الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غسل کے احکام و مسائل
The Book of Ghusl (Washing of the Whole Body)
13. بَابُ غَسْلِ الْمَذْيِ وَالْوُضُوءِ مِنْهُ:
13. باب: اس بارے میں کہ مذی کا دھونا اور اس کی وجہ سے وضو کرنا ضروری ہے۔
(13) Chapter. The washing away of emotional urethral discharge and performing ablution after it.
حدیث نمبر: 269
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو الوليد، قال: حدثنا زائدة، عن ابي حصين، عن ابي عبد الرحمن، عن علي، قال: كنت رجلا مذاء، فامرت رجلا ان يسال النبي صلى الله عليه وسلم لمكان ابنته، فسال، فقال:" توضا واغسل ذكرك".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً، فَأَمَرْتُ رَجُلًا أَنْ يَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَكَانِ ابْنَتِهِ، فَسَأَلَ، فَقَالَ:" تَوَضَّأْ وَاغْسِلْ ذَكَرَكَ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ نے ابوحصین کے واسطہ سے، انہوں نے ابوعبدالرحمٰن سے، انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ مجھے مذی بکثرت آتی تھی، چونکہ میرے گھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا) تھیں۔ اس لیے میں نے ایک شخص (مقداد بن اسود اپنے شاگرد) سے کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق مسئلہ معلوم کریں انہوں نے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وضو کر اور شرمگاہ کو دھو (یہی کافی ہے)۔


Hum se Abul Waleed ne bayan kiya, kaha hum se Zaidah ne Abu Husain ke waasta se, unhon ne Abu Abdur Rahman se, unhon ne ’Ali Radhiallahu Anhu se, aap ne farmaaya ke mujhe mazi bakasrat aati thi, choonke mere ghar mein Nabi-e-Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam ki sahebzaadi (Fatima Radhiallahu Anha) thein. Is liye main ne ek shakhs (Miqdaad bin Aswad apne shagird) se kaha ke woh Aap Sallallahu Alaihi Wasallam se us ke mutalliq masla ma’loom karen unhon ne poocha to Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya ke Wuzu kar aur sharmgaah ko dho (yahi kaafi hai).

Narrated `Ali: I used to get emotional urethral discharge frequently. Being the son-in-law of the Prophet I requested a man to ask him about it. So the man asked the Prophet about it. The Prophet replied, "Perform ablution after washing your organ (penis).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 5, Number 269


   صحيح البخاري269علي بن أبي طالبتوضأ واغسل ذكرك
   صحيح البخاري178علي بن أبي طالبفيه الوضوء
   صحيح البخاري132علي بن أبي طالبفيه الوضوء
   صحيح مسلم696علي بن أبي طالبمنه الوضوء
   صحيح مسلم695علي بن أبي طالبيغسل ذكره ويتوضأ
   جامع الترمذي114علي بن أبي طالبمن المذي الوضوء ومن المني الغسل
   سنن أبي داود206علي بن أبي طالبإذا رأيت المذي فاغسل ذكرك وتوضأ وضوءك للصلاة إذا فضخت الماء فاغتسل
   سنن النسائى الصغرى152علي بن أبي طالبقلت لرجل جالس إلى جنبي سله فسأله فقال فيه الوضوء
   سنن النسائى الصغرى194علي بن أبي طالبإذا رأيت المذي فتوضأ واغسل ذكرك إذا رأيت فضخ الماء فاغتسل
   سنن النسائى الصغرى193علي بن أبي طالبإذا رأيت المذي فاغسل ذكرك وتوضأ وضوءك للصلاة إذا فضخت الماء فاغتسل
   سنن النسائى الصغرى438علي بن أبي طالبفيه الوضوء
   سنن النسائى الصغرى157علي بن أبي طالبفيه الوضوء
   سنن النسائى الصغرى154علي بن أبي طالبيكفي من ذلك الوضوء
   سنن ابن ماجه504علي بن أبي طالبفيه الوضوء في المني الغسل
   بلوغ المرام64علي بن أبي طالبكنت رجلا مذاء فامرت المقداد ان يسال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم،‏‏‏‏ فساله فقال: «‏‏‏‏فيه الوضوء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 64  
´وضو توڑنے والی چیزوں کا بیان`
«. . . وعن على بن ابي طالب رضى الله عنه قال: كنت رجلا مذاء فامرت المقداد ان يسال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم،‏‏‏‏ فساله فقال: ‏‏‏‏فيه الوضوء . . .»
. . . سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں کثرت سے مذی کے خارج ہونے کا مریض تھا۔ میں نے مقداد رضی اللہ عنہ سے کہا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کریں۔ مقداد رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں دریافت کیا (کہ اس کی وجہ سے وضو کرنا ہو گا یا غسل جنابت؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسی حالت میں وضو ہی ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 64]

