الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غسل کے احکام و مسائل
The Book of Ghusl (Washing of the Whole Body)
17. بَابُ إِذَا ذَكَرَ فِي الْمَسْجِدِ أَنَّهُ جُنُبٌ يَخْرُجُ كَمَا هُوَ وَلاَ يَتَيَمَّمُ:
17. باب: جب کوئی شخص مسجد میں ہو اور اسے یاد آئے کہ مجھ کو نہانے کی حاجت ہے تو اسی طرح نکل جائے اور تیمم نہ کرے۔
(17) Chapter. If someone while in the mosque remembers that he is Junub , he should leave (the mosque to take a bath) and should not perform Tayammum.
حدیث نمبر: 275
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، قال: حدثنا عثمان بن عمر، قال: اخبرنا يونس، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال:" اقيمت الصلاة وعدلت الصفوف قياما، فخرج إلينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما قام في مصلاه ذكر انه جنب، فقال لنا: مكانكم، ثم رجع فاغتسل، ثم خرج إلينا وراسه يقطر فكبر فصلينا معه"، تابعه عبد الاعلى، عن معمر، عن الزهري، ورواه الاوزاعي، عن الزهري.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ وَعُدِّلَتِ الصُّفُوفُ قياما، فَخَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَامَ فِي مُصَلَّاهُ ذَكَرَ أَنَّهُ جُنُبٌ، فَقَالَ لَنَا: مَكَانَكُمْ، ثُمَّ رَجَعَ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَيْنَا وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ فَكَبَّرَ فَصَلَّيْنَا مَعَهُ"، تَابَعَهُ عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَرَوَاهُ الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ.
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عثمان بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم کو یونس نے خبر دی زہری کے واسطے سے، وہ ابوسلمہ سے، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نماز کی تکبیر ہوئی اور صفیں برابر ہو گئیں، لوگ کھڑے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے ہماری طرف تشریف لائے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مصلے پر کھڑے ہو چکے تو یاد آیا کہ آپ جنبی ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ اپنی جگہ کھڑے رہو اور آپ واپس چلے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا اور واپس ہماری طرف تشریف لائے تو سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے تکبیر کہی اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی۔ عثمان بن عمر سے اس روایت کی متابعت کی ہے عبدالاعلیٰ نے معمر سے اور وہ زہری سے۔ اور اوزاعی نے بھی زہری سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔


Hum se Abdullah bin Muhammed Musnadi ne bayan kiya, kaha hum se Uthman bin Umar ne bayan kiya, kaha hum ko Younus ne khabar di Zohri ke waaste se, woh Abu Salamah se, woh Abu Hurairah Radhiallahu Anhu se ke Namaz ki takbeer hue aur safein barabar ho gayien, log khade the ke Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam apne hujre se hamaari taraf tashreef laaye. Jab Aap Sallallahu Alaihi Wasallam musalle par khade ho chuke to yaad aaya ke Aap junubi hain. Pas Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne hum se farmaaya ke apni jagah khade raho aur Aap waapas chale gaye. Phir Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne ghusl kiya aur waapas hamaari taraf tashreef laaye to sar se paani ke qatre tapak rahe the. Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne Namaz ke liye takbeer kahi aur hum ne Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ke saath Namaz ada ki. Uthman bin Umar se is riwayat ki Mutaba’at ki hai Abdul A’laa ne Ma’mar se aur woh Zohri se. Aur Awzaa’ee ne bhi Zohri se is Hadees ko riwayat kiya hai.

