الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai Wal-Imarah)
20. باب فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى
20. باب: خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان۔
Chapter: The Division Of The Khumus And The Share Of His Relatives.
حدیث نمبر: 2986
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عنبسة بن خالد، حدثنا يونس، عن ابن شهاب، اخبرني علي بن حسين، ان حسين بن علي اخبره، ان علي بن ابي طالب، قال: كانت لي شارف من نصيبي من المغنم يوم بدر، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم اعطاني شارفا من الخمس يومئذ، فلما اردت ان ابني بفاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم واعدت رجلا صواغا من بني قينقاع ان يرتحل معي فناتي بإذخر اردت ان ابيعه من الصواغين فاستعين به في وليمة عرسي، فبينا انا اجمع لشارفي متاعا من الاقتاب والغرائر والحبال وشارفاي مناخان إلى جنب حجرة رجل من الانصار اقبلت حين جمعت ما جمعت فإذا بشارفي قد اجتبت اسنمتهما وبقرت خواصرهما واخذ من اكبادهما، فلم املك عيني حين رايت ذلك المنظر، فقلت: من فعل هذا قالوا: فعله حمزة بن عبد المطلب وهو في هذا البيت في شرب من الانصار غنته قينة واصحابه، فقالت في غنائها: الا يا حمز للشرف النواء؟، فوثب إلى السيف فاجتب اسنمتهما وبقر خواصرهما، واخذ من اكبادهما قال علي: فانطلقت حتى ادخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعنده زيد بن حارثة، قال: فعرف رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي لقيت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لك، قال: قلت: يا رسول الله ما رايت كاليوم عدا حمزة على ناقتي فاجتب اسنمتهما وبقر خواصرهما وههو ذا في بيت معه شرب فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بردائه فارتداه، ثم انطلق يمشي واتبعته انا وزيد بن حارثة. حتى جاء البيت الذي فيه حمزة فاستاذن فاذن له فإذا هم شرب فطفق رسول الله صلى الله عليه وسلم يلوم حمزة فيما فعل، فإذا حمزة ثمل محمرة عيناه، فنظر حمزة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم صعد النظر فنظر إلى ركبتيه ثم صعد النظر فنظر إلى سرته ثم صعد النظر فنظر إلى وجهه، ثم قال: حمزة وهل انتم إلا عبيد لابي، فعرف رسول الله صلى الله عليه وسلم انه ثمل فنكص رسول الله صلى الله عليه وسلم على عقبيه القهقرى فخرج وخرجنا معه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ حُسَيْنَ بْنَ عَلِيٍّ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: كَانَتْ لِي شَارِفٌ مِنْ نَصِيبِي مِنَ الْمَغْنَمِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَانِي شَارِفًا مِنَ الْخُمُسِ يَوْمَئِذٍ، فَلَمَّا أَرَدْتُ أَنْ أَبْنِيَ بِفَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاعَدْتُ رَجُلًا صَوَّاغًا مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعٍ أَنْ يَرْتَحِلَ مَعِي فَنَأْتِيَ بِإِذْخِرٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَهُ مِنَ الصَّوَّاغِينَ فَأَسْتَعِينَ بِهِ فِي وَلِيمَةِ عُرْسِي، فَبَيْنَا أَنَا أَجَمْعُ لِشَارِفَيَّ مَتَاعًا مِنَ الأَقْتَابِ وَالْغَرَائِرِ وَالْحِبَالِ وَشَارِفَايَ مُنَاخَانِ إِلَى جَنْبِ حُجْرَةِ رَجُلٍ مِنْ الأَنْصَارِ أَقْبَلْتُ حِينَ جَمَعْتُ مَا جَمَعْتُ فَإِذَا بِشَارفَيَّ قَدِ اجْتُبَّتْ أَسْنِمَتُهُمَا وَبُقِرَتْ خَوَاصِرُهُمَا وَأُخِذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، فَلَمْ أَمْلِكْ عَيْنَيَّ حِينَ رَأَيْتُ ذَلِكَ الْمَنْظَرَ، فَقُلْتُ: مَنْ فَعَلَ هَذَا قَالُوا: فَعَلَهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ وهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ فِي شَرْبٍ مِنْ الأَنْصَارِ غَنَّتْهُ قَيْنَةٌ وَأَصْحَابَهُ، فَقَالَتْ فِي غِنَائِهَا: أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ؟، فَوَثَبَ إِلَى السَّيْفِ فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، وَأَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا قَالَ عَلِيٌّ: فَانْطَلَقْتُ حَتَّى أَدْخُلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعِنْدَهُ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، قَالَ: فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي لَقِيتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ عَدَا حَمْزَةُ عَلَى نَاقَتَيَّ فَاجْتَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا وَهَهُوَ ذَا فِي بَيْتٍ مَعَهُ شَرْبٌ فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرِدَائِهِ فَارْتَدَاهُ، ثُمَّ انْطَلَقَ يَمْشِي وَاتَّبَعْتُهُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ. حتَّى جَاءَ الْبَيْتَ الَّذِي فِيهِ حَمْزَةُ فَاسْتَأْذَنَ فَأُذِنَ لَهُ فَإِذَا هُمْ شَرْبٌ فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلُومُ حَمْزَةَ فِيمَا فَعَلَ، فَإِذَا حَمْزَةُ ثَمِلٌ مُحْمَرَّةٌ عَيْنَاهُ، فَنَظَرَ حَمْزَةُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى سُرَّتِهِ ثُمَّ صَعَّدَ النَّظَرَ فَنَظَرَ إِلَى وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: حَمْزَةُ وَهَلْ أَنْتُمْ إِلَّا عَبِيدٌ لِأَبِي، فَعَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ثَمِلٌ فَنَكَصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَقِبَيْهِ الْقَهْقَرَى فَخَرَجَ وَخَرَجْنَا مَعَهُ.
