الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: وحی کے بیان میں
The Book of Revelation
حدیث نمبر: 3
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير ، قال: حدثنا الليث ، عن عقيل ، عن ابن شهاب ، عن عروة بن الزبير ، عن عائشة ام المؤمنين، انها، قالت:"اول ما بدئ به رسول الله صلى الله عليه وسلم من الوحي الرؤيا الصالحة في النوم، فكان لا يرى رؤيا إلا جاءت مثل فلق الصبح، ثم حبب إليه الخلاء وكان يخلو بغار حراء، فيتحنث فيه وهو التعبد الليالي ذوات العدد قبل ان ينزع إلى اهله ويتزود لذلك، ثم يرجع إلى خديجة فيتزود لمثلها حتى جاءه الحق وهو في غار حراء، فجاءه الملك، فقال: اقرا، قال: ما انا بقارئ، قال: فاخذني فغطني حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني، فقال: اقرا، قلت: ما انا بقارئ، فاخذني فغطني الثانية حتى بلغ مني الجهد، ثم ارسلني، فقال: اقرا، فقلت ما انا بقارئ، فاخذني فغطني الثالثة، ثم ارسلني فقال:" اقرا باسم ربك الذي خلق {1} خلق الإنسان من علق {2} اقرا وربك الاكرم {3}" سورة العلق آية 1-3، فرجع بها رسول الله صلى الله عليه وسلم يرجف فؤاده، فدخل على خديجة بنت خويلد رضي الله عنها، فقال: زملوني زملوني، فزملوه حتى ذهب عنه الروع، فقال لخديجة، واخبرها الخبر: لقد خشيت على نفسي، فقالت خديجة: كلا والله ما يخزيك الله ابدا، إنك لتصل الرحم، وتحمل الكل، وتكسب المعدوم، وتقري الضيف، وتعين على نوائب الحق، فانطلقت به خديجة حتى اتت به ورقة بن نوفل بن اسد بن عبد العزى ابن عم خديجة، وكان امرا تنصر في الجاهلية، وكان يكتب الكتاب العبراني، فيكتب من الإنجيل بالعبرانية ما شاء الله ان يكتب، وكان شيخا كبيرا قد عمي، فقالت له خديجة: يا ابن عم، اسمع من ابن اخيك، فقال له ورقة: يا ابن اخي، ماذا ترى، فاخبره رسول الله صلى الله عليه وسلم خبر ما راى، فقال له ورقة: هذا الناموس الذي نزل الله على موسى صلى الله عليه وسلم، يا ليتني فيها جذعا، ليتني اكون حيا إذ يخرجك قومك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اومخرجي هم، قال: نعم، لم يات رجل قط بمثل ما جئت به إلا عودي، وإن يدركني يومك انصرك نصرا مؤزرا، ثم لم ينشب ورقة ان توفي وفتر الوحي".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا، قَالَتْ:"أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ، ثُمَّ حُبِّبَ إِلَيْهِ الْخَلَاءُ وَكَانَ يَخْلُو بِغَارِ حِرَاءٍ، فَيَتَحَنَّثُ فِيهِ وَهُوَ التَّعَبُّدُ اللَّيَالِيَ ذَوَاتِ الْعَدَدِ قَبْلَ أَنْ يَنْزِعَ إِلَى أَهْلِهِ وَيَتَزَوَّدُ لِذَلِكَ، ثُمَّ يَرْجِعُ إِلَى خَدِيجَةَ فَيَتَزَوَّدُ لِمِثْلِهَا حَتَّى جَاءَهُ الْحَقُّ وَهُوَ فِي غَارِ حِرَاءٍ، فَجَاءَهُ الْمَلَكُ، فَقَالَ: اقْرَأْ، قَالَ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، قَالَ: فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، قُلْتُ: مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّانِيَةَ حَتَّى بَلَغَ مِنِّي الْجَهْدَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي، فَقَالَ: اقْرَأْ، فَقُلْتُ مَا أَنَا بِقَارِئٍ، فَأَخَذَنِي فَغَطَّنِي الثَّالِثَةَ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَقَالَ:" اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ {1} خَلَقَ الإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ {2} اقْرَأْ وَرَبُّكَ الأَكْرَمُ {3}" سورة العلق آية 1-3، فَرَجَعَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْجُفُ فُؤَادُهُ، فَدَخَلَ عَلَى خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُوهُ حَتَّى ذَهَبَ عَنْهُ الرَّوْعُ، فَقَالَ لِخَدِيجَةَ، وَأَخْبَرَهَا الْخَبَرَ: لَقَدْ خَشِيتُ عَلَى نَفْسِي، فَقَالَتْ خَدِيجَةُ: كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيكَ اللَّهُ أَبَدًا، إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْكَلَّ، وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ، فَانْطَلَقَتْ بِهِ خَدِيجَةُ حَتَّى أَتَتْ بِهِ وَرَقَةَ بْنَ نَوْفَلِ بْنِ أَسَدِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى ابْنَ عَمِّ خَدِيجَةَ، وَكَانَ امْرَأً تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ يَكْتُبُ الْكِتَابَ الْعِبْرَانِيَّ، فَيَكْتُبُ مِنَ الْإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَكْتُبَ، وَكَانَ شَيْخًا كَبِيرًا قَدْ عَمِيَ، فَقَالَتْ لَهُ خَدِيجَةُ: يَا ابْنَ عَمِّ، اسْمَعْ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: يَا ابْنَ أَخِي، مَاذَا تَرَى، فَأَخْبَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَبَرَ مَا رَأَى، فَقَالَ لَهُ وَرَقَةُ: هَذَا النَّامُوسُ الَّذِي نَزَّلَ اللَّهُ عَلَى مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَا لَيْتَنِي فِيهَا جَذَعًا، لَيْتَنِي أَكُونُ حَيًّا إِذْ يُخْرِجُكَ قَوْمُكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوَمُخْرِجِيَّ هُمْ، قَالَ: نَعَمْ، لَمْ يَأْتِ رَجُلٌ قَطُّ بِمِثْلِ مَا جِئْتَ بِهِ إِلَّا عُودِيَ، وَإِنْ يُدْرِكْنِي يَوْمُكَ أَنْصُرْكَ نَصْرًا مُؤَزَّرًا، ثُمَّ لَمْ يَنْشَبْ وَرَقَةُ أَنْ تُوُفِّيَ وَفَتَرَ الْوَحْيُ".