Narrated Abu Huraira: Once the call (Iqama) for the prayer was announced and the rows were straightened. Allah's Apostle came out; and when he stood up at his Musalla, he remembered that he was Junub. Then he ordered us to stay at our places and went to take a bath and then returned with water dropping from his head. He said, "Allahu-Akbar", and we all offered the prayer with him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 5, Number 274


   صحيح البخاري639عبد الرحمن بن صخرخرج وقد أقيمت الصلاة وعدلت الصفوف حتى إذا قام في مصلاه انتظرنا أن يكبر انصرف قال على مكانكم فمكثنا على هيئتنا حتى خرج إلينا ينطف رأسه ماء وقد اغتسل
   صحيح البخاري275عبد الرحمن بن صخرمكانكم ثم رجع فاغتسل ثم خرج إلينا ورأسه يقطر فكبر فصلينا معه
   صحيح البخاري640عبد الرحمن بن صخرمكانكم فرجع فاغتسل ثم خرج ورأسه يقطر ماء فصلى بهم
   صحيح مسلم1368عبد الرحمن بن صخرأقيمت الصلاة وصف الناس صفوفهم وخرج رسول الله فقام مقامه فأومأ إليهم بيده أن مكانكم فخرج وقد اغتسل ورأسه ينطف الماء فصلى بهم
   صحيح مسلم1367عبد الرحمن بن صخرمكانكم فلم نزل قياما ننتظره حتى خرج إلينا وقد اغتسل ينطف رأسه ماء فكبر فصلى بنا
   سنن أبي داود235عبد الرحمن بن صخرمكانكم ثم رجع إلى بيته فخرج علينا ينطف رأسه وقد اغتسل ونحن صفوف
   سنن النسائى الصغرى810عبد الرحمن بن صخرلنا مكانكم فلم نزل قياما ننتظره حتى خرج إلينا قد اغتسل ينطف رأسه ماء فكبر وصلى
   سنن النسائى الصغرى793عبد الرحمن بن صخرمكانكم ثم رجع إلى بيته فخرج علينا ينطف رأسه فاغتسل ونحن صفوف
   سنن ابن ماجه1220عبد الرحمن بن صخرإني خرجت إليكم جنبا وإني نسيت حتى قمت في الصلاة
   المعجم الصغير للطبراني133عبد الرحمن بن صخر كبر بهم فى صلاة الصبح ، فأومأ إليهم ، ثم انطلق ، فرجع ورأسه يقطر ، فصلى بهم ، فقال : إنما أنا بشر ، وإني كنت جنبا ، فنسيت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 275  
´جب کوئی شخص مسجد میں ہو اور اسے یاد آئے کہ مجھ کو نہانے کی حاجت ہے تو اسی طرح نکل جائے اور تیمم نہ کرے`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: " أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ وَعُدِّلَتِ الصُّفُوفُ قياما، فَخَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا قَامَ فِي مُصَلَّاهُ ذَكَرَ أَنَّهُ جُنُبٌ، فَقَالَ لَنَا: مَكَانَكُمْ، ثُمَّ رَجَعَ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَيْنَا وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ فَكَبَّرَ فَصَلَّيْنَا مَعَهُ "، تَابَعَهُ عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، وَرَوَاهُ الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ . . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز کی تکبیر ہوئی اور صفیں برابر ہو گئیں، لوگ کھڑے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے حجرے سے ہماری طرف تشریف لائے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مصلے پر کھڑے ہو چکے تو یاد آیا کہ آپ جنبی ہیں۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ اپنی جگہ کھڑے رہو اور آپ واپس چلے گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا اور واپس ہماری طرف تشریف لائے تو سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے تکبیر کہی اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی۔ عثمان بن عمر سے اس روایت کی متابعت کی ہے عبدالاعلیٰ نے معمر سے اور وہ زہری سے۔ اور اوزاعی نے بھی زہری سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ إِذَا ذَكَرَ فِي الْمَسْجِدِ أَنَّهُ جُنُبٌ يَخْرُجُ كَمَا هُوَ وَلاَ يَتَيَمَّمُ:: 275]

تشریح:
عبدالاعلیٰ کی روایت کو امام احمد نے نکالا ہے اور اوزاعی کی روایت کو خود حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الاذان میں ذکر فرمایا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 275   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 235  
´جنبی بھول کر نماز پڑھانے کے لیے کھڑا ہو جائے تو کیا کرے؟`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ وَصَفَّ النَّاسُ صفوفهم، فخرج: " أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا قَامَ فِي مَقَامِهِ، ذَكَرَ أَنَّهُ لَمْ يَغْتَسِلْ، فَقَالَ لِلنَّاسِ: مَكَانَكُمْ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى بَيْتِهِ، فَخَرَجَ عَلَيْنَا يَنْطُفُ رَأْسُهُ وَقَدِ اغْتَسَلَ، وَنَحْنُ صُفُوفٌ "، وَهَذَا لَفْظُ ابْنُ حَرْبٍ، وَقَالَ عَيَّاشٌ فِي حَدِيثِهِ: فَلَمْ نَزَلْ قِيَامًا نَنْتَظِرُهُ حَتَّى خَرَجَ عَلَيْنَا وَقَدِ اغْتَسَلَ . . . .»