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک زیادہ عمر والی اونٹنی تھی جو مجھے بدر کے دن مال غنیمت کی تقسیم میں ملی تھی اور اسی دن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بہت عمر والی اونٹنی مال خمس میں سے عنایت فرمائی تھی تو جب میں نے ارادہ کیا کہ میں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر لاؤں، تو میں نے بنو قینقاع کے ایک سنار سے وعدہ لے لیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں جا کر اذخر (ایک خوشبودار گھاس ہے) لائیں میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں سے بیچ کر اپنے ولیمہ کی تیاری میں اس سے مدد لوں، اسی دوران کہ میں اپنی اونٹنیوں کے لیے پالان، گھاس کے ٹوکرے اور رسیاں (وغیرہ) اکٹھا کر رہا تھا اور میری دونوں اونٹنیاں ایک انصاری کے حجرے کے بغل میں بیٹھی ہوئی تھیں، جو ضروری سامان میں مہیا کر سکتا تھا کر کے لوٹ کر آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ دونوں اونٹنیوں کے کوہان کاٹ دئیے گئے ہیں اور پیٹ چاک کر دئیے گئے ہیں، اور ان کے کلیجے نکال لیے گئے ہیں، جب میں نے یہ منظر دیکھا تو میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پا سکا میں نے کہا: یہ کس نے کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: یہ سب حمزہ بن عبدالمطلب نے کیا ہے، وہ اس گھر میں چند انصاریوں کے ساتھ شراب پی رہے ہیں، ایک مغنیہ نے ان کے اور ان کے ساتھیوں کے سامنے یوں گا یا: «ألا يا حمز للشرف النواء»  ۱؎ (اے حمزہ ان موٹی موٹی اونٹنیوں کے لیے جو میدان میں بندھی ہوئی ہیں اٹھ کھڑے ہو) یہ سن کر وہ تلوار کی طرف جھپٹے اور جا کر ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ چاک کر ڈالے، اور ان کے کلیجے نکال لیے، میں وہاں سے چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، آپ کے پاس زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میرے چہرے کو دیکھ کر) جو (صدمہ) مجھے لاحق ہوا تھا اسے بھانپ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آج کے دن کے جیسا کبھی نہیں دیکھا، حمزہ نے میری اونٹنیوں پر ظلم کیا ہے، ان کے کوہان کاٹ ڈالے، ان کے پیٹ پھاڑ ڈالے اور وہ یہاں ایک گھر میں شراب پینے والوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر منگوائی اور اس کو اوڑھ کر چلے، میں بھی اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چلے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس گھر میں پہنچے جہاں حمزہ تھے، آپ نے اندر جانے کی اجازت مانگی تو اجازت دے دی گئی، جب اندر گئے تو دیکھا کہ سب شراب پئے ہوئے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حمزہ کو ان کے کئے پر ملامت کرنے لگے، دیکھا تو حمزہ نشے میں تھے، آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، حمزہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھا، پھر تھوڑی نظر بلند کی تو آپ کے گھٹنوں کو دیکھا، پھر تھوڑی نظر اور بلند کی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناف کی طرف دیکھا، پھر تھوڑی نظر اور بلند کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کو دیکھا، پھر بولے: تم سب میرے باپ کے غلام ہی تو ہو، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان لیا کہ حمزہ نشے میں دھت ہیں (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الٹے پاؤں وہاں سے پلٹے اور نکل آئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی نکل آئے (اس وقت تک شراب حرام نہ ہوئی تھی)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/البیوع 28 (2089)، المساقاة 13 (2375)، فرض الخمس 1 (3091)، المغازي 12 (4003)، اللباس 9 (5793)، صحیح مسلم/الأشربة 1 (1979)، (تحفة الأشراف: 10069)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/142) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎؎: باقی اشعار اس طرح ہیں: «أَلا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاء وَهُنَّ ممقَّلاتٌ بالفناء ضَع السكين في اللبات منها وضرجهن حمزة بالدماء وعجل من أطايبها لشرب قديدًا من طبيخ أو شواء» اے حمزہ ان موٹی موٹی اونٹنیوں کے لئے جو میدان میں بندھی ہوئی ہیں اٹھ کھڑے ہو اوران کے حلق پر چھری پھیر کر انہیں خون میں لت پت کردے اور ان کے پاکیزہ ٹکڑوں یعنی کوہان اور جگر سے پکا ہوا یا بھنا ہوا گوشت شراب پینے والوں کے لئے جلدی تیار کرو۔