ہم کو یحییٰ بن بکیر نے یہ حدیث بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی ہم کو لیث نے خبر دی، لیث عقیل سے روایت کرتے ہیں۔ عقیل ابن شہاب سے، وہ عروہ بن زبیر سے، وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا۔ پھر من جانب قدرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم تنہائی پسند ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غار حرا میں خلوت نشینی اختیار فرمائی اور کئی کئی دن اور رات وہاں مسلسل عبادت اور یاد الٰہی و ذکر و فکر میں مشغول رہتے۔ جب تک گھر آنے کو دل نہ چاہتا توشہ ہمراہ لیے ہوئے وہاں رہتے۔ توشہ ختم ہونے پر ہی اہلیہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لاتے اور کچھ توشہ ہمراہ لے کر پھر وہاں جا کر خلوت گزیں ہو جاتے، یہی طریقہ جاری رہا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حق منکشف ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا ہی میں قیام پذیر تھے کہ اچانک جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ اے محمد! پڑھو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں پڑھنا نہیں جانتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پکڑ کر اتنے زور سے بھینچا کہ میری طاقت جواب دے گئی، پھر مجھے چھوڑ کر کہا کہ پڑھو، میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس فرشتے نے مجھ کو نہایت ہی زور سے بھینچا کہ مجھ کو سخت تکلیف محسوس ہوئی، پھر اس نے کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ فرشتے نے تیسری بار مجھ کو پکڑا اور تیسری مرتبہ پھر مجھ کو بھینچا پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہنے لگا کہ پڑھو اپنے رب کے نام کی مدد سے جس نے پیدا کیا اور انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا، پڑھو اور آپ کا رب بہت ہی مہربانیاں کرنے والا ہے۔ پس یہی آیتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل علیہ السلام سے سن کر اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس انوکھے واقعہ سے کانپ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خدیجہ کے ہاں تشریف لائے اور فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھا دو، مجھے کمبل اڑھا دو۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کمبل اڑھا دیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ڈر جاتا رہا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو تفصیل کے ساتھ یہ واقعہ سنایا اور فرمانے لگے کہ مجھ کو اب اپنی جان کا خوف ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ آپ کا خیال صحیح نہیں ہے۔ اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لیے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔ پھر مزید تسلی کے لیے خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں، جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے، چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ (انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی پھر اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا۔ ورقہ اسی کو لکھتے تھے) وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی۔ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات بیان کیے اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی! اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجیئے وہ بولے کہ بھتیجے آپ نے جو کچھ دیکھا ہے، اس کی تفصیل سناؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از اول تا آخر پورا واقعہ سنایا، جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس (معزز راز دان فرشتہ) ہے جسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔ کاش، میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ (حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں) ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے۔ مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں۔ اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔ مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے۔ پھر کچھ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی۔