. . . ´ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ` (ایک مرتبہ) نماز کے لیے اقامت ہو گئی اور لوگوں نے صفیں باندھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، یہاں تک کہ جب اپنی جگہ پر (آ کر) کھڑے ہو گئے، تو آپ کو یاد آیا کہ آپ نے غسل نہیں کیا ہے، آپ نے لوگوں سے کہا: تم سب اپنی جگہ پر رہو، پھر آپ گھر واپس گئے اور ہمارے پاس (واپس) آئے، تو آپ کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا اور حال یہ تھا کہ آپ نے غسل کر رکھا تھا اور ہم صف باندھے کھڑے تھے۔ یہ ابن حرب کے الفاظ ہیں، عیاش نے اپنی روایت میں کہا ہے: ہم لوگ اسی طرح (صف باندھے) کھڑے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائے، آپ غسل کئے ہوئے تھے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب فِي الْجُنُبِ يُصَلِّي بِالْقَوْمِ وَهُوَ نَاسٍ: 235]
فوائد و مسائل:
➊ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احکام شریعت کے اسی طرح پابند تھے جیسے کہ باقی افراد امت، سوائے ان امور کے جن میں آپ کو خصوصیت دی گئی تھی۔
➋ جسے مسجد میں جنابت لاحق ہو جائے (احتلام ہو جائے) اس کے لیے ضروری نہیں کہ تیمم کر کے باہر نکلے جیسے کہ بعض کا خیال ہے۔
➌ اقامت اور تکبیر میں کسی معقول سبب سے فاصلہ ہو جائے تو کوئی حرج نہیں، دوبارہ اقامت کہنے کی ضرورت نہیں۔
➍ مقتدیوں کو چاہئیے کہ اپنے مقرر امام کا انتظار کریں، اگر کھڑے بھی رہیں تو جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 235   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 793  
´نمازی پر کھڑے ہو جانے کے بعد امام کو یاد آئے کہ مجھ کو نہانے کی حاجت ہے تو کیا کرے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی، تو لوگوں نے اپنی صفیں درست کیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجرے سے نکل کر نماز پڑھنے کی جگہ پر آ کر کھڑے ہوئے، پھر آپ کو یاد آیا کہ غسل نہیں کیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا: تم اپنی جگہوں پر رہو، پھر آپ واپس اپنے گھر گئے پھر نکل کر ہمارے پاس آئے، اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، اور ہم صف باندھے کھڑے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 793]
793۔ اردو حاشیہ: ایسا واقعہ کبھی کبھار ہو سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ آج کل بھی امام لوگوں کو صفوں میں کھڑا کر کے نہانے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ہی اور تھی۔ آپ کے انتظار میں تو لوگ آدھی آدھی رات تک بیٹھے رہتے تھے۔ اگر ایسی صورت حال پیدا ہو جائے تو امام اپنی جگہ کسی کو کھڑا کر کے جماعت شروع کروائے اور خود چلا جائے۔ «أَنزِلوا الناسَ مَنازلَهم» یعنی ہر شخص کے ساتھ اس کے مقام و مرتبہ کے مطابق پیش آنا چاہیے۔ بالفرض اگر کسی امام کے مقتدی بخوشی اس کا انتظار کریں یا کوئی اور جماعت کے قابل نہ ہو تو مندرجہ بالا صورت پر عمل کیا جا سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 793   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 810  