Ali bin Abi Talib said “I had an old she Camel that I got as my share from the booty on the day of Badr. The Messenger of Allah ﷺ also gave me an old she camel from the fifth that day. When I intended to cohabit with Fathimah daughter of the Messenger of Allah ﷺ, I made arrangement with a man who was a goldsmith belonging to Banu Qainuqa’ to go with me so that we may bring grass. I intended to sell it to the goldsmith there by seeking help in my wedding feast. While I was collecting for my old Camels saddles, baskets and ropes both of she Camels were seated in a corner of the apartment of a man of the Ansar. When I collected what I collected (i. e., equipment) I turned (towards them). I suddenly found that the humps of she Camels were cut off and their hips were pierced and their lives were taken out. I could not control my eyes (to weep) when I saw that scene. I said “Who has done this?” They (the people) replied “Hamzah bin Abd Al Muttalib”. He is among the drunkards of the Ansar in this house. A singing girl is singing for him and his Companions. While singing she said “Oh Hamza, rise to these plumpy old she Camels. So he jumped to the sword and cut off their humps, pierced their hips and took out their livers. ” Ali said “I went till I entered upon the Messenger of Allah ﷺ while Zaid bin Harithah was with him. ” The Messenger of Allah ﷺ realized what I had met with. The Messenger of Allah ﷺ aid “What is the matter with you?” I said Messenger of Allah ﷺ, I never saw the thing that happened with me today. Hamzah wronged my she Camels, he cut off their humps, pierced their hips. Lo! He is in a house with drunkards. The Messenger of Allah ﷺ asked for his cloak. It was brought to him. He then went out, I and Zaid bin Harithah followed him until we reached the house where Hamzah was. He asked permission ( to entre). He was permitted. He found drunkards there. The Messenger of Allah ﷺ began to rebuke him (Hamzah) for his action. Hamzah was intoxicated and his eyes were reddish. Hamzah looked at the Messenger of Allah ﷺ. He then raised his eyes and looked at his knees, he then raised his eyes and looked at his navel and he then raised his eyes and looked at his face. Hamzah then said “Are you but the salves of my father? Then the Messenger of Allah ﷺ knew that he was intoxicated. So the Messenger of Allah ﷺ moved backward. He then went out and we also went out with him. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2980


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (3091) صحيح مسلم (1979)

   صحيح البخاري4003حسين بن عليما رأيت كاليوم عدا حمزة على ناقتي فأجب أسنمتهما وبقر خواصرهما وههوذا في بيت معه شرب فدعا النبي بردائه فارتدى ثم انطلق يمشي واتبعته أنا وزيد بن حارثة حتى جاء البيت الذي فيه حمزة فاستأذن عليه فأذن له فطفق النبي يلوم حمزة فيما فعل فإذا حمزة ثمل محمرة عيناه ف
