الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وضو کے بیان میں
The Book of Wudu (Ablution)
64. بَابُ غَسْلِ الْمَنِيِّ وَفَرْكِهِ وَغَسْلِ مَا يُصِيبُ مِنَ الْمَرْأَةِ:
64. باب: منی کا دھونا اور اس کا کھرچنا ضروری ہے، نیز جو چیز عورت سے لگ جائے اس کا دھونا بھی ضروری ہے۔
(64) Chapter. The washing out of semen with water and rubbing it off (when it is dry) and the washing out of what comes out of women (i.e. discharge).
حدیث نمبر: 229
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبدان، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا عمرو بن ميمون الجزري، عن سليمان بن يسار، عن عائشة، قالت:" كنت اغسل الجنابة من ثوب النبي صلى الله عليه وسلم، فيخرج إلى الصلاة وإن بقع الماء في ثوبه".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ الْجَزَرِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كُنْتُ أَغْسِلُ الْجَنَابَةَ مِنْ ثَوْبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ وَإِنَّ بُقَعَ الْمَاءِ فِي ثَوْبِهِ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا مجھے عبداللہ ابن مبارک نے خبر دی، کہا مجھے عمرو بن میمون الجزری نے بتلایا، وہ سلیمان بن یسار سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے جنابت کو دھوتی تھی۔ پھر (اس کو پہن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور پانی کے دھبے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں ہوتے تھے۔


Hum se Abdan ne bayan kiya, kaha mujhe Abdullah Ibn-e-Mubarak ne khabar di, kaha mujhe ’Amr bin Maimoon Al-Jazari ne batlaaya, woh Sulaiman bin Yasaar se, woh Aisha Radhiallahu Anha se. Aap farmaati hain ke main Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ke kapde se janabat ko dhooti thi. Phir (us ko pahan kar) Aap Sallallahu Alaihi Wasallam Namaz ke liye tashreef le jaate aur paani ke dhabbe Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ke kapde mein hote the.

Narrated `Aisha: I used to wash the traces of Janaba (semen) from the clothes of the Prophet and he used to go for prayers while traces of water were still on it (water spots were still visible).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 4, Number 229


   صحيح البخاري229عائشة بنت عبد اللهيخرج إلى الصلاة وإن بقع الماء في ثوبه
   صحيح البخاري232عائشة بنت عبد اللهتغسل المني من ثوب النبي ثم أراه فيه بقعة أو بقعا
   صحيح البخاري230عائشة بنت عبد اللهأغسله من ثوب رسول الله فيخرج إلى الصلاة وأثر الغسل في ثوبه بقع الماء
   صحيح البخاري231عائشة بنت عبد اللهأغسله من ثوب رسول الله ثم يخرج إلى الصلاة وأثر الغسل فيه بقع الماء
   صحيح مسلم672عائشة بنت عبد اللهيغسل المني ثم يخرج إلى الصلاة في ذلك الثوب وأنا أنظر إلى أثر الغسل فيه
   سنن أبي داود373عائشة بنت عبد اللهتغسل المني من ثوب رسول الله قالت ثم أرى فيه بقعة أو بقعا
   سنن النسائى الصغرى296عائشة بنت عبد اللهيخرج إلى الصلاة وإن بقع الماء لفي ثوبه
   بلوغ المرام25عائشة بنت عبد اللهيخرج إلى الصلاة في ذلك الثوب،‏‏‏‏ وانا انظر إلى اثر الغسل فيه
   مسندالحميدي186عائشة بنت عبد اللهولم غسله؟ إني كنت لأفرك المني من ثوب رسول الله صلى الله عليه وسلم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 25  
´منی کو مطلقاً کپڑے سے دھونا`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يغسل المني ثم يخرج إلى الصلاة في ذلك الثوب،‏‏‏‏ وانا انظر إلى اثر الغسل فيه . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کپڑے پر لگی ہوئی) منی کو دھویا کرتے تھے۔ پھر اسی کپڑے کو زیب تن فرما کر نماز پڑھ لیتے تھے اور میں دھونے کے نشان اور اثر کو صاف طور پر (اپنی آنکھوں سے) دیکھتی تھی . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 25]

لغوی تشریح:
«أَفْرُكُهُ» اس میں ضمیر متصل ھـ سے مراد منی ہے۔ را کے ضمہ اور کسرہ دونوں کے ساتھ جائز ہے۔ باب «نَصَرَ يَنْصُرُ» اور «ضَرَبَ يَضْرِبُ» دونوں سے آتا ہے۔
«اَلْفَرْك» کے معنی ہیں: مَل کر صاف کرنا یہاں تک کہ نشان اور دھبہ وغیرہ زائل ہو جائے۔
«أَحُكُّهُ» میں بھی ضمیر متصل ھـ سے مراد منی ہے۔ حا کے ضمہ کے ساتھ «حَك» سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی بھی ملنے اور کھرچنے کے ہیں۔
«يَابِسًا» حال واقع ہوا ہے جس کے معنی خشک کے ہیں۔