´امام کے نکلنے سے پہلے صفوں کی درستگی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نماز کے لیے اقامت کہی گئی تو ہم کھڑے ہوئے، اور صفیں اس سے پہلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلیں درست کر لی گئیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے یہاں تک کہ جب آپ اپنی نماز پڑھانے کی جگہ پر آ کر کھڑے ہو گئے تو اس سے پہلے کہ کے آپ تکبیر (تکبیر تحریمہ) کہیں ہماری طرف پلٹے، اور فرمایا: تم لوگ اپنی جگہوں پہ رہو، تو ہم برابر کھڑے آپ کا انتظار کرتے رہے یہاں تک کہ آپ ہماری طرف آئے، آپ غسل کئے ہوئے تھے، اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، تو آپ نے تکبیر (تحریمہ) کہی، اور صلاۃ پڑھائی۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 810]
810 ۔ اردو حاشیہ: اگرچہ امام کو دیکھ کر کھڑے ہونا چاہیے مگر اتنی دیر پہلے بھی کھڑے ہو سکتے ہیں کہ امام صاحب کے آنے تک صفیں سیدھی ہوسکیں۔ [مزيد فوائد كے ليے ديكهيے: 793]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 810   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1220  
´نماز پر بنا کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے نکلے اور آپ نے «الله أكبر» کہا، پھر لوگوں کو اشارہ کیا کہ وہ اپنی جگہ ٹھہرے رہیں، لوگ ٹھہرے رہے، پھر آپ گھر گئے اور غسل کر کے آئے، آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، پھر آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: میں تمہارے پاس جنابت کی حالت میں نکل آیا تھا، اور غسل کرنا بھول گیا تھا یہاں تک کہ نماز کے لیے کھڑا ہو گیا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1220]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام کے سہو سے مقتدیوں کی نماز خراب نہیں ہوتی۔
نبی اکرمﷺ نے بھول کر جنابت کی حالت میں تکبیر تحریمہ کہی لیکن مقتدیوں کی تکبیر تحریمہ درست تھی۔
اس لئے رسول اللہ ﷺ نے انہیں نماز کی حالت میں کھڑے رہنے کا اشارہ فرما دیا۔

(2)
اس حدیث سے بِنَا کا مسئلہ ثابت ہوسکتا ہے۔
کہ اگر نبی اکرم ﷺنے تکبیر تحریمہ دوبارہ نہ کہی ہو لیکن اس میں یہ اشکال ہے کہ حالت جنابت میں کہی ہوئی تکبیر تحریمہ کو درست ماننا پڑے گا۔
اس لئے نبی اکرم ﷺنے تکبیر تحریمہ یقیناً دوبارہ کہی ہوگی۔
اور اس صورت میں بناء کا مسئلہ ثابت نہیں ہوتا۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1220   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:275  
275. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ایک دفعہ نماز کے لیے اقامت کہہ دی گئی اور کھڑے ہو کر صفیں بھی سیدھی کر لی گئیں تو رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے۔ جب آپ مصلے پر کھڑے ہو چکے تو یاد آیا کہ آپ جنابت کی حالت میں ہیں۔ اس وقت آپ نے ہم سے فرمایا: اپنی جگہ ٹھہرے رہو۔ پھر آپ واپس چلے گئے، غسل فرمایا اور دوبارہ مسجد میں تشریف لائے تو آپ کے سر مبارک سے پانی ٹپک رہا تھا، چنانچہ آپ نے نماز کے لیے تکبیر کہی اور ہم نے آپ کے ساتھ نماز ادا کی۔ عبدالاعلیٰ نے بواسطہ معمر زہری سے عثمان بن عمر کی متابعت کی ہے اور اوزاعی نے بھی زہری سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:275]
