سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
کتاب سنن ابن ماجه تفصیلات

سنن ابن ماجه
کتاب: دیت (خون بہا) کے احکام و مسائل
The Chapters on Blood Money
2. بَابُ : هَلْ لِقَاتِلِ مُؤْمِنٍ تَوْبَةٌ
2. باب: کیا مومن کے قاتل کی توبہ قبول ہے؟
Chapter: Can The One Who Kills A Believer Repent?
حدیث نمبر: 2622
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا همام بن يحيى ، عن قتادة ، عن ابي الصديق الناجي ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: الا اخبركم بما سمعت من في رسول الله صلى الله عليه وسلم سمعته اذناي ووعاه قلبي:" إن عبدا قتل تسعة وتسعين نفسا ثم عرضت له التوبة، فسال عن اعلم اهل الارض، فدل على رجل فاتاه، فقال: إني قتلت تسعة وتسعين نفسا، فهل لي من توبة؟ قال: بعد تسعة وتسعين نفسا، قال: فانتضى سيفه فقتله فاكمل به المائة، ثم عرضت له التوبة، فسال عن اعلم اهل الارض، فدل على رجل فاتاه، فقال: إني قتلت مائة نفس، فهل لي من توبة؟ فقال: ويحك! ومن يحول بينك وبين التوبة، اخرج من القرية الخبيثة التي انت فيها إلى القرية الصالحة قرية كذا وكذا، فاعبد ربك فيها، فخرج يريد القرية الصالحة، فعرض له اجله في الطريق، فاختصمت فيه ملائكة الرحمة وملائكة العذاب، قال إبليس: انا اولى به إنه لم يعصني ساعة قط، قال: فقالت ملائكة الرحمة: إنه خرج تائبا"، قال همام : فحدثني حميد الطويل ، عن بكر بن عبد الله ، عن ابي رافع ، قال:" فبعث الله عز وجل ملكا فاختصموا إليه ثم رجعوا فقال: انظروا اي القريتين كانت اقرب فالحقوه باهلها"، قال قتادة: فحدثنا الحسن، قال:" لما حضره الموت احتفز بنفسه فقرب من القرية الصالحة، وباعد منه القرية الخبيثة فالحقوه باهل القرية الصالحة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَا سَمِعْتُ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي:" إِنَّ عَبْدًا قَتَلَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا ثُمَّ عَرَضَتْ لَهُ التَّوْبَةُ، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنِّي قَتَلْتُ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ نَفْسًا، فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ؟ قَالَ: بَعْدَ تِسْعَةٍ وَتِسْعِينَ نَفْسًا، قَالَ: فَانْتَضَى سَيْفَهُ فَقَتَلَهُ فَأَكْمَلَ بِهِ الْمِائَةَ، ثُمَّ عَرَضَتْ لَهُ التَّوْبَةُ، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ، فَدُلَّ عَلَى رَجُلٍ فَأَتَاهُ، فَقَالَ: إِنِّي قَتَلْتُ مِائَةَ نَفْسٍ، فَهَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ؟ فَقَالَ: وَيْحَكَ! وَمَنْ يَحُولُ بَيْنَكَ وَبَيْنَ التَّوْبَةِ، اخْرُجْ مِنَ الْقَرْيَةِ الْخَبِيثَةِ الَّتِي أَنْتَ فِيهَا إِلَى الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ قَرْيَةِ كَذَا وَكَذَا، فَاعْبُدْ رَبَّكَ فِيهَا، فَخَرَجَ يُرِيدُ الْقَرْيَةَ الصَّالِحَةَ، فَعَرَضَ لَهُ أَجَلُهُ فِي الطَّرِيقِ، فَاخْتَصَمَتْ فِيهِ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ وَمَلَائِكَةُ الْعَذَابِ، قَالَ إِبْلِيسُ: أَنَا أَوْلَى بِهِ إِنَّهُ لَمْ يَعْصِنِي سَاعَةً قَطُّ، قَالَ: فَقَالَتْ مَلَائِكَةُ الرَّحْمَةِ: إِنَّهُ خَرَجَ تَائِبًا"، قَالَ هَمَّامٌ : فَحَدَّثَنِي حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ ، قَالَ:" فَبَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَلَكًا فَاخْتَصَمُوا إِلَيْهِ ثُمَّ رَجَعُوا فَقَالَ: انْظُرُوا أَيَّ الْقَرْيَتَيْنِ كَانَتْ أَقْرَبَ فَأَلْحِقُوهُ بِأَهْلِهَا"، قَالَ قَتَادَةُ: فَحَدَّثَنَا الْحَسَنُ، قَالَ:" لَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ احْتَفَزَ بِنَفْسِهِ فَقَرُبَ مِنَ الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ، وَبَاعَدَ مِنْهُ الْقَرْيَةَ الْخَبِيثَةَ فَأَلْحَقُوهُ بِأَهْلِ الْقَرْيَةِ الصَّالِحَةِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنی ہے، وہ بات میرے کان نے سنی، اور میرے دل نے اسے یاد رکھا کہ ایک آدمی تھا جس نے ننانوے خون (ناحق) کئے تھے، پھر اسے توبہ کا خیال آیا، اس نے روئے زمین پر سب سے بڑے عالم کے بارے میں سوال کیا، تو اسے ایک آدمی کے بارے میں بتایا گیا، وہ اس کے پاس آیا، اور کہا: میں ننانوے آدمیوں کو (ناحق) قتل کر چکا ہوں، کیا اب میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس شخص نے جواب دیا: (واہ) ننانوے آدمیوں کے (قتل کے) بعد بھی (توبہ کی امید رکھتا ہے)؟ اس شخص نے تلوار کھینچی اور اسے بھی قتل کر دیا، اور سو پورے کر دئیے، پھر اسے توبہ کا خیال آیا، اور روئے زمین پر سب سے بڑے عالم کے بارے میں سوال کیا، اسے جب ایک شخص کے بارے میں بتایا گیا تو وہ وہاں گیا، اور اس سے کہا: میں سو خون (ناحق) کر چکا ہوں، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس نے جواب دیا: تم پر افسوس ہے! بھلا تمہیں توبہ سے کون روک سکتا ہے؟ تم اس ناپاک اور خراب بستی سے (جہاں تم نے اتنے بھاری گناہ کئے) نکل جاؤ ۱؎، اور فلاں نیک اور اچھی بستی میں جاؤ، وہاں اپنے رب کی عبادت کرنا، وہ جب نیک بستی میں جانے کے ارادے سے نکلا، تو اسے راستے ہی میں موت آ گئی، پھر رحمت و عذاب کے فرشتے اس کے بارے میں جھگڑنے لگے، ابلیس نے کہا کہ میں اس کا زیادہ حقدار ہوں، اس نے ایک پل بھی میری نافرمانی نہیں کی، تو رحمت کے فرشتوں نے کہا: وہ توبہ کر کے نکلا تھا (لہٰذا وہ رحمت کا مستحق ہوا)۔ راوی حدیث ہمام کہتے ہیں کہ مجھ سے حمید طویل نے حدیث بیان کی، وہ بکر بن عبداللہ سے اور وہ ابورافع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں: (جب فرشتوں میں جھگڑا ہونے لگا تو) اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ (ان کے فیصلے کے لیے) بھیجا، دونوں قسم کے فرشتے اس کے پاس فیصلہ کے لیے آئے، تو اس نے کہا: دیکھو دونوں بستیوں میں سے وہ کس سے زیادہ قریب ہے؟ (فاصلہ ناپ لو) جس سے زیادہ قریب ہو وہیں کے لوگوں میں اسے شامل کر دو۔ راوی حدیث قتادہ کہتے ہیں کہ ہم سے حسن بصری نے حدیث بیان کی، اس میں انہوں نے کہا: جب اس کی موت کا وقت قریب ہوا تو وہ گھسٹ کر نیک بستی سے قریب اور ناپاک بستی سے دور ہو گیا، آخر فرشتوں نے اسے نیک بستی والوں میں شامل کر دیا ۲؎۔

