الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: کھیتی باڑی اور بٹائی کا بیان
The Book of Cultivation and Agriculture
17. بَابُ إِذَا قَالَ رَبُّ الأَرْضِ أُقِرُّكَ مَا أَقَرَّكَ اللَّهُ وَلَمْ يَذْكُرْ أَجَلاً مَعْلُومًا فَهُمَا عَلَى تَرَاضِيهِمَا:
17. باب: اگر زمین کا مالک کاشتکار سے یوں کہے میں تجھ کو اس وقت تک رکھوں گا جب تک اللہ تجھ کو رکھے اور کوئی مدت مقرر نہ کرے تو معاملہ ان کی خوشی پر رہے گا (جب چاہیں فسخ کر دیں)۔
(17) Chapter. If the owner of the land (says to the tenant), "let you utilize the land as long as Allah permits you," and does not mention a specfic time for the expiration of the lease, then the lease can be continued according to the approval of both the parties.
حدیث نمبر: 2338
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن المقدام، حدثنا فضيل بن سليمان، حدثنا موسى، اخبرنا نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم. وقال عبد الرزاق: اخبرنا ابن جريج، قال: حدثني موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر،" ان عمر بن الخطاب رضي الله عنهما اجلى اليهود، والنصارى من ارض الحجاز، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما ظهر على خيبر اراد إخراج اليهود منها، وكانت الارض حين ظهر عليها لله ولرسوله صلى الله عليه وسلم وللمسلمين، واراد إخراج اليهود منها، فسالت اليهود رسول الله صلى الله عليه وسلم ليقرهم بها، ان يكفوا عملها ولهم نصف الثمر؟ فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: نقركم بها على ذلك ما شئنا، فقروا بها حتى اجلاهم عمر إلى تيماء، واريحاء".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْمِقْدَامِ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُوسَى، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَقَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ،" أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَجْلَى الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى مِنْ أَرْضِ الْحِجَازِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا ظَهَرَ عَلَى خَيْبَرَ أَرَادَ إِخْرَاجَ الْيَهُودِ مِنْهَا، وَكَانَتِ الْأَرْضُ حِينَ ظَهَرَ عَلَيْهَا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِلْمُسْلِمِينَ، وَأَرَادَ إِخْرَاجَ الْيَهُودِ مِنْهَا، فَسَأَلَتْ الْيَهُودُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُقِرَّهُمْ بِهَا، أَنْ يَكْفُوا عَمَلَهَا وَلَهُمْ نِصْفُ الثَّمَرِ؟ فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نُقِرُّكُمْ بِهَا عَلَى ذَلِكَ مَا شِئْنَا، فَقَرُّوا بِهَا حَتَّى أَجْلَاهُمْ عُمَرُ إِلَى تَيْمَاءَ، وَأَرِيحَاءَ".
ہم سے احمد بن مقدام نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے فضیل بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ انہیں نافع نے خبر دی، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (جب خیبر پر) فتح حاصل کی تھی (دوسری سند) اور عبدالرزاق نے کہا کہ ہم کو ابن جریج نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، ان سے نافع نے، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہودیوں اور عیسائیوں کو سر زمین حجاز سے نکال دیا تھا اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر فتح پائی تو آپ نے بھی یہودیوں کو وہاں سے نکالنا چاہا تھا۔ جب آپ کو وہاں فتح حاصل ہوئی تو اس کی زمین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی ہو گئی تھی۔ آپ کا ارادہ یہودیوں کو وہاں سے باہر کرنے کا تھا، لیکن یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ ہمیں یہیں رہنے دیں۔ ہم (خیبر کی اراضی کا) سارا کام خود کریں گے اور اس کی پیداوار کا نصف حصہ لے لیں گے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جب تک ہم چاہیں تمہیں اس شرط پر یہاں رہنے دیں گے۔ چنانچہ وہ لوگ وہیں رہے اور پھر عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں تیماء اور اریحاء کی طرف جلا وطن کر دیا۔

