الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: محصورات اراضی اور امارت سے متعلق احکام و مسائل
Tribute, Spoils, and Rulership (Kitab Al-Kharaj, Wal-Fai Wal-Imarah)
20. باب فِي بَيَانِ مَوَاضِعِ قَسْمِ الْخُمُسِ وَسَهْمِ ذِي الْقُرْبَى
20. باب: خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان۔
Chapter: The Division Of The Khumus And The Share Of His Relatives.
حدیث نمبر: 2987
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، حدثنا عبد الله بن وهب، حدثني عياش بن عقبة الحضرمي، عن الفضل بن الحسن الضمري، ان ام الحكم او ضباعة ابنتي الزبير بن عبد المطلب حدثته , عن إحداهما، انها قالت: اصاب رسول الله صلى الله عليه وسلم سبيا فذهبت انا واختي وفاطمة بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم فشكونا إليه ما نحن فيه وسالناه ان يامر لنا بشيء من السبي، فقال رسول الله صلى الله وسلم:" سبقكن يتامى بدر لكن سادلكن على ما هو خير لكن من ذلك تكبرن الله على إثر كل صلاة ثلاثا وثلاثين تكبيرة وثلاثا وثلاثين تسبيحة وثلاثا وثلاثين تحميدة ولا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير"، قال عياش: وهما ابنتا عم النبي صلى الله عليه وسلم.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَيَّاشُ بْنُ عُقْبَةَ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ الْحَسَنِ الضَّمْرِيِّ، أَنَّ أُمَّ الْحَكَمِ أَوْ ضُبَاعَةَ ابْنَتَيِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ حَدَّثَتْه , عَنْ إِحْدَاهُمَا، أَنَّهَا قَالَتْ: أَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيًا فَذَهَبْتُ أَنَا وَأُخْتِي وَفَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَكَوْنَا إِلَيْهِ مَا نَحْنُ فِيهِ وَسَأَلْنَاهُ أَنْ يَأْمُرَ لَنَا بِشَيْءٍ مِنَ السَّبْيِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ وَسَلَّمَ:" سَبَقَكُنَّ يَتَامَى بَدْرٍ لَكِنْ سَأَدُلُّكُنَّ عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكُنَّ مِنْ ذَلِكَ تُكَبِّرْنَ اللَّهَ عَلَى إِثْرِ كُلِّ صَلَاةٍ ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَكْبِيرَةً وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَسْبِيحَةً وَثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ تَحْمِيدَةً وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"، قَالَ عَيَّاشٌ: وَهُمَا ابْنَتَا عَمِّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
فضل بن حسن ضمری کہتے ہیں کہ ام الحکم یا ضباعہ رضی اللہ عنہما (زبیر بن عبدالمطلب کی دونوں بیٹیوں) میں سے کسی ایک نے دوسرے کے واسطے سے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو میں اور میری بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا تینوں آپ کے پاس گئیں، اور ہم نے اپنی تکالیف ۱؎ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا اور درخواست کی کہ کوئی قیدی آپ ہمیں دلوا دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدر کی یتیم لڑکیاں تم سے سبقت لے گئیں (یعنی تم سے پہلے آ کر انہوں نے قیدیوں کی درخواست کی اور انہیں لے گئیں)، لیکن (دل گرفتہ ہونے کی بات نہیں) میں تمہیں ایسی بات بتاتا ہوں جو تمہارے لیے اس سے بہتر ہے، ہر نماز کے بعد (۳۳) مرتبہ اللہ اکبر، (۳۳) مرتبہ سبحان اللہ، (۳۳) مرتبہ الحمداللہ، اور ایک بار «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شىء قدير» کہہ لیا کرو۔ عیاش کہتے ہیں کہ یہ (ضباعہ اور ام الحکم رضی اللہ عنہما) دونوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہنیں تھیں ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15912، 15314)، ویأتی ہذا الحدیث فی الأدب (5066) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس حدیث کی البانی نے صحیحة 2؍ 188، اور صحیح ابی داود 2644، میں پہلے تصحیح کی تھی، بعد میں ابن ام الحکم کی جہالت کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا، ملاحظہ ہو: ضعیف ابی داود 2؍ 424)