وضاحت:
۱؎: ایسی بستی جس میں کوئی خیر اور بھلائی نہیں، فتح الباری میں ہے کہ یہ کافروں کی بستی تھی۔
۲؎: سبحان اللہ! اگر مالک کے رحم و کرم کو سامنے رکھا جائے تو امید ایسی بندھ جاتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی گناہ گار کو عذاب نہ ہو گا، اور اگر اس کے غضب اور عدل اور قہر کی طرف خیال کیا جائے، تو اپنے اعمال کا حال دیکھ کر ایسا خوف طاری ہوتا ہے کہ بس اللہ کی پناہ، ایمان اسی کا نام ہے کہ مومن خوف (ڈر) اور رجاء (امید) کے درمیان رہے، اگر خوف ایسا غالب ہوا کہ امید بالکل جاتی رہے تب بھی آدمی گمراہ ہو گیا، اور اگر امید ایسی غالب ہوئی کہ خوف جاتا رہا جب بھی اہل ہدایت اور اہل سنت سے باہر ہو گیا، اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ گناہ (خواہ کسی قدر ہوں) پر آدمی کو توبہ کا خیال نہ چھوڑنا چاہئے اور گناہوں کی وجہ سے اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا چاہئے، وہ ارحم الراحمین بندہ نواز ہے اور اس کا ارشاد ہے: «رحمتى سبقت غضبى» یعنی میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی اور نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں: «مغفرتك أرجى عندي من عملي» یعنی اے رب اپنے عمل سے زیادہ مجھے تیری مغفرت کی امید ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مسلمان قاتل کی توبہ قبول ہو سکتی ہے، گو اس میں شک نہیں کہ مومن کا قتل بہت بڑا گناہ ہے اور مومن قاتل کی جزا یہی ہے کہ اس پر عذاب الٰہی اترے دنیا یا آخرت یا دونوں میں، مگر اس حدیث اور ایسی حدیثوں کی وجہ سے جن سے امید کو ترقی ہوتی ہے یہ کوئی نہ سمجھے کہ گناہ ضرور بخش دیا جائے گا، پھر گناہ سے بچنا کیا ضروری ہے کیونکہ گناہ پر عذاب تو وعدہ الٰہی سے معلوم ہو چکا ہے اب مغفرت وہ مالک کے اختیار میں ہے بندے کو ہرگز معلوم نہیں ہو سکتا کہ اس کی توبہ قبول ہوئی یا نہیں، اور اس کی مغفرت ہو گی یا نہیں، پس ایسے موہوم خیال پر گناہ کا ارتکاب کر بیٹھنا اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت پر تکیہ کر لینا بڑی حماقت اور نادانی ہے، ہر وقت گناہ سے بچتا رہے خصوصاً حقوق العباد سے، اور اگر بدقسمتی سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو دل و جان سے اس سے توبہ کرے، اور اپنے مالک کے سامنے گڑگڑائے روئے، اور عہد کرے کہ پھر ایسا گناہ نہ کروں گا تو کیا عجب ہے کہ مالک اس کا گناہ بخش دے وہ غفور اور رحیم ہے۔