Narrated Ibn `Umar: `Umar expelled the Jews and the Christians from Hijaz. When Allah's Apostle had conquered Khaibar, he wanted to expel the Jews from it as its land became the property of Allah, His Apostle, and the Muslims. Allah's Apostle intended to expel the Jews but they requested him to let them stay there on the condition that they would do the labor and get half of the fruits. Allah's Apostle told them, "We will let you stay on thus condition, as long as we wish." So, they (i.e. Jews) kept on living there until `Umar forced them to go towards Taima' and Ariha'.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 39, Number 531


   صحيح البخاري2328عبد الله بن عمرعامل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع يعطي أزواجه مائة وسق ثمانون وسق تمر وعشرون وسق شعير
   صحيح البخاري2329عبد الله بن عمرعامل النبي خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع
   صحيح البخاري2331عبد الله بن عمرأعطى خيبر اليهود على أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما خرج منها
   صحيح البخاري2720عبد الله بن عمرأعطى رسول الله خيبر اليهود أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها
   صحيح البخاري2499عبد الله بن عمرأعطى رسول الله خيبر اليهود أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها
   صحيح البخاري3152عبد الله بن عمرنقركم على ذلك ما شئنا
   صحيح البخاري2338عبد الله بن عمرأجلى اليهود والنصارى من أرض الحجاز وكان رسول الله لما ظهر على خيبر أراد إخراج اليهود منها وكانت الأرض حين ظهر عليها لله ولرسوله وللمسلمين وأراد إخراج اليهود منها فسألت اليهود رسول الله ليقرهم بها
   صحيح البخاري2730عبد الله بن عمرنقركم ما أقركم الله
   صحيح البخاري4248عبد الله بن عمرأعطى النبي خيبر اليهود أن يعملوها ويزرعوها ولهم شطر ما يخرج منها
   صحيح مسلم3963عبد الله بن عمرأعطى رسول الله خيبر بشطر ما يخرج من ثمر أو زرع يعطي أزواجه كل سنة مائة وسق ثمانين وسقا من تمر وعشرين وسقا من شعير
   صحيح مسلم3966عبد الله بن عمردفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعتملوها من أموالهم ولرسول الله شطر ثمرها
   صحيح مسلم3967عبد الله بن عمرنقركم بها على ذلك ما شئنا
   صحيح مسلم3962عبد الله بن عمرعامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع
   جامع الترمذي1383عبد الله بن عمرعامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من ثمر أو زرع
   سنن أبي داود3408عبد الله بن عمرعامل أهل خيبر بشطر ما يخرج من ثمر أو زرع
   سنن أبي داود3409عبد الله بن عمردفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعتملوها من أموالهم وأن لرسول الله شطر ثمرتها
   سنن أبي داود3008عبد الله بن عمرأقركم فيها على ذلك ما شئنا كانوا على ذلك وكان التمر يقسم على السهمان من نصف خيبر يأخذ رسول الله الخمس كان رسول الله أطعم كل امرأة من أزواجه من الخمس مائة وسق تمرا وعشرين وسقا شعيرا
   سنن أبي داود3007عبد الله بن عمرعامل يهود خيبر على أنا نخرجهم إذا شئنا فمن كان له مال فليلحق به فإني مخرج يهود فأخرجهم
   سنن النسائى الصغرى3962عبد الله بن عمردفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعملوها بأموالهم وأن لرسول الله شطر ثمرتها
   سنن النسائى الصغرى3961عبد الله بن عمردفع إلى يهود خيبر نخل خيبر وأرضها على أن يعملوها من أموالهم وأن لرسول الله شطر ما يخرج منها
   سنن ابن ماجه2467عبد الله بن عمرعامل أهل خيبر بالشطر مما يخرج من ثمر أو زرع
   المعجم الصغير للطبراني524عبد الله بن عمرأعطى خيبر على النصف مما أخرجت الأرض والنخل
   المعجم الصغير للطبراني517عبد الله بن عمرعامل أهل خيبر بشطر ما يخرج منها من زرع أو تمر يعطي أزواجه في كل عام مائة وسق مائة وسق ثمانين وسقا تمرا وعشرين وسقا شعيرا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1383  
´مزارعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر والوں کے ساتھ خیبر کی زمین سے جو بھی پھل یا غلہ حاصل ہو گا اس کے آدھے پر معاملہ کیا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1383]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے مزارعت (بٹائی پرزمین دینے) کا جواز ثابت ہوتاہے،