Hum ko Yahya bin Bukair ne yeh Hadees bayan ki, woh kehte hain ke is Hadees ki hum ko Laith ne khabar di, Laith Uqail se riwayat karte hain. Uqail Ibn-e-Shihaab se, woh ’Urwah bin Zubair se, woh Umm-ul-Mo’mineen Aisha Radhiallahu Anha se naql karte hain ke unhon ne batlaaya ke Nabi-e-Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam par Wahi ka ibtidaayi daur achche sachche pakeezah khwaabon se shuru huwa. Aap Sallallahu Alaihi Wasallam khwaab mein jo kuch dekhte woh subah ki roshni ki tarah sahih aur sachcha saabit hota. Phir min jaanib-e-qudrat Aap Sallallahu Alaihi Wasallam tanhaayi pasand ho gaye aur Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne Ghaar-e-Hira mein khalwat nasheeni ikhtiyaar farmaayi aur kayi kayi din aur raat wahan musalsal ibadat aur yaad-e-ilaahi wa zikr-o-fikr mein mashghool rehte. Jab tak ghar aane ko dil na chaahta tosha saath liye huwe wahan rehte. Tosha khatm hone par hi ahliya mohtarma Khadeejah Radhiallahu Anha ke paas tashreef laate aur kuch tosha saath le kar phir wahan jaa kar khalwat guzeen ho jaate, yahi tareeqa jaari raha yahan tak ke Aap Sallallahu Alaihi Wasallam par haq munkashif ho gaya aur Aap Sallallahu Alaihi Wasallam Ghaar-e-Hira hi mein qiyaam pazeer the ke achaanak Jibrael Alaihissalam Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ke paas haazir huwe aur kehne lage ke aye Muhammed! Padho Aap Sallallahu Alaihi Wasallam farmaate hain ke main ne kaha ke main padhna nahi jaanta, Aap Sallallahu Alaihi Wasallam farmaate hain ke farishte ne mujhe pakad kar itne zor se bheencha ke meri taaqat jawab de gayi, phir mujhe chhod kar kaha ke padho, main ne phir wahi jawab diya ke main padha huwa nahi hun. Us farishte ne mujh ko nihayat hi zor se bheencha ke mujh ko sakht takleef mehsoos hue, phir us ne kaha ke padh! Main ne kaha ke main padha huwa nahi hun. Farishte ne teesri baar mujh ko pakda aur teesri martaba phir mujh ko bheencha phir mujhe chhod diya aur kehne laga ke padho apne Rabb ke naam ki madad se jis ne paida kiya aur insaan ko khoon ki phutki se banaaya, padho aur aap ka Rabb bahut hi meharbaaniyaan karne waala hai. Pas yahi aayatein Aap Sallallahu Alaihi Wasallam Jibrael Alaihissalam se sun kar is haal mein Ghaar-e-Hira se waapas huwe ke Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ka dil us anokhe waqi’ah se kaanp raha tha. Aap Sallallahu Alaihi Wasallam Khadeejah ke haan tashreef laaye aur farmaaya ke mujhe kambal udhaa do, mujhe kambal udhaa do. Logon ne Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ko kambal udhaa diya. Jab Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ka darr jaata raha. To Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne apni zauja-e-mohtarma Khadeejah Radhiallahu Anha ko tafseel ke saath yeh waqi’ah sunaaya aur farmaane lage ke mujh ko ab apni jaan ka khauf ho gaya hai. Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ki ahliya mohtarma Khadeejah Radhiallahu Anha ne Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ki dhaaras bandhaayi aur kaha ke aap ka khayaal sahih nahi hai. Allah ki qasam! Aap ko Allah kabhi ruswa nahi karega, Aap to akhlaaq-e-faazilah ke Malik hain, Aap to kumba parwar hain, be-kason ka boojh apne sar par rakh lete hain, muflison ke liye Aap kamaate hain, mehmaan nawaazi mein Aap be-misaal hain aur mushkil waqt mein Aap amr-e-haq ka saath dete hain. Aise awsaaf-e-hasanah waala insaan yun be-waqt zillat-o-khwaari ki maut nahi paa sakta. phir mazeed tasalli ke liye Khadeejah Radhiallahu Anha Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ko Waraqah bin Naufal ke paas le gayien, jo un ke chachazaad bhai the aur zamaana-e-jaahiliyyat mein Nasraani mazhab ikhtiyaar kar chuke the aur Ibraani zabaan ke katib the, chunanche Injeel ko bhi hasb-e-manshaa-e-khudawandi Ibraani zabaan mein likha karte the. (Injeel Suryaani zabaan mein naazil hue thi phir us ka tarjumah Ibraani zabaan mein huwa. Waraqah usi ko likhte the) woh bahut boodhe ho gaye the yahan tak ke un ki beenaayi bhi rukhsat ho chuki thi. Khadeejah Radhiallahu Anha ne un ke saamne Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ke halaat bayan kiye aur kaha ke aye chachazaad bhai! Apne bhateeje (Muhammed Sallallahu Alaihi Wasallam) ki zabaani zara in ki kaifiyat sun lijiye woh bole ke bhateeje Aap ne jo kuch dekha hai, us ki tafseel sunaao. Chunanche Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne shuru se aakhir tak poora waqi’ah sunaaya, jise sun kar Waraqah be-ikhtiyar ho kar bol uthe ke yeh to wahi namoos (mu’azzaz raaz daan farishta) hai jise Allah ne Musa Alaihissalam par Wahi de kar bheja tha. Kaash, main aap ke is ahd-e-nubuwwat ke shuru hone par jawaan umr hota. Kaash main us waqt tak zindah rehta jab ke Aap ki qaum Aap ko is shahar se nikaal degi. Rasoolullah Sallallahu Alaihi Wasallam ne yeh sun kar ta’jjub se poocha ke kya woh log mujh ko nikaal denge? (halaanki main to un mein sadiq o ameen aur Maqbool hun) Waraqah bola haan yeh sab kuch sach hai. magar jo shakhs bhi Aap ki tarah amr-e-haq le kar aaya log us ke dushman hi ho gaye hain. Agar mujhe Aap ki nubuwwat ka woh zamaana mil jaaye to main Aap ki poori poori madad karunga. Magar Waraqah kuch dinon ke baad inteqaal kar gaye. phir kuch arsa tak Wahi ki aamad band rahi.