تخریج الحدیث: «حدیث أبي رافع تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 19505)، وحدیث أبي بکر بن أبي شیبة أخرجہ صحیح البخاری/احادیث الانبیاء 54 (3470)، صحیح مسلم/التوبة 8 (6766)، (تحفة الأشراف: 3973)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/20، 72) (صحیح)» ‏‏‏‏ (حسن کے قول «لما حضره الموت......» کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے)

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله الحسن لما حضره الموت ق

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   سنن ابن ماجه2622عبدا قتل تسعة وتسعين نفسا ثم عرضت له التوبة فسأل عن أعلم أهل الأرض فدل على رجل فأتاه فقال إني قتلت تسعة وتسعين نفسا فهل لي من توبة قال بعد تسعة وتسعين نفسا قال فانتضى سيفه فقتله فأكمل به المائة ثم عرضت له التوبة فسأل عن أعلم أهل الأرض فدل على رجل فأتاه فق

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 2622 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2622  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ایمان میں اللہ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے خوف اور اللہ کی رحمت کی امید دونوں پہلو شامل ہیں۔

(2)
اس شخص کے دل میں اللہ کا خوف موجود تھا جس کی وجہ سے اس نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس کی توبہ کیسے قبول ہوسکتی ہے۔

(3)
جو شخص اللہ کا خوف محسوس کررہا ہو تو عالم کا چاہیے کہ اسے اللہ کی رحمت کا یقین دلائے تاکہ وہ رحمت سے ناامید ہو کر توبہ سے محروم نہ ہوجائے، البتہ جو شخص رحمت کا غلط تصور رکھتے ہوئے گناہوں میں بے باک ہوگیا ہو تو اسے اللہ کے غضب اور عذاب کی طرف توجہ دلانی چاہیے، عالم کےلیے ضرور ی ہے کہ سائل کے حالات کا لحاظ رکھتے ہوئے مناسب فتوی دے۔

(4)
خالص توبہ سے کبیرہ گناہ حتی کہ قتل کا گناہ بھی معاف ہوجاتا ہے۔

(5)
اصلاح کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ گندے ماحول کو ترک کرکے پاکیزہ ماحول اختیار کیا جائے۔

(6)
ابلیس نے جو بات کہی اس کا مطلب غالباً خوشی کا اظہار ہے کہ یہ مجرم ضرور جہنم میں جائے گا، اس لیے فرشتوں نے جواب میں اس کی توبہ کا ذکر کیا جس میں اس کی بخشش کی امید کا اظہار ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2622   

حدیث نمبر: 2622M
Save to word اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو العباس بن عبد الله بن إسماعيل البغدادي، حدثنا عفان، حدثنا همام، فذكر نحوه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِسْمَاعِيل الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی ہمام نے اسی طرح کی حدیث ذکر کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله الحسن لما حضره الموت ق


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.