ائمہ ثلاثہ اوردیگرعلمائے سلف وخلف سوائے امام ابوحنیفہ کے جواز کے قائل ہیں،
احناف نے خیبرکے معاملے کی تاویل یہ کی ہے کہ یہ لوگ آپﷺ کے غلام تھے،
لیکن یہ تاویل صحیح نہیں کیونکہ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے نُقرُكُم مَا أَقَركُمُ الله ہم تمہیں اس وقت تک برقراررکھیں گے جب تک اللہ تمہیں برقراررکھے گا،
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ آپ کے غلام نہیں تھے،
نیز احناف کا کہنا ہے کہ یہ معدوم یا مجہول پیداوار کے بدلے اجارہ ہے جو جائز نہیں،
اس کا جواب جمہوریہ دیتے ہیں کہ اس کی مثال مضارب کی ہے کہ مضارب جس طرح نفع کی امید پر محنت کرتا ہے اوروہ نفع مجہول ہے اس کے باوجود وہ جائز ہے،
اسی طرح مزارعت میں بھی یہ جائز ہوگا،
رہیں وہ روایات جو مزارعت کے عدم جواز پر دلالت کرتی ہیں توجمہور نے ان روایات کی تاویل کی ہے کہ یہ روایات نہی تنزیہی پر دلالت کرتی ہیں،
یا یہ ممانعت اس صورت میں ہے جب صاحب زمین کسی مخصوص حصے کی پیداوار خود لینے کی شرط کر لے (واللہ اعلم) حاصل بحث یہ ہے کہ مزارعت کی جائز شکل یہ ہے کہ مالک اوربٹائی پر لینے والے کے مابین زمین سے حاصل ہو نے والے غلّہ کی مقدار اس طرح متعین ہو کہ دونوں کے مابین جھگڑے کی نوبت نہ آئے اور غلّہ سے متعلق نقصان اور فائدہ میں طے شدہ امرکے مطابق دونوں شریک ہوں یا روپے کے عوض زمین بٹائی پر دی جائے اورمزارعت کی وہ شکل جوشرعاً ناجائز ہے وہ حنظلہ بن قیس انصاری کی روایت میں ہے،
وہ کہتے ہیں رافع بن خدیج کہتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں زمین کی بٹائی کا معاملہ اس شرط پر کرتے تھے کہ زمین کے اس مخصوص حصے کی پیداوارمیں لوں گا اورباقی حصے کی تم لینا،
تونبی اکرمﷺ نے اس سے منع فرما دیا کیونکہ اس صورت میں کبھی بٹائی پر لینے والے کا نقصان ہوتا کبھی دینے والے کا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1383   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3008  
´خیبر کی زمینوں کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ: آپ ہمیں اس شرط پر یہیں رہنے دیں کہ ہم محنت کریں گے اور جو پیداوار ہو گی اس کا نصف ہم لیں گے اور نصف آپ کو دیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا ہم تمہیں اس شرط پر رکھ رہے ہیں کہ جب تک چاہیں گے رکھیں گے،، چنانچہ وہ اسی شرط پر رہے، خیبر کی کھجور کے نصف کے کئی حصے کئے جاتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے پانچواں حصہ لیتے، اور اپنی ہر بیوی کو سو وسق کھجور اور بیس وسق جو (سال بھر میں) دیتے، پھر جب عمر رضی اللہ عنہ نے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3008]
فوائد ومسائل:

صحیح مسلم کی روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا نے زمین اور پانی کا انتخاب کیا۔
اور بعض دیگر ازواج مطہرات نے رضی اللہ عنہما نے حسب سابق متعین حصہ چنا۔
صحیح مسلم کی یہ روایت بھی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حوالے سے ہے۔
اور زیادہ مفصل اور واضح ہے۔
اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے خیبر میں فے کی زمینوں کی آمدنی میں سے سالانہ خرچ کے طور پر اپنی ہر زوجہ محترمہ کو کل سو وسق اسی وسق کھجور اور بیس وسق جو مقرر فرمائے تھے۔
(صحیح مسلم، المساواة، حدیث:1551) ابو دائود کی حدیث 3006 میں بھی یہی مقدار مذکور ہے۔
البتہ موجودہ روایت میں کل سو وسق کی بجائے کھجور سو وسق اور اس کے علاوہ جو بیس وسق کی مقدار بیان کی گئی ہے۔
معلوم ہوتا ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرنے والے رایوں میں سے کوئی راوی ظن وتخمین سے مقدار بیان کرتے ہوئے التباس کا شکار ہوگیا۔
اور کل سو کی بجائے کھجور سو وسق اور جو بیس وسق کا ذکرکیا گیا۔
(فتح الودود بحوالة عون المعبود باب ما جاء في حکم أرض خیبر)

خیبر کے طریق کے مطابق بٹائی پر زمین لینا اور دینا جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3008   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2338  