   صحيح البخاري5793حسين بن عليدعا النبي بردائه ثم انطلق يمشي واتبعته أنا وزيد بن حارثة حتى جاء البيت الذي فيه حمزة فاستأذن فأذنوا لهم
   صحيح البخاري3091حسين بن عليأعطاني شارفا من الخمس فلما أردت أن أبتني بفاطمة بنت رسول الله واعدت رجلا صواغا من بني قينقاع أن يرتحل معي فنأتي بإذخر أردت أن أبيعه الصواغين وأستعين به في وليمة عرسي فبينا أنا أجمع لشارفي متاعا من الأقتاب والغرائر والحبال وشارفاي مناخان إلى جنب حجرة رجل م
   صحيح البخاري2089حسين بن عليلي شارف من نصيبي من المغنم وكان النبي أعطاني شارفا من الخمس فلما أردت أن أبتني بفاطمة بنت رسول الله واعدت رجلا صواغا من بني قينقاع أن يرتحل معي فنأتي بإذخر أردت أن أبيعه من الصواغين وأستعين به في وليمة عرسي
   صحيح مسلم5127حسين بن عليأصبت شارفا مع رسول الله في مغنم يوم بدر وأعطاني رسول الله شارفا أخرى فأنختهما يوما عند باب رجل من الأنصار وأنا أريد أن أحمل عليهما إذخرا لأبيعه ومعي صائغ من بني قينقاع فأستعين به على وليمة فاطمة وحمزة بن عبد المطلب يشرب في ذلك البيت معه قينة تغنيه فقالت أ
   صحيح مسلم5129حسين بن عليلي شارف من نصيبي من المغنم يوم بدر وكان رسول الله أعطاني شارفا من الخمس يومئذ فلما أردت أن أبتني بفاطمة بنت رسول الله واعدت رجلا صواغا من بني قينقاع يرتحل معي فنأتي بإذخر أردت أن أبيعه من الصواغين فأستعين به في وليمة عرسي فبينا أنا أجمع لشارفي متاعا من ال
   سنن أبي داود2986حسين بن عليدعا رسول الله بردائه فارتداه ثم انطلق يمشي واتبعته أنا و زيد بن حارثة حتى جاء البيت الذي فيه حمزة فاستأذن فأذن له فإذا هم شرب فطفق رسول الله يلوم حمزة فيما فعل فإذا حمزة ثمل محمرة عيناه فنظر حمزة إلى رسول الله ثم صعد النظر فنظر إلى ركبتيه ثم صعد النظر فنظ
   صحيح البخاري2375حسين بن علياصبت شارفا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في مغنم يوم بدر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2375  
´بدری صحابیوں کی فضیلت `
«. . . فَأَنَخْتُهُمَا يَوْمًا عِنْدَ بَابِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَحْمِلَ عَلَيْهِمَا إِذْخِرًا لِأَبِيعَهُ، وَمَعِي صَائِغٌ مِنْ بَنِي قَيْنُقَاعَ فَأَسْتَعِينَ بِهِ عَلَى وَلِيمَةِ فَاطِمَةَ، وَحَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ المُطَّلِبِ يَشْرَبُ فِي ذَلِكَ الْبَيْتِ مَعَهُ قَيْنَةٌ، فَقَالَتْ: أَلَا يَا حَمْزُ لِلشُّرُفِ النِّوَاءِ، فَثَارَ إِلَيْهِمَا حَمْزَةُ بِالسَّيْفِ، فَجَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا وَبَقَرَ خَوَاصِرَهُمَا، ثُمَّ أَخَذَ مِنْ أَكْبَادِهِمَا، قُلْتُ لِابْنِ شِهَابٍ: وَمِنَ السَّنَامِ، قَالَ: قَدْ جَبَّ أَسْنِمَتَهُمَا فَذَهَبَ بِهَا. . .»
حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اسی (انصاری کے) گھر میں شراب پی رہے تھے۔ ان کے ساتھ ایک گانے والی بھی تھی۔ اس نے جب یہ مصرعہ پڑھا: ہاں: اے حمزہ! اٹھو، فربہ جوان اونٹنیوں کی طرف (بڑھ) حمزہ رضی اللہ عنہ جوش میں تلوار لے کر اٹھے اور دونوں اونٹنیوں کے کوہان چیر دیئے۔ ان کے پیٹ پھاڑ ڈالے۔ اور ان کی کلیجی نکال لی (ابن جریج نے بیان کیا کہ) میں نے ابن شہاب سے پوچھا، کیا کوہان کا گوشت بھی کاٹ لیا تھا۔ تو انہوں نے بیان کیا کہ ان دونوں کے کوہان کاٹ لیے اور انہیں لے گئے۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا، مجھے یہ دیکھ کر بڑی تکلیف ہوئی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ: 2375]

تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں پانچ مقامات پر موجود ہے:
[2089، 2375، 3091، 4003، 5793 مختصراً ومطولاً]
صحیح بخاری کے علاوہ یہ روایت درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
صحيح مسلم [1979 وترقيم دارالسلام: 5127۔ 5130]
صحيح ابن حبان [الاحسان 7؍34 ح4519 دوسرا نسخه: 4536]
صحيح ابي عوانه [5؍248، 249، 250، 251، 252]
وسنن ابي داود [2986]
