(مرفوع) حدثنا ابو صالح محبوب بن موسى، اخبرنا ابو إسحاق الفزاري، عن موسى بن عقبة، عن سالم ابي النضر مولى عمر بن عبيد الله يعني ابن معمر، وكان كاتبا له، قال: كتب إليه عبد الله بن ابي اوفى حين خرج إلى الحرورية، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض ايامه التي لقي فيها العدو قال:" يا ايها الناس لا تتمنوا لقاء العدو وسلوا الله تعالى العافية، فإذا لقيتموهم فاصبروا واعلموا ان الجنة تحت ظلال السيوف، ثم قال: اللهم منزل الكتاب ومجري السحاب وهازم الاحزاب اهزمهم وانصرنا عليهم". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ مَحْبُوبُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مَعْمَرٍ، وَكَانَ كَاتِبًا لَهُ، قَالَ: كَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أَوْفَى حِينَ خَرَجَ إِلَى الْحَرُورِيَّةِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَيَّامِهِ الَّتِي لَقِيَ فِيهَا الْعَدُوَّ قَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ وَسَلُوا اللَّهَ تَعَالَى الْعَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ وَمُجْرِي السَّحَابِ وَهَازِمَ الْأَحْزَابِ اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ".
عمر بن عبیداللہ بن معمر کے غلام اور ان کے کاتب (سکریٹری) سالم ابونضر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے ان کو جب وہ خارجیوں کی طرف سے نکلے لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑائی میں جس میں دشمن سے سامنا تھا فرمایا: ”لوگو! دشمنوں سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو، اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو، لیکن جب ان سے مڈبھیڑ ہو جائے تو صبر سے کام لو، اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے“، پھر فرمایا: ”اے اللہ! کتابوں کے نازل فرمانے والے، بادلوں کو چلانے والے، اور جتھوں کو شکست دینے والے، انہیں شکست دے، اور ہمیں ان پر غلبہ عطا فرما“۔
Salim Abu Al Nadr, client of Umar bin Ubaid Allaah that is Ibn Mamar who Salim was his (Umar’s) secretary reported “When Abdullah bin Abi Afwa went out to the Haruriyyah (Khawarij), he wrote to him (Umar bin Ubaid Allaah), The Messenger of Allah ﷺ said on a ceratin day when he was fighting with the enemy. O people do not desire to meet the enemy, ask Allaah, Most High, for health and security. When you meet them (the enemy) have patience and endurance, you should know that paradise is under the shade of swords. He then said “O Allaah, Who sends down the Book, makes the cloud to travel and rotes the confederates, tout them and give us victory over them. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 14 , Number 2625
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (3024) صحيح مسلم (1742)
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2631
´دشمن سے مڈبھیڑ کی آرزو اور تمنا مکروہ ہے۔` عمر بن عبیداللہ بن معمر کے غلام اور ان کے کاتب (سکریٹری) سالم ابونضر کہتے ہیں کہ عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے ان کو جب وہ خارجیوں کی طرف سے نکلے لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑائی میں جس میں دشمن سے سامنا تھا فرمایا: ”لوگو! دشمنوں سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو، اور اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرو، لیکن جب ان سے مڈبھیڑ ہو جائے تو صبر سے کام لو، اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے“، پھر فرمایا: ”اے اللہ! کتابوں کے نازل فرمانے والے، بادلوں کو چلانے والے، اور جتھوں کو شکست دینے والے، انہیں شکست دے، اور ہمیں ان پر غل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2631]
فوائد ومسائل: 1۔ جنگ کوئی عام کھیل نہیں جب اس سے واسطہ پڑتا ہے۔ تو حقیقت کھلتی ہے۔ کہ انسان ایمان اور بہادری کے کس معیار پر ہے۔ اس لئے آرزو یہ ہونی چاہیے کہ یہ موقع ہی نہ آئےتو اچھا ہے۔ مگر جب دوبدو ہونا لازمی ٹھہرے۔ تواللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنی قوت وبسالت کا بھر پور اظہار کرنا چاہیے۔ شہادت کی تمنا بھی اسی طرح ہے۔ کہ موقع آنے پر انسان سردھڑ کی بازی لگانے سے دریغ نہ کرے۔ مگر بے موقع یا بے مقصد جان دے دینا تو کوئی معنی نہیں رکھتا۔
2۔ حروری خارجیوں کاایک نام ہے۔ کیونکہ یہ لوگ صفین سے واپس آئے۔ تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے الگ ہوکر کوفہ سے باہر مضافات میں حرورا نام کے ایک مقام پرجمع ہوگئے۔ اور یہی ان کا پہلا مرکز تھا۔ اس کی طرف نسبت سے یہ لوگ حروری کہلائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2631