فوائد و مسائل:
➊ اس بارے میں وارد تمام روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ منی کو مطلقاً کپڑے سے دھونا واجب نہیں، خواہ وہ خشک ہو یا تر، بلکہ اس کو زائل کرنے کے لئے جبکہ وہ تر ہو اتنا ہی کافی ہے کہ اسے ہاتھ، کپڑے، گھاس یا دیگر اشیاء، مثلاً: لکڑی یا سرکنڈے وغیرہ سے صاف کر دیا جائے۔
➋ ایک گروہ نے ان احادیث کی روشنی میں یہ استدلال کیا ہے کہ منی پاک ہے۔ مگر اس میں ایسی کوئی چیز نہیں جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ منی پاک ہے۔ علامہ شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطار میں کہا ہے کہ «تَعَبُّدًا» منی کو دھو کر، ہاتھ کے ساتھ صاف کر کے، اسے مَل کر، کھرچ کر یا رگڑ کر زائل کرنا ثابت ہے۔ کسی چیز کے زائل کرنے کا حکم یہی معنی رکھتا ہے کہ وہ چیز نجس ہے۔ پس صحیح موقف اور صائب مسلک یہی ہے کہ منی ناپاک ہے، لہٰذا مذکورہ بالا تمام طریقہ ہائے طہارت میں سے کسی ذریعے سے اس متاثرہ حصے کو پاک کیا جائے۔ مگر علامہ شوکانی رحمہ اللہ ہی نے السیل الجرار اور الدرر البھیّة میں منی کو پاک قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس کی نجاست پر کوئی نص نہیں۔ گویا اس بارے میں ان کی رائے مختلف ہے۔
➌ واضح رہے کہ اس مسئلے میں اختلاف ہے کہ انسان کا مادہ منویہ پاک ہے یا ناپاک۔ ایک مکتب فکر کی رائے ہے کہ منی آب بینی (ناک کی رطوبت) اور لعاب دہن کی طرح پاک ہے۔ اس نقطہ نظر کی نمائندگی ائمہ میں سے امام شافعی، داود ظاہری، امام احمد رحمها اللہ اور صحابہ میں سے سیدنا علی، سیدنا سعد بن ابی وقاص، سیدنا ابن عمر اور ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہم کرتے ہیں۔ اور دوسرے مکتب فکر کی نمائندگی ائمہ میں سے امام مالک اور امام ابوحنیفہ رحمہما اللہ کرتے ہیں لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک خشک منی کھرچ دینے سے کپڑا پاک ہو جاتا ہے۔ پانی سے دھونا ضروری نہیں۔ دونوں مکتب فکر کے پاس دلائل ہیں۔ منی کو پاک قرار دینے والوں کی دلیل اسے کھرچ دینا ہے۔ چونکہ اس کے بعد کپڑا دھویا نہیں گیا اس لیے یہ پاک ہے ورنہ کھرچنے کے بعد اسے دھویا ضرور جاتا۔ اور جس گروہ نے اسے ناپاک کہا ہے، ان کی دلیل منی سے آلودہ جگہ کو پانی سے دھونا ہے۔ اگر یہ پاک ہوتی تو دھونے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اسے پاک کہنے والوں کا جواب یہ ہے کہ کپڑے کو دھویا تو صرف نظافت کی بنا پر گیا ہے نجاست کی وجہ سے نہیں۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بدائع الفوائد، 3/ 119۔ 126 میں اس پر بڑی نفیس بحث کی ہے۔