وضاحت:
۱؎: مفلسی کے سبب سے ہمیں کوئی غلام یا لونڈی میسر نہیں ہے، سارے کام اپنے ہاتھ سے خود کرنے پڑتے ہیں۔
۲؎: یعنی زبیر بن عبد المطلب کی بیٹیاں تھیں۔

Umm Al Hakam or Dubaah daughters of Al Zibair bin Abd Al Muttalib said “Some captives of war were brought to the Messenger of Allah ﷺ. I and my sister Fatimah, daughter of Messenger of Allah ﷺ went (to the Prophet) and complained to him about our existing condition. We asked him to order (to give) us some captives. The Messenger of Allah ﷺ said “the orphans of the people who were killed in the battle of Badr came before you (and they asked for the captives). But I tell you something better than that. You should utter “Allaah is Most Great” after each prayer thirty three times, “Glory be to Allaah” thirty three times, “Praise be to Allaah” thirty three times and “there is no god but Allaah alone, He has no associate, the Kingdom belongs to Him and praise is due to Him and He has power over all things. ” The narrator Ayyash said “They were daughters of Uncle of the Prophet ﷺ. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 19 , Number 2981


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
الفضل بن الحسن الضمري حسن الحديث

   سنن أبي داود2987سبقكن يتامى بدر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2987  
´خمس کے مصارف اور قرابت داروں کو حصہ دینے کا بیان۔`
فضل بن حسن ضمری کہتے ہیں کہ ام الحکم یا ضباعہ رضی اللہ عنہما (زبیر بن عبدالمطلب کی دونوں بیٹیوں) میں سے کسی ایک نے دوسرے کے واسطے سے ان سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو میں اور میری بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا تینوں آپ کے پاس گئیں، اور ہم نے اپنی تکالیف ۱؎ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا اور درخواست کی کہ کوئی قیدی آپ ہمیں دلوا دیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بدر کی یتیم لڑکیاں تم سے سبقت لے گئیں (یعنی تم سے پہلے آ کر انہوں نے قیدیوں کی درخواس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2987]
فوائد ومسائل:

ان سیدات کو اگرکچھ ملتا تو خمس سے ملتا، مگرشائد غنائم وغیرہ کے ساتھ وہ سب بھی شہدائے بدر کے یتیم بچوں میں تقسیم ہوچکا تھا۔


نبی کریم ﷺ مادی تعاون کےمعاملے میں زیادہ ضرورت مندوں خصوصا شہداء کے اہل وعیال کو اولیت دیا کرتے تھے۔
اور اپنے عزیزواقارب کے متعلق آپﷺ کی ترجیح یہی تھی کہ وہ بقدر گزران اور قناعت کی زندگی گزاریں۔


سیدات اہل بیت عام مسلمانوں کی خواتین حتیٰ کہ امہات المومنین سبھی اپنے اپنے گھروں میں گھرداری کے تمام کام سر انجام دیتی تھیں۔
بعض فقہاء کا یہ کہنا کہ بیوی پر اپنے شوہر کی دلداری کے علاوہ اور کچھ واجب نہیں۔
(خیرالقرون کے اس تعامل کے اور آئندہ حدیث میں مذکور رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے خلاف ہے۔


اللہ کا زکراوراس کی پابندی دنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں خیروبرکات کاباعث ہے جبکہ خادم کا فائدہ صرف دنیا تک ہی محدود ہے۔
اور آخرت میں جوابدہی کا معاملہ اس پر مستزاد ہے۔


اس روایت میں یہ نکتہ بھی ہے کہ دن بھر کی محنت سے جو تکان لاحق ہوتی ہے۔
اس کا ازالہ خادم ہونے کی صورت میں اس سے جو راحت مل سکتی ہے۔
ویسی ہی راحت ان تسبیحات سے بھی مل سکتی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2987   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.