الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: طلاق کے فروعی احکام و مسائل
Divorce (Kitab Al-Talaq)
31. باب فِي الْقَافَةِ
31. باب: قیافہ جاننے والوں کا بیان۔
Chapter: Regarding Al-Qafah.
حدیث نمبر: 2268
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، بإسناده ومعناه، قال: قالت:" دخل علي مسرورا تبرق اسارير وجهه". قال ابو داود: واسارير وجهه، لم يحفظه ابن عيينة. قال ابو داود: اسارير وجهه هو تدليس من ابن عيينة، لم يسمعه من الزهري، إنما سمع الاسارير من غير الزهري. قال: والاسارير في حديث الليث وغيره. قال ابو داود: وسمعت احمد بن صالح، يقول: كان اسامة اسود شديد السواد مثل القار، وكان زيد ابيض مثل القطن.
(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ: قَالَتْ:" دَخَلَ عَلَيَّ مَسْرُورًا تَبْرُقُ أَسَارِيرُ وَجْهِهِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَأَسَارِيرُ وَجْهِهِ، لَمْ يَحْفَظْهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: أَسَارِيرُ وَجْهِهِ هُوَ تَدْلِيسٌ مِنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ الزُّهْرِيِّ، إِنَّمَا سَمِعَ الْأَسَارِيرَ مِنْ غَيْرِ الْزُهْرِيِّ. قَالَ: وَالْأَسَارِيرُ فِي حَدِيثِ اللَّيْثِ وَغَيْرِهِ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَسَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ صَالِحٍ، يَقُولُ: كَانَ أُسَامَةُ أَسْوَدَ شَدِيدَ السَّوَادِ مِثْلَ الْقَارِ، وَكَانَ زَيْدٌ أَبْيَضَ مِثْلَ الْقُطْنِ.
اس سند سے بھی زہری نے اسی طریق سے اسی مفہوم کی روایت بیان کی ہے اس میں ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش و خرم تشریف لائے آپ کے چہرے کی لکیریں چمک رہی تھیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «أسارير وجهه» کے الفاظ کو ابن عیینہ یاد نہیں رکھ سکے، ابوداؤد کہتے ہیں: «أسارير وجهه» ابن عیینہ کی جانب سے تدلیس ہے انہوں نے اسے زہری سے نہیں سنا ہے انہوں نے «أسارير وجهه» کے بجائے «لأسارير من غير» کے الفاظ سنے ہیں اور «أسارير» کا ذکر لیث وغیرہ کی حدیث میں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن صالح کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ تارکول کی طرح بہت زیادہ کالے تھے ۱؎ اور زید رضی اللہ عنہ روئی کی طرح سفید۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 16581) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: کیونکہ ان کی والدہ جن کا نام برکۃ تھا اور کنیت ام ایمن تھی بہت کالی اور حبشی خاتون تھیں۔

The tradition mentioned above has also been transmitted by ibn Shihab through a different chain of narrators to the same effect. This version adds “She said “he entered upon me looking pleased with the lines of his face brightened. Abu Dawud said “Ibn ‘Uyainah did not remember the words “the lines of his face”. ” Abu Dawud said “The words “the lines of his face” have been narrated by Ibn ‘Uyainah himself. He did not hear Al Zuhri say (these words). He heard some person other than Al Zuhri say these words. The words “the lines of his face” occur in the tradition narrated by Al Laith and others. Abu Dawud said “ I heard Ahmad bin Salih say “Usamah was very black like tar and Zaid was white like cotton. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 12 , Number 2261


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (6771) صحيح مسلم (1459)


تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2268  
´قیافہ جاننے والوں کا بیان۔`
اس سند سے بھی زہری نے اسی طریق سے اسی مفہوم کی روایت بیان کی ہے اس میں ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس خوش و خرم تشریف لائے آپ کے چہرے کی لکیریں چمک رہی تھیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «أسارير وجهه» کے الفاظ کو ابن عیینہ یاد نہیں رکھ سکے، ابوداؤد کہتے ہیں: «أسارير وجهه» ابن عیینہ کی جانب سے تدلیس ہے انہوں نے اسے زہری سے نہیں سنا ہے انہوں نے «أسارير وجهه» کے بجائے «لأسارير من غير» کے الفاظ سنے ہیں اور «أسارير» کا ذکر لیث وغیرہ کی حدیث میں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن صالح کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اسامہ رضی اللہ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2268]
فوائد ومسائل:
حضرت زیدبن حارثہ رجی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کے مولی (آزاد کردہ غلام) تھےاور شرع ایام اسلام میں آپ کے متنبہی (لےپالک) بھی کہلاتے رہتے تھے۔
ان صاحبزادے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺکو انتہائی محبوب تھے۔
ان کا لقب ہی حب رسول الله (رسول اللہ ﷺ کے لاڈلے اور چہیتے) پڑگیا تھا۔
باپ بیٹے میں رنگ کا فرق تھا کیونکہ اسامہ ماں ام ایمن تھی جو حبشن تھیں۔
انہیں رنگ پر ان کا رنگ آیا تو کئی جاہل ان کے نسب پر طعن کرتے تھے جوکہ رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کے لیے اذیت کا باعث تھا۔
مجزز مدلحجی قبیلہ بنو اسد کا معروف قیافہ شناس تھا اور مشرکین اس کی بات قبول کرتے تھے۔
کہیں گزرتے ہوئے اس نے ان دونوں باپ بیٹے کو دیکھ لیا جبکہ ان کے چہرے ڈھنپے ہوئے تھے اور پاؤں ننگے تھے۔
تو اس نے غالباً اپنے علمی رعب کا اظہار کرنےکے لیے یہ جملہ کہ دیا کہ یہ پاؤں باپ بیٹے کے ہیں۔
یہ جملہ مسلمانوں کے لیے حق کی تائید وتقویت اور شبہات کے ازالے کا باعث ثابت ہوا۔
اس سے رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو خوشی ہوئی کہ کفار کا معتقد ان کے اپنے طعن کی تردید کر رہا ہے۔
۔
۔
۔
اس واقعہ میں فقہی استدلال یہ ہے کہ اگر کہیں کسی بچے کے بارے میں کئی لوگ مدعی ہوں یا کسی عورت سے کسی شبہے کی وجہ سے دو تین افراد نے مباشرت کرلی ہو اور بچے کے بارے میں واضح نہ ہوکہ کس کا ہے؟ تو کسی ماہر اور عادل قیافہ شناس کے رائے سے فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔
اگر یہ علم سراسر باطل ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس کے قول پر خوشی کا اظہار نہ فرماتے۔
گزشتہ حدیث لعان (حدیث:2252) میں رسول اللہﷺ کا بیان گزرا ہے کہ بچہ اگر اس اس طرح کا ہوا تو فلاں کا ہوگا۔
اس میں علم قیافہ کی اصلیت کی دلیل ہے۔
نیز حدیث ام سلیم رضی اللہ عنہ میں آتا ہے کہا گر عورت کو احتلام نہیں ہوتا تو بچے کی اس کے ساتھ مشابہت کیونکر ہوتی ہے؟ (صحیح بخاری، العلم، حدیث:130 و صحیح مسلم، الحیض، حدیث:313)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2268   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.