لغوی تشریح:
«مَذَّاءً» ذال پر تشدید ہے۔ یہ معالغے کا صیغہ ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مجھے بکثرت مذی آتی ہے۔ مذی کیا ہے؟ مذی رقیق اور لیس دار پانی ہے جو بیوی سے بوس و کنار اور جماع کی یاد اور ارادے کے وقت مرد کی شرمگاہ سے خارج ہوتا ہے۔
«فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ» سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ کو مسئلے کی بابت پوچھنے کے لیے کہا، اس لیے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی لخت جگر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ حیاداری کے پیش نظر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے براہ راست سوال کرنے سے گریز کیا۔

راوی حدیث:
SR سیدنا مقداد رضی اللہ عنہ ER میم کے کسرہ کے ساتھ ہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے: مقداد بن عمرو بن ثعلبة البھراني اور حلف کی وجہ سے الکندی کہلائے۔ ان کی کنیت ابوالاسود یا ابوعمرو ہے اور مقداد بن اسود کے نام سے مشہور ہیں۔ اور اسود سے مراد اسود بن یغوث زہری ہے۔ چونکہ اس نے مقداد کو متبنی (منہ بولا بیٹا) بنا لیا تھا اور جاہلیت میں اس کے ساتھ حلیفانہ تعلقات و روابط قائم کر لیے تھے، چنانچہ اس کی طرف نسبت کے ساتھ مشہور ہو گئے۔ اسلام لانے والوں میں ان کا چھٹا نمبر ہے۔ دو مرتبہ ہجرت کے شرف سے شرف یاب ہوئے۔ کبار، فضلاء اور بہترین اوصاف و خصائل کے مالک صحابہ میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ عہد رسالت میں واقع ہونے والے تمام غزوات میں شریک رہے۔ معرکہ بدر کے روز گھڑ سواروں میں شامل تھے۔ فتح مصر میں حاضر تھے۔ 33 ہجری میں جوف کے مقام پر، جو مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر واقع ہے، وفات پائی۔ ان کی میت کو مدینہ لایا گیا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور بقیع میں دفن کیے گئے۔ اس وقت ان کی عمر 70 برس تھی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 64   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 206  
´مذی کا بیان`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَفْعَلْ إِذَا رَأَيْتَ الْمَذْيَ، فَاغْسِلْ ذَكَرَكَ وَتَوَضَّأْ وُضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ، فَإِذَا فَضَخْتَ الْمَاءَ فَاغْتَسِلْ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایسا نہ کرو، جب تم مذی دیکھو تو صرف اپنے عضو مخصوص کو دھو ڈالو اور وضو کر لو، جیسے نماز کے لیے وضو کرتے ہو، البتہ جب پانی ۳؎ اچھلتے ہوئے نکلے تو غسل کرو . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 206]
فوائد و مسائل:
منی وہ مادہ ہوتا ہے جو انزال کے وقت (تیزی سے اور اچھل کر) نکلتا ہے۔ اور مذی وہ رطوبت ہوتی ہے جو بوس و کنار یا شدت جذبات کے اثر سے لیس دار شکل میں نکلتی ہے۔ ودی وہ لیس دار پانی ہوتا ہے جو پیشاب سے پہلے یا بعد نکل آتا ہے۔ غسل صرف منی کے نکلنے سے واجب ہے۔ اگر انتہائی کمزوری کے باعث یا کوئی وزن وغیرہ اٹھانے سے یا کسی اور وجہ سے منی نکل آئے اور اس میں زور اور اچھل کر نکلنے کی کیفیت نہ ہو، تو غسل واجب نہ ہو گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 206   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 132  
´ مسائل شرعیہ معلوم کرنے میں کسی دوسرے آدمی کے ذریعے سے مسئلہ معلوم کرانا`
«. . . عَنْ عَلِيِّ، قَالَ: " كُنْتُ رَجُلًا مَذَّاءً، فَأَمَرْتُ الْمِقْدَادَ أَنْ يَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: فِيهِ الْوُضُوءُ . . .»
. . . علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ` میں ایسا شخص تھا جسے جریان مذی کی شکایت تھی، تو میں نے (اپنے شاگرد) مقداد کو حکم دیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کریں۔ تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس (مرض) میں غسل نہیں ہے (ہاں) وضو فرض ہے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَنِ اسْتَحْيَا فَأَمَرَ غَيْرَهُ بِالسُّؤَالِ: 132]

