
   سنن النسائى الصغرى27حذيفة بن حسيلأتى سباطة قوم فبال قائما
   سنن ابن ماجه305حذيفة بن حسيلأتى سباطة قوم فبال عليها قائما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 226  
´کسی قوم کی کوڑی پر پیشاب کرنا`
«. . . عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ يُشَدِّدُ فِي الْبَوْلِ، وَيَقُولُ: إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَ إِذَا أَصَابَ ثَوْبَ أَحَدِهِمْ قَرَضَهُ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ: لَيْتَهُ أَمْسَكَ، " أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُبَاطَةَ قَوْمٍ فَبَالَ قَائِمًا " . . . .»
. . . وہ ابووائل سے نقل کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ` ابوموسیٰ اشعری پیشاب (کے بارہ) میں سختی سے کام لیتے تھے اور کہتے تھے کہ بنی اسرائیل میں جب کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا۔ تو اسے کاٹ ڈالتے۔ ابوحذیفہ کہتے ہیں کہ کاش! وہ اپنے اس تشدد سے رک جاتے (کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قوم کی کوڑی پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہو کر پیشاب کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الْبَوْلِ عِنْدَ سُبَاطَةِ قَوْمٍ:: 226]

تشریح:
حضرت کی غرض یہ تھی کہ پیشاب سے بچنے میں احتیاط کرنا ہی چاہئیے۔ لیکن خواہ مخواہ کا تشدد اور زیادتی سے وہم اور وسوسہ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے عمل میں اتنی ہی احتیاط چاہئیے جتنی آدمی روزمرہ کی زندگی میں کر سکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 226   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 26  
´صحرا (میدان) میں کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی رخصت۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے کوڑا خانہ پر آئے تو کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 26]
26۔ اردو حاشیہ:
① مذکورہ روایت اور اس کی تفہیہم پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے، سنن نسائي حدیث: 18 یہاں دوبارہ پیش کی جا رہی ہے۔
´قضائے حاجت کے لیے دور نہ جانے کی رخصت کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا کہ آپ لوگوں کے ایک کوڑے خانہ پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا ۱؎، میں آپ سے دور ہٹ گیا، تو آپ نے مجھے بلایا ۲؎، (تو جا کر) میں آپ کی دونوں ایڑیوں کے پاس (کھڑا) ہو گیا یہاں تک کہ آپ (پیشاب سے) فارغ ہو گئے، پھر آپ نے وضو کیا اور اپنے دونوں موزوں پر مسح کیا۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 18]

18۔ اردو حاشیہ:
➊ سنن نسائي حدیث ۱۸ کی یہ روایت مختصر ہے جس سے بعض غلط فہمیوں کا امکان ہے، اس لیے ترجمے میں قوسین کے ذریعے سے وضاحت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ صحیح صورت واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوڑے کے ڈھیر پر پیشاب کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حسب معمول آپ سے دور ہونے لگے، لیکن چونکہ آپ کو صرف پیشاب کی حاجت تھی جس میں آواز یا بدبو کا امکان نہ تھا (خصوصاً قیام کی حالت میں) اس لیے آپ نے انہیں کہا: اے حذیفہ! مجھے اوٹ کرو۔ وہ آپ سے قریب پچھلی طرف دوسری جانب منہ کر کے کھڑے ہو گئے۔ (ایڑیوں کے قریب سے مراد مطلق قرب ہے نہ کہ حقیقتاً ایڑیوں سے ایڑیاں ملا کر۔) اس طرح آپ کی طرف نظر کا امکان نہ رہا اور پورا پردہ ہو گیا۔
➋ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عام عادت بیٹھ کر پیشاب کرنے ہی کی تھی مگر مذکورہ واقعہ میں آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ اس کی مختلف عقلی و نقلی توجیہات کی گئی ہیں، مثلاً: ڈھیر کی گندگی سے بچنے کے لیے کیونکہ ڈھیر پر بیٹھنے کی صورت میں کپڑوں یا جسم کو گندگی لگ سکتی تھی یا اس لیے کہ پیشاب کی دھار دور گرے۔ بیٹھنے کی صورت میں پیشاب قریب گرتا اور واپس پاؤں کی طرف آتا، نیز چھینٹے بھی پڑتے یا گھٹنے میں تکلیف کی وجہ سے بیٹھنا مشکل تھا جیسا کہ بیہقی کی ایک ضعیف روایت میں ہے۔ [السنن الکبریٰ، للبیھقی: 101/1]
یا کمر درد کے علاج کے لیے جیسا کہ اطباء کا خیال تھا۔ بہرحال مذکورہ توجیہات کی روشنی میں عمومی رائے یہی ہے کہ آپ کے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی ان میں سے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور تھی، لیکن تحقیق یہ ہے کہ ان مذکورہ وجوہ میں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کوئی ایک وجہ بھی بسند صحیح ثابت نہیں، اس لیے اس کے مقابلے میں ایک دوسری رائے بھی ہے جسے امام نووی رحمہ اللہ وغیرہ نے اختیار کیا اور وہ یہ ہے کہ آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب صرف بیان جواز کے لیے کیا ہے جبکہ آپ کی عام عادت بیٹھ کر ہی پیشاب کرنے کی تھی۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، اطھارۃ، حدیث: 274، مع شرح النووي]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس کے متعلق فرماتے ہیں، «وإلا ظھر أنه فعل ذلک لبیان الجواز……» زیادہ واضح بات یہ ہے کہ آپ کا یہ عمل صرف بیان جواز کے لیے تھا…… [فتح الباري: 430/1، طبع دارالسلام]
نیز حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بارے میں منقول توجیہات کو گویا قابل حجت نہیں سمجھا، بہرحال اگر کوئی شخص ضرورت کے پیش نظر یا کبھی کبھار بلا ضرورت ہی جواز کو پیش نظر رکھتے ہوئے کھڑے ہو کر سنت پر عمل کی خاطر پیشاب کر لیتا ہے تو ان شاء اللہ جائز ہو گا۔ واللہ أعلم۔
➌ باب کا مقصد یہ ہے کہ اگر آواز یا بدبو کا خدشہ نہ ہو تو پیشاب کے لیے صرف پردہ کافی ہے، دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔

② سنن نسائي میں اس باب کی پہلی حدیث سلیمان اعمش، ابووائل سے اور وہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں اور دوسری حدیث میں ابووائل کے شاگرد منصور ہیں، اس میں منصور نے ابووائل سے سماع کی صراحت فرمائی ہے اور تیسری حدیث میں سلیمان اور منصور دونوں ابووائل سے بیان کرتے ہیں لیکن منصور نے صرف آپ کے پیشاب کرنے کا ذکر کیا ہے جبکہ سلیمان نے اس کے بعد موزوں پر مسح کرنے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 26   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث305  
´کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کے حکم کا بیان۔`
حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک قوم کے کوڑا خانہ پر آئے، اور اس پر کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 305]
اردو حاشہ:
(1)
پیشاب کرنے کے لیے بہتر طریقہ یہ ہے کہ بیٹھ کر اس حاجت سے فراغت حاصل کی جائے۔
نبی کریمﷺ کی اکثر عادت مبارکہ بیٹھ کر پیشاب کرنے کی تھی۔

(2)
اس مقام پر نبی ﷺ نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔
ممکن ہے اس کا سبب امت کو یہ بتانا ہو کہ یہ بھی جائز ہے تاکہ اگر کسی کو کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو وہ حرج محسوس نہ کرے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ خود رسول اللہ ﷺ نے کوئی ایسی ضرورت محسوس کی ہو، مثلاً:
بیٹھ کر پیشاب کرنے کی صورت میں جسم یا کپڑوں پر چھینٹے پڑنے کا اندیشہ محسوس ہوا ہو۔
یا کسی عذر کی وجہ سے بیٹھنے میں مشقت محسوس ہوئی ہو۔
واللہ أعلم،  تاہم یہ احتیاط ضروری ہے کہ پیشاب کے چھینٹے کپڑے یا جسم پر نہ پڑیں۔

(3)
کچھ لوگوں کی کوڑا پھینکنے کی جگہ کا مطلب یہ ہے کہ اس محلے کے لوگ اپنا کوڑا کرکٹ وہاں پھینکا کرتے تھے۔

(4)
نبیﷺ نے پیشاب کے لیے وہ جگہ اس لیے پسند فرمائی کہ وہاں دیوار کی اوٹ موجود تھی اس لیے پردے کا اہتمام بہتر طور پر ممکن تھا۔ دیکھیے:  (صحیح مسلم، الطھارۃ، باب المسح علی الخفین حدیث: 273)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 305   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:226  
226. حضرت ابووائل سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ پیشاب کے معاملے میں بہت تشدد سے کام لیتے تھے اور کہتے تھے کہ بنی اسرائیل میں اگر کسی کے کپڑے کو پیشاب لگ جاتا تو وہ متاثرہ کپڑے کو کاٹ دیتا تھا۔ حضرت حذیفہ ؓ نے فرمایا: کاش وہ ایسا (تشدد) نہ کرتے۔ رسول اللہ ﷺ کسی قوم کے گھورے پر تشریف لے گئے اور وہاں آپ نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:226]
حدیث حاشیہ:

شارحین نے اس باب سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی متعدد اغراض ذکر کی ہیں:
(1)
۔
شاہ ولی اللہ تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ کوڑے کرکٹ کے ڈھیر (گھورے)
اگرچہ کسی دوسرے کی ملکیت ہوتے ہیں، لیکن ان پر بول و براز کے لیے کسی اجازت کی ضرورت نہیں، کیونکہ انھیں گندگی جمع کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔
اس لیے پیشاب کرنا اس قسم کا تصرف نہیں جس سے مالک ناراض ہو۔
(2)
۔
اس عنوان سے گندگی کے مقامات پر پیشاب کا طریقہ بتایا گیا ہے کہ ایسی جگہوں پر کھڑے ہو کر پیشاب کرنا چاہیے بیٹھ کر پیشاب کرنے سے کپڑوں اور بدن کی آلودگی کا اندیشہ ہے۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ تقویٰ طہارت کی بنا پر پیشاب کے معاملے میں بہت متشدد تھے۔
وہ اپنے ساتھ شیشے کی بوتل رکھتے، اس میں پیشاب کر کے اسے زمین پر بہا دیتے۔
ابن منذر نے اس کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی شخص کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھا تو فرمایا:
تمھیں کھڑے ہو کر نہیں بلکہ بیٹھ کر پیشاب کرنا چاہیے تھا۔
بنی اسرائیل کا عمل یہ تھا کہ اگر کسی شخص کے کپڑے کو نجاست لگ جاتی تو وہ اسے کاٹ ڈالتا تھا، لہٰذا ہمیں بھی پیشاب کے سلسلے میں احتیاط کرنی چاہیے۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے وضاحت فرمائی کہ پیشاب کے معاملے میں اتنے تشدد کی ضرورت نہیں، کیونکہ دین اسلام کی بنیاد یُسر وسہولت پر ہے۔
خود رسول اللہ ﷺ نے (گھورے پر)
کھڑے ہو کر پیشاب کیا اور اس طرح پیشاب کرنے میں باریک باریک چھینٹوں کا اندیشہ باقی رہتا ہے، لیکن آپ نے اس قسم کے دور از کار احتمالات کی بالکل پروا نہیں کی۔

علامہ ابن بطال نے لکھا ہے کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی روایت ان لوگوں کی دلیل ہے جو پیشاب کے معمولی چھینٹوں کو قابل معافی سمجھتے ہیں، کیونکہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے سوئی کی نوک کے برابر چھینٹوں کے اڑنے اور ان کے کپڑوں پر آنے کا احتمال تو عام طور پر باقی رہتا ہے، پھر سوئی کی نوک کے برابر پیشاب کے چھینٹوں کے متعلق اختلاف ہے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے انھیں دھونا مستحب قراردیا ہے جبکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اسے واجب کہتے ہیں اور اہل کوفہ نے دوسری نجاستوں کی طرح اس میں بھی سہولت اور رخصت دی ہے۔
(شرح ابن بطال: 337/1)

اصلاحی صاحب نے تدبر حدیث کی آڑ میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہدف تنقید بنایا ہے لکھتے ہیں:
بنی اسرائیل سے متعلق ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بات سنی سنائی معلوم ہوتی ہے اس زمانے میں عرب کے لوگوں کو سابقہ ادیان کے بارے میں جو معلومات حاصل تھیں وہ مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں رہنے والے اہل کتاب سے سنی ہوئی تھیں۔
وہ صحیفوں سے براہ راست ناقدانہ واقفیت نہ رکھتے تھے۔
(تدبر حدیث: 318/1)
حالانکہ یہود کے ہاں نجاسات کے معاملے میں بڑا تشدد تھا۔
قرآن کریم نے بھی اس طرف اشارہ فرمایا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ﴾ اور ان لوگوں پر جو بوجھ اور طوق تھے ان کو دور کرتے ہیں۔
(الأعراف: 157/7)
اس بوجھ اور طوق کی تفسیر میں مفسرین نے لکھا ہے کہ ان یہودیوں کے ہاں جس کپڑے کو نجاست لگ جاتی اس کا قطع کرنا ضروری تھا جسے شریعت اسلامیہ نے صرف دھونے کا حکم دیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 226   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.