سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: قضا کے احکام و مسائل
The Chapters on Rulings
26. بَابُ : مَنْ وَجَدَ مَتَاعَهُ بِعَيْنِهِ عِنْدَ رَجُلٍ قَدْ أَفْلَسَ
26. باب: ایک شخص کا دیوالیہ ہو گیا اور کسی نے اپنا مال اس کے پاس پا لیا تو اس کے حکم کا بیان۔
Chapter: One Who finds His Exact Property With A Man Who Has Become Bankrupt
حدیث نمبر: 2361
Save to word مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عثمان بن سعيد بن كثير بن دينار الحمصي ، حدثنا اليمان بن عدي ، حدثني الزبيدي محمد بن الوليد ، عن الزهري ، عن ابي سلمة ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ايما امرئ مات وعنده مال امرئ بعينه اقتضى منه شيئا او لم يقتض فهو اسوة للغرماء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ ، حَدَّثَنَا الْيَمَانُ بْنُ عَدِيٍّ ، حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيُّمَا امْرِئٍ مَاتَ وَعِنْدَهُ مَالُ امْرِئٍ بِعَيْنِهِ اقْتَضَى مِنْهُ شَيْئًا أَوْ لَمْ يَقْتَضِ فَهُوَ أُسْوَةٌ لِلْغُرَمَاءِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مر جائے، اور اس کے پاس کسی کا مال بعینہ موجود ہو، خواہ اس کی قیمت سے کچھ وصول کیا ہو یا نہیں، وہ ہر حال میں دوسرے قرض خواہوں کے مانند ہو گا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15268) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
قال الدارقطني (3/ 29): ”اليمان بن عدي ضعيف الحديث“
و الحديث السابق (الأصل: 2360) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 464

   سنن ابن ماجه2360عبد الرحمن بن صخرأيما رجل مات أفلس فصاحب المتاع أحق بمتاعه إذا وجده بعينه
   سنن ابن ماجه2361عبد الرحمن بن صخرأيما امرئ مات وعنده مال امرئ بعينه اقتضى منه شيئا أو لم يقتض فهو أسوة للغرماء

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2361 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2361  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر فوت ہونے والے نے کسی سے نقد رقم قرض لی ہو اور اسے استعمال کرنے سے پہلے فوت ہو جائے تو جس شخص نے یہ رقم قرض دی تھی وہ یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ پوری کی پوری رقم مجھے ملنی چاہیے کیونکہ یہ وہی نوٹ ہیں جو اس نے مجھ سے لیے تھے بلکہ یہ قرض خواہ بھی دوسرے قرض خواہوں کی طرح ہی ہے۔
اگر اوروں کو پورا قرض ملے گا تو اسے بھی اس کا پورا قرض مل جائے گا۔
اور اگر اس کارقرض ترکے میں زیادہ ہونے کی وجہ سے دوسرے قرض خواہوں کی اصل قرض سے کم وصول ہو رہا ہے تو اسے بھی اسی نسبت سے کم ادائیگی کی جائے گی۔
اس معاملے میں نقد رقم کا حکم دوسرے سامان کا نہیں جو اگر بعینہ موجود ہو تو قرض خواہ اسے لے لیتا ہے جیسے حدیث: 2359 کا فائدہ: 3 (الف)
میں بیان کیا گیا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2361   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.