والسنن الكبريٰ للبيهقي [6؍153، 341، 342]
ومسند ابي يعليٰ [547]
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے یہ حدیث امام أحمد رحمہ اللہ نے بیان کی ہے۔ دیکھئیے
مسند أحمد بن حنبل [1؍142 ح1200]
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت صحیح ثابت اور مشہور ہے۔
اس سلسلے میں چند اہم معلومات درج ذیل ہیں:
① یہ واقعہ غزوہ احد 3ھ سے پہلے اور غزوہ بدر 2ھ کے بعد کا ہے۔
② شراب (خمر) کی حرمت کا حکم 6ھ یا 7ھ میں نازل ہوا۔ اس سے پہلے شراب حرام نہیں تھی۔
③ اس حدیث میں ذکر کردہ دور میں گانے والی لونڈیوں کا گانا حرام نہیں ہوا تھا۔ یاد رہے کہ اس روایت میں موسیقی کے آلات کا ذکر نہیں بلکہ صرف لونڈی کا (آواز سے) گانا مذکور ہے۔ گانے بجانے کی حرمت دوسری احادیث سے ثابت ہوتی ہے۔ مثلاً ديكهئے: [صحيح بخاري: 5590]
لہٰذا اس روایت سے گانے بجانے کے جواز پر استدلال کرنا منسوخ ہے۔
④ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہما سے نا کا صدور بھی ثابت ہے ديكهئے: [صحيح بخاري: 6820 وصحيح مسلم: 1691]
⑤ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بخشے ہوئے اور جنتی ہیں۔
❀ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«اطلع الله على أهل بدر فقال: اعملوا ما شئتم، فقد غفرت لكم»
بدری صحابیوں کے سامنے اللہ ظاہر ہوا اور فرمایا جو چاہو کرو، میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔ [مسند أحمد 2؍295 ح7940 وسنده حسن]
سیدنا امیر حمزہ البدری رضی اللہ عنہ کا یہ عمل نشے کی وجہ سے تھا، انہیں اللہ نے بخش دیا اور جنت الفردوس میں داخل کر دیا ہے، لہٰذا منکرین حدیث کا یہ کہنا کہ صحابہ کا یہ کردار خلاف قرآن سمجھا جائے گا۔ مردود ہے کیونکہ یہ واقعہ حرمت خمر سے پہلے کا ہے۔
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث\صفحہ نمبر: 24   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2986  
´خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان۔`
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک زیادہ عمر والی اونٹنی تھی جو مجھے بدر کے دن مال غنیمت کی تقسیم میں ملی تھی اور اسی دن مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور بہت عمر والی اونٹنی مال خمس میں سے عنایت فرمائی تھی تو جب میں نے ارادہ کیا کہ میں فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر لاؤں، تو میں نے بنو قینقاع کے ایک سنار سے وعدہ لے لیا کہ وہ میرے ساتھ چلے اور ہم دونوں جا کر اذخر (ایک خوشبودار گھاس ہے) لائیں میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اسے سناروں سے بیچ کر اپنے ولیمہ کی تیاری میں اس سے مدد لوں، اسی دوران ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2986]
فوائد ومسائل:

یہ واقعہ شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے کا ہے۔
اور اس گانے والی کے شعر یوں تھے۔
ترجمہ۔
اے حمزہ اٹھو۔
اور یہ موٹی موٹی اونٹنیاں جو میدان میں بندھی ہیں۔
ان کے حلقوں پرچھری رکھو۔
اور انہیں خونم خون کردو۔
اور ان کا عمدہ عمدہ گوشت پکا ہوا یا بھنا ہوا اپنے شراب پینے والے ساتھوں کوپیش کرو ان اشعار کا مقصد حمزہ کے جزبہ سخاوت کو غلط طریق پر ابھارنا تھا۔
حضرت حمزہ نے ان کے اکسانے پر اپنے بھتیجے کی پونجی جو اونٹوں پر مشتمل تھی۔
برباد کر ڈالی۔


اہل بیت کےافراد کو جہاد میں سے غنیمت کا حصہ ملتا تھا۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسب ضرورت خمس سے مذید بھی عنایت فرمایا کرتے تھے۔


صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد محنت مزدوری اور مشقت سے اپنے اخراجات پورے کیا کرتے تھے۔


انسان کسی وجہ سے عقل وشعورسے عاری ہوجائے تو خاص اس حالت میں تادیب مفید نہیں ہوسکتی۔
بلکہ اس سے دور جانا ہی بہتر ہوتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2986   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.