Narrated 'Aisha: (the mother of the faithful believers) The commencement of the Divine Inspiration to Allah's Apostle was in the form of good dreams which came true like bright daylight, and then the love of seclusion was bestowed upon him. He used to go in seclusion in the cave of Hira where he used to worship (Allah alone) continuously for many days before his desire to see his family. He used to take with him the journey food for the stay and then come back to (his wife) Khadija to take his food likewise again till suddenly the Truth descended upon him while he was in the cave of Hira. The angel came to him and asked him to read. The Prophet replied, "I do not know how to read." The Prophet added, "The angel caught me (forcefully) and pressed me so hard that I could not bear it any more. He then released me and again asked me to read and I replied, 'I do not know how to read.' Thereupon he caught me again and pressed me a second time till I could not bear it any more. He then released me and again asked me to read but again I replied, 'I do not know how to read (or what shall I read)?' Thereupon he caught me for the third time and pressed me, and then released me and said, 'Read in the name of your Lord, who has created (all that exists), created man from a clot. Read! And your Lord is the Most Generous." (96.1, 96.2, 96.3) Then Allah's Apostle returned with the Inspiration and with his heart beating severely. Then he went to Khadija bint Khuwailid and said, "Cover me! Cover me!" They covered him till his fear was over and after that he told her everything that had happened and said, "I fear that something may happen to me." Khadija replied, "Never! By Allah, Allah will never disgrace you. You keep good relations with your kith and kin, help the poor and the destitute, serve your guests generously and assist the deserving calamity-afflicted ones." Khadija then accompanied him to her cousin Waraqa bin Naufal bin Asad bin 'Abdul 'Uzza, who, during the pre-Islamic Period became a Christian and used to write the writing with Hebrew letters. He would write from the Gospel in Hebrew as much as Allah wished him to write. He was an old man and had lost his eyesight. Khadija said to Waraqa, "Listen to the story of your nephew, O my cousin!" Waraqa asked, "O my nephew! What have you seen?" Allah's Apostle described whatever he had seen. Waraqa said, "This is the same one who keeps the secrets (angel Gabriel) whom Allah had sent to Moses. I wish I were young and could live up to the time when your people would turn you out." Allah's Apostle asked, "Will they drive me out?" Waraqa replied in the affirmative and said, "Anyone (man) who came with something similar to what you have brought was treated with hostility; and if I should remain alive till the day when you will be turned out then I would support you strongly." But after a few days Waraqa died and the Divine Inspiration was also paused for a while.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 1, Number 3



تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3  
´ وحی کی ابتداء `
«. . . عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنَّهَا، قَالَتْ: "أَوَّلُ مَا بُدِئَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْوَحْيِ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ فِي النَّوْمِ، فَكَانَ لَا يَرَى رُؤْيَا إِلَّا جَاءَتْ مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ . . .»
. . . وہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا ابتدائی دور اچھے سچے پاکیزہ خوابوں سے شروع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں جو کچھ دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچا ثابت ہوتا . . . [صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ/(بَابٌ:): 3]

لغوی توضیح:
«مِثْلَ فَلَقِ الصُّبْحِ» صبح کی روشنی کی مانند۔
«غَارِ حِرَاءٍ» حراء پہاڑ مکہ سے تین میل کے فاصلے پر ہے۔ اس میں ایک سوراخ ہے جسے غار حراء کہا جاتا ہے۔
«يَتَزَوَّدُ» زاد راہ یعنی توشہ لینا۔
«جَاءَهُ الْحَقُّ» حتی کہ آپ کے پاس حق یعنی وحی آ گئی۔
«غَطَّنِیْ» مجھے اپنے ساتھ ملا کر خوب زور سے دبایا۔
«الْعَلَقَ» جامد خون۔
«یَرجُفُ» کانپ رہا تھا۔
«زَمُّلُوْنِیْ» مجھے چادر اوڑھا دو۔
«الرَّوْعُ» گھبراہٹ۔
«تَحْمِلُ الْکَلَّ» بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔
«تَکْسِبُ الْمَعْدُمَ» مفلس، محتاج اور کام سے عاجز لاگوں کو کما کر دیتے ہیں۔
«تَقْرِِئ الضَّیْفَ» مہمان نوازی کرتے ہیں۔
«تَنَصَّرَ» عیسائی مذہب قبول کر لیا۔
«النَّامُوْسُ» خیر کا رازداں مراد جبرئیل علیہ السلام ہیں۔
«مُؤَزَّراً» قوی، شدید، زیادہ۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 99   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3  
3. ام المومنین حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ پر وحی کی ابتدا سچے خوابوں کی صورت میں ہوئی۔ آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ سپیدہ صبح کی طرح نمودار ہو جاتا۔ پھر آپ کو تنہائی محبوب ہو گئی، چنانچہ آپ غار حرا میں خلوت اختیار فرماتے اور کئی کئی رات گھر تشریف لائے بغیر مصروف عبادت رہتے۔ آپ کھانے پینے کا سامان گھر سے لے جا کر وہاں چند روز گزارتے، پھر حضرت خدیجہ ؓ کے پاس واپس آتے اور تقریباً اتنے ہی دنوں کے لیے پھر توشہ لے جاتے۔ یہاں تک کہ ایک روز جبکہ آپ غار حرا میں تھے، (یکایک) آپ کے پاس حق آ گیا اور ایک فرشتے نے آ کر آپ سے کہا: پڑھو! آپ نے فرمایا:میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپ کا فرمان ہے: اس پر فرشتے نے مجھے پکڑ کر خوب بھینچا، یہاں تک کہ میری قوت برداشت جواب دینے لگی، پھر اس نے مجھے چھوڑ دیا اور کہا: پڑھو! میں نے کہا: میں تو پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے دوبارہ مجھے پکڑ کر دبوچا،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3]
حدیث حاشیہ:

اچھے اور سچے خواب نبوت کا حصہ ہیں۔
وحی الٰہی سے مشرف اور مانوس کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ عرصے تک سچے خواب دکھائے گئے، چنانچہ آپ جو خواب بھی دیکھتے عالم شہادت، یعنی دنیا میں اس کا ظہور بلا کم وکاست ہوجاتا تھا۔
اس طرح آپ کا رابطہ عالمِ مثال سے کرا دیا گیا جو عالم غیب، یعنی منبع وحی سے تعلق کا پیش خیمہ ثابت ہوا، گویا سچے خوابوں کے ذریعے حقائق نبوت سے آپ کو آگہی کرادی گئی۔

خواب میں ہم مادی امور سے ایک حد تک قطع تعلق ہوجاتے ہیں، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے خوابوں کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بیداری میں بھی خلوت گزینی محبوب بنادی، چنانچہ غارحرا کاانتخاب اسی روحانی تربیت کانتیجہ تھا۔

عرصہ وحی 23 برس پر محیط ہے۔
ان میں چھ ماہ سچے خوابوں پر مشتمل ہیں، غالباً اسی لیے حدیث میں سچے خوابوں کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ قراردیا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 6989)
لیکن حصہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ کوئی آدمی محض رؤیائے صادقہ کے بل بوتے پر نبی بن جائے، جیسے اذان کے کسی کلمے کو بآواز بلند کہنے والے کو مؤذن نہیں کہا جا سکتا اسی طرح ضروری نہیں کہ ہر سچے خواب دیکھنے والا نبی ہو۔
اس کے علاوہ بعض روایات میں وضاحت ہے کہ نبوت ورسالت ختم ہوچکی ہے۔
میرے بعد کوئی نبی یارسول نہیں آئے گا، البتہ مبشرات، یعنی رؤیائے صادقہ باقی ہیں۔
(جامع الترمذي، الرؤیا، حدیث: 2272، ومسند الإمام احمد: 267/3 والخبر صحیح.)
اس سے معلوم ہوا کہ نبوت اور چیز ہے اور مبشرات چیزے دیگر است۔

اس روایت میں کچھ اختصار ہے۔
صحیح بخاری کی ایک دوسری روایت میں [تَصدُقُ الحَديثَ] کے الفاظ بھی ہیں، یعنی آپ گفتار میں سچے ہیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے آپ کے متعلق اپنے پاکیزہ خیالات کا اظہار کرکے آپ کے اخلاق فاضلہ کی بہترین تصویر کشی فرمائی ہے۔
یقیناً یہ چھ خصلتیں مکارم اخلاق کی بنیاد ہیں اور ان کا حامل انسان معاشرے میں باعزت اور اس کامستقبل انتہائی تابناک ہوتا ہے۔

ناموس وحی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین دفعہ بھینچا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بھینچنے سے عموماً جذبات برانگیختہ ہوتے اورخفیہ قوتیں جاگ اٹھتی ہیں، غالباً اسی بنا پر آپ کو بھینچا گیا کہ آپ کے قوائے نبوت بیدار ہوجائیں اورآپ پوری یکسوئی سے وحی الٰہی کی سماعت فرمائیں۔
یا اس وجہ سے کہ سینے سے لگا کر بھینچنے سے باہم موانست پیدا ہوتی ہے اوروحشت وبیگانگی کافور ہوجاتی ہے۔

وحی کے موقوف ہونے کے زمانے میں صرف نزول قرآن موقوف ہواتھا، تاہم جبرئیل علیہ السلام کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے رابطہ منقطع نہیں ہواتھا، چنانچہ جب آپ توقف وحی سے پریشان ہوئے تو جبرئیل علیہ السلام نے بار بار تسلی دی اور آپ کو نبی برحق ہونے کا مژدہ جانفزا سنایا۔
(صحیح البخاري، التعبیر، حدیث: 6982)

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ انسان جب کسی اہم حادثے سے دو چار ہوتو کسی قابل اعتماد ساتھی، خواہ وہ خاتون خانہ ہی ہو، سے اس کا ذکر کرے، اور مخلص ساتھی کو بھی چاہیے کہ وہ حوصلہ افزائی اور تسلی کا انداز اپنائے تاکہ حادثے سے دوچار شخص کے دل سے خوف اور گھبراہٹ کے اثرات دور ہوجائیں۔
علاوہ ازیں ایسے موقع پر کسی تجربہ کار اور سمجھ دابزرگ سے رابطہ کرنا مفید ہے تاکہ وہ صحیح مشورہ دے سکے۔
(فتح الباري: 1؍25)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.