راوی حدیث:
SR سیدہ عائشہ صدیقہ بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما ER ہجرت مدینہ سے دو سال قبل ماہ شوال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی زوجیت میں لیا اور رخصتی شوال ایک ہجری میں ہوئی۔ رخصتی کے وقت ان کی عمر نو سال تھی۔ تعریف و توصیف سے مستغنیٰ ہیں۔ 57 یا 58 ہجری کے ماہ رمضان کی 17 تاریخ کو فوت ہوئیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور بقیع کے قبرستان میں دفن کی گئیں۔ بڑی عالمہ فاضلہ تھیں۔ بہت سی احادیث کی راویہ ہیں۔ اشعار عرب سے بخوبی واقف تھیں۔ آپ کی برأت آسمان سے نازل ہوئی جس کا ذکر قرآن مجید کی سورۂ نور میں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہی کے حجرے میں مدفون ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 25   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 229  
´ منی کا دھونا اور اس کا کھرچنا ضروری ہے `
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَغْسِلُ الْجَنَابَةَ مِنْ ثَوْبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَخْرُجُ إِلَى الصَّلَاةِ وَإِنَّ بُقَعَ الْمَاءِ فِي ثَوْبِهِ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے جنابت کو دھوتی تھی۔ پھر (اس کو پہن کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور پانی کے دھبے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے میں ہوتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الْمَنِيِّ وَفَرْكِهِ وَغَسْلِ مَا يُصِيبُ مِنَ الْمَرْأَةِ: 229]

تخريج الحديث:
[165۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 64 باب غسل المني وفركه، وغسل ما يصيب المراة 229، مسلم 289]
فھم الحدیث:
معلوم ہوا کہ کھرچنے اور دھونے کے بعد بھی اگر منی کے کچھ نشان کپڑے پر باقی رہ جائیں تو کوئی حرج نہیں اور اس اس کپڑے میں نماز درست ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ منی پاک ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہے کہ منی ناک کی رطوبت اور تھوک کی مانند ہے۔ اور تمہیں اتنا ہی کافی ہے کہ اسے کسی کپڑے یا اذخر گھاس سے صاف کر لو۔ [صحيح موقوف: الضعيفة 948، دار قطني 124/1، بيهقي 418/2]
امام ابن تیمیہ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور شیخ البانی رحمہم اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔ [التعليق على سبل السلام للشيخ بسام 65/1، فتح الباري 332/1، نظم الفرائد 231/1]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 165   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 373  
´کپڑے میں منی لگ جائے تو اس کے حکم کا بیان۔`
سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے منی دھوتی تھیں، کہتی ہیں کہ پھر میں اس میں ایک یا کئی دھبے اور نشان دیکھتی تھی۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 373]
373۔ اردو حاشیہ:
➊ مرد کا مادہ منویہ اگر گاڑھا ہو تو اس کے جرم کا ازالہ کر دینا لازمی ہے، گیلا ہو تو کسی تنکے وغیرہ سے، خشک ہو تو مسلنے یا اکھیڑنے سے دور کر دیا جائے یا اسے دھویا بھی جا سکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دونوں عمل ثابت ہیں، لیکن اگر رقیق ہو تو دھو لینا زیادہ بہتر اور افضل ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں کہیں کوئی ویسا حکم نہیں دیا جیسے کہ عورتوں کو خون حیض کے بارے میں ہدایات دیں۔
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ منی بلغم کی مانند ہے، اسے دور کرو، خواہ گھاس کے تنکے سے ہو۔
➌ یہ بھی ثابت ہوا کہ صرف آلودہ حصے کو دھو لینا ہی کافی ہوتا ہے، باقی کپڑا پاک رہتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 373   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 296  
´کپڑے سے منی دھونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے سے جنابت کا اثر دھوتی تھی ۱؎، پھر آپ نماز کے لیے نکلتے، اور پانی کے دھبے آپ کے کپڑے پر باقی ہوتے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 296]
296۔ اردو حاشیہ:
➊ جنابت سے سبب جنابت، یعنی منی مراد ہے۔ منی کو کپڑے سے دھونے سے معلوم ہوتا ہے کہ منی پلید ہے اور یہ جمہور اہل علمم کا موقف ہے۔ ان کے بقول مخرج کے لحاظ سے بھی یہ بات زیادہ قوی ہے۔ سابقہ حدیث میں لفظ «أذي» بھی مؤید ہے کیونکہ یہ لفظ قرآن مجید میں حیض کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور حیض بالاتفاق پلید ہے، جب کہ بعض حضرات جن کے سرخیل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں، منی کو پاک سمجھتے ہیں۔ باقی رہا دھونا تو یہ نجاست کی دلیل نہیں، بلکہ نظافت کے لیے بھی دھویا جا سکتا ہے، جیسے ناک کی غلاظت یا بلغم وغیرہ کپڑے کو لگ جائے، تب بھی کپڑا دھویا جاتا ہے، خصوصاً جب کہ کئی دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صرف کپڑا ملنے اور رگڑنے کو کافی سمجھا ہے۔ ویسے بھی منی انبیاء و صلحاء کا مبدا ہے۔ یہ بدبو سے بھی پاک ہے، اس لیے اس مسلک کے حاملین کے نزدیک اسے دوسری پلید چیزوں کے برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
➋ سارا کپڑا دھونا ضروری نہیں۔ صرف آلودگی والی جگہ دھو لی جائے۔
➌ جس کپڑے سے منی دھوئی جائے، اس کے خشک ہونے سے پہلے نماز کے لیے مسجد میں جایا جا سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 296   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:229  
229. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نبی ﷺ کے کپڑے سے جنابت کے اثرات کو دھو ڈالتی تھی اور آپ انہی کپڑوں میں نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے جبکہ پانی کے دھبے آپ کے کپڑے میں باقی ہوتے (نظر آتے) تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:229]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں تین چیزیں بیان کی ہیں:
۔
منی کا دھونا منی کا کھرچ دینا اور عورت کی شرمگاہ سے نکلنے والی رطوبت کا دھونا۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے پہلے خون پیشاب اور مذی کے ساتھ لفظ غسل لا کر ان کے ناپاک ہونے پر تنبیہ کی تھی، اسی طرح یہاں بھی منی اور رطوبت فرج کے ساتھ لفظ غسل لا کر ان کے نجس ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
یہ دوسری بات ہے کہ منی کی نجاست سے طہارت حاصل کرنے کے دو طریقے ہیں، اگر آلودہ کپڑا ترہے تو اسے دھویا جائے۔
اگر منی خشک ہو چکی ہے تو اسے کھرچ دیا جائے۔
بعض روایات میں تر کپڑے سے منی کو تنکے وغیرہ سے دور کر دینے کا ذکر ہے۔
اس کا ذکر ہم آئندہ کریں گے۔

امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں تین امور کا ذکر کیا ہے، لیکن حدیث میں صرف غسل منی کا حکم ہے، باقی دو یعنی فرک (کھرچنے)
اور رطوبت فرج (شرم گاہ کی تری)
کا کیا حکم ہے؟ اس کے متعلق کوئی حدیث ذکر نہیں کی۔
اس کے متعلق شارحین بخاری نے مختلف توجیہات ذکر کی ہیں۔
تاہم ہمارے نزدیک عنوان کے ہر سہ اجزاء حدیث الباب سے ثابت ہیں۔
البتہ ہر جز کے لیے اس کی دلالت الگ الگ نوعیت کی ہے، غسل منی تو عبارت نص سے ثابت ہے اور فرک منی اس طرح ثابت ہے کہ بقائے اثر کا غیر مضر ہونا، حدیث الباب سے واضح طور پرمعلوم ہوتا ہے اور فرک میں بھی ظاہری اجزاء زائل تو ہو جاتے ہیں اس کا خفیف سا اثر باقی رہتا ہے جو چنداں نقصان دہ نہیں۔
اور رطوبت فرج کا ذکر حدیث کے الفاظ "أغسل الجنابة" میں ہے کہ جنابت سے مراد عام منی ہے، خواہ مرد کی ہو یا عورت کی اس کا دھونا متعین ہے۔
اس سے اس کی نجاست ثابت ہو گئی۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فرک منی کے متعلق چند احادیث ذکر کی ہیں:
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے خشک منی کو اپنے ناخن سے کھرچ دیتی تھیں۔
(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 674 (290)
حضرت عائشہ ؓ کے ہاں ایک مہمان ٹھہرا، اسے رات کو احتلام ہو گیا تو اس نے بستر کی چادر دھودی۔
حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اس نے ہمارے کپڑے کو خواہ مخواہ خراب کردیا ہے، صرف اتنا کافی تھا کہ وہ منی کو کھرچ دیتا۔
میں خود رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے اسے کھرچ دیتی تھی۔
(جامع الترمذي، الطهارة، حدیث: 116)
حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے اذخر کے تنکوں کے ذریعے سے منی کو دور کردیتی تھیں، پھر آپ اس میں نماز پڑھ لیتے۔
(صحیح ابن خزیمة: 149/1)
بعض حضرات کا موقف ہے کہ جن کپڑوں سے منی کو کھرچا جاتا تھا وہ نیند کے کپڑے تھے، ان میں نماز پڑھنا ثابت نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یہ موقف صحیح نہیں، کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ میں رسول اللہ ﷺ کے کپڑوں سے منی کو کھرچ ڈالتی تو آپ اس میں نماز ادا کر لیتے۔
(صحیح مسلم، الطهارة، حدیث: 668 (288)
ان احادیث کے پیش نظر یہ موقف غلط ہے کہ مفروک کپڑوں میں نماز پڑھنا ثابت نہیں۔
(فتح الباري: 434/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 229   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.