2338. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہودونصاریٰ کو سرزمین حجاز سے نکال دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب خیبر پر غلبہ پایا تو اسی وقت یہودیوں کو وہاں سے نکال دینا چاہا کیونکہ غلبہ پاتے ہی وہ زمین اللہ، اس کے رسول اللہ ﷺ اور تمام مسلمانوں کی ہوگئی تھی۔ پھر آپ نے وہاں سے یہود کو نکالنے کا ارادہ فرمایا تو یہود نےآپ سے درخواست کی کہ انھیں اس شرط پر وہاں رہنے دیاجائے کہ وہ کام کریں گے اور انھیں نصف پیداوار ملے گی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہم تمھیں اس کام پر رکھیں گے جب تک ہم چاہیں گے۔ (چنانچہ یہود وہاں رہے تاآنکہ حضرت عمر ؓ نے انھیں مقام تیما اور مقام اریحاء کی طرف جلا وطن کردیا۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2338]
حدیث حاشیہ:
کیوں کہ وہ ہر وقت مسلمانوں کے خلاف خفیہ سازشیں کیا کرتے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2338   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2338  
2338. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے یہودونصاریٰ کو سرزمین حجاز سے نکال دیا۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب خیبر پر غلبہ پایا تو اسی وقت یہودیوں کو وہاں سے نکال دینا چاہا کیونکہ غلبہ پاتے ہی وہ زمین اللہ، اس کے رسول اللہ ﷺ اور تمام مسلمانوں کی ہوگئی تھی۔ پھر آپ نے وہاں سے یہود کو نکالنے کا ارادہ فرمایا تو یہود نےآپ سے درخواست کی کہ انھیں اس شرط پر وہاں رہنے دیاجائے کہ وہ کام کریں گے اور انھیں نصف پیداوار ملے گی۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہم تمھیں اس کام پر رکھیں گے جب تک ہم چاہیں گے۔ (چنانچہ یہود وہاں رہے تاآنکہ حضرت عمر ؓ نے انھیں مقام تیما اور مقام اریحاء کی طرف جلا وطن کردیا۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2338]
حدیث حاشیہ:
(1)
مزارعت کا معاملہ کرتے وقت جب مدت معین نہ ہو تو انصاف کا تقاضا ہے کہ فیصلہ باہمی رضا مندی سے ہو۔
اس میں کم از کم ایک سال کی مدت تو ہونی چاہیے تاکہ فصل کے درمیان کاشتکار کو بے دخل کر کے اسے نقصان نہ پہنچایا جائے، اسے فصل کی تیاری تک ضرور مہلت دینی چاہیے۔
(2)
حضرت عمر ؓ نے یہود کو اس لیے بے دخل کیا تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی آخری وصیت تھی کہ یہود کو جزیرۂ عرب سے نکال دیا جائے، چنانچہ جب ان کی شرارتیں اور خباثتیں انتہا کو پہنچ گئیں تو حضرت عمر ؓ نے انہیں نکال باہر کیا، لہذا حضرت عمر کا یہ اقدام کسی پیشگی معاہدے کی خلاف ورزی نہیں تھا۔
وقتی طور پر انہیں جلا وطن کرنے کا سبب یہ بنا کہ حضرت ابن عمر ؓ اپنے باغات کی دیکھ بھال کے لیے خیبر گئے تو ان کے ہاتھ پاؤں توڑ دیے گئے۔
حضرت عمر ؓ کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو انہوں نے فرمایا:
یہود کے علاوہ ہمارا وہاں کوئی دشمن نہیں، ہمارے وہی دشمن ہیں، لہذا ہم ان کے علاوہ اور کسی کو مہتم نہیں کرتے، اس لیے میری رائے ہے کہ اب انہیں جلا وطن کر دیا جائے۔
(صحیح البخاري، الشروط، حدیث: 2730) (3)
امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان میں یہ الفاظ ہیں:
میں تمہیں اس وقت تک رہنے دوں گا جب تک اللہ تمہیں رہنے دے گا۔
جبکہ حدیث میں ہے کہ جب تک ہم تمہیں رکھیں گے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ حدیث، عنوان کے مطابق نہیں جیسا کہ بعض بزعم خویش اہل علم نے دعویٰ کیا ہے بلکہ یہ امام صاحب کی ذہانت اور جودتِ طبع کا نتیجہ ہے۔
دراصل امام بخاری نے مذکورہ عنوان سے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جو انہوں نے کتاب الشروط (حدیث: 2730)
میں بیان کی ہے۔
اس میں یہ الفاظ ہیں:
جب تک تمہیں اللہ رہنے دے گا۔
اور اس مقام پر بیان کردہ حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے:
جب معاملہ مزارعت میں شرط کی جائے کہ جب چاہوں گا تجھے نکال دوں گا۔
بہرحال ہر عنوان میں ہر حدیث کو ملحوظ رکھ کر ایک کی دوسرے سے تفسیر کی ہے۔
مطلب یہ ہے کہ مدت باہمی رضا مندی سے طے ہو گی، نیز یہود کا اخراج مشیت الٰہی کے مطابق تھا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2338   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.