الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
مشكوة المصابيح کل احادیث 6294 :حدیث نمبر
مشكوة المصابيح
علم کا بیان
حدیث نمبر: 271
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
‏‏‏‏وعن ابي هريرة رضي الله عنه قال: «حفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم وعاءين فاما احدهما فبثثته فيكم واما الآخر فلو بثثته قطع هذا البلعوم يعني مجرى الطعام» رواه البخاري ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ فِيكُمْ وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ يَعْنِي مجْرى الطَّعَام» رَوَاهُ البُخَارِيّ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم سے (علم کے) دو ظروف یاد کیے، ان میں سے ایک میں نے تمہارے درمیان نشر کر دیا، رہی دوسری قسم تو اگر میں اسے نشر کردوں تو میرا گلا کاٹ دیا جائے۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔

تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله:
«رواه البخاري (120)»

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

   صحيح البخاري120عبد الرحمن بن صخرحفظت من رسول الله وعاءين فأما أحدهما فبثثته لو بثثته قطع هذا البلعوم
   مشكوة المصابيح271عبد الرحمن بن صخرحفظت من رسول الله صلى الله عليه وسلم وعاءين فاما احدهما فبثثته فيكم واما الآخر فلو بثثته قطع هذا البلعوم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 120  
´علم کو محفوظ رکھنے کے بیان میں`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ، فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (علم کے) دو برتن یاد کر لیے ہیں، ایک کو میں نے پھیلا دیا ہے اور دوسرا برتن اگر میں پھیلاؤں تو میرا یہ نرخرا کاٹ دیا جائے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ حِفْظِ الْعِلْمِ: 120]

تشریح:
اسی طرح جوہری اور ابن اثیر نے بیان کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد کا مطلب محققین علماء کے نزدیک یہ ہے کہ دوسرے برتن سے مراد ایسی حدیثیں ہیں۔ جن میں ظالم و جابر حکام کے حق میں وعیدیں آئی ہیں اور فتنوں کی خبریں ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کبھی اشارے کے طور پر ان باتوں کا ذکر کر بھی دیا تھا۔ جیسا کہ کہا کہ میں 60ھ کی شر سے اور چھوکروں کی حکومت سے خدا کی پناہ چاہتا ہوں۔ اسی سنہ میں یزید کی حکومت ہوئی اور امت میں کتنے ہی فتنے برپا ہوئے۔ یہ حدیث بھی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اسی زمانے میں بیان کی، جب فتنوں کا آغاز ہو گیا تھا اور مسلمانوں کی جماعت میں انتشار پیدا ہو چلا تھا، اسی لیے یہ کہا کہ ان حدیثوں کے بیان کرنے سے جان کا خطرہ ہے، لہٰذا میں نے مصلحتاً خاموشی اختیار کر لی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 120   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 271  
´اچھے اور برے علماء`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: «حَفِظْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وِعَاءَيْنِ فَأَمَّا أَحَدُهُمَا فَبَثَثْتُهُ فِيكُمْ وَأَمَّا الْآخَرُ فَلَوْ بَثَثْتُهُ قُطِعَ هَذَا الْبُلْعُومُ يَعْنِي مجْرى الطَّعَام» رَوَاهُ البُخَارِيّ . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو برتن یعنی دو قسم کے علم کو یاد کیا ہے جن میں سے ایک علم کو میں نے تمہارے درمیان پھیلا دیا ہے اور دوسرا علم اگر میں ظاہر کروں تو میرا گلا کاٹ دیا جائے گا۔ اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 271]

فقہ الحدیث:
➊ اس حدیث کا تعلق فتنوں کے بارے میں پیش گوئیوں سے ہے، مثلاً فلاں امیر ظالم ہو گا اور ساٹھ ہجری میں یہ ہو گا۔ وغیرہ، دیکھئے: [فتح الباري 1؍216]
➋ اس حدیث سے باطنیہ (اور صوفیہ) کا استدلال باطل ہے۔ [فتح الباري 1؍216 بحواله ابن المنير]
کتاب و سنت کو علم شریعت کہنا اور صوفیاء کی تحریفات کو علم طریقت کہنا اہل بدعت کی اختراعات ہیں۔
➌ اگر شرعی عذر ہو تو بعض اوقات علم کی کوئی بات عام لوگوں سے خفیہ رکھنا جائز ہے، لیکن یاد رہے کہ بغیر کسی دلیل کے دین کی ضروری بات چھپانا کتمان علم ہے۔
➍ ظالموں سے اپنی جان بچانے کے لئے خاموشی اختیار کرنا جائز ہے۔
➎ اس حدیث میں ان واقعات کی طرف اشارہ ہے جو ساٹھ ہجری یا اس کے بعد رونما ہوئے، مثلاً یزید کی حکومت وغیرہ۔
➏ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بہت بڑا مقام تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ نے انہیں امور فتن سے متعلقہ خاص علم بھی بتا دیا تھا۔
➐ تدریس کے لئے بعض لوگوں کا انتخاب جائز ہے۔
➑ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کی بعض باتیں بتا دی تھیں۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 271   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.