حدیث حاشیہ:

ابن بطال ؒ نے بعض تابعین ؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر کوئی جنبی شخص بھول کر مسجد میں داخل ہو جائے، جب اسے یاد آئے تو تیمم کر کے مسجد سے نکلے۔
امام ثوری ؒ اور اسحاق ؒ کا بھی یہی موقف ہے۔
(شرح ابن بطال: 389/1)
امام بخاری ؒ نے ان حضرات کی تردید میں اس عنوان کو قائم کیا ہے، یعنی جنبی آدمی مسجد میں آگیا، اسے خیال نہ تھا کہ مجھے نہانے کی ضرورت ہے، بعد میں اسے یاد آیا کہ میں تو جنبی ہوں، اب نکلنے کی کیا صورت ہوگی؟ آیا تیمم کرے، پھر نکلے یا فوراً مسجد سے باہر آ جائے؟ امام بخاری ؒ نے اپنا مسلک واضح کردیا ہے کہ یاد آنے پر اسے فوراً مسجد سے نکل آنا چاہے، اسے تیمم کے بقدر ٹھہرنے کی اجازت نہیں، البتہ مجبوری کے احکام اس سے مستثنیٰ ہوں گے، مثلاً:
۔
کوئی آدمی مسجد میں سو رہا ہے، اسے احتلام ہوگیا، ادھر رات بہت اندھیری ہے۔
باہر نہیں جا سکتا۔
۔
مسجد کے باہر کوئی درندہ وغیرہ کھڑا ہے جس سے جان کو خطرہ ہے۔
۔
باہر بہت تیز بارش ہو رہی ہے۔
ایسے حالات میں وہ مسجد میں بیٹھا رہے اور اللہ سے توبہ کرتا رہے۔

حدیث سے امام بخاری ؒ کے استدلا ل کی علامہ سندھی ؒ نے بایں الفاظ وضاحت کی ہے کہ احادیث کے بیان کرنے سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مقصد کوئی قصہ سرائی یا داستان گوئی نہ ہوتا تھا، بلکہ وہ واقعات کو صرف مسائل شرعیہ بیان کرنے کے لیے سنایا کرتے تھے۔
اگراس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے تیمم کیا ہوتا توحضرت ابوہریرۃ ؓ اس کا ضرور تذکرہ کرتے، اس لیے یہ سکوت محل بیان کا سکوت ہے جو بیان کا حکم رکھتا ہے۔
ایسے مواقع پر عدم الذکر عدم وجود کی دلیل ہے۔
اس سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد سے نکلتے وقت تیمم نہیں کیا تھا۔
(حاشیة السندي: 60/1)
اس سے معلوم ہواکہ اگر مسجد میں داخل ہونے کے بعد جنابت کا خیال آئے تو تیمم کا انتظار کیے بغیر فوراً مسجد سے نکل آنا چاہیے۔
مسجد کے تقدس کے پیش نظر مسجد کی دیوار سے بھی تیمم کرنے کی اجازت نہیں۔

امام بخاری ؒ نے اس کی تائید میں دو متابعتیں پیش فرمائی ہیں:
۔
عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلیٰ بصری نے بواسطہ معمر زہری سے روایت کرنے میں عثمان بن عمر کی متابعت کی ہے جسے امام احمد بن حنبل ؒ نے اپنی مسند میں موصولاً بیان کیا ہے۔
۔
امام اوزاعی ؒ نے بھی حضرت ابن شہاب زہری سے اس روایت کو بیان کیا ہے جسے امام بخاری ؒ نے خود أبواب الإمامة کے اوائل میں باسند بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 497/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 275   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.