تخريج الحديث:
[175۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 34 باب من لم ير الوضوء إلا من المخرجين 132، مسلم 303]
لغوی توضیح:
«الْمَذِیّ» ایسا باریک پانی جو کمزور شہوت کے وقت، یا اپنی بیوی سے کھیلتے وقت، یا اسی کی مثل کسی کام میں بغیر اچھلنے کے شرمگاہ سے خارج ہو۔
«مَـــدَّاء» جسے بہت زیادہ مذی آتی ہو۔ مذی نجس و پلید ہے اور اس پر اجماع ہے۔ [المجموع 552/2، نيل الأوطار 103/1، بداية المجتهد 73/1، المهذب 46/1]
اور جسے مذی آئے اس پر لازم ہے کہ اسے دھوئے اور پھر اگر نماز پڑھنی ہے تو وضو کرے، اس سے غسل واجب نہیں ہوتا، جیسا کہ حدیث کے الفاظ اس میں صرف وضو لازم ہے سے واضح ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 175   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 152  
´وضو کو توڑ دینے اور نہ توڑنے والی چیزوں کا بیان، مذی سے وضو ٹوٹ جانے کا بیان۔`
ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ایک ایسا آدمی تھا جسے کثرت سے مذی ۱؎ آتی تھی، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی (فاطمہ رضی اللہ عنہا) میرے عقد نکاح میں تھیں، جس کی وجہ سے میں نے خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے میں شرم محسوس کی، تو میں نے اپنے پہلو میں بیٹھے ایک آدمی سے کہا: تم پوچھو، تو اس نے پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں وضو ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 152]
152۔ اردو حاشیہ:
➊ مذی وہ لیس دار پتلا سا پانی ہے جو شہوت کے وقت جوش کے بغیر شرم گاہ سے نکلتا ہے۔ بسا اوقات اس کے نکلنے کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس کے نکلنے سے شہوت ختم ہوتی ہے نہ اس کے نکلنے سے غسل واجب ہوتا ہے۔
➋ پہلو میں بیٹھے ہوئے شخص حضرت مقداد رضی اللہ عنہ تھے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، العلم، حدیث: 132، و صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 303]
سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ حضرت علی نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو کہا کہ وہ پوچھیں۔ دیکھیے: [سنن النسائي، الطھارۃ، حدیث: 154]
لیکن شیخ البانی رحمہ اللہ اس کے متعلق لکھتے ہیں کہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے اس مسئلے کے متعلق پوچھنے والی روایت منکر ہے۔ محفوظ روایت وہی ہے جس میں حضرت علی نے حضرت مقداد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے کا کہا ہے۔ دیکھیے: [ضعیف سنن النسائي، رقم: 154، 155]
جبکہ بعض روایات میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ مسئلہ خود پوچھا:۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ ان کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے پہلے حضرت مقداد کو کہا: ہو گا اور بعد میں حضرت عمار کو کہہ دیا اور پھر خود بھی پوچھ لیا ہو گا۔ لیکن جن روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خود پوچھنے کا ذکر ہے، وہ ان کے اپنے قول کے خلاف ہے جو صحیح روایات میں منقول ہے کہ میں نے خود پوچھنے میں شرم محسوس کی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا میرے حبالۂ عقد میں تھیں، لہٰذا جن راویوں نے سوال کی نسبت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف کی ہے، وہ اس لیے کہ اصل مسئلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو درپیش تھا اور وہ اس موقع پر حاضر تھے جیسا کہ امام عبدالرزاق نے عائش بن انس کے واسطے سے بیان کیا ہے کہ حضرت علی، مقداد اور اسود رضی اللہ عنھم نے آپس میں مذی کا ذکر کیا تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے بہت زیادہ مذی آتی ہے، تم دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق دریافت کرو تو ان دونوں میں سے ایک نے پوچھا:۔ اس بنا پر سوال کی نسبت حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی طرف مجازی ہے، درحقیقت حضرت مقداد رضی اللہ عنہ ہی نے مسئلہ دریافت کیا تھا جیسا کہ صحیحین کی روایت سے ثابت ہے۔ مزید دیکھیے: [فتح الباري: 493/1، تحت حدیث: 269]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 152   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 193  
´منی نکلنے پر غسل کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک ایسا شخص تھا جسے کثرت سے مذی آتی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: جب مذی دیکھو تو اپنا ذکر دھو لو، اور نماز کے وضو کی طرح وضو کر لو، اور جب پانی (منی) کودتا ہوا نکلے تو غسل کرو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 193]
193۔ اردو حاشیہ:
➊ مذی کا مسئلہ تو پیچھے (سنن نسائی حدیث 152، 153 کے تحت) گزر چکا ہے۔ منی گاڑھا، لیس دار سفید پانی ہوتا ہے جو زور سے اچھل کر نکلتا ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں فضخ اچھل کر نکلنے کی قید موجود ہے، اس صورت میں شہوت بھی یقینی امر ہے، اس کے نکلنے سے شہوت ختم ہو جاتی ہے۔
➋ حدیث: «الماء من الماء» خروج منی سے غسل ہے اگرچہ مطلق ہے اسے مقید حدیث پر محمول کیا جائے گا۔
➌ منی کا نکلنا، خواہ جماع سے ہو یا احتلام سے یا ویسے شہوت سے، غسل کو واجب کر دیتا ہے، البتہ اگر کسی کو بغیر شہوت کے کسی بیماری کی بنا پر یا قضائے حاجت کے وقت زور لگانے سے منی نکل آئے تو جمہور اہل علم کے نزدیک غسل واجب نہیں ہوتا۔ لیکن احتلام میں جس طرح بھی منی خارج ہو جائے، شہوت سے یا گرمی سے، خواب یاد ہو یا نہ ہو، زور سے نکلے یا آرام سے، ہر حال میں غسل واجب ہو جاتا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک منی بیماری سے یا جیسے بھی نکلے، غسل واجب ہو جاتا ہے لیکن حدیث کے ظاہر الفاظ کے مقابلے میں یہ موقف محل نظر ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 193   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث504  
´مذی سے وضو کے حکم کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مذی ۱؎ کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: اس میں وضو ہے، اور منی ۲؎ میں غسل ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 504]
اردو حاشہ:
(1)
مذی سے مراد وہ لیس دار پانی ہے جو بیوی سے دل لگی کے دوران میں صنفی خواہش کی وجہ سے عضو خاص سے خارج ہوتا ہے۔
اس کے خروج سے شہوت ختم نہیں ہوتی۔
منی سے مراد وہ گاڑھا پانی ہے جو صنفی عمل کی تکمیل پر خارج ہوتا ہے اور اس سے انسان کی تخلیق ہوتی ہے۔

(2)
مذی سے غسل فرض نہیں ہوتا صرف وضو کرلینا کافی ہے۔
وضو کا یہ فائدہ ہے کہ اس سے ذہن ان خیالات سے دوسری طرف منتقل ہوجاتا ہےاور انتشار کی کیفیت ختم ہوجاتی ہے۔

(3)
یہ مسئلہ پوچھنے کی ضرورت تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیش آئی تھی لیکن آپ نے رسول اللہﷺسے براہ راست نہیں پوچھا کیونکہ آپﷺ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا رشتہ ایسا تھا جس کی وجہ سے شرم وحیا یہ مسئلہ پوچھنے میں حائل تھی، اس لیے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کے واسطے سے دریافت کیا۔ (صحیح البخاری، العلم، باب من استحیا فامرہ غیرہ بالسؤال، حدیث: 132)
اس سے معلوم ہوا کہ بالواسطہ معلوم ہونے والی حدیث یا مسئلہ بھی اسی طرح قابل اعتماد اور واجب العمل ہے جس طرح براہ راست حاصل ہونے والا علم بشرطیکہ واسطہ ثقہ (قابل اعتماد)
ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 504   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 114  
´منی اور مذی کا بیان۔`
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مذی ۱؎ کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: مذی سے وضو ہے اور منی سے غسل ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 114]
اردو حاشہ:
1؎:
حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ مذی کے نکلنے سے غسل واجب نہیں ہوتا،
اس سے صرف وضو ٹوٹتا ہے،
مذی سفید،
پتلا لیس دار پانی ہے جو بیوی سے چھیڑ چھاڑ کے وقت اور جماع کے ارادے کے وقت مرد کی شرم گاہ سے خارج ہوتا ہے۔

2؎:
خواہ یہ منی جماع سے نکلے یا چھیڑ چھاڑ سے،
یا خواب (نیند) میں،
بہر حال اس سے غسل واجب ہو جاتا ہے۔
نوٹ:
(سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں،
لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 114   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:269  
269. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انهوں نے فرمایا: مجھے مذی بکثرت آتی تھی۔ چونکہ میرے گھر میں نبی ﷺ کی صاجزادی تھیں، اس لیے میں نے ایک شخص سے کہا کہ وہ آپ سے اس کے متعلق سوال کرے۔ انهوں نے پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا: وضو کر لو اور اپنے عضو مخصوص کو دھو لو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:269]
حدیث حاشیہ:

مذی اس رطوبت کوکہتے ہیں جو بیوی سے ملاعبت اور بوس وکنار کے وقت خارج ہوتی ہے۔
اس میں اور منی میں کئی لحاظ سے فرق ہے:

منی گاڑھی لیس دار ہوتی ہے، جبکہ مذی ایک رقیق لیس دار مادہ ہے۔

منی بھر پور شہوت سے خارج ہوتی ہے، جبکہ مذی میں شہوت کمزور ہوتی ہے۔

منی کے خروج سے غسل واجب ہوتا ہے، جبکہ مذی سے صرف وضو کرنا ضروری ہے۔

منی کی طہارت کھرچنے سے بھی ہوسکتی ہے، جبکہ مذی کو دھونا ضروری ہے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی ؓ نے خود بھی سوال کیا تھا، لیکن مذکورہ حدیث میں ہے کہ حضرت علی ؓ رسول اللہ ﷺ سے تعلق دامادی کی بنا پر براہ راست خود اس قسم کا سوال کرنے سے شرماتے تھے۔
محدثین نے تطبیق کی یہ صورت نکالی ہے کہ پہلے آپ نے حضرت عمار ؓ اور حضرت مقداد ؓ سے سوال کرنے کے متعلق کہا، جب ان کے دریافت کرنے پر جواب مل گیا تو مزید اطمینان کے لیے کسی موقع پر خود بھی دریافت کر لیا ہو گا۔
صحیح اور صریح احادیث کے پیش نظر تینوں کی طرف سوال کی نسبت حقیقی ہے۔
(عمدۃ القاري: 44/3)

علامہ عینی ؒ نے اس حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل کا استنباط کیا ہے:
۔
مسئلہ پوچھنے میں دوسروں کو وکیل بنایا جا سکتا ہے۔
۔
خبر مقطوع پر قدرت کے باوجود خبر مظنون پر اعتماد درست ہے۔
۔
دامادی اور سسرالی رشتوں کی رعایت کرنا ایک اچھااقدام ہے۔
۔
شوہر کو خاص طورپر نسوانی تعلق کی باتیں اپنے قریبی (سسرالی)
رشتے داروں کے سامنے نہیں کہنی چائیں۔
۔
مذی کے خروج سے صرف وضو واجب ہوتا ہے، غسل کی ضرورت نہیں۔
۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رسول اللہ ﷺ کی انتہائی تعظیم وتوقیر ملحوظ ہوا کرتی تھی۔
۔
شرم وحیا کی بات براہ راست نہ کرنے میں ادب واحترام کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔
(عمدة القاري: